پوسٹ تلاش کریں

طلاق کے بعد شوہر کے کزن سے دو دن کا حلالہ زندگی بھر کا عذاب بن گیا۔

طلاق کے بعد شوہر کے کزن سے دو دن کا حلالہ زندگی بھر کا عذاب بن گیا۔ اخبار: نوشتہ دیوار

طلاق کے بعد شوہر کے کزن سے دو دن کا حلالہ زندگی بھر کا عذاب بن گیا۔

اسلام میں حلالہ جائز ہے یا نہیں؟۔ سنئے شائستہ کی دکھ بھری کہانی
یوٹیوب نیونیوزTVپر اس خاتون اینکر نے پہلے حلالہ کا شکار ہونے والی شائستہ سے دُکھ بھری داستان پوچھی ہے اور اس نے بتایا کہ12سال شادی کو ہوچکے تھے۔ دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی تھی۔ پھر شوہر کی دلچسپی کم ہوگئی اور کچھ دیگر معاملات کا پتہ چل گیا تو وہ اپنے باپ کے گھر میں بیٹھ گئی۔ واپس اپنے شوہر کے پاس جانا نہیں چاہتی تھی اسلئے والد نے خلع کا مقدمہ بھی دائر کردیا تھا۔ پھر شوہر نے گھر پر طلاق دیدی۔ ایک عورت کو شادی کے بعد دوبارہ اپنے بھائی اور بھابھیوں کے پاس رہنا پڑجائے تو وہ کتنے بھی اچھے ہوں لیکن کئی معاملات میں وہ خوش نہیں رہ سکتی ہے۔ آخر کار وہ بھی واپس جانا چاہتی تھی اور شوہر نے بھی رجوع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ پھر یہ طے ہوگیا کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور حلالہ کیلئے وہ تیار نہیں تھی لیکن والد اور دوسروں نے سمجھایا کہ ایک بار یہ تلخ معاملہ برداشت کرنا پڑے گا۔ وہ بالکل راضی نہیں تھی کہ کسی اجنبی شخص کیساتھ اسے راتیں گزارنا پڑیں۔ پھر وہ مجبور ہوگئی اور اپنی رضا سے حلالہ کرنے پر آمادہ ہوگئی۔ اس کے شوہر کا کزن تھا ،جس کیساتھ دو دن کا حلالہ ہوا۔ وہ اس کو بھائی کی طرح سمجھ رہی تھی لیکن شوہر کو کسی اور پر اعتبار نہیں تھا اسلئے اس کیساتھ حلالہ کرادیا تھا۔ اب وہ دو دن جس طرح گزرے ہیں اس کا صدمہ دماغ پر بیٹھ گیا ہے اور اس انتہائی کرب وبلا سے دل ودماغ ایک عرصہ سے دوچار ہے۔
پروفیسر حفیظ اللہ بلوچ نے کہا کہ ”یہ واقعہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں228سے242تک ان مسائل کا حل بتایاہے۔ جس جاہل نے اس بہن کو حلالہ کا مسئلہ بتایا ہے تو اس میں جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: ”جو حلالہ کرے اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے تو دونوں پر اللہ کی لعنت ہو”۔ اس بہن نے جس جاہل سے مسئلہ پوچھا ہے اس کے پاس علم نہیں تھا۔ حلالہ کی ایک جائز صورت بھی ہے وہ یہ ہے کہ دوسراشوہر گھر بسانے کی نیت سے نکاح کرے۔ پھر اگر ان میں نہ بنے تو اس کو طلاق دے۔ مسئلہ پوچھنے کیلئے تمام اہل علم کے پاس جانا چاہیے۔ یہ جو ہم نے مخصوص طبقات بنائے ہیں یہ غلط ہے”۔
بلوچ صاحب! جس چیز کو آپ جائز حلالہ قرار دے رہے ہیں یہ مسئلے کا حل نہیں تھااور اس سے فرار اختیار کرنے کیلئے ہی حنفی علماء نے حلالے کا راستہ نکالا ہے۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے پانچ ،چھ سو سال قبل اس حلالہ کو کارِ ثواب بھی قرار دیا ہے۔ کراچی کے مفتی عطاء اللہ نعیمی نے ” تین طلاق اور حلالہ کی شرعی حیثیت” کتاب میں ان حوالہ جات کو نقل بھی کیا ہے۔ ایک طرف لکھ دیا کہ رسول اللہ ۖ نے حلالہ کرانے والے کو کرائے کا سانڈھ یا بکرا قرار دیا ہے ۔جس کی تشریح میں لکھاہے کہ اس کی وجہ غیرت میں کمی ہے ۔ دوسری طرف لکھ دیا ہے کہ ” جو حلالہ کو بے غیرتی اور بے حیائی قرار دیتا ہے تواس کے ایمان وایقان کی جگہ بے غیرتی اور بے حیائی نے لے لی ہے”۔ اس جملے کا اثر نبی کریم ۖ کی ذات کے حوالے سے بدترین توہین کی صورت میں نکلتا ہے۔
برصغیر پاک وہند اور دنیا بھر میں حنفی اصولِ فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ طلاق کی تین اقسام احناف میں یہ ہیں۔ طلاق احسن۔ طلاق حسن ۔ طلاق بدعت۔ دوسرے مسالک والے طلاق کی ان اقسام کے قائل نہیں ہیں۔ شافعی اکٹھی تین طلاق کو بھی سنت سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد عورت کو ایک ساتھ تین طلاق دئیے تھے۔ حنفی مسلک کی طرح دیگر مسالک بھی بگاڑ دئیے گئے ہیں۔ ائمہ اربعہ نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوجائیںگی ۔ کسی کے نزدیک سنت اور کسی کے نزدیک بدعت لیکن اس کا اصل مدعا کیا تھا؟۔ اس کی طرف کسی نے بھی دھیان نہیں دیا ہے۔
حضرت عمر نے ایک واقعہ میں فیصلہ کیا کہ جب شوہر نے تین طلاقیں دیں اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی کہ ”شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے”۔ اس کے بعد جب بھی میاں بیوی میں ایک ساتھ تین طلاق پر جھگڑا ہوتا اور بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں ہوتی تھی تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا تھا۔ اس سے پہلے اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا تھا تو وہ آپس میں اکٹھے رہتے تھے اور وہ ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ شریعت نہیں بدلی تھی بلکہ لوگوں کے روئیے میں فرق آگیا تھا۔ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی آپس میں اکٹھے رہنا چاہتے تھے تو ان کو زبردستی کون الگ کرسکتا تھا؟۔ لیکن جو خود جدائی کیلئے کوئی بہانہ ڈھونڈتے تھے تو اکٹھی تین طلاق کو بنیاد بناکر جدائی اختیار کرلیتے تھے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ حضرت عمر نے کوئی بدعت ایجاد کی ہے یا سنت ہے؟ تو امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے مسلک والوں نے اس کو بدعت اور گناہ قرار دیا اور امام شافعی نے اس کو سنت اور مباح قرار دیا اور امام احمد بن حنبلنے دونوں قول اپنائے ہیں، ایک میں سنت ومباح اور دوسرے میں بدعت وگناہ قراردیا۔
اصل مسئلے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی کہ اگر کوئی معقول بات ہو تو پھر اس ایک ساتھ تین طلاق کو سنت اور مباح کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ جیسا کہ حضرت عویمر عجلانی نے نبیۖ کے سامنے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے تھے اور اس کی تصدیق قرآن کی سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں بھی ہے کہ کھلی ہوئی فحاشی کی صورت میں ایسا کرسکتے ہیں ۔ نبیۖ نے فاطمہ بنت قیس سے فرمایا کہ ”عدت اپنے شوہر کے پاس گزارنے کے بجائے عبداللہ بن مکتوم کے گھر میں گزار لو اسلئے کہ وہ نابینا تھے اور کپڑے بدلنے میں تکلیف نہ ہوگی”۔
محمود بن لبید کی روایت میں جب ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیں تو نبیۖ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے اللہ کے دین کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے پیشکش کردی کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟”۔ (ترمذی شریف) یہاں پر ضرورت کے بغیر اکٹھی تین طلاق کا مسئلہ تھا اسلئے نبیۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ ان روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینے سے عورت کو فارغ کیا جاسکتا ہے۔ بسا اوقات یہ ناپسندیدہ اور بسا اوقات اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے۔ احادیث صحیحہ سے بالکل ثابت ہے اور اس کا انکار کرنا بالکل غلط اور کھلے حقائق سے بہت ہی گھناؤناانحراف ہے۔
یہ بات اچھی طرح سے سمجھنے کی ہے کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق دے دئیے جائیں یا پھر الگ الگ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی یا پھر زندگی میں دومرتبہ الگ الگ طلاق دی جائے اور پھر تیسری بار بھی طلاق دی جائے تو کس طلاق کی بنیاد پر حلالے کا ثبوت ملتا ہے؟۔حنفی، اہلحدیث، شیعہ اور غلام احمد پرویز و ڈاکٹر ذاکر نائیک نے الگ الگ طرح سے حلالے کیلئے اپنا اپنا فتویٰ دیا ہے اور سبھی غلط بھی ہیں اور حدیث کی بات بھی درست ہے کہ گمراہی پر امت اکٹھی نہیں ہوسکتی ہے۔
اصل میں فطری طریقے سے میاں بیوی کی جدائی کو طلاق کہتے ہیں۔ شوہر جدائی کاقدم اٹھائے تو یہ طلاق ہے۔ بیوی جدائی کا قدم اٹھائے تو یہ خلع ہے اور دونوں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ اب ہمارا آپس میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہونا چاہیے تو اس میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائیگا یا نہیں ہوگا؟۔ کیونکہ جب دونوں آئندہ رابطہ نہ کرنے پر متفق ہوں تو پھر یہ سوال بالکل فضول بنتا ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ البتہ ایک بہت بری رسم یہ بھی ہے کہ شوہر اسکے بعد کسی اور شخص سے عورت کو اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے دیتا ہے یا نہیں؟۔ قرآن نے اس کا جواب بہت سخت الفاظ میں یہ دیا ہے کہ اس طلاق کے بعد جب تک عورت کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے تو اس کیلئے حلال بھی نہیں ہے۔ اس حکم سے عورت کی ایک غلط رسم سے جان چھڑانی تھی۔
باقی رہی یہ بات کہ اکٹھی3طلاق کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتاہے یا نہیں؟۔ تو اس کا جواب قرآن نے بہت واضح الفاظ میں دیا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور ان کے شوہر اس عدت میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ:228)
ایک ساتھ تین طلاق دی ہوں یا تین ہزار طلاق دی ہوں۔اللہ نے رجوع کو طلاق کی گنتی کیساتھ نہیں بلکہ عدت میں باہمی اصلاح کیساتھ مشروط رکھا ہے اور اگر اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ نبیۖ نے قرآن کی واضح آیت کے بالکل برعکس اکٹھی تین طلاق سے رجوع کیلئے باہمی اصلاح نہیںبلکہ حلالہ کو شرط قرار دیا ہے تو دعوے کی دلیل کیلئے صحیح وضعیف نہیں من گھڑت روایت پیش کردے۔ حالانکہ احناف اور دیگرمسالک کا یہ مسلک ہے کہ اگر قرآن کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث بھی پیش کی جائے تو قرآن پر عمل کیا جائیگا اور حدیث جھوٹی ہوگی۔
عالم نما جاہل یہ سوال بڑے شد ومد سے اٹھاتے ہیں کہ ” پھر نبیۖ نے اکٹھی تین طلاق پر اتنی سخت ناراضگی کا اظہار کیوں فرمایا، جس شخص کی خبر دی گئی تھی تو اس کو رجوع کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟”۔ پہلی بات ہے کہ محمود بن لبید کی یہ روایت ایسی ہے کہ جس کو امام شافعی نہیں مانتے تھے اسلئے اکٹھی تین طلاق کو سنت اور مباح قرار دیتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ محمود بن لبید ایک تابعی تھے اور اس روایت میں جس شخص کا ذکر ہے کہ اس نے طلاق دی تھی تو وہ ابن عمر تھے اور جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ تیسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک مستند راوی نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دئیے تھے ۔ بیس سال تک مجھے کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا، جس نے اس بات کی تردید کی ہو کہ اکٹھی تین طلاق نہیں دئیے تھے۔ بیس سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص نے بتایا کہ ابن عمر نے ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت میں جن دو مستند اشخاص کا ذکر تھا تو حضرت حسن بصری کے مطابق دونوں مستند تھے لیکن کون کون تھے؟۔ کیا واقعی دوسرا زیادہ مستند تھا؟۔ ناموں کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن ایک مہم جوئی معلوم ہوتی ہے کہ کس طرح سے اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع کی روایت کو غائب کرنے کی پلاننگ شروع ہوگئی تھی؟۔ دیگر روایات میں بھی اس قسم کے مسائل ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت قیس کے واقعہ میں صحیح احادیث میں الگ الگ تین طلاقوں کا ذکر ہے اور ضعیف روایت میں اکٹھی تین طلاق کی بات گھڑی گئی ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ عالم نما جاہلوں نے جو اصل اعتراض کیا ہے کہ ”جب رجوع ہوسکتا تھا تو نبیۖ اتنے غضبناک کیوں ہوئے، رجوع کا حکم دیتے؟”۔ تو اس کے جواب میں یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ بخاری میں ابن عمرکے واقعہ کا ذکر ہے اور اس میں نبی ۖ غضبناک بھی ہوئے اور پھر حلالہ کے بغیر رجوع کا حکم بھی دیا اور فرمایا کہ رجوع کرلو،پھر پاکی کے ایام میں طلاق دو، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام اور اس کے بعد حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام میں چاہو تو رجوع کرو اور چاہو تو طلاق دو یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیاہے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ ٔ الطلاق)
ابوداؤد شریف کے مصنف عبداللہ بن مبارک کے شاگرد تھے، ابورکانہ کے والدنے ابورکانہ کی ماں کو تین طلاقیں دیں۔ پھر کسی اور خاتون سے نکاح کیا اور اس نے نامرد ہونے کا الزام لگادیا۔ نبیۖ نے اس کو طلاق دینے اور ام رکانہ سے رجوع کافرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ وہ تین طلاقیں دے چکاہے۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف) سورۂ طلاق میں مرحلہ وار تین طلاق کے باوجود اللہ نے رجوع کا راستہ عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد بالکل کھلا رکھا ہے اور سورۂ بقرہ کی آیات231،232میں بھی عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
قرآن میں اتنا تضاد کیسے ہوسکتا ہے کہ آیات228،229میں عدت کے اندر رجوع کی باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے اجازت ہو اور231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی اصلاح ورضامندی سے رجوع کی اجازت ہومگر بیچ میں تین طلاق پر رجوع کا دروازہ بند کیا جائے؟ ایک ایک بات اپنی مختلف کتابوں، تحریرات اور تقریروں میں ثابت کی ہے۔
ایک بخاری کی روایت پیش کی جاتی ہے جس میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی نے کسی اور شخص سے نکاح کیا تھا اور اس کو شکایت تھی کہ دوسرا شخص نامرد تھا جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”جب تک دونوں ایک دوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لو تو رفاعہ کے پاس نہیں لوٹ سکتی ہو”۔ پہلی بات یہ ہے کہ کیا نامرد میں ذائقہ چکھنے یا چکھانے کی صلاحیت ہوتی ہے؟۔ اگر نہیں ہوتی ہے تو نبیۖ پر جھوٹ گھڑ ا گیا ہے؟۔بخاری کی دوسری روایت میں ہے کہ اس کے شوہر نے کہا کہ میں نامرد نہیں ہوںبلکہ اپنی مردانگی سے اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھتا ہوں۔یعنی ذائقہ تو وہ چکھ چکی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ رفاعة القرظی نے مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں اور اس عورت نے کسی اور سے نکاح کرلیا تو اس پر اکٹھی تین یا مرحلہ وار تین طلاق کے بعد کسی اور شخص سے حلالہ کرانے کا حکم کہاں سے لگ سکتا ہے؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا ہے کہ یہ خبر واحد کی حدیث ہے جس میں نکاح کے علاوہ جماع کی صلاحیت نہیں تھی تو حنفی حدیث کی وجہ سے نہیں قرآن میں نکاح کو جماع کے معنی میں لیتے ہیں۔
ہم نے اپنی گزارشات اور کتابیں اسلامی نظریاتی کونسل، منصورہ لاہور اور بڑے بڑے معروف مدارس تک پہنچادی ہیں لیکن مذہبی طبقات میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اسلئے حلالہ کی لعنت کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے۔ حلالہ سے زیادہ دنیاوی مفادات اور ووٹ بینک کا مسئلہ ہے۔ جس شجرہ ممنوعہ نے حضرت آدم کو جنت سے نکلوادیا جس پر اللہ نے فرمایا:عصٰی آدم فغویٰ ” آدم نے نافرمانی کی اور پھر وہ بہک گئے”۔ (قرآن)۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کیلئے دو آزمائش اور فتنوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک نبیۖ کا خواب اور ہے پوری دنیا کے تمام ادیان پر اسلام دین حق کا غلبہ اور دوسرا قرآن میںشجرہ ملعونہ۔ حضرت آدم کو اتنا نہیں روکا گیا تھا جتنا مسلمانوں کو رجوع کے احکام بتاکر حلالہ کی لعنت سے روکا گیا ہے لیکن مذہبی طبقے نے اسی کو دنیا میں اپنی جنت اور حکمرانی سمجھ لیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

اہل نظر کی خوشخبری۔۔لمبے قد ، چھوٹی داڑھی کا آدمی جس کے ہاتھوں پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے!!
میں مدینہ چلی گاگاکراورباریش ہجڑہ ابوہریرہ ،دوپٹہ اوڑھے تلاش سید چمن علی شاہ تبلیغی جماعت نام نہاد سنت زندہ کرتے ہوئے اپنے انجام کی طرف رواں دواں
جھوٹ نے قوم کو اندھا کردیا؟