پوسٹ تلاش کریں

عدالت نے مزار قائد پر زیادتی کے جرم میں ملوث تین ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔

عدالت نے مزار قائد پر زیادتی کے جرم میں ملوث تین ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ اخبار: نوشتہ دیوار

اب بتاؤ! قائداعظم کے مزار میں زنابالجبر کے جرم میں ملوث تین ملزمان کو عدالت نے باعزت بری کردیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

_ لبیک ،شیخ رشید اور عمران خان _
تحریک طالبان پاکستان نے جب پاک فوج کو شہید کرنا شروع کیا تو اس پر دہشت گردی کاٹھپہ لگ گیا اور تحریک لبیک نے پولیس اہلکاروں کو شہید کرنا شروع کیا ہے تو اس کو بھی دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ جب تحریک طالبان اور حکومت کے مذاکرات ہوتے تھے تو دیوبندی مکتب کے علماء کو استعمال کیا جاتا تھا اور جب تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہیں تو بریلوی مکتب کے علماء ومشائخ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں تحریک طالبان پاکستان نے جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی سے مایوس ہوکر میاں نوازشریف اور عمران خان کو اپنی طرف سے نمائندہ نامزد کیا تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے تحریک طالبان پر خراسان کے دجال والی حدیث فٹ کی تھی اور قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ اگر پاک فوج امریکہ کی مدد کرتی ہے تو اسکے ساتھ جہاد جائز نہیں ہے اور اگر افغان حکومت امریکہ کے بل بوتے پر کھڑی ہے تو اسکے ساتھ جہاد فرض ہے۔ جس پر حکیم اللہ محسود نے کہا تھا کہ” قاضی حسین احمد تمہارا اسلام دھوکہ ہے۔ تم قوم پرست ہو۔ تمہارے ایمان اور اسلام پر ہم کبھی بھروسہ نہیں کریں گے”۔جب دیوبندی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ ” قوم مذہب سے نہیں وطن سے بنتی ہے توپھر علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کی فکر کو ابولہب سے تشبیہ دی تھی۔
آج ریاست پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ ” سندھی ، بلوچ، پشتون، پنجابی، ہندوستانی مہاجر، گلگت وبلتی اورکشمیری ایک قوم پاکستانی ہیں۔ افغانی، ایرانی، عرب اور سوڈانی الگ الگ وطن ،ممالک اور قومیں ہیں”۔ علامہ اقبال نے جس بنیاد پر مولانا حسین احمد مدنی کو ابولہب قرار دیا تھا تو آج وہی نظریہ ہمارے ریاستی اداروں اور حکومت کا ہے۔ علامہ اقبال نے محراب گل افغان کے نام سے محسود اور وزیر کا بھی ذکر کیا ہے اور قوم پرست پشتونوں کا مؤقف یہ ہے کہ ہم افغان ہی ہیں۔ جس طرح ہندوستان اور پاکستان کے پنجابیوں کی قومیت نہیں بدلتی ہے، اسی طرح پختونوں کی افغان قومیت بھی نہیں بدلتی ہے۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس طرح ہندوستان کے پنجابی پاکستانی نہیں ہیں اسی طرح پاکستانی پختون افغان ہیں لیکن افغانی نہیں ہیں ،البتہ افغانستان کے پختون، تاجک اور ازبک وہزارہ وغیرہ سب افغانی ہیں۔
جب عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ کا دروازہ ہیوی مشینوں سے توڑنے کی کوشش کی تھی اورPTVپر قبضہ کیا تھا تو اس وقت ریاست کی رٹ کا کوئی احساس نہیں تھالیکن آج تحریک لبیک کے احتجاج پر پاکستان کے اسلام کا قلعہ ہونے کا احساس ہوگیا ہے؟۔ سیاسی دہشت گردوں کو حکومت ملے اور مذہبی اور قوم پرست دہشت گردوں پر پابندیاں لگیں تو یہ لوگ بھی سیاسی لبادے میں ہی ریاست کی رٹ کا خاتمہ کرکے اپنی من مانی چلانے کی کوشش کرینگے۔
ریاست، سیاست ، صحافت اور اسلام کے نام پر لوگوں سے دھوکہ کرنا چھوڑ دیں تو ملک وقوم میں خوشحالی آئے گی۔ فرقہ واریت کا روگ، لسانیت کاخمار، مفادپرستی کا جھگڑا اور جاہلانہ جذباتیت کا میلہ سب لے ڈوبے گا اورپھر امن وسلامتی ، قانون کی بالادستی، ریاست کی رٹ اور اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا اور معیشت کی تباہی سے بھوک وافلاس کے مارے انسان سب کوبھسم کرینگے۔

_ اسلام کو مفاد کیلئے استعما ل کرنا _
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” جس نے کسی ایک جان کو بغیر جان کے یا فساد کے قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک زندہ کیا تو گویا اس نے تمام انسانیت کو زندہ کردیا”۔ مذہبی لوگوں کا مذہب کے نام پر قتل کی وارداتیں کرنا غنڈوں ، ڈکیتوں اور کرپٹ سیاستدانوں سے بھی بدتر ہیں۔
مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے غنڈوں نے مذہب کا صرف لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ تبلیغی جماعت کا اصل مرکز بستی نظام الدین بھارت میں تھا۔ رائیونڈ پاکستان اس کی سب سے بڑی شاخ تھی۔ جس کا حجم اپنے اصل مرکز کی نسبت بھی بڑا تھا۔ جس طرح رسول اللہ ۖ کے نواسے حضرت حسن پانچویں خلیفہ راشد تھے اور آپ کے مقابلے میں امیرشام حضرت معاویہ کی طاقت زیادہ تھی اور آخر کار حضرت امام حسن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بڑے دو گروہوں میں صلح کروائی، اسی طرح بستی نظام الدین میں مرکزی امیر مولانا سعد ہیں جو مولانا الیاس بانی تبلیغی جماعت کے پڑپوتے ہیں لیکن ان کی حیثیت زیادہ مضبوط نہیں اور دوسری طرف رائیونڈ مرکز کی حیثیت زیادہ طاقتورہے۔
مولانا الیاس کے بیٹے حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی کی وفات سے 3 دن پہلے آخری تقریر ” امت پنا” کے نام سے شائع ہوئی تھی جس میں اُمت کو جوڑنے پر آمادہ کرنے کیلئے زبردست وعظ ہے اور اس میں حضرت سعد بن عبادہ کا بھی ذکر ہے کہ السابقون الاولون صحابہ کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود اسلئے جنات کے ہاتھوں قتل ہوئے کہ وہ امت میں توڑ پیدا کررہے تھے۔
رائیونڈ کے مدرسہ سے فارغ اور کڑمہ جنوبی وزیرستان مدرسہ کے مہتمم محسود ملک دینائی حضرت مولانا شاہ حسین حفظہ اللہ پر محسود تبلیغی کارکن نے فیصل آباد کی مسجد میں اس وقت قاتلانہ حملہ کیا تھا کہ جب مولانا شاہ حسین تبلیغ کی تشکیل میں وقت لگارہے تھے۔اس وقت اگر مولانا نور محمدوزیرشہید ایم این اے رکاوٹ نہ بنتے تو کلہاڑی کے دوسرے وار سے مولانا شاہ حسین کا سر قلم کردیتے۔ طالبان کا اس وقت تک کوئی وجود نہیں تھا۔ محسود مثالی امن والی قوم ہے اور تبلیغی جماعت مثالی پرامن مذہبی جماعت تھی ۔ آج مذہب کے نام پر محسود اور تبلیغی جماعت کی امن پسندی دنیا کے سامنے شرمندۂ تعبیر ہوگئی ہے۔
اگر قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کی حدود میں ایک عورت سے جبری زیادتی ہوجائے اور تین افراد کو عورت پہچان لے اور ان کےDNAسے بھی ان کاجرم ثابت ہوجائے اور پھر بھی اسلامی قانون کے نام پر مجرموں کو باعزت بری کردیا جائے تو ایسے اسلام، ایسی ریاست اور ایسی عدالت کا غریب اچار ڈالے گا؟۔ اسلام ایسا نہیں ہے بلکہ مذہبی طبقات نے اسلام کا نہ صرف حلیہ بگاڑ دیاہے بلکہ اپنے مفادات کیلئے اسلام کو ڈھال بنادیا ہے۔سب سے پہلے مذہبی لوگوں کے رُخ کو قرآن وسنت کے ذریعے درست اسلام کا تصور سمجھنے کی طرف موڑنا ہے۔کرپٹ سسٹم اور بداخلاق وبدکردار لیڈروں کے وارے نیارنے بننے سے کوئی نیک نامی نہیں کماسکتے اور نہ ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاسکتا ہے۔ معاشرے کی ہر چول سیدھاکرنے کی سخت ضرورت ہے اور ہر شخص اپنے ذمے کا کام بہترین طریقے سے کرے گا تو دن دگنی رات چگنی تبدیلی نظر آئے گی اور خوشحالی کے کھیت اور کھلیان سے پھر جلدیہ سرزمین شاد اور آباد ہوجائے گی۔

امیرمعاویہ پر امت کونہ لڑاؤ!
وکیل اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے قاتل، زنابالجبر کے مرتکب اور گھناؤنے کردار کے مؤکل کو بے قصور اور بے داغ کردار کا مالک ثابت کرنا چاہتا ہے تو اپنی مہارت سے ججوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک دیتا ہے اسی طرح جب ایک فرقہ پرست اپنے فرقہ والوں سے اپنی اجرت کھری کرنے کے چکر میں فرقہ واریت کو ہواد یتا ہے توپھر شخصیت سازی اور شخصیت سوزی کرنے میں ایسی مہارت دکھاتا ہے جیسے یہود حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ پر تہمت اور عیسائی ان کو خدا کی خدائی میں شریک کردیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کو عیسائی بھی مانتے ہیں ورنہ قرآن سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر زبردست وار کرتے اور اس واردات سے فرقہ واریت کو خوب ہوا مل جاتی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قوم پرستی کی بنیاد پر غلطی سے قتل ہوگیا جس کی وجہ سے نبوت اور معجزات ملنے کے بعد بھی ڈرہے تھے اور اللہ نے فرمایا کہ ”اس سے پہلے کوئی رسول بھی نہیں ڈرے ہیں لیکن جس سے ظلم سرزد ہوا ہو”۔ اب اگر یہ کہنا شروع کردیں کہ حضرت موسیٰ ظالم،قوم پرست اور ڈرپوک تھے تو اس سے کتنا انتشار پھیلے گا؟۔اور حضرت موسیٰ نے ایک مرتبہ توراة کی تختیوں کو پھینک کر زمین پر ڈالا تو ان پر گستاخی کے فتوے لگائے جائیںتو کیا حال ہوگا؟۔
کچھ اہل تشیع نے اپنامشن ہی توہین آمیز معاملات کو اجاگر کرنا بنالیا ہے جس طرح کچھ ملحدین مذہب کی توہین کو اپنامشن سمجھتے ہیں۔ حضرت امیرمعاویہ سے حضرت سعد بن عبادہ افضل تھے اسلئے کہ اللہ نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے مسلمانوں میں فرق کا اعلان کیا ہے۔ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” کے اندر لکھا ہے کہ بندر اور خنزیر کی شکل میں جہنم کے اندر پھینکے جانے والے حکمران ۔ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں حضرت امیرمعاویہ نے فرمایا کہ حکومت کا مال میرا ذاتی ہے، جس طرح میں خرچ کروں یہ میری مرضی ہے۔ دوسرے جمعے کو پھر یہی اعلان کردیا اور کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسرے جمعے کو پھر یہ اعلان کردیا تو ایک شخص نے کہا کہ غلط بات ہے۔ یہ تیرا مال نہیں ہے اور نہ تیرا اس پر کوئی ذاتی حق ہے۔ یہ بیت المال کا ہے اور مسلمانوں کا اس پر حق ہے۔ جمعہ کے بعد جب حضرت امیرمعاویہ نے اس شخص کو بلایا تو گمان یہ تھا کہ جلاد سے اسکا سرقلم کردیا جائے گا۔ لیکن امیر معاویہ نے اپنے ساتھ اس کو چارپائی پر بٹھایا اور فرمایا کہ اس شخص کا اللہ بھلا کرے۔ میں نے نبیۖ سے یہ سنا تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ حکمران مسنداقتدار پر ہرقسم کی الٹی سیدھی بات کرے گا اور اس کو ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ اس کو جہنم میں بندر اور خنزیر کی شکل میں پھینکا جائے گا۔ مجھے یہ گمان ہواکہ کہیں میرا حال بھی وہی تو نہیں۔ جب پہلے اور دوسرے جمعہ کو جواب نہیں آیاتو یقین ہوا کہ میرا بھی یہی حشر ہوگا۔ اس شخص نے مجھے بچالیا ہے”۔
نبیۖ نے امیرمعاویہ کیلئے ہادی اور مہدی بننے کی دعا فرمائی تو قبول نہیں ہوئی اسلئے کہ پھران کا دور خلافت راشدہ میں شمار ہوتا جیسا عمر بن عبدالعزیز کے دور کو بھی خلافتِ راشدہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے بھی امیرمعاویہ ہی کا ساتھ دیا لیکن منبر ومحراب سے حضرت علی کے خلاف سبّ وشتم کو سپورٹ نہیں کیا اسلئے کہ حضرت علی کے فضائل نے اس کی اجازت نہیں دی۔

_ حکمران بھی خود کو جلدبدل دیں!_
جب عمران خان نے عالمی کرکٹ میچ نہیں جیتا تھا اور اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہار گئے تھے اور سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق شہید نے اپنی جگہ پنجاب سے اسلامی جمہوری اتحاد کے قائد نوازشریف کو مرکز میں اپنی جگہ وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب امیر مولانا حق نوازجھنگوی شہید کی جماعت انجمن سپاہ صحابہ نے جمعیت کو چھوڑ کر اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور مولانا ایثارالحق کی کامیابی جھنگ سے اسلئے ممکن ہوسکی کہ مسلم لیگ کی شیعہ رہنماعابدہ حسین نے اس سیٹ پرتعاون کیا تھا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں کوئی زیادہ تابناک کردار کی حامل نہیں ہیں۔ بس ایک دوسرے کے خلاف الٹی سیدھی باتیں اور اپنے خلاف کچھ بھی برداشت کرنا ان کا وطیرہ نہیں ہے۔ انسان کو اللہ نے کمزور پیدا کیاہے۔ اچھے کرداراور شرافت کا معیار رکھنے والے لوگ برے وقتوں میں ایکدوسرے کے کام آتے ہیں۔
یہ بات کیسے لوگوں کے دل ودماغ میں بٹھائی جاسکتی ہے کہ تحریک لبیک کی طرف سے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا اور عوام کو تکلیف دینا اس وقت صحیح تھا جب عمران خان اور شیخ رشید خود بھی یہی کام کررہے تھے اور اب جب وہ حکومت میں آئے ہیں تو یہ اسلام، انسانیت اور ملک وقوم کے مفاد کے خلاف ہے؟۔ عمران خان کو پاکپتن کے مزار کی راہداری میں سر سجدہ نما اور چوتڑ دغابازی نما بننے کی جگہ عوام کے سامنے میڈیا پر مرغا بننا چاہیے کہ میں نے بھی غلط کیا تھا۔ مزارات کے دشمن طالبان سے یاری کا ازالہ کرنے کیلئے پاکپتن کے مزار پر مرغا بننے سے بہتر یہی تھا کہ پوری قوم سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لیتا۔
جب عمران خان نے جمائما سے شادی کی تو اسلامی پردہ یاد نہیں آیا۔ ریحام خان سے شادی کی تو پردہ یاد نہیں آیا لیکن جب بشریٰ بی بی سے شادی کی تو پردہ یاد آگیا۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ بیوہ کو عدت میں اشارے کنائے سے نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں لیکن طلاق شدہ کو عدت میں دوسرے سے نکاح کا پیغام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے منکوحہ کو شادی کا پیغام دیا اور عدت پوری ہونے سے پہلے نکاح کرلیا تو اس کے خلاف میڈیا نے مہم جوئی نہیں کی اسلئے کہ میڈیا والوں کو کسی نے اُکسانے کی کوشش نہیں کی۔اسلامی احکام، حکومت اور ریاست شکن توپوں کی قیادت سے پاکستان میں اقتدار ملتا ہو تو پھر شریف شہری اپنی جگہ رہیں گے اور بدمعاشوں کے اندر مقابلہ بازی ہوگی۔ قوم صرف یہ دیکھے گی کہ کس نے کس کو پچھاڑ دیا اور گراؤنڈ کے باہر تماشہ دیکھے گی۔ جب بھی الیکشن آتا ہے تو نعرہ لگتا ہے کہ اندھوں میں راجہ یہ قائد ہے۔ حالانکہ یہ دجالوں کی چال ہے۔ ملک وقوم کو جس جانب دھکیلا جارہاہے اس سے واپسی کا راستہ اسلام ہی کا نظام ہے لیکن افسوس کہ اسلام کا مذہبی طبقات نے خود ہی بیڑہ غرق کیا ہواہے۔موجودہ دور کے حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈر وں سے صحافیوں کا مافیا وہ سوالات نہیں کرتا ہے جس سے ان کے غباروں سے ہوا نکل جائے گی اور جب صحافت کا شعبہ بھی اپنے اصل کام کو چھوڑ کر کسی ایک طبقے کی وکالت کرنے اور دوسرے طبقے کی مخالفت کرنے لگ جائے تو اس بے اعتدالی سے عوام کے دل ودماغ کا توازن کبھی درست نہیں ہوسکتا ۔ہمارااخبارکہاں پہنچ سکتا ہے؟۔

مولوی کی منبر سے ایمل ولی پر تنقید
ایک نوجوان عالم دین نے منبر ومحراب سے ایمل ولی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ باچا خان نے کہا تھا کہ میری پہلی شادی میں ڈھول باجے تھے لیکن دوسری شادی کی تو اسلام کے مطابق سادگی سے کروں گا۔ اس میں ڈھول باجے نہیں ہوں گے۔ پختون اور میراثی دو الگ الگ ذاتیں ہیں اور ہمارے کلچر سے ملی ہمیں یہی باتیں ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تم پختون ہو یا ڈم (میراثی) ؟۔ اب باچا خان کا پڑپوتا کہتا ہے کہ میں پختونوں کو رباب سکھاؤں گا۔ اب ان میں اور میراثی میں کیا فرق رہ گیا ہے؟۔ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ میں کسی کا سپوٹر ہوں۔ میری اے این پی، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام سب سے ہمدردیاں ہیں اور کسی سے نفرت نہیں کرتا ہوں۔ امام ابوحنیفہ نے کہا تھا کہ ” موسیقی حرام ہے اور اس سے لذت اٹھانا کفر ہے”۔
ایک نوجوان جذباتی عالم دین کا جذبہ اپنی جگہ پر ہے اور کبھی ہم بھی اس گھاٹی سے گزرے ہیں۔ بہت ہی معذرت کیساتھ باچا خان کے بعد کسی بھی عالم دین ، مفتی، شیخ الحدیث، مفسر اور شیخ القرآن نے ڈھول باجے کی مخالفت کی ہے؟۔ جب شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری کی نواسی پہلی خاتون لیفٹینٹ جنرل نگار کو پنج پیر صوابی میں ڈھول کی تھاپ اور ڈانس کی چھاپ پرلے جایا جارہاتھا تو کبھی سوچا کہ تمہاراپختون کلچر اور ملائیت کا جنازہ نکل گیا ہے؟۔ کبھی علماء ومفتیان نے کوئی فتویٰ دیا ہے اور اس پر کوئی تنقید کرنے کا حق ادا کیا ہے؟۔
ہمارے ایک دوست نے کہا تھا کہ اوچ دیر کے مولانا غلام اللہ حقانی پختون ہیں ملا نہیں ہیں۔ جس پر میں نے پوچھا کہ کیا ملا پختون نہیں ہوتے؟ تو کہنے لگا کہ نہیں ، ملا کسب گر قوم ہے یہ پختون نہیں ہیں۔ پہلے ترکھان، لوہار، میراثی، نائی،موچی اور ملا وغیرہ کو فصل کی آمد پراپنا معاوضہ دیا جاتاتھا۔ ملا کا کام مردے نہلانا اور مسجد کو آباد کرنا ہوتا تھا۔جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء ہند، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور کانگریس کے مولانا ابوالکلام آزادکی سیاست کو پاکستان میں زندہ رکھا۔ مفتی ولی بھائی بھائی کے بھی نعرے لگے ہیںاور پیپلزپارٹی والوں نے دونوں بھائی سکھ عیسائی کے نعرے بھی لگوائے ہیں۔ مرکزی جمعیت علماء اسلام نے اس جمعیت علماء اسلام کو ذوالفقار علی بھٹو اور کیمونسٹوں پر کفر کا فتویٰ نہ لگانے کی وجہ سے کفر کے فتوے بھی لگائے۔
جمعیت علماء اسلام کے اعتدال کی وجہ سے مذہبی طبقہ اپناتوازن برقرار رکھتا ہے لیکن جب یہ طبقہ سیاست سے کٹ جاتا ہے تو پھر منبر ومحراب سے فتوے لگانا شروع کردیتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے کہ ”موسیقی حرام ہے اور اس سے لذت اٹھانا کفر ہے”۔یہ قول شاید اسلئے نقل کیا جاتا تھا کہ مولوی حضرات نکاح پڑھاتے وقت اپنی فیس کھری کرلیتے تھے اور کہتے ہوں گے کہ ”ہم مجبوری کے طور پر شادیوں میں موسیقی سن لیتے ہیں مگر اس سے لذت حاصل نہیں کرتے”۔
ہم نے1990ء میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تحریک کا آغاز کیا تھا جس میں نبیۖ کے آخری خطبے کے کچھ جملے تھے اور منکرات کے خلاف جملے تھے۔مسلمانو ! خبردار ظلم نہ کرنا ، …مسلمانو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری جان ایکدوسرے کیلئے حرمت والی ہیں۔ جاندار کی تصویر جائز نہیں ،جاندار کی تصویر کو مٹادو۔ پردہ کرنا فرض ہے، شریعت کے مطابق پردہ کرو۔داڑھی منڈانا جائز نہیں شریعت کے مطابق داڑھی رکھو۔ گانا بجانا حرام ہے ،گانا مت بجاؤ۔ نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج بیت اللہ کی علمی اور عملی ذمہ داری پوری کرو۔جہاد کرنا فرض ہے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اللہ اور اسکے رسول ۖ کے حکموں میںوہ طاقت ہے کہ جس کے ذریعے کمزور سے کمزور تر جماعت بھی فاتح عالم بن سکتی ہے۔

بدقسمتی سے ایمل باچا خان کا پڑپوتا!
سلیم صافی نے باچا خان کے پڑپوتے ایمل ولی خان سے انٹرویو لیاہے۔ پہلے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ! اسفندیار ولی تندرست ہوتے اور آج میں اس سے انٹرویو لیتا لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ ایمل ولی خان سے مجھے وقت مل گیا ہے۔ پھر ایمل ولی خان سے پوچھا کہ آج ایک پختون عمران خان کی حکومت ہے۔ کیا آپ عمران خان اور نیازی قوم کو پختون نہیں مانتے؟۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ میرے خیال میں وہ پختون نہیں ہیں۔ میرے خیال میں ہر پختون افغان ہوتا ہے اور وہ افغان نہیں ہیں۔ ( نیازی قبیلہ افغانستان میں بھی ہے اور نیازی خود کو نیازی پٹھان کہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی کہا تھا کہ میں یوسفزئی پٹھان ہوں، نسل کی بنیادآباء واجداد سے چلتی ہے لیکن کلچر بھی اہم ہوتا ہے۔ نبیۖ حضرت ابراہیم کی اولاد سے تھے اور ابراہیم عجم تھے مگر نبیۖ کی وجہ سے عرب بن گئے، البتہ نسل تبدیل نہیں ہوئی۔ عرب عاربہ اصل عرب تھے اور عرب مستعاربہ جو بعد میں عرب بن گئے تھے، خالد بن ولید بنی اسرائیل تھے اور نسلاً پختون قبائل سے وہ ایک تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے بعض لوگ ان کو پختون بھی قرار دیتے ہیں ، نسلی یکانگت کی وجہ سے پختون قبائل کو فتح مکہ کیلئے بلایا تھا اور پھر جب بعض عرب قبائل پر فتح مکہ کے دوران مظالم کئے تھے تو نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ اے اللہ ! گواہ رہنا میں خالد کے فعل سے بری ہوں)
ایمل ولی خان سے سلیم صافی نے پوچھا کہ پرویز خٹک کیا پختون نہیں؟ علی محمد خان، مراد سعید اور اسد قیصر پختون نہیں ہیں؟ ۔ تو ایمل ولی خان نے کہا کہ بدقسمتی سے وہ پختون ہیں۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ طالبان اور ملا عمر پختون نہیں ، صوفی محمد اور ملا فضل اللہ پختون نہیں۔ تو ایمل ولی خان یہی کہتا کہ ان لوگوں کو پختون نہیں کوئی اور ہی لایا ہے۔ جیسے تحریک انصاف کو کوئی اور لایا ہے۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب مفتی محمود کو خیبر پختونخواہ کا وزیراعلی بنوایاتھا تو اس وقت عطاء اللہ مینگل کو تم نے کیوں حکومت دلائی تھی؟۔ ایک طرف بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کا ہولڈ ہوتا جن میں پختونوں کی اکثریت تھی تودوسری طرف خیبر پختونخواہ میں مفتی محمود کی جگہ ولی خان اور تمہاری پارٹی کے پاس اقتدار ہوتا؟۔ پشاور کے شہریوں میں تمہاری پارٹی کے بڑے رہنمابھی پختون نہیں تھے جن کوپختوزبان ٹھیک سے نہیں آتی تھی۔ حاجی عدیل خان اور بلور خاندان کو کبھی اقتدار میں لاتے ۔ جب وزیراعلیٰ سرحد کیلئے امیر حیدر خان ہوتی اہل ہوسکتے تھے تو کیا بشیر بلور شہید اس کی اہلیت نہیں رکھتے تھے؟۔ بنگال کے مولاناعبدالحمید بھاشانی سے پنجابی حبیب جالب اور بلوچستان کے بابائے جمہوریت میربخش بزنجو تک کتنے بڑے بڑے لوگ تمہارے ساتھ تھے؟۔ جنرل ایوب خان پختون تھے مگر تم نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ان تضادات نے ہی آپ لوگوں کی جماعت کو ختم کرکے رکھ دیا کہ کبھی پختون بن جاتے ہیں تو نظریہ نہیں مانتے اور کبھی نظریاتی بن جاتے ہیں تو پختون کو نہیں مانتے۔مرکز میںPDMمیں شامل تھے اور بلوچستان میں باپ پارٹی کی حکومت میں شریک تھے۔ افغانستان کا دعویٰ صرف اٹک تک نہیں بلکہ میانوالی تک بھی ہے۔ متنازعہ ڈیورنڈ لائن ختم ہوجائے توپھر نیازیوں کو پٹھان ہی ماننے میں پختونوں کا زیادہ فائدہ ہے۔ بلوچ قوم پرست ڈیرہ غازی خان تک راجن پور اور جام پور سے اسلئے دستبردار نہیں ہوتے ہیں کہ ان بلوچوں نے آج سرائیکی زبان اور کلچر اپنالیا ہے۔ اے این پی کی قیادت متذبذب ہے اور تذبذب کی وجہ سے اسفندیار ولی اور اب ایمل ولی کی بات میرے خیال میں بدقسمتی تک محدود ہوگئی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کا باچا خان کی نسل سے ہونا بدقسمتی ہے۔

مذہبی دنگل سے قوم پرستی کے جنگل تک
پختونوں نے مذہبی بنیاد پر اپنی امن وسلامتی کو داؤ پر لگادیا اور بلوچوں نے قوم پرستی کی بنیاد پر اپنی بلوچ قوم کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا؟۔ تربت مکران سے لائی ہوئی لاشوں کو بلوچ خواتین نے کندھا دیا ہوا تھا اور مرد بھی شریک تھے لیکن کیا بلوچوں کے آباء واجداد نے یہ سوچا تھا کہ ایسا دن بھی دیکھنا پڑے گا؟۔ ڈیرہ اسماعیل خان قریشی موڑ پر ایک محسود خاتون کو پہلی مرتبہ اپنی بیمار بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کیلئے بس میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بہت افسوس ہوا۔PTMکے منظور پشتین اور نئی جمہوری جماعت کے سربراہ محسن داوڑ پشتونوں پر صرف سیاسی دکان چمکا سکتے ہیں یا قوم کی عزت وننگ اور غیرت وحمیت کا پاس بھی رکھ سکتے ہیں؟۔ ایک طرف قوم پرستوں نے قوم پرستی کے نام سے اپنی قوم کو تباہ کردیا ہے تو دوسری طرف فرقہ پرستوں نے مذہب کے نام پر لوگوں کو جس تباہی کے کنارے پہنچادیا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ تیسری طرف حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کے گفتاراور کردار نے تنزلی کی انتہاء کردی ہے اور چوتھی طرف صحافیوں نے صحافت کی ناک کٹا دی ہے۔ پانچویں طرف ریاست کے ذمہ داروں نے خود غرضی کو اپنی انتہاء پر پہنچادیا ہے۔ چھٹی طرف اللہ اگر آسمان سے کوئی رحم وکرم کردے تو زمینی حقائق اور معروضی حالات بدلے جاسکتے ہیں۔ اللہ کا ایسا دروازہ ہے کہ اس کو بجایا نہیں جاسکتا ہے لیکن وہ سنتا ہے اور پکارنے والے کو جواب بھی دیتا ہے۔ جب ایک شخص نے قریشی موڑ ڈیرہ پر محسود لڑکوں کو بھٹے بیچتے دیکھا تو خوشی محسوس کی کہ ایک غیرتمند قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہے مگر جب محسود بھکاری خاتون کو بھیک مانگتے دیکھا تو دل ہی دل میں دکھ کا اظہار کیا کہ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے؟۔ اور پھر چندہزار روپے میں سے ایک ہزار کا نوٹ اس بھکارن خاتون کو تھمادیا۔ جس پر خاتون نے محسودی پشتو میں دعائیں دینا شروع کردیں لیکن سفر میں دعاؤں کی ضرورت اور خوشی کیساتھ ساتھ اس کے دل میں مزید دکھ بھی بڑھ گیا، اسلئے کہ محسودی پشتو میں ایک خاتون کی زبان سے نکلنے والی دعائیں ایک طرف عرش تک پہنچتی دکھائی دے رہی تھیں تو دوسری طرف ایک قومی غیرت کا مسئلہ تھا کہ ایک خاتون بھری بس میں اس طرح بول رہی ہیں۔ اگر شروع میں پوری محسودقوم طالبان کیساتھ کھڑی نہیں تھی تو کسی نے ان کو مجبور بھی نہیں کیا تھا لیکن جب ہواؤں کے رُخ پر پوری قوم نے طالبان کا ساتھ دیا تو پھر پاک فوج نے ان کو بار بار ہجرت پر بھی مجبور کیا ہے لیکن جنوبی وزیرستان وزیر ایریا میں پاک فوج نے کبھی ہجرت پر لوگوں کو مجبور نہیں کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وزیروں کے مقابلے میں محسود بہت زیادہ خستہ حال ہیں ۔
اب مذہب کی چنگاریاں دب کر ختم ہوگئیں ہیں لیکن قوم پرستی کی نئی فضاؤں سے نمٹنے کیلئے شاید کوئی نئی ترکیب بنے گی۔ بین الاقوامی سازشوں کے تحت بڑا کچھ ہوتا ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے والے اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں اور یہ ریاست اور عوام دونوں طرف سے اپنا اپنا کام دکھاتے ہیں اور اپنی قوم کو کھڈے لائن لگادیتے ہیں۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تخریب کاری کو ہوادیدی جاتی ہے اور کرکٹ کے کھیل کی طرح لوگ فتنوں کا شکار بن جاتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی میلاد النبیۖ کے جلسے جلوس اور خوشی منانے کو بدعت کہتے ہیں لیکن شیخ الاسلامی کے عہدے سے سود کو جواز فراہم کرنے تک کسی چیز کو اس طرح سے بدعت قرار نہیں دیتے۔ یہ سب فرقہ واریت کی بیماری ہے اور دوسری طرف میلادالنبی کیلئے طائفہ عورت کو پیسے دیکر حور بناکر پیش کیا جاتا ہے اور کسی کو شیطان بناکر ناچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پوری قوم اور ملت اسلامیہ کو اپنے اقدار کی طرف واپس آنے کی ضرورت ہے اور اصلاحِ حال بہت ضروری ہے۔

بہت نازک موڑ پرکھڑاہواپاکستان
ایک طرف حکمران نالائق ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن ان سے بھی بہت گئے گزرے ہوئے۔ جبPDMسے پاکستان پیپلزپارٹی کو باہر نکالا گیا تھا تو ہم نے نشاندہی کی تھی کہ اصل یہ نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی نے باپ سے ووٹ لیا تھا بلکہ اصل مسئلہ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کو گرنے کا خطرہ تھا اور اس سے بچانے کیلئے پیپلزپارٹی کوPDMسے باہر کیا گیا تھا۔ آج سب ہی کو اس حقیقت کا پتہ چل گیا ہے کہ پیپلزپارٹی اورPDMکی دوسری جماعتوں میں اتنا فاصلہ نہیں تھا جتنا ن لیگ اور ش لیگ میں نظر آرہا تھا اور ن لیگ اور ش لیگ بظاہر مخالف مگر اندر سے ایک ہیں۔ جب پیپلزپارٹی نے مذہبی کارڈ کھیل کر اسمبلی میں قادیانی کو کافر قرار دینے میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور پھر جب ن لیگ کی طرف سے حلف نامے میں اسمبلی کے اندر تبدیلی کی سازش ہوئی تو پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام سب ساتھ میں تھے۔ جس کی وجہ سے پھر تحریک لبیک میدان میں نکلی تھی اور ن لیگ نے اپنے ذمہ دار وزیر زاہد حامد کو بھی فارغ کردیا تھا۔ طاہرالقادری پیپلزپارٹی کے دور میں آیا تھا تو شہبازشریف نے پنجاب سے بہت لاڈ کیساتھ اسلام آباد بھیج دیا۔ قمر زمان کائرہ نے طاہر القادری کی نقل اتار کر اس کا سارا پانی اتار دیا تھا اور پھر رسم قل کیلئے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ پھر نوازشریف کے دور میں طاہرالقادری دھرنا دینے پہنچ رہا تھا تو اس کے مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور میں14افراد شہید کردئیے گئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فسٹ کزن کی حکومت میں طاہرالقادری کیوں نہیں آرہاہے؟۔ کیا طاہرالقادری کے ناک کے پانی کی طرح اب شہداء کا خون بھی سوکھ گیا ہے؟۔
تحریک انصاف نے طالبان کی طرح تحریک لبیک کو بھی سپورٹ کیا تھا اور اس مرتبہ سرکاری سطح پر میلاد النبی ۖ کا بھی اہتمام کیا لیکن تحریک لبیک کیساتھ وعدے پورے نہیں کئے۔ کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر فرانس کے سفیر کو نکالنے کے حوالے سے قرار داد پیش کی گئی تو ن لیگ ،جمعیت علماء اسلام اور پیپلزپارٹی کے لوگ اس کو سپورٹ کرکے پاس بھی کرسکتے ہیں۔ ہماری جمہوریت بھی تو ایسی ہی ہے کہ جب نہیں بھی چاہتی ہے تو آرمی چیف کی ایکس ٹینشن کیلئے حرکت کرلیتی ہے اور جب چاہتی ہے تو جمہوری حکومت کو خراب کرنے کیلئے فرانس کے سفیر کو بھی نکالتی ہے۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان، عراق اور لیبیا میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کررکھا تھا تو ہماری حکومتوں اور اپوزیشنوں کو اسمبلیوں میں ایک قرارداد لانے کی بھی توفیق نہیں ملی۔ چاہے مسترد ہوتی لیکن کسی نے جرأت نہیں کی تھی۔ اور اگر کوئی قرار داد لائی جاتی تو باور یہ ہے کہ سب اس کومتفقہ طور پر منظور کرتے۔
امریکہ نے افغانستان میں کیا نہیں کیا؟۔ بوڑھے مردقیدیوں کیساتھ جنسی تشدد کرکے بھی بے غیرتی کی انتہاء کردی ۔BBCنے جرأت کرلی مگر ہمارے ہاں عوام کو دھوکہ میں رکھا گیا اور یہ کسی حد تک اچھا بھی تھا اسلئے کہ پھر ہمارے وہ غازی چلے ہوئے کارتوس کی جگہ چھدے ہوئے کارتوس کہلاتے۔ اگر امریکہ کی یہی شکست ہے تو پھر بار بار ایسی جنگ اور شکست کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارا میڈیا اس قدر بٹاہوا، دبا ہوا اوربکا ہوا ہے کہ حقائق کسی طرح سے سامنے نہیں لاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں مولانا فضل الرحمن نے کہاتھا کہ طالبان مارگلہ کے پہاڑ تک پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے قائدین اس کو امریکی ایجنٹ کہتے تھے۔ پھر ن لیگ کے دور میں فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن کئے تو ن لیگ اس پر آمادہ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی دہشت گردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتی ہے۔
سیاست ، ریاست اور صحافت اب منافقت کی دہلیز سے نکل کر بے شرمی کی جسارت پر کھڑی ہیں اور اس سے چھٹکارا پانے کیلئے علم وشعور کی ضرورت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز