the eligibility criteria of beard and Gown Jubba In our religious institutions (Madaris) allows characters like Mufti Aziz-Ur-Rehman and Sabir Shah to be the Imam of mosque.
جولائی 13, 2021
ابن عربی ، مفتی عزیز الرحمن، maqam e mahmood, dr habibullah mukhtar, dr abdullah nasih ulwan
طرز نبوت کی خلافت کے قیام کی پیشگوئیاں احادیث صحیحہ کی روشنی میں اور علماء و عوام کی غلط فہمیاں دور کرنے کا ایک علمی اور عالمی میزان
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ قیامت تک امام قریش میں سے ہونگے، خواہ دو باقی رہ جائیں”۔سعودی عرب (saudi arab)کے حکمرانوں کو کب اور کس نے بادشاہت کے منصب پر فائز کردیا ؟۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔عام حکمرانوں کیلئے قریش کی شرط نہیں اور عثمانی ترک حکمران بھی قریشی نہ تھے تو سعودی بادشاہوں کے غیر قریشی ہونے میں بھی حرج نہیں۔
سعودی فرمانرواشاہ سلمان (shahsalman)نے بیان دیا کہ بہت سی احادیث من گھڑت ہیں۔ عالمی کانفرنس منعقد کی جائے کہ کونسی احادیث صحیح یا غلط ہیں؟ ۔ معروف مصنف عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”تربیت اولاد” کتب خانوں میں ہے لیکن شباب مسلم ”مسلمان نوجوان” غائب ہے۔ جس کا ترجمہ کرنے والے ہمارے استاذڈاکٹر حبیب اللہ مختارشہید(habibullah mukhtar principle jama binori town) پرنسپل جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کو قتل کرکے ان کی لاش کو بھی پڑول چھڑک کر جلادیا گیا تھا۔
”مسلمان نوجوان” میں اہم باتیں تھیں۔ یہ حدیث تھی کہ ”نبوت ورحمت کے بعد خلافت راشدہ کا دور آئیگا۔ پھر امارت کا دور آئیگا ۔ پھر بادشاہت کا دور آئیگا ۔ پھر جبری حکومتوں کا دور آئیگا۔ پھراسکے بعد دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کا دور آئیگا ،جس سے زمین وآسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے”۔خلفاء راشدین ،پھر بنوامیہ و عباس کی امارت پھر خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کا دور تھا ۔ (1924 )سے جبری حکومتوں کا دور شروع ہوا ۔اور اب خلافت علی منہاج النبوة کے دور کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان نے یہ حدیث لکھ دی اور شاہ سلمان نے کچھ احادیث سے انکار کردیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی(molana abukalam azad molana modudi)نے احادیث کی بنیاد پر طرز نبوت کی خلافت کے دور کا لکھ دیا اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی (molana yousuf ludhyanvi)نے ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور مفتی نظام الدین شامزئی نے ”عقیدہ ظہور مہدی”(aqeeda zahoor mehdi) میں یہی احادیث درج کیں۔ مولانامحمد یوسف لدھیانوی اور مفتی نظام الدین شامزئی کو شہید کردیا گیا ۔آج عرب کی ویڈیوزخوابوں سے بھری ہوئی ہیں کہ اس سال حج میں امام مہدی کا ظہور ہوگا اور بعض عرب علماء نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے اس خوف کی وجہ سے امسال حج میں دوسرے لوگوں کی آمد پر پابندی لگائی ہے۔
داعش دولت اسلامیہ عراق وشام پرحامد میر نے بہت بڑا انکشاف کیا کہ ”ابوبکر البغدادی (abubakar albaghdadi)کوئی امریکن یہودی تھا”۔ داعش حدود سے نکل کر افغانستان پہنچ چکی ہے۔ دہشت گردانہ کاروائی کا کھل اعتراف کرتی ہے اور اسکے پیچھے امریکہ کا کھلم کھلا ہاتھ بتایا جاتاہے۔ پیسوں کی بدولت کسی ریاست،جماعت ، قوم اور فرد سے جو کام بھی لو ،وہ ہوسکتا ہے ۔ اگر صابر شاہ امتحان میں پاس کرنے کی لالچ پر مفتی عزیز الرحمن (mufti azizurrehman)کے ہاتھوں استعمال ہوسکتا ہے تو پیسوں کی لالچ میں بھی ایسے اور اس سے کہیں زیادہ بہت برے کام انجام دئیے جارہے ہیں۔
صحیح حدیث میں ہے کہ امام قریش میں سے ہونگے لیکن خلافت عثمانیہ والے قریش نہیں تھے۔ بنوامیہ اور بنوعباس قریش تھے لیکن ان کو بھی خاندانی بنیادوں پر خلافت پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ افغانستان میں طالبان اپنے آپ کو ایک جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرائیں اور اپنے دستور کے تحت جمہوری بنیاد پر عوام سے ووٹ لیکراقتدار کی دہلیز تک پہنچیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت پیسوں اور لال کرتی(lal kurti) کا کردار ادا کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے بالکل یرغمال ہے۔ پرویز خٹک نے دوسری سیاسی پارٹیوں سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیارکی اور اس کا پورا ٹبر اسمبلیوں میں ہے ۔ تبدیلی سرکار نے خود کو ہی بدل دیا ہے۔ اسلام کے کچھ ٹھوس احکامات ہیں جن کی بدولت نہ صرف پاکستان، افغانستان اور ایران میں تبدیلی آسکتی ہے بلکہ پوری دنیا کے ماحول کو جمہوری بنیادوں پر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا کام دوسروں کے ممالک، وسائل ، افراد اور اقدار پر قبضہ کرنا نہیں ۔ جب دین میں زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے تو باقی چیزوں میں زبردستی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے اور اللہ نے انسانوں کو مختلف تہذیب وتمدن، زبانوں ، خطوں اور مذاہب کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے،اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی جماعت بناسکتا تھا۔ حضرت آدم کی اولاد میں پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی، مہاجر، انصار ،رشین ،انگریز، جرمن، فرانسیسی،اٹالین،آسٹریلین ،فارسی،ہندی اورعرب وعجم نہیں تھے لیکن قابیل اور ہابیل میں کردار کی وجہ سے زمین وآسمان کا فرق ضرور تھا۔
قرآن نے کردار اور نیک وبد کے اعتبار سے لوگوں کو دوقسم میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” ہم نے امانت کو زمین ، آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن بارِ امانت کو اٹھانے سے سب نے انکار کردیا اور انسان نے اٹھالیا اور یہ بڑا ظالم اور انتہائی جاہل تھا”۔ اللہ نے انسان کو مکلف بنایا ہے۔ عرب تکلیف اذیت کو نہیں بلکہ ”اختیاری طاقت” کو کہتے ہیں۔ سورۂ بقرہ کے آخر میں ہے کہ ( لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا…. ربنا ولاتحملنا ما لا طاقة لنا ” )اللہ کسی جان کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی وسعت کے مطابق…… اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہیں لاد،جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے”۔ قرآن کا اردو ترجمہ دیکھ لیا جائے تو بڑے معروف علماء نے قرآن کے ترجمے کی بیخ کنی کی ہے۔ جب اللہ نے واضح کیا ہو کہ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ” اے ہمارے رب! طاقت سے زیادہ بوجھ ہم پر نہ ڈال ”۔ قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ہندی زبان والوں نے عربی زبان کو سمجھنے میں زبردست غلطی کی ہے۔ مکلف انسان ہوتا ہے جانور کو مکلف نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انسان سے اس کی وسعت کے مطابق پوچھ گچھ ہوگی اور ایک شخص اپنے گھر میں اختیار کا مالک نہیں تو اس سے اپنی جان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس طرح گھر، محلہ، علاقہ، ملک اور دنیا میں جتنے اختیار کا وہ مالک ہوگا وہ اتنا مکلف ہے۔ اپنی وسعت کے مطابق مکلف ہونے کا یہ مطلب ہے اور جہاں تک طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کا تعلق ہے تو وہ گدھے پر پڑسکتا ہے اور انسان پر بھی پڑسکتا ہے۔ اسلئے جب وہ بوجھ برداشت نہیں کرتا ہے بہت مشکل میں پڑجاتا ہے۔ جس سے بچنے کیلئے اللہ نے وہیں پر دعا سکھائی ہے
انسان میں فطری طور پر یہ کمزوری موجود ہے کہ وہ اپنے اختیارت کی بہت وسعت مانگتا ہے جبکہ زمین وآسمان اور پہاڑ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں اور اسی وجہ سے انسان کو ظلوماً جہولاً بھی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ ”انسان شر کیلئے ایسی دعا مانگتا ہے کہ جیسے وہ خیر مانگ رہا ہو”۔ اس میں انسان کا اختیارات مانگنے کی حرص کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جب تمہارے ذمہ لوگوں کو عدل دینا لگ جائے تو پھر انصاف کیساتھ فیصلہ کرو”۔ آج پاکستان میں کروڑوں لوگ بھوک، افلاس، بیماری، ناانصافی اور ہزار طرح کی محرومیوں سے دوچار ہیں لیکن جب کسی کو آرمی چیف، وزیراعظم یا کوئی بھی بااختیار منصب پیش کیا جائے تو وہ لپک کر قبول کرے گا لیکن یہ نہیں سوچے گا کہ حساب دینا پڑے گا تو کیا حال بنے گا؟۔ یہی اس کی ظلمت اور جہالت قرآن میں واضح کی گئی ہے۔
جب دنیا میں عالمی اسلامی خلافت قائم(aalmi islami khilafat) ہوگی تو امام مہدی (imam mehdi)اس بارِ امانت کے اٹھانے کیلئے اپنے دل اور ذہن سے تیار بھی نہیں ہوگا لیکن مجبوراً منصب پر بیٹھنا قبول کرے گا۔ اس کا کام اختیارات سمیٹنا نہیں ہوگا بلکہ جن لوگوں کی عمل داری ہوگی ان سے روپے میں سولہ آنے ڈیوٹی لینی ہوگی۔ جب لوگ اپنے فرائض کی ذمہ داری پوری کرینگے تو سب کو عدل وانصاف بھی ملے گا۔ گھر، محلے ، گاؤں، شہر اور ملک سے لیکر بین لاقوامی سطح تک عدل وانصاف فراہم ہوگا تو سب کے سب انسان خوش ہونگے۔قرآن میں قیامت سے پہلے ایک بڑے انقلاب کی بہت زبردست خبر متعدد مرتبہ موجود ہے۔ حجاز میں مکہ سے مدینہ تک کے لوگ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان ایک دن روم وفارس ، ہندوسندھ ، بخاراوسمر قند، کاشغر ونیل اور اسپین تک اقتدار کے مالک ہوںگے اور دنیا کو بادشاہت کے مظالم سے نجات دلائیںگے لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ روشن اسلام نے پوری دنیا کے گھپ اندھیرے کو بدل دیا۔ امریکہ و اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے بھی نمرود وفرعون اور تاریخ کے ظالم ترین بادشاہوں سے زیادہ بڑے مظالم کئے مگر مسلمانوں کی عالمی خلافت قائم ہوگی تو دنیا میں کسی ایک انسان پر ظلم وجور تو بہت دور کی بات ہے قہروجبر بھی نہیں ہوگا کیونکہ رحمت للعالمینۖ کی یہ تعلیم ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا انورشاہ کشمیری(molana anwar shah kashmiri) نے لکھ دیا کہ ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لیکن لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو مغالطے کی وجہ سے یا پھر جان بوجھ کر انہوں نے ایسا کیا ”۔ (فیض الباری شرح بخاری)
مولانا عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے اکوڑہ خٹک کے مفتی فرید کو اس عبارت پر خط لکھ دیا مگراس نے تسلی بخش جواب نہیں دیاجو فتاویٰ دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہوا ہے۔ قرآن میں لفظی تحریف کا عقیدہ کفرہے مگر ہمارا مولوی اپنوں کی تأویل اور دوسروں کی تکفیر میں بڑا تیز ہے۔بریلوی مکتبہ فکرکے علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے فیض الباری کی اس عبارت پر حوالہ دئیے بغیرفتویٰ لے لیا تو اس پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیاگیا ہے ۔
مولوی کے نصابِ تعلیم درس نظامی میں اصولِ فقہ اور احادیث وتفسیر کی کتب میں یہ کفریہ عقیدہ بہت شد ومد کیساتھ پڑھایا جاتا ہے لیکن جس دن مولوی طبقے کا بستر گول کرنے اور ان کے مذہبی وتجارتی مراکز مدارس کو ختم کرنے کا وقت آن پہنچے گا تو عوام میں ان کے علم وکردار کو آخری حد تک ننگا کیا جائے گا۔ صحافی حسن نثار(hasan nisar) جیسے لوگ علماء کے خلاف خوامخواہ بھونکتے ہیں۔ پاکستان علی گڑھ کا تحفہ ہے۔ اگر مسلمان پسماندہ ہیں تو علماء کی وجہ سے نہیں بلکہ جدید تعلیمی اداروں میں حسن نثار جیسے بھانڈ پیدا کرنے کی وجہ سے ہے۔ البتہ مولوی اپنے نصابِ تعلیم کی وجہ سے مار کھا رہاہے۔ اوریا مقبول جان(oriamaqbooljan ) جیسے لوگ طالبان اور تحریک لبیک کی پشت پناہی سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ مدارس نے اپنے نصاب کی اصلاح نہیں کی تو مذہبی طبقات اپنے نصاب کی وجہ سے مار کھاتے رہیںگے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اوریا مقبول جان اور حسن نثار جیسے لکھاریوں اور بھانڈوں کی وجہ سے مار کھاتے رہیںگے۔ مذہبی طبقات نے اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے نصاب کو ٹھیک نہیں کیا تو یہ ہمیشہ کی طرح ہرباطل نظام کے لے پالک رہیں گے اور جدید تعلیم کا نظام درست نہیں کیا گیا تو امت مسلمہ جاہلوں کے ہاتھوں ہمیشہ استعمال ہوتی رہے گی۔ عمران خان جیسا کھلاڑی بھی فیلسوف اور صوفی بنا پھرتا ہے۔اور ہماری ریاست ، نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقوں کے دلوں پر راج کرتا ہے اس سے بڑی پسماندگی کی دلیل اورکیا ہوسکتی ہے؟۔
the eligibility criteria of beard and Gown Jubba In our religious institutions (Madaris) allows characters like Mufti Aziz-Ur-Rehman and Sabir Shah to be the Imam of mosque.
ہمارے مذہبی مدارس میں جبہ اور داڑھی رکھنے کے بعد مفتی عزیزالرحمن اور صابرشاہ جیسے کردار بھی مسجد کی امامت کے قابل سمجھے جاتے ہیں
Though our country is already declared in Grey list but internally our position and status is worse than Black list.
ہمارا ملک گرے لسٹ میں ہے تو اندورنِ خانہ ہماری حالت بلیک لسٹ سے بدتر ہے۔
مفتی عزیز الرحمن کا سکینڈل تازہ تھا، علی محمد خان(ali muhammad khan pti) نے قومی اسمبلی میں خاتون رکن کے مقابلے میں ” دل کرتا ہے اور زلفوں ” کی بات چھیڑ دی۔ قادر پٹیل کی مراد سعید کے خلاف آواز کی گونج ہے کہ” وہ بڑی مشقت کرکے اسمبلی میں آیا ہے اور خدا ایسی مشقت کسی سے نہ کرائے”۔ شیخ رشید کا بلاول بھٹو کو بلو رانی کہنے سے سیاسی قیادت کے ضمیر وخمیر کا اندازہ لگائیں۔ کسی مدرسہ کے شیخ الحدیث کیلئے آئین کی شق62،63نہیںلیکن پارلیمنٹ کیلئے ہے۔
ہمارے مذہبی مدارس میں جبہ اور داڑھی رکھنے کے بعد مفتی عزیزالرحمن اور صابرشاہ جیسے کردار بھی مسجد کی امامت کے قابل سمجھے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کی نمائندگی اور قیادت کیلئے شیخ رشید، مراد سعید ، نوازشریف اور عمران خان جیسے بھی باکردار اور صادق و امین بن جاتے ہیں۔ کیا پھر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوئی امید رکھی جاسکتی ہے؟۔ اگر ہماری ریاست کو جنرل ایوب خان سے لیکر پرویزمشرف(parvaiz musharraf) تک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا ہے تو اسکی وجہ یہی ہے کہ ہماری ریاست نے بھی سیاسی قومی قیادت کو ہمیشہ ٹشوپیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ بیرون ممالک کیلئے ہمارا ملک گرے لسٹ میں ہے تو اندورنِ خانہ ہماری حالت بلیک لسٹ سے بدتر ہے۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا قوم پرست علی وزیر پاکستان سے قومی اسمبلی کی حالیہ تقریر میںجس جذبے کیساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اسکی مثال ہماری اسمبلی کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اسٹیبلیشمنٹ(establishment) کو چاہیے کہ عدالتوں سے اس کو فوری طور پر غیرمشروط رہائی کا پروانہ جاری کرنے کی تلقین کردے۔ (PTI)کے سینٹر دوست محمد محسود نے حق بجانب لیکن قوم پرستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوم پرستوں،سیاست پرستوں اور مذہب پرستوں میں قدرمشترک یہی ہے کہ سبھی قوم، ملک اور اسلام کا بھلا چاہتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں الیکشن و سیاسی معاملات پر اصلاحات کی بات ہوتی ہے لیکن مذہب کے حوالے سے حقائق اجاگر کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرتا ہے۔ پشاور میں اہلحدیث اور پنج پیری مسلکوں کا طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر مناظرہ حکومت کی انتظامیہ نے روک دیا۔ دونوں مسلک عقائد اور اصولِ دین میں ایکدوسرے کی قربت کا احساس رکھنے کے باوجود سوشل میڈیا پر ایکدوسرے کیخلاف مغلظات بک رہے تھے۔ دونوں قرآن وسنت کے دعویدار ہیں۔ پنج پیری قرآن وسنت اور حنفی مسلک پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اہل حدیث احادیث پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اگر ان دونوں کو ٹھنڈے دل وجگر سے سمجھایا جائے تو قرآن وسنت پر ایک مؤقف پر متفق ہوسکتے ہیں۔ البتہ دونوں کو اپنا جمود اور تقلید تحقیق سے توڑنا ہوگا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا :ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذًی ”اور تجھ سے حیض کی حالت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ تو ایک اذیت ہے”۔ قرآن کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملے میں معانی واصلاحات کے انبار ہوتے ہیں۔ صحابہ نے نبیۖ سے حیض کی حالت کا حکم پوچھ لیا۔ اللہ نے جواب دیا کہ ” ان سے کہہ دو کہ یہ ایک اذیت ہے”۔ قرآن کے اس لفظ نے آئندہ کی آیات میں ترجمہ وتفسیر کو بہت ہی آسان بنادیا۔ عربی لغت میں اذی کا معنی کہیں گند نہیں ہے۔ عربی میں گند کو قذر کہتے ہیں۔ اگر آئندہ آنے والی قرآنی آیات میں عورت کی اذیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تو مسلکی تضادات رکھنے والے گدھے قرآن کے احکام میں اس قدر تفرقے اور انتشار کا شکار نہ ہوتے۔ اس موضوع پر بارہا ہم نے اپنے اخبار اور اپنی کتابوں میں واضح بھی کردیا ہے۔
جب اذی کے معانی غلط لئے گئے کہ اس سے گند مراد ہے تو عورت کیساتھ قرآن کی تفسیر میں بہت زیادتی روا رکھی گئی۔ حیض میں اذیت بھی ہے اور گند بھی اور اس آیت(222)البقرہ کے آخر میں اذیت سے توبہ کرنے والوں اور گند سے دور پاکیزہ رہنے والوںکو پسند کرنے کا بھی واضح فرمایا ہے۔ اگر کوئی اپنے بیٹے یا شاگرد سے کہے کہ یہ میرا اثاثہ یا ایسٹ ہے تو وہ اس عزت نوازی پر بڑا خوش ہوگا اور اگر اس کو اپنا کھیت قرار دے گا تو بہت سخت ناراض ہوجائے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں اور جیسے چاہو،ان کے پاس آؤ”۔ فقہاء نے حرث سے مراد کھیتی لیا کہ ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں”۔ حالانکہ حرث سے اثاثہ بھی مراد لیا جاسکتا تھا لیکن عورت کی اذیت کا خیال نہیں رکھا گیا تو ترجمہ اور تفسیر میں بگاڑ پیدا کیا گیا۔ کھیتی کو روند کر راستہ بنانے کو وطی کہتے ہیں۔ فقہ کتب میں عورت سے مباشرت کیلئے ”وطی” کالفظ بلکہ فاعل اور مفعول کی گردان بھی بنائی گئی کہ واطی اور موطوہ۔ حالانکہ قرآن میں جماع کیلئے باشر، لامستم ہے لیکن وطی کا لفظ نہیں ہے۔ پھر عورت کیساتھ پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کیخلاف بھی بہت احادیث ہیں اور ایسی حدیث بھی ہے جس میں عورت کیساتھ پیچھے کی راہ سے جماع کو جائز قرار دیا گیا جس کی صحیح بخاری میں بھی تصدیق ہے اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ متضاد احادیث کیسی گھڑی گئیں ہیں۔
عربی لغت میں عورت سے جماع کیلئے وطی کا لفظ نہیں۔قرآن کی غلط تفسیر کی وجہ سے عربی لغت میں خودساختہ اضافہ کردیا گیا ۔ اگر اذی سے گند مراد نہیں لیا جاتا تو حرث سے کھیتی اورجماع کو وطی کہنے تک بھی بات نہیں پہنچ سکتی تھی۔ قرآن میں دوجگہوںپر وطأ کا لفظ آیا۔ ایک رات تہجد میں اُٹھتے وقت کیلئے( اشد وط ئً واقوم قیلً)ا اور دوسرا یہ کہ مشرک حرمت کے مہینوں کو اپنی جگہ سے دوسرے مہینے کے بدلے تبدیل کرتے تھے۔ تہجد کے وقت انسان کیلئے قرآن کی سمجھ آسان ہوتی ہے اور یہ عربی لغت میں وطأ کا ایک معنی بھی ہے اور اس وقت نفس بھی کچل دیا جاتاہے جس سے بڑا تزکیہ ہوتا ہے۔ وطأ سے اچھی بری دونوں تبدیلی مراد ہوسکتی ہے۔ علاوہ ا زیں بھی بہت سارے معانی پراطلاق ہوسکتا ہے۔ نبی ۖ نے مہدی کیلئے فرمایا : لیواطئی اسمہ اسمی ” تاکہ اس کا نام میرے نام کے موافق ہو”۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے مرید اور ارتغرل غازی کے مرشد شیخ ابن عربی نے لکھا کہ ” نام کے موافق ہونے سے مراد ہمنام ہونا نہیں ہے بلکہ یہ عربی حروف کے وزن کے حساب سے موافق ہونا مراد ہے”۔ بعض روایات میں پھر ماں باپ کے ناموں کی مشابہت کے اضافے بھی کئے گئے۔
امام مہدی (imam mehdi)کسی مسلک اور فرقے کی طرف منسوب ہونے کے بجائے اپنی نسبت اور اپنی راہِ عمل براہِ راست نبیۖ کی طرف کریگا ،اسلئے کہ نبی ۖ کے نقش قدم پر ہوگا۔ نبیۖ کے خلاف دنیا میں جتنی غلط خرافات منسوب ہونگی وہ سب داغ دھبے دھونے کا نعم البدل ہوگا اور پھر دنیا میں نبیۖ کے خلاف کوئی بکواس نہیں کرے گا بلکہ دنیا میں دوست اور دشمن سب کی زباں پر نبیۖ کے قصیدے ہونگے اور اسی کو ”مقام محمود” کہتے ہیں۔ محمود جسکی تعریف کی جائے۔ مذموم کی ضد محمود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو امید دلائی ہے کہ عسٰی ان یبعثک مقامًا محمودًا ”ہوسکتا ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود عطاء کرے”۔ آذان کے بعد بھی مانگنے کی یہ دعا ہے کہ” نبیۖ کو اللہ مقام محمود عطاء کرے ”۔ نبیۖ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں اور آپۖ کی سیرت کو درست معنوں میں اجاگر کیا جائے تو جس طرح ایک عیسائی مصنف ہیکل نے نبیۖ کو پہلا نمبردیا ہے ،اسی طرح متشددملحدین بھی اپنے دل ودماغ سے پہلا نمبر دیں گے۔ ہیکل نے حضرت عمر کے علاوہ کسی دوسرے صحابی یا مسلمان کا نام اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے۔ اہل تشیع اپنے چرسی، بھنگی اور ہیرونچی کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو صرف یاعلی کا نعرہ لگاتے ہیں مگر نبیۖ کے صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور یہ اس غلط ماحول کا نتیجہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آیا ہے اور اس میں سنیوں کی کتابوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ اہل تشیع میں بہت اچھے مسلمان لوگ بھی ہیں اور غلط فہمی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے نبی بھائی حضرت ہارون کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑسکتے ہیں تو صحابہ کے پاس وحی کا نظام نہیں تھا اور ان کی جنگوں کی وجہ سے تاریخ کے حقائق کو جتنا تلخ انداز میں پیش کیا گیا ہے اگر اہل تشیع کے محققین نے اپنے ضمیر سے انصاف کیا تو وہ امام حسن سے عقیدت چھوڑ دینگے بلکہ حضرت علی سے بھی نالاں ہونگے اورپھر ہمیں فکر ہوگی کہ ابوبکر و عمر کی بات چھوڑ دیں یہ اپنے پہلے دوسرے امام کو تسلیم کرلیں تو بھی غنیمت ہوگی۔ پھر امام حسین کے بعد میں آنے والے ائمہ کواپنے معیار پر پورا نہیں سمجھیںگے اور غائب امام کا عقیدہ بھی چھوڑدیں گے حالانکہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور حضرت خضر کی زمین پر موجود گی درست ہے توامام مہدی غائب کے عقیدے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اہل تشیع کی شد ومد سے مخالفت کرنے والوں نے افہام وتفہیم کا راستہ محدود کردیا ہے اور تشدد میں فرقوں کو تجارت اور بین الاقوامی سازشوں کے تحت اسلام کو بدنام کرنے والوں کو امداد ملتی ہے اسلئے جب تک ان کے مفادات رہیں گے یہ اپنی حرکتوں سے مشکل ہی سے باز آئیںگے۔ آج تک ہم نے حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والے حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بنت جحش پر غصہ کھانے اور افسوس کا کوئی مظاہرہ نہیں دیکھا ہے۔ اہل تشیع کے بعض لوگوں کی جنگ جمل کی وجہ سے حضرت عائشہ کی مخالفت کوئی توہین نہیں۔ جب نبیۖ نے فرمایا کہ” عمار(hazrat ammar) ایک باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہونگے”۔ عمار وابوبکرہ علی کی طرف سے لڑرہے تھے، بخاری میں ابوبکرہ سے روایت ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی جس کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو”۔ ابوبکرہنے مخالفین کے خلاف حدیث پیش کی۔ ابوبکرہ نے مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف زنا کی گواہی پر کوڑے کھائے اور صحیح بخاری کی روایت اور امام ابوحنیفہ اور جمہور ائمہ میں اختلافات کی بنیاد پر مسلک سازی اور قانون سازی بہت بڑا المیہ ہے۔اگر پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا۔
جب مدارس کے علماء قرآن کے خالص احکام کے مقابلے میں اپنا اجتہادی غیر ضروری مواد چھوڑ دیں گے تو نہ صرف مذہبی طبقہ، عام عوام، سیاسی طبقات اور مسلمانوں کے جدید طبقات میں انقلاب آئیگا بلکہ دنیا بدلنے میں دیر نہ لگے گی۔
(June=Special-2–page-4_syed atiq ur rehman gillani _navishta e diwar _akhtar khan _ptm_ali wazir _manzoor pashtoon _zarbehaq.com)
لوگوں کی راۓ