پوسٹ تلاش کریں

عدت کی تکمیل تک صلح کی شرط پر رجوع کی گنجائش کو قرآن نے برقرار رکھا

عدت کی تکمیل تک صلح کی شرط پر رجوع کی گنجائش کو قرآن نے برقرار رکھا اخبار: نوشتہ دیوار

teen-talaq-kay-baad-sulah-ki-shart-per-ruju-ho-sakta-hai-surah-baqarah-228

’’ طلاق والی اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں تین مراحل تک۔ ۔۔۔ اور انکے شوہر ان کو اس مدت میں لوٹانے کے زیادہ حق دار ہیں بشرط یہ کہ ان کا پروگرام اصلاح کا ہو‘‘۔ ( البقرہ: آیت 228)رجوع کے حق اور گنجائش میں فرق ہے۔ کسی کیلئے یہ آیت طلاق رجعی کی دلیل تو کسی اور مسلک کیلئے لعل یحدث بعد ذٰلکاور کسی کیلئے اذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن طلاق رجعی کی دلیل ہے۔
اگر مسلمان کو اختیار دیا جائے کہ قرآن کی آیات میں اللہ کو چوہا جیسا حافظہ رکھنے والا قرار دو، یا نام نہاد شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کو، تو دارلعلوم کراچی کا مفتی کہے گا کہ میرا پالنے والا مفتی تقی عثمانی ہے اسلئے اس کو چوہا قرار دینا روزی پر لات مارناہے۔ مفتی تقی عثمانی نے ’’قرآن کا آسان ترجمہ‘‘ میں قرآنی الفاظ کو واضح رونڈ ڈالاہے ۔
جب اللہ تعالیٰ نے واضح طور سے کہہ دیا کہ ’’ عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ‘‘ تو اسکے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ اللہ اپنی بات کی خلاف ورزی کرتا کہ ’’عدت میں غیرمشروط رجوع کا حق بھی حاصل ہے‘‘ اور یہ بھی بہت بڑا تضاد ہوتا کہ اللہ اپنی آیت کا مذاق اُڑاتا کہ ’’عدت کے اندر جو رجوع کاصلح سے مشروط حق دیاتھا وہ بھی واپس لے لیاہے‘‘۔ یہ توپھرنعوذ باللہ قرآن میں تضاد ہوتا۔
بس اتنی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیت228میں حکم واضح کیا تھاکہ عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہر رجوع کرسکتاہے۔ اسی حکم کوآیت 229میں بھی بعینہ باقی رکھاہے۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ’’ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقہ سے رجوع یااحسان کیساتھ رخصتی ہے‘‘۔ یہ عدت کے مراحل کی تفصیل ہے جو نبیﷺ نے بھی حضرت ابن عمرؓ کو پاکی کے دنوں اور حیض کے مرحلوں سے سمجھائی ہے۔ جس کا ذکر کتاب التفسیرسورۂ طلاق، کتاب الاحکام، کتاب العدت صحیح بخاری میں بھی مختلف الفاظ کیساتھ موجود ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کا پہلا حکم باطل یا منسوخ ہوا،اور عدت کے پہلے دو مراحل اور تیسرے مرحلے میں شوہر کو اللہ نے غیر مشروط رجوع کا حق دیدیا بلکہ پہلے دو مراحل میں الگ الگ طلاق کی تفصیل اور پھر تیسرے مرحلے میں معروف رجوع یا رخصتی کا مطلب یہ ہے کہ آخری مرحلہ فیصلہ کن ہے۔ اسکے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ پہلے دو مرحلہ کی دومرتبہ طلاق کے بعد آخری مرحلے میں معروف رجوع یہ نہیں کہ شوہر کو دومرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کا حق حاصل ہے بلکہ اصلاح کی شرط ہی معروف رجوع ہے۔ چنانچہ 228اور 229کے احکام میں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ ایکدوسرے کی تفسیر اور وضاحت ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پہلے اللہ نے عدت میں رجوع کا مشروط کا حق دیا، پھر دومرتبہ غیرمشروط رجوع کا حق دیا اور عدت میں ہی صلح کی شرط پر رجوع کے حق کو منسوخ اور باطل کردیا۔ ایسی صورت میں آیات کو ایکدوسرے کیلئے ناسخ ومنسوخ قرار دینے کا تصور ایجاد کرنا ہوگا۔ پہلے مراحل میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں رجوع کرلیا تو فبہا ورنہ طلاق کی صورت میں شوہر کیلئے کچھ لیناحلال نہیں جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ………… پھر 230میں اس صورت کا ذکرہے کہ باہمی طور پر باہوش وحواس فیصلہ کرنے کے نتیجہ میں بات فدیہ تک پہنچی تو چونکہ پھر بھی شوہراپنا حق سمجھتاہے کہ دوسری جگہ شادی کرنے میں طلاق کے بعد بھی شوہر کی مرضی چلے تو شوہر کی مرضی چلانے پر اللہ نے پابندی لگادی یہاں تک کہ عورت مرضی سے کسی اور سے نکاح کرلے، پھر132اور 232آیات میں عدت کی تکمیل کے باوجود صلح سے معروف رجوع کی بغیر حلالہ کی لعنت کے اجازت دی۔کچھ تفصیلات صفحہ3پر

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز