پوسٹ تلاش کریں

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔ اخبار: نوشتہ دیوار

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

جب حضرت اماںعائشہ پر بہتان عظیم لگا تو مسلمانوں کا وہ ردِ عمل نہیں تھا جو آج عمر پر عالم اسلام میں اٹھایا جارہاہے۔بہتان زیادہ بڑا مسئلہ تھا

ام المؤمنین اور عام جھاڑو کش عورت پر بہتان کی سزا ایک تھی جس کی وجہ سے پہلے بھی طبقاتی طاغوتی نظام کا خاتمہ ہواتھااور آج بھی ہوسکتاہے

سید عتیق الرحمن گیلانی نے عظمت قرآن و حج کانفرنس ، مدرسہ جامعہ الشہید سید عارف حسین الحسینی پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ جو مین مسائل ہیں ان کی طرف ہمارے جو بڑے اکابر بیٹھے ہیں ان کی توجہ مبذول کراؤں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں؟۔ علامہ عابد حسین شاکری نے تحریف قرآن کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے عام طور پر لوگ اس کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔ جب عوام کا اجتماع ہوتا ہے تو عوام کے اندر کہتے ہیں کہ زیر زبر اور پیش کی بھی تحریف نہیں ہوئی۔ لیکن جب مدارس کے اندر پڑھاتے ہیں۔ میں اپنے مکتبہ فکر کی بات کروں گا۔ اگرچہ میرا کوئی خاص مکتب نہیں۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان محدث العصر کہلاتے تھے۔ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے ان کی بخاری کی شرح ہے کشف الباری ۔جسکے اندر بخاری کی ایک روایت ہے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ نے دو گتوں کے درمیان دو جلدوں کے درمیان ہمارے پاس جو قرآن چھوڑا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اب یہ بخاری کی حدیث ہے اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے کشف الباری کے اندر نقل کی ہے۔ اور اس کی وضاحت اور تشریح میں یہ لکھا ہے کہ امام بخاری نے یہ روایت کیوں نقل کی ہے؟۔ یہ اسلئے نقل کی ہے کہ چونکہ اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ تاکہ اس روایت سے ثابت کیا جاسکے کہ علی بھی تحریف قرآن کے قائل نہیں تھے۔ ابن عباس بھی نہیں تھے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ حضرت عثمان جب قرآن جمع کررہے تھے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود ناراض تھے کہ مجھے جمع قرآن میں شریک نہیں کیا۔ وہ عبد اللہ ابن مسعود جس کے بارے میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اگر قرآن سیکھنا ہو تو عبد اللہ ابن مسعود سے سیکھو۔ ہمارے جو بڑے بڑے مفسرین ہیں مولانا مودودی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، علامہ غلام رسول سعیدی، انہوں نے اپنی اپنی تفاسیر کے اندر معوذتین کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود معوذتین کی قرآنیت کے قائل نہیں تھے نماز میں بھی پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ پھر دلیل دی ہے کہ چونکہ اس وقت اجماع نہیں تھا اسلئے وہ کا.فر بھی نہیں تھے۔ آج اجماع ہوچکا ہے اگر آج کوئی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ تو اس کا مطلب کیا ہے کہ اجماع کو ہم نے قرآن کے اوپر مقدم کردیا ہے۔ یہ جو میں بات کررہا ہوں یہ ایسے ہی نہیں کررہا۔ اس کیلئے میں نے بڑی تحریک چلائی ہے ماشاء اللہ بڑا کام کیا ہے اس کیلئے۔ اور بڑے بڑے لوگوں کیساتھ اس کو ڈسکس کیا ہے لیکن وہ اندرون خانہ اس کو غائب کردیتے ہیں۔

آج ایک مسئلہ ہے ایک ہندو خاتون نے کسی ٹاک شو کے اندر غصے ہوکر کہا کہ میرا منہ نہ کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں رخصتی۔ جس پر عالم اسلام میں ایک کہرام برپاہے۔ لیکن کیا یہ کوئی ایسی راز کی بات ہے کہ جس سے ہندو عورت نے پردہ اٹھادیا ہے؟۔ یہ مسلمانوں کے اندر عام بات ہے اور اگرچہ بات بھی بالکل غلط ہے اسلئے کہ حضرت عائشہ کا نکاح16سال کی عمر میں اور رخصتی19سال کی عمر میں ہوئی ۔ بعثت سے5سال قبل پیدا ہوئیں،5سال دارارقم کی خفیہ تبلیغ میں موجود تھیں۔11نبوی میں آپ کی عمر16سال تھی۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ11نبوی میں آپ کی عمرچھ سال تھی تو5نبوی سے11نبوی تک آپ کی عمر چھ سال بنتی ہے اور اس دوران یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی بیٹی ایک مشرک دشمن کو دی تھی؟۔ حالانکہ حضرت ابوبکر صف اول میں نبیۖ کے رائٹ ہینڈ تھے۔ اس کٹھن مرحلے میں دشمن کس طرح اتنی چھوٹی عمر میں حضرت ابوبکر کی بیٹی سے رشتہ کرسکتا تھا؟۔اگر ہم یہ مان لیں کہ اس وقت کے دستور کے مطابق باہمی رضامندی سے نکاح کا معاملہ اس عمر میں ہوا تھا تو پھر بھی اس بات پر کہرام مچانا زیادہ مناسب ہے جو سب کو معلوم ہے لیکن جب حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگایا گیا تو اس وقت اتنا کہرام مچایا گیا تھا ، جو مچایا جارہاہے؟۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ نکاح زیادہ بڑی بات ہے یا حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا مسئلہ بڑا تھا؟۔

اس بات کو سمجھنا ہوگاکہ اسلام سے پہلے آزادی اور غلامی کا تصور تھا۔ اللہ نے طبقاتی نظام کو ختم کرکے حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والوں کیلئے وہی سزا دینے کا حکم نازل کیا جو کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگانے کا ہو۔ مساوات کے نظام سے دنیامتاثر ہوئی تومسلمانوں نے خلافت راشدہ ، بنوامیہ و بنوعباس کے ادوار امارت اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت کے دور میں فتوحات حاصل کیں۔ دنیا میں اسلامی سلطنت کی توسیع کا معاملہ جاری رہاہے۔ پھر جب انگریز نے یہاں قبضہ کیا تو وہ پھر دورِ غلامی اور طبقاتی تقسیم کو رواج دے گئے۔ جرنیل، جج اور بیوروکریٹ کے بڑے عہدے انگریز کے پاس ہوتے تھے اور کلرک ،چوکیدار، چپڑاسی اور نچلے درجے کی ملازمت غلام عوام کے پاس ہوتی تھی۔ جج، جرنیل اور سول بیوروکریٹ افسروں کی عزت ہوتی ہے اور غلاموں کی کوئی عزت نہیں تھی۔ آج بھی انگریز کا طاغوتی نظام ہمارے ہاں موجود ہے اور اس طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا واقعہ قرآن اور سنت میں موجود ہے اور سورۂ نور کی روشنی سے آج بھی ہم اس طبقاتی نظام کو ختم کرکے دنیاکو غلامی سے نجات دلاسکتے ہیں۔

علامہ عابد حسین شاکری نے کہا کہ زکوٰة کا منکر کافر اور زکوٰة نہ دینے والوں سے جہاد ہے لیکن میں وضاحت کرتا ہوں کہ لا اکراہ فی الدین (دین میں زبردستی نہیں ہے) ایک شخص سے نبیۖ نے دعا کی درخواست کی کہ اس کو مال ملے اور پھر اس کو بہت سارا مال مل گیا لیکن اس نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس کے خلاف قتا.ل نہیں کیا۔ نماز، حج اور روزہ وغیرہ کسی چیز میں زبردستی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبیۖ کی رہنمائی فرمائی۔ غزوہ بدر میں دشمنوں کو معاف کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ” ان کا خون کیوں نہیں بہایا؟۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ پھر جب غزوہ احد میں شدید زخم لگے تو انتقام کا پروگرام بن گیا۔ اللہ نے منع فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ”۔ جب ایک نابینا کی آمد پر پیشانی کے بل نمودار ہوئے تو اللہ نے فرمایا عبس وتولیٰ ان جاء ہ الاعمیٰ ” چیں بہ جبیں ہوا ایک شخص کہ اسکے پاس نابینا آیا”۔ قرآن نے لمحہ بہ لمحہ نبیۖ کی رہنمائی فرمائی تھی۔

قرآن کے ذریعے سورۂ نور کی ان آیات کے ذریعے ہم طاغوتی نظام سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ وآخر دعوٰنا ان الحمد للہ رب العالمین۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار ہونا یہ چاہیے تھا کہ عظمت قرآن کے منتظم اور تمام مہمانان گرامی اس تقریر پر خوش آمدید کرتے اور سورۂ نور کی روشنی میں طاغوتی نظام کے خلاف راستہ ہموار کرنے کا عہد کرتے لیکن بعض لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑتی دیکھی گئیں۔ درویش مسجد کے عالم دین نے کہا کہ ” تحریف قرآن کے حوالے کسی کی تحقیق کا ذکرکرنا مناسب نہیں تھا” لیکن یہ تحقیق کی بات نہیں ہے بلکہ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ صحیح بخاری میں جو ایک ہی روایت قرآن کے محفوظ ہونے کے حوالے سے مل رہی ہے اس کا بھی انکار کرکے دوسرے کھاتے میں اس کو ڈالا جائے۔ یہ انفرادی مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ درسِ نظامی میں قرآن کی جس طرح کی تعریف پڑھائی جاتی ہے تو اس میں کھلم کھلا تحریف کا بھی عقیدہ پڑھایا جارہاہے۔ امام شافعی کے نزدیک قرآن کی کوئی ایسی آیت معتبر نہیں ہے جو خبر واحد یا مشہور ہو کیونکہ قرآن سے باہر کی آیت پر ایمان لانا کفر ہے۔ ان کے نزدیک بسم اللہ میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ وہ جہری نمازوں میںجہری بسم اللہ بھی پڑھتے تھے ، جس کی وجہ سے ان پر رافضی ہونے کا فتویٰ بھی لگایا گیا تھا۔ امام شافعی کے دور میں حکمرانوں کا رویہ تبدیل ہوا تھا لیکن امام ابوحنیفہ قاضی القضاة (چیف جسٹس)کاعہدہ قبول نہ کرنے کی پاداش میں جیل میں بند کرکے شہید کئے گئے تھے۔ مسلک حنفی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”خبر واحد کی بھی آیت قرآن کے حکم میں ہے”۔ جب قرآن سے باہر کی آیات کو قرآن مانا جائے تو پھر قرآن کی حفاظت کا عقیدہ نہیں رہتا۔ جب بسم اللہ کو مشکوک کہا جائے تو ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ” یہ وہ کتا ب ہے کہ جس میں کوئی شبہ نہیں ”۔ کا عقیدہ نہیں رہتا ہے اسلئے قرآن کی غلط تعریف اصولِ فقہ میں پڑھانا چھوڑ دیا جائے۔ قرآن کی بہت ساری آیات سے المکتوب فی المصاحف سے لکھاہوا قرآن ثابت ہوتا ہے۔ پہلی وحی میں تعلیم بالقلم کا ذکر ہے۔ والقلم ومایسطرون ” قسم ہے قلم کی اور جو سطروں میں موجود ہے اس کی قسم ”سے بھی ثابت ہوتاہے کہ قلم سے سطروں میں لکھا ہواقرآن اللہ کا کلام ہے۔ اصولِ فقہ کے گمراہانہ عقائد مدارس والے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں مگر سمجھتے اور سمجھاتے نہیں ہیں۔ ورنہ کب کی توبہ کرچکے ہوتے۔

ابن مسعود کے مصحف میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتوں کے صفحات پڑھنے پڑھانے کی وجہ سے پھٹ کرضائع ہوگئے اور جس نے کافی عرصہ بعد ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی تو اس نے بتایا کہ اس حالت میں مصحف کو دیکھا ہے اور اس پر کہانی گھڑنے والوں نے اپنا اپنا زوالِ علم وعرفاں دکھادیاتھا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ابن مسعود سے متعہ کے حق میں ایک حدیث نقل ہے اور قرآن کی آیت پر اس حدیث کی وجہ سے اپنی تفسیر لکھ دی ہے ، جس طرح جلالین میں تفسیری نکات قرآن کے بین السطور میں درج ہیں لیکن بدقسمت لوگوں نے اس کو ابن مسعود کے مصحف کا حصہ بناڈالا۔ حالانکہ اگر متعہ کی آیات میں مقررہ وقت کا اضافہ ہوتا تو پھر احناف کو اپنے مسلک کے مطابق متعہ کا قائل ہونا چاہیے تھا۔ اسلئے کہ خبر واحد کی آیت بھی ان کے نزدیک قابلِ اعتبار بلکہ حدیث سے زیادہ معتبر ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ