پوسٹ تلاش کریں

سورة الحجرکی ان آیات میں قوم لوط اور دیگر اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب کا وقت آگیا اصحاب حِجرعقل والوں کو کہتے ہیں۔

سورة الحجرکی ان آیات میں قوم لوط اور دیگر اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب کا وقت آگیا اصحاب حِجرعقل والوں کو کہتے ہیں۔ اخبار: نوشتہ دیوار

سورة الحجرکی ان آیات میں قوم لوط اور دیگر اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب کا وقت آگیا اصحاب حِجرعقل والوں کو کہتے ہیں۔

قال ھٰؤلآء بناتی ان کنتم فاعلینOلعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھونOفاخذتھم الصیحة مشرقینO فجعلنا عالیھا سافلھا وامطرنا علیھم حجارة من سجیلٍOان فی ذٰلک لاٰیات للمتوسلینOوانھا لبسبیل مقیمOان فی ذٰلک لاٰےةً للمؤمنینOوان اصحاب الایکة لظالمینOفانتقمنا منھم وانھا لبامام مبینOولقد کذب اصحاب الحجر المرسلینOواٰتینا ھم اٰیاتنا فکانوا عنھا معرضیںOوکانوا ینحتون من الجبال بیوتًا اٰمنینOفما اغنٰی عنھم ما کانوا یکسبونOو ما خلقنا السمٰوٰت والارض و ما بینھما الا بالحق وان الساعة لاٰتیة فاصفح الصفح الجمیلOان ربک ھو الخلاق العلیمOولقد اٰتیناک سبعًا من المثانی و القرآن العظیمOولاتمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجًا منھم و لاتحزن علیھم واحفض جناحک للمؤمنینOوقل انا النذیر المبینOکما انزلنا علی المقتسمینOالذین جلعواالقرآن عضینOفو ربک لنسئلھم اجمعینOعما کانو یعملونOسورة الحجرکی ان آیات(87تا97)
”(حضرت لوط نے شرپسندوں سے ) کہا کہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کرنے والے ہو۔ (اے محبوب خداۖ) تیری زندگی کی قسم ! کہ بیشک یہ لوگ نشے میں بالکل اندھے ہوچکے تھے۔ پھر صبح کے وقت ان کو عذاب کی چیخ نے پکڑلیا۔ ان کے اُوپر والوں کو نیچے تلپٹ کردیااور ان پررجسٹرڈ سے پتھروں کی بارش کردی۔ ( جس طرح اللہ نے فرمایا کہ کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ کتاب میں لکھا ہوا موجود ہوتا ہے)اس میں وسیلہ پکڑنے والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں( اللہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرواور اس کی راہ میں جدوجہد کرو، ہوسکتا ہے کہ تم فلاح پاؤ۔ المائدہ آیت35)اور بیشک یہ راستے پر قائم ہے۔ بیشک اس میں مؤمنوں کیلئے ضرور نشانی ہے۔ اور بے شک زر خیز باغات والے بھی ظالم تھے۔ پس ان سے ہم نے انتقام لیا اور وہ مین سڑک پر تھے۔اور اہل عقل ودانش نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔اور ہم نے انہیں آیات دی تھیں لیکن انہوں نے اس سے اعراض کیا۔ اور وہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے، امن میں رہتے ہوئے۔ (تورابورا بنکروں کی طرح)لیکن جو انہوں نے حاصل کیا تھا وہ ان کے کام نہیں آیا۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں نہیں بنائی مگر حق کیساتھ۔ اور بیشک وقت (انقلاب آنے والا ہے۔ مکہ فتح ہوگا اور سپرطاقتوں کو شکست ہوگی) آنے والا ہے۔پس در گزر کرو ،بہت اچھے انداز کا درگزر۔ ( فتح مکہ کے دن کسی کی ملامت اور بے عزتی نہیں فرمائی) بیشک تیرا رب زیادہ علم رکھنے والا پیدا کرنے والا ہے ( اس نے مؤمنوں ، صدیقوں اور کافروں و جھٹلانے والوں کی شکلیں حکمت سے بنائی ہیں) اور ہم نے آپ کو7(آیات سورہ فاتحہ ) دہرائی جانے والی اور قرآن عظیم عطاء کردیا ہے۔ اور آپ اپنی آنکھیں مت پھیلائیں جو ہم نے ان کو دنیاوی نعمتیں دی ہیں بیگمات ان میں سے۔( یہ سورة مکی ہے۔ نبی ۖ کے پاس ایک زوجہ حضرت خدیجہ ہی تھیں) اور ان پر غم مت کھاؤ ( کافروں کیلئے زیادہ غم کھانے کی ضرورت نہیں کہ حق کو کیوں قبول نہیں کرتے) اور مؤمنوں کیلئے اپنے پر بچھا دیجئے۔اور لوگوں سے کہہ دیں کہ میں کھلا ڈرانے والا ہوں۔ جیساکہ ہم نے بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو۔ جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کردئیے۔ ( یہ قرآن میں آئندہ والوں کو خبر دی گئی ہے ۔ مثلاً طلاق وخلع کی آیات کا کباڑہ کردیا۔ سورۂ تحریم کے ہوتے ہوئے بیوی کو حرام کہنے پر متضاد مسالک بنالئے۔نبی ۖ نے صحابہ سے فرمایا کہ قرآن میں پہلوں کی خبریں بھی ہیں اور آپ کی بھی ہیں اور بعد میں آنے والوں کی بھی ہیں ) پس تیرے رب کی قسم کہ اب سب ضرور پوچھیں گے کہ وہ کیا عمل کررہے تھے؟۔
قرآن کی اس سورہ حجر میں پہلے والوں کا نقشہ بھی ہے کہ جن کو عقل آگئی تھی مگر آیات کو جھٹلایا اورحجر عقل کو کہتے ہیں۔ آج امت مسلمہ نے عقل کی بنیاد پر بہت ترقی کرلی ہے اور اللہ کی آیات کو سمجھنا ان کیلئے مشکل نہیں مگر پھر بھی اعراض کررہے ہیں۔ جس کا منطقی نتیجہ انقلاب کی صورت نکلے گا اور اچھے درگزر کی تلقین بھی ہوگی۔ انشاء اللہ

اسلام کی نشاة اول میں مشرق کی سپر طاقت فارس اور مغرب کی سپر طاقت روم کو ہم نے فتح کیا تو آزاد خواتین کو بھی بہت سارے حقوق سے مالامال کردیا اور غلاموں اور لونڈیوں کو بھی بہت سارے حقوق دیدئیے تھے جس کی بدولت ہم دنیا میں واقعی نمبر1سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب یہودونصاریٰ اور ترقی یافتہ گلوبل ویلج نے مذہب اوررسم وروایت کے نام پر خواتین کش مسائل کا خاتمہ کردیا ہے اور مسلمان اب بھی مذہب اور علاقائی رسم وروایات کے نام پر عورت کیساتھ وہی مظالم روا رکھے ہوئے ہیں جن سے اسلام نے چودہ سوسال پہلے آزادکیا تھا۔
امام ابوحنیفہ و دیگر ائمہ مسالک نے فقہ وعقائد میں اختلاف رکھا اور قرآن وسنت کی حفاظت ایک بازیچہ اطفال بن کررہ گیا۔امام ابن تیمیہ نے چارمسلک کو فرقہ واریت قرار دیا لیکن ان کے شاگرد علامہ ابن قیم نے ”بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر”20اقوال کا اختلاف نقل کیا۔ کوئی اس کو ایک طلاق کہتا، کوئی اس کو تین طلاق، کوئی ظہار اور کوئی حلف کہتا تھا۔ حالانکہ قرآن وسنت میں تحریم کا مسئلہ بالکل واضح تھا لیکن پھر اتنے سارے مذاہب اور فقہی اختلافات کیسے آگئے ؟۔
سورة الحجرکی ان آیات(87تا97)میں قوم لوط اور دیگر اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب کا وقت آگیا۔ اصحاب حِجرعقل والوں کو کہتے ہیں۔ یہ سورة عقل والوں کے نام پر ہے۔ عقل والوں نے اللہ کی آیات سے اعراض کیا۔ یہ لوگ اتنی عقل ومہارت والے تھے کہ پہاڑوں کو تراش کر امن کیساتھ گھر بناتے تھے۔ لیکن پھرفجر میں چنگھاڑ نے گرفت میں لیا۔ اللہ نے ان آیات میں امت مسلمہ کو بھی خبردار کیا ہے کہ جب تم اپنی عقل اور کسی دور میں ترقی پر پہنچ جاؤ اور پھر بھی آیات کی طرف دھیان نہ دو تو پھر گرفت میں آسکتی ہے۔ جب لوگوں کے پاس عقل وترقی نہ تھی تو اپنی کم عقلی کے بدولت اس قرآن کے ٹکڑے کردئیے جس کی7آیات نماز کی رکعتوں میں دھراتے تھے۔ اللہ نے اسلئے واضح فرمادیا کہ
” جیسے ہم نے بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو ، جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کردئیے۔پس تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔ جو انہیں یہ عمل کئے تھے”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”قرآن میں پہلے والوں کی خبریں بھی ہیں اور آپ کی خبریں بھی ہیں اور بعدمیں آنے والوںکی خبریں بھی ہیں”۔
جب اسلام کی نشاة ثانیہ پاکستان سے ہوگی تو لوگ فرقہ واریت اور قرآن کا بٹوارہ کرنے والوں کو چھوڑ کر قرآن وسنت کو زندہ کریں گے۔ یہی عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگا۔ جب شاہ فیصل، قذافی ،صدام حسین،خمینی اور بھٹو جیسے لوگ موجود تھے تب بھی اسرائیل کو شکست نہیں دے سکے ۔ اب مفتی تقی عثمانی جو ایک مرغی ہے اس کے آذان دینے سے بھی فلسطین آزاد نہیں ہوگا۔ سودی نظام چھوڑ کر قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہونے اور ان پر عمل سے خلافت قائم ہوگی۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” سوانح قاسمی ” میں مولانا قاسم نانوتوی کی حیثیت ”امام الکبیر” کی قرار دی ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی کہتے تھے کہ میں نے حضرت امداد اللہ مہاجر مکی سے تقویٰ نہیں علم سے متأثر ہوکر بیعت کی ہے۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی نے کہا کہ میں حاجی امداد اللہ کے علم سے نہیں تقوی سے متأثر ہوں۔ دارالعلوم دیوبند کی دونوں بڑی جلیل القدر ہستیاں تھیں۔
مولانا قاسم نانوتوی نے اہل تشیع کے عام لوگوں کا اسلام کے بارے میں عقیدہ وعمل کو بالکل سچا اور درست قرار دیا مگر بعض خواص کے بارے میں بد عقیدہ اور گمراہی کی نشاندہی بھی فرمائی اور اس کیلئے زبردست حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا اسلئے کہ مغل بادشاہوں اور علماء کے خاندان میں شیعہ سنی کی رشتہ داریاں تھیں۔ جس حکمت عملی سے ہوسکے کہ اہل حق کا عقیدہ بھی محفوظ ہو اور شیعہ اپنے گمراہانہ عقائد بھی نہیں پھیلائیں کیونکہ بہت سارے شیعہ کا اعلان نہیں کرتے مگر عقیدہ وہی رکھتے تھے۔ جبکہ مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھ دیا ہے کہ شیعہ سے سنی لڑکی کے نکاح میں دو فتوے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ۔ ان سے نکاح جائز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ مسلمان ہیں۔ ان سے نکاح جائز ہے اور نکاح کا حکم دونوں صورتحال کے مطابق ہوگا۔میری رائے پہلی والی ہے۔
آج دیوبندی مکتب دو فرقوں میں تقسیم ہے۔ پختونخواہ میں مناظروں نے ماحول کی عجیب کیفیت بنارکھی ہے۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی کے ایک شاگرد مولانا حسین علی تھے ۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری ان کے شاگرد تھے۔ دونوں حضرات نے قرآن کے تراجم عام کرنے کی بڑی خدمت کی ہے لیکن شرک کے فتوؤں سے غیر تو غیر اپنوں کو نہیں چھوڑا ہے اور یہی اچھی بات ہے لیکن مولانا حسین علی کی تقریری تفسیر مولانا غلام اللہ خان نے ”بلغہ الحیران” کے نام سے لکھی ہے۔ وہ مولانا غلام اللہ خان جس نے توحید کا ڈنکا بجادیا تھا مگر اس تفسیر میں لکھا ہے نعوذ باللہ من ذٰلک کہ ” میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ۖ گر رہے ہیں اور میں نے آپ ۖ کو تھام لیا”۔ اگر یہی بات کوئی اور لکھتا بلکہ اس طرح بھی لکھ دیتا کہ ”میں گر رہا تھا اور نبی ۖ نے مجھے تھام لیا ”تو اس پر شرک کا فتویٰ لگادیتے۔ اپنی غلط روش کو تبدیل کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
عقیدہ توحید اور معجزات وکرامات میں کوئی تضاد نہیں ہے لیکن یہ دنیا کی ہی پل صراط ہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزات سے نوازنے کا ذکر ہے لیکن وہ پھر بھی اندر اندر سے خوفزدہ اور فرعون سے بھاگ رہے تھے؟۔ کوئی مشرک ہوتا تو پھر فرعون سے بھاگنے کی ضرورت ختم کردیتا اور توحید کے منافی یہ معجزہ ہوتا تو پھر اللہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بہت سارے معجزات کا ذکر کیوں فرماتا؟۔ شرک سے بڑا گناہ نہیں۔ اہل تشیع جب حضرت علی اور ائمہ اہل بیت کو مظلوم سمجھتے ہیں تو شرکیہ عقیدہ گنجائش ختم کردیتا ہے۔ معجزہ اور کرامت کا عقیدہ بھی شرک نہیں ہے ۔ حضرت ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ مجھے مردہ زندہ کرکے دکھاؤ تو اللہ نے پرندوں کو ٹکڑے کرنے کا حکم دیا اور پھر زندہ کرکے دکھا دئیے۔ توحید اور معجزہ سے عقیدت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔غلام احمد پرویز نے احادیث کے چکر میں قرآنی آیات کی وہ تأویل پیش کردی کہ اس سے قرآن کی آیات بالکل واضح انکار کرنا بھی کم نہیں تھا۔
علماء دیوبند میں مولانا اشرف علی تھانوی نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا مشن آگے بڑھایا اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولانا قاسم ناتوتوی کا مشن آگے بڑھایا تھا۔ شیخ االہند کے مشن کو مولانا محمد الیاس نے تبلیغی جماعت کی شکل میں ہی آگے بڑھایا تھا۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا نے تصوف کا سلسلہ آگے بڑھایا لیکن شیخ الحدیث کے خلفاء اور تبلیغی جماعت میں بہت دوری آگئی۔ تبلیغی جماعت کے مراکز رائیونڈ اور بستی نظام الدین بھی تقسیم ہوگئے۔ مولانا محمد الیاس اور مولانا اشرف علی تھانوی کے باقیات صالحات میں حضرت حاجی محمد عثمان کی حیثیت بھی بالکل ریڑھ کی ہڈی کی تھی۔ حاجی محمد عثمان سے تبلیغی جماعت، دیوبندی ، اہلحدیث ، بریلوی اور شیعہ سبھی متأثر تھے۔ خانقاہ میں لوگوں کے عقائد ونظریات بالکل صحیح ہورہے تھے۔ پنج پیری بھی آپ سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ پاک فوج کے بڑے افسران بھی بیعت تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے فضلاء اور کراچی وپاکستان کے مدارس ومساجد سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی بیعت تھی اور مدینہ منورہ کے سرکاری عربی افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے اور مصر کے عربی عالم بھی بڑی عقیدت ومحبت سے فتوؤں کے بعد حاجی عثمان کے محافل سے استفادہ کردہ کرتے تھے اور انہوں نے کاغذات عربی میں منتقل کرنے کا بڑا کام بھی کیا۔ جب فتوؤں کے بعد حاجی عثمان عمرے پر تشریف لے گئے تو جامعہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن نے ائیرپورٹ پر استقبال کیا اور کہا کہ خواب میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے حکم دیا کہ حاجی محمد عثمان ائیر پورٹ پر آرہے ہیں ،ان کا استقبال کرو۔ حاجی عثمان کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
وہ پر کیف جلوے کے رنگین مناظر نظر میں سمایا تو اچھا نہ ہوگا
گزر جا ہر اک شئے سے دامن بچاکر کہیں دل لگایا تو اچھا نہ ہوگا
غم نیستی ہو کہ نیرنگ مستی تخیل پہ چھایا تو اچھا نہ ہوگا
کوئی بھی نقش ہو عالمِ ما سواء کا تصور میں آیا تو اچھا نہ ہوگا
جھکایا ہے جس سر کو در پہ ہمارے کہیں پر جھکایا تو اچھا نہ ہوگا
کہیں بھول کر غیر کے نقش پاکو جبیں سے لگایا تو اچھا نہ ہوگا
حقیقت کی پنہاں سی بھی ایک جھلک کو فسانہ بنایا تو اچھا نہ ہوگا
ہم ہی ہم ہیں باطن میں لیکن ظاہر یہ پردہ اٹھایا تو اچھا نہ ہوگا
وہ نغمہ جو پچھلے پہر ہم نے سنایا کسی کو سنایا تو اچھا نہ ہوگا
وہ جلوہ جو چھپ کر کبھی ہم دکھائیں تعین میں لایا تو اچھا نہ ہوگا
کسی ڈھنگ سے رہ ، کسی حال میں رہ اگر ہمیں بھلایا تو اچھا نہ ہوگا
ہماری عطا کی ہوئی بے خودی سے کبھی ہوش آیا تو اچھا نہ ہوگا
ہزاروں مصائب ہیں راہ طلب میں اگر ہچکچایا تو اچھا نہ ہوگا
ہو کچھ بھی ہو جو قدم اُٹھ گیا ہے وہ پیچھے ہٹایا تو اچھا نہ ہوگا
تجھے کیا ملا، کیوں ملا، کس نے بخشا کہیں ذکر آیا تو اچھا نہ ہوگا
جو ظاہر میں باطن کی کیفیتوں کا اشارہ بھی پایا توا چھا نہ ہوگا
یہ کہہ کر انہوں نے مجھے راز سونپا کسی کو بتایا تو اچھا نہ ہوگا
جو آنکھوں سے ظاہر ہوا توہی جانے جو ہونٹوں تک آیا تو اچھا نہ ہوگا
علامہ اقبال نے کہا: ”دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلادے”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز