پوسٹ تلاش کریں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں اخبار: نوشتہ دیوار

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

مفتی طارق مسعود کا بیان آیا کہ ”جج کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری بیوی کو طلاق دے یہ گدھاپن ہے” فقہ جعفریہ میں شروع ہی سے یہ ہے کہ عدالت کا عورت کوخلع دینا قبول نہیں ہے ۔علامہ شبیہ رضازیدی

اللہ نے قرآن میں خواتین کے حقوق بیان کردئیے ہیں۔ آیت19النساء میں خواتین کو خلع کا حق دیا۔ خلع میں شوہر کی دی ہوئی ان چیزوں کا عورت کو حقدار قرار دیا جن کو عورت اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے مگر غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ ، دکان ، پلاٹ ،زمین وغیرہ سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ البتہ طلاق میں منقولہ اور غیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک بھی عورت ہی رہے گی،اگرچہ عورت کو بہت سارے خزانے دئیے ہوں تو بھی۔جس کی زبردست وضاحت سورہ النساء آیت20اور21میں بھرپور طریقے سے اللہ تعالیٰ نے کردی ہے۔
جس دن قرآن کے مطابق عورت کو خلع کا حق مل جائے اور اس کے ساتھ اس کے مالی حقوق بھی مل جائیں تو پاکستان، ایران اور افغانستان میں جبری حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے گا مگر جب تک قرآن کے ظاہروباطن پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ہے تو قائداعظم محمد علی جناح، امام خمینی اور ملامحمد عمربھی زندہ ہوجائیں تو جبری نظام حکومت سے عوام کو چھٹکارہ کبھی نہیں مل سکتا ہے۔ لندن کے اندرجمائما کے مال میں عمران خان کا حصہ تھا لیکن پاکستان میں عمران خان کے گھر اور جائیداد میں جمائما اور ریحام خان کا حصہ نہیں تھا؟۔یہ غیرفطری بات ہے۔
قرآن نے عورت کے مال میں شوہر کا حصہ نہیں رکھا ہے لیکن شوہر پر حق مہر کو فرض کیا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعدطلاق دے تو پورا حق مہر، گھراور تمام دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء بھی۔ اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اوردی ہوئی منقولہ اشیاء بھی۔
عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر لڑکیوں کو فروخت کردیتے ہیں اور درباری علماء ومفتیان نے نابالغ بچیوں کے نکاح کی بھی بہت خطرناک اجازت دی ہے جو انسان کی بچی کیا گدھی کیساتھ بھی یہ جائز نہیں لیکن اسلام کا ستیاناس کردیا گیا۔
ہندوستان اور پنجاب میں جہیز کے نام پر عورت کا مال بھی ہتھیا لیا جاتا ہے۔برصغیرپاک وہند ، افغانستان، ایران ، عجم و عرب میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو قرآن نے عطاء کردئیے ہیںاسلئے عورت گھرمیں ہویا بازارمیںوہ ایک ایسی جنس ہے جس کی کہیں کوئی اوقات نہیں ۔مغربی نظام بھی عورت کو اس کے وہ حقوق نہیں دے سکا ہے جو اسلام نے ساڑھے14سو سال پہلے عورت کو دئیے تھے۔ عورت کو سب سے زیادہ مذہبی طبقات نے حقوق سے محروم کیا ہے اسلئے کہ مذہبی طبقے کی طرف سے قرآن میں دئیے ہوئے حقوق کو بوٹی بوٹی کردیا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال عورت سے خلع کا حق چھین لینا ہے۔ بیوی کا زبردستی سے مالک بن جانا ہے۔عورت کو لونڈی بنانا ہے۔ عورت کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی تشدد کا قانونی حق مرد کو دینا ہے۔ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دئیے تھے لیکن پدر شاہی نظام نے نہ صرف عورت کے حقوق غصب کر ڈالے ہیں بلکہ نکاح اور اسلام کے نام پر جاہلیت سے بدتر عورت کے حقوق چھین لئے ہیں۔ پدر شاہی اور درباری علماء کا اس میں برابر کا کردار ہے۔ اسلام اجنبیت کا شکار ہونے سے معاملات جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں۔
جب جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے تھے تو پاکستان میں عورت کو عائلی قوانین میں خلع کا حق دیا گیا ہے۔ مفتی محمود پر الزام تھا کہ اس نے اس وقت جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر عورت کو حق خلع دینے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ میرے والد علماء کے قدر دان تھے۔ مفتی محمود کو بھی ووٹ دیتے تھے۔ میرے ماموں خان قیوم خان مسلم لیگ شیر کیساتھ تھے۔ ہماری سیاست پسند اور ناپسند کی حد تک تھی۔ کوئی بھی سیاسی کارکن اور رہنما کی طرح سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔سن 1970کے الیکشن میں مفتی محمود پر مفتی تقی عثمانی اس کے باپ، بھائیوں اور اساتذہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان نے بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا اور بڑی یلغار کی زد میں تھے۔ جب جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک کے مولانا نور محمد المعروف سرکائی ملا نے میرے ماموں سے کہا تھا کہ مفتی محمود نے الیکشن کیلئے بس مانگا ہے تو میرے ماموں نے کہا تھا کہ ”آپ کو دیتا ہوں لیکن مفتی محمود کو بس نہیں دینا تھا اسلئے کہ اس نے ووٹ اسلام کے خلاف ایک لاکھ میں بیچ دیا تھا”۔ آج محسن جگنو سے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ”میرے پاس وہی اثاثے ہیں جو میرے باپ نے چھوڑے ہیں۔ گزارا غیبی امداد سے ہورہاہے”۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن امیر زادے نہیں لگتے تھے مگر اب حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ مفتی محمود بہت اچھے انسان تھے اور مولانا فضل الرحمن بھی بہت اچھے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس کی مخالفت اسلئے کرتے ہیں کہ2018کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں عمران خان عسکری قیادت کے ہاتھ میں کھلاڑی سے وہ کھلونے اورکھلواڑ بن گئے تھے۔اب جب دونوں کو گلہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور گالی گلوچ اور فتوؤں کی زدوں سے نکلنے کی ضرورت ہے تو ایک پیج پر آنے میں مسئلہ نہیں ہے۔
عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے لیکن مولوی شیعہ ہو یا سنی ، حنفی ہو یا اہلحدیث اس حق کو غیر اسلامی سمجھتا ہے لیکن تمام مذہبی طبقات کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جاویداحمد غامدی ،مولانا وحیدالزمان اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک اس گمراہی کی زد میں آگئے ہیں۔ غلام احمد پرویز و دیگر جدت پسند مذہبی طبقات بھی اس گمراہی کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ علامہ تمنا عمادی بہت بڑے حنفی عالم تھے جو پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے ریڈیو پر قرآن کا درس دیتے تھے۔ ان کی کتاب ”الطلاق مرتان” نہ صرف بہت مشہور ہے بلکہ سب کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی بہت اثر انداز ہوئی ہے۔ ادریس اعوان نے اپنے نشر واشاعت کے معروف ادارے ”میزان” سے یہ ابھی شائع بھی کردی ہے۔ اس کتاب میں حنفی مسلک کے عین مطابق قواعد عربی اور اصول فقہ کی کتابوں سے یہ اخذ کیا ہے کہ ” حلالہ کی طلاق کا تعلق خلع سے ہے۔کیونکہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی عورت کرتی ہے اور پھر پشیمانی میں سزا بھی اس کو بھگت لینے میں حرج نہیں ہے”۔ ہمارے استاذمولانا سراج الدین شیرانی نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا میں غالباً اس کتاب کی تعریف کی تھی یا کسی اور عالم نے تعریف کی تھی؟۔ یہ مجھے یاد نہیں رہاہے ۔ لیکن اس کتاب کو بہت بعد میں دیکھ سکاتھا اور جب دیکھا تھا تو اس سے پہلے قرآن وسنت سے استفادہ کیا تھا اسلئے اس کا اثر بھی ویسے قبول نہیں کیا ہے جیسے معلومات کے بغیر اس سے متاثر ہوسکتا تھا۔ حنفی اصول فقہ میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک قرآن کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کا انکار۔ دوسری قرآن کے معانی کو لغت اور عقل کیساتھ جوڑنا۔ یہی ہدایت کی صراط مستقیم ہے لیکن علماء ومفتیان اس پر عمل سے محروم ہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ایک سینئر استاذ ہی نہیں تھے بلکہ ولی کامل کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ علم النحو، اصول فقہ اور قرآن کے متن وتفسیر کو سمجھنے کا رحجان انہی کے فیوضات اور برکات ہیں۔ ایک استاذ کا اپنے شاگرد کو بھی نصاب کے مقابلے میں حوصلہ افزائی کے قابل سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ مولانا بدیع الزمان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی عبدالمنان ناصر، قاری مفتاح اللہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام اور جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی کے اساتذہ کرام مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید مولانا شبیراحمد، جامعہ یوسفیہ شاہو وام ہنگو کے مولانا محمد امین شہید،توحیدآباد صادق آباد کے مولانا نصر اللہ خان ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی کے مفتی کفایت اللہ ومولانا خطیب عبدالرحمان ایک ایک استاذ کی حوصلہ افزائی میرے لئے باعث افتخار ہے۔
علماء دیوبند میں دو طبقے ہیں۔ ایک سپوت اور ایک کپوت۔ اس طرح بریلوی مکتب، اہلحدیث اور اہل تشیع میں بھی دونوں طبقات سپوت اور کپوت موجود ہیں۔ نصاب میں غلطیوں کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن کے استاذ مولانا سمیع الحق شہید کا بیان بھی ہمارے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں شہہ سرخی کیساتھ چھپ چکا ہے۔ علماء دیوبند کے سپوتوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدرنے پیشکش کی تھی کہ ”ہمارے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کو اپنا مرکز بناؤ” اورامیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا خان محمد نے فرمایا تھا کہ ” اگر مولانا فضل الرحمن کو اپنے مشن میں شامل کرلو تو بہت جلد کامیابی مل سکتی ہے”۔ میں نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ”وہ معروف ہیں اور میں مجہول ۔ اسلئے وہ میری تائید کریں تو ہمارا مشن ان کی طرف منسوب ہوگا اور اس کا میرے مشن کو نقصان پہنچے گا” ۔جو ان کو بہت اچھا لگا اور میری عزیمت کو انہوں نے بہت داد بھی دی اور دعا بھی دی تھی۔ مولانا سرفراز صفدر نے فرمایا تھا کہ ”تیری پیشانی سے لگتا ہے کہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگے”۔ پروفیسر شاہ فریدالحق جنرل سیکرٹری جمعیت علماء پاکستان اورپروفیسر غفور احمد جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اور مولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہل حدیث پاکستان اور علامہ طالب جوہری اہل تشیع کے علاوہ سبھی فرقوں اور جماعتوں نے ہماری تائیدات کردی تھیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیر شریف، مولانا محمدمراد سکھر ، مولانا عبداللہ درخواستی اور پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی تائیدات ہمیںملی ہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو بھی ہماری کوشش تھی اور اس سے پہلے نوازشریف کی حکومت تھی تو بھی ہماری کوشش تھی اور مسلم لیگ ن کے مشاہداللہ خان کا حلالہ کی لعنت پرزبردست بیان بھی ہمیں ملا تھا جو ہم نے چھاپ بھی دیا تھا۔
جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں حضرت مفتی حسام اللہ شریفی شیخ الہند کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے باپ مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود و غیرہ بھی مولانا غلام رسول خان ہزاروی کے شاگرد تھے۔ مولانا مودودی کے استاذ مولانا شریف اللہ بھی مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے اور دونوں اکٹھے مولانا شریف اللہ سے ملنے بھی ایک دفعہ گئے تھے۔ میں نے اپنی کتاب ” تین طلاق کی درست تعبیر” میں بھی عورت کے حق خلع کو واضح کیا ہے جس کی تائید مفتی حسام اللہ شریفی اور شیعہ مفسر قرآن مولانا محمد حسن رضوی نے بھی کی ہے۔
جب8عورت مارچ کو اسلام باد، کراچی، لاہور وغیرہ میں طاہر ہ عبداللہ، فرزانہ باری، ہدی بھرگڑی اور دیگر منتظمین نکلیں تو ”بشری بی بی ” کے کیس کو قرآن وسنت کی روشنی میں اٹھائیں۔ جس سے نہ صرف بشری بی بی بلکہ عدالتوں میں خلع کے نام پر رلنے کے بعد بھی مولوی کی طرف سے طلاق کا فتویٰ نہ ملنے کی وجہ سے خواتین کو زبردست چھٹکارا مل جائے گا۔ عورت کا مسئلہ ایک دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کے مسائل ہیں۔ قرآن و سنت کو مذہبی طبقات نے روند ڈالا ہے اسلئے ان کو قیامت تک پذیرائی نہیں مل سکتی ہے۔اب مذہبی طبقہ بھی عورت کیساتھ کھڑا ہوگا۔
اسلام نے مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے ۔ جب مولوی عورت کے اس حق کو نہیں مانتا ہے تو اس کی گمراہی انسانی فطرت سے نکل کر جانور سے بھی بدتر حالت پر پہنچ جاتی ہے۔
مثلاً ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق!۔ پھر اس کی بیوی کو فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اب شوہر کیلئے تم حرام ہو۔ لیکن اگر شوہر انکار کرتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی توپھر عورت خلع لے ، خواہ اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت کو چاہیے کہ شوہر جب اس سے اپنی خواہش پوری کرے تو لذت نہیں اٹھائے بلکہ حرام سمجھ کر اس کے سامنے لیٹی رہے۔
یہ مسائل فقہ کی کتابوں میں رائج ہیں اور اس پر فتوے بھی دئیے جاتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ”حیلہ ناجزہ” میں بھی اس کو لکھ دیا ہے۔ بریلوی بھی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔
جب عورت کو خلع کا حق حاصل نہ ہو تو پھر اس کے نتائج بھی بڑے سنگین نکلتے ہیں۔ میری کتاب ” عورت کے حقوق” کے مسودے کی مفتی زرولی خان نے تائید کی تھی تو میں ملاقات بھی کرلی تھی اور ان سے ملاقات کے بعد کتاب میں تھوڑا اضافہ بھی کیا تھا۔ جس میں اسلام کی اجنبیت کو مزید واضح کیا تھا اور کتاب کی اشاعت کے بعد کتاب بھی ان کو بھیج دی تھی لیکن ان سے دوبارہ طے ہونے کے باوجود ملاقات نہیں ہوسکی اسلئے کہ وہ اچانک دار فانی سے کوچ کرگئے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں اوران کی تائیدبھی اخبارمیں شائع کی تھی۔ جب مفتی تقی عثمانی نے ان پر دباؤڈال دیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ طلاق سے رجوع کیلئے اپنے پاس آنے والے افراد کواہلحدیث کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ خلع و طلاق کے مسائل بہت بنیادی نوعیت کے ہیں۔
علامہ شبیراحمد عثمانی کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن دیوبند کے رئیس دارالافتاء تھے اور ان کے فرزند مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ”ندوہ دارالمصفین ” کی بنیاد1938میں رکھی تھی۔ پھر انہوں نے1964میں جمعیت علماء ہند سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جس میں سبھی مسلمان فرقوں کے اہم نمائندے شامل تھے۔ ”تین طلاق ” کے مسئلے پر1973میں احمد آباد میں سیمینار منقعد کیا تھا جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی۔ اس سیمینار میں دیوبندی ،جماعت اسلامی اور بریلوی علماء کے نمائندوں نے اپنے مقالے پیش کئے تھے۔ جو پاکستان سے بھی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کی بھی کتاب ” دعوت فکر” ساتھ شائع کی گئی ہے۔
شیخ الہند کے اصل جانشین ہندوستان میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی تھے اور پاکستان میں مفتی حسام اللہ شریفی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے بینکوں کے سود کو اسلامی قرار دیا جس کی مفتی محمود نے مخالفت کی تھی۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود ی بینکاری کو جواز بخش دیا جس کی مخالفت مفتی زرولی خان ، شیخ الحدیث مفتی حبیب اللہ شیخ ، مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور تحفظ ختم نبوت نمائش چورنگی کراچی کے دارالافتاء کے علاوہ پاکستان بھر سے سارے دیوبندی مدارس نے کی تھی۔ جو علماء اپنے علماء حق اکابر ین کے مشن سے روگردانی کرچکے ہیں وہ سپوت نہیں بلکہ کپوت بن چکے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی کے کاندھوں سے دیوبند کی گدھا گاڑی جوت دی جائے تو اس کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرف منسوب کرنا علماء دیوبند کی بہت بڑی توہین ہے۔ پہلے یہ توبہ کریں پھر علماء حق ہوسکتے ہیں لیکن جب تک گدھا کنویں سے نہیں نکالا جائے تو کنواں پاک نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے سے ان کو تائب ہونا پڑے گا ۔ پھر عوام میں ان کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اور انہوں اب وفاق المدارس کو بھی اپنے پیچھے لگادیا ہے۔
جب مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کاسپوت تھاتو سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پرآ ب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔مجھ سے کہا تھا کہ ” کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے جو فتوے دئیے ہیں ان کو شائع کردیں۔ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگریہ جانور کو ذبح کردیا توان کی ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے”۔چونکہ دارالعلوم کراچی کے علماء ومفتیان نے اس پر دستخط اسلئے نہیں کئے کہ اس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبارالاخیار” کا حوالہ بھی تھا جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا، جس میں لکھا ہے کہ ”جب شیخ عبدالقادر جیلانی تقریر کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام اور اولیاء عظام موجود ہوتے تھے اور نبی ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے”۔ پھر اس کتاب کے مترجم سے اپنی جان چھڑانے کیلئے مولانا سبحان محمود نے اپنا نام بدل کرسحبان محمود کردیا تھا۔ مفتی رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں حدیث نقل کی ہے کہ دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہوں گے۔ انہوں نے سیاسی لیڈر مراد لیا ہے لیکن اس سے مذہبی لیڈر مراد ہیں۔ جو ایک دوسرے کفر کے فتوے بھی مفادپرستی کی بنیاد پر لگاتے ہیں اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے بھی بدترین مرتکب ہوتے ہیں۔
عورت کے حقوق کیلئے پنجاب حکومت مریم نواز کی قیادت یہ بنیادی نکات اٹھائے تو پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے۔
نمبر1:عورت کو نہ صرف خلع کا حق حاصل ہے بلکہ عدالت میں جانے کی ضرورت بھی نہیںہے۔ شوہر اسکا خود ساختہ مالک نہیں ہے۔عورت جب چاہے شوہر کو چھوڑنے کا حق رکھتی ہے اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اور شوہر کی طرف سے دی گئی تمام وہ چیزیں بھی واپس نہیں کرے گی جو لے جائی جاتی ہیں ۔ البتہ غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ، دکان اور فیکٹری وغیرہ واپس کرنا ہوں گی اسلئے کہ خلع میں شوہر کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے۔
سورہ النساء کی آیت19میں خلع کا حکم واضح ہے اور سورہ النساء کی آیت20،21میں طلاق کے احکام ہیں۔ طلاق کی صورت میں دی ہوئی تمام چیزوں منقولہ وغیرمنقولہ گھر، باغ، جائیداد اور دئیے ہوئے خزانوں کی مالک بھی عورت ہوگی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229میں خلع نہیں طلاق کا ذکر ہے اور اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں عدت کے اندر تین مرتبہ الگ الگ طلاق ہوچکی ہو۔ دونوں کو خوف ہو اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی خوف ہو کہ اگر دی ہوئی کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جب یہ طے ہوگیا تو یہ وہی صورت ہے جس میں میاں بیوی دونوں صلح نہیں چاہتے تو ایسی صورت میں شوہر کیلئے وہ حلال نہیں رہتی جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ اس کا مقصد صرف عورت کو اپنے سابقہ شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے اور بس۔
نمبر2: خلع کی صورت میں عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے اور اس میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہے۔طلاق کی صورت میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو عدت میں رجوع کا اختیار نہیں ہے۔ بشریٰ بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تھا اسلئے ایک مہینے میں عدت پوری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس کو رجوع کا حق نہیں تھا اسلئے عدالت کا خاور مانیکا کے کہنے پر اس کے حق کو مجروح کرنے کی بات پر سزا دینا غلط ہے۔ طلاق میں بھی شوہر کو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں ہوتا ہے اور اس غلط مسئلے کی وجہ سے قرآنی آیات کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی سنگین غلطیوں کے علاوہ فقہ میں ناقابل حل مسائل بنائے گئے ہیں۔ بہشتی زیور سے لیکر درس نظامی میں پڑھائی جانیوالی کتابوں مسائل کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس گھمبیر مسئلے نے مذہبی طبقات کی فطرت کیسے بگاڑ دی ہے؟ ۔نبی ۖ نے فرمایا کہ ” انسان اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہود ونصاریٰ بنادیتے ہیں”۔ آج یہ حدیث مسلمانوں پر فٹ ہوتی ہے کہ جو لوگ مذہبی طبقات سے دور ہوتے ہیں تو ان کی فطرت سلامت ہوتی ہے اور جن کو اس مذہبی طبقے نے اپنے ماحول میں جھونک دیا ہوتا ہے جس نے یہود ونصاریٰ کی طرح اپنی انسانی فطرت کو بگاڑ دیا ہوتا ہے تو وہ حق کو قبول کرنے سے بگڑی فطرت کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔
آئندہ شمارہ انشاء اللہ8عورت مارچ پرہوگا اسلئے کہ نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ٹھوس حقائق کی ضرورت ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز