پوسٹ تلاش کریں

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔ اخبار: نوشتہ دیوار

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس مرتبہ دنیا میں تین عیدیں تھیں۔ پہلے دن افغانستان اور بعض ممالک میں عیدالفطر تھی۔ دوسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں عید تھی اور تیسرے دن پاکستان کے باقی صوبوں میں عید تھی ۔
شاید کوئی یہ بات نہیں مانے کہ ٹانک ملازئی میں بھی اسی شام کو بعض لوگوں نے چانددیکھ لیا تھا جس دن پھر افغانستان میں شہادت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ ایک ہندوستانی عالم دین نے ویڈیو جاری کی تھی کہ امارات اسلامی افغانستان میں اس دن چاند آسمان پر نہیں تھا لیکن شہادتوں کو قبول کرنے کی بنیاد پر عید ہوگئی ہے لیکن غلطی یہ ہوئی کہ جب مطلع صاف ہو تو کثیر تعداد میں شہادتوں کی بنیاد پر عید الفطر کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ جس کا جواب بھی افغانستان کی امارت اسلامی کے ایک ذمہ دار شخص کی طرف سے دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے عالم کو غلط فہمیاں ہوگئیں ہیںکہ چاند آسمان پر نہیں تھا۔ حالانکہ ہم نے29روزے رکھے تھے اور وہ اس کو28روزے سمجھ رہا تھا۔ کتابوں کے حوالہ جات بھی درست نقل نہیں کئے ہیں بلکہ بعض ادھوری باتیں نقل کرکے عبارت کی آخری فیصلہ کن بات چھوڑ دی ہے۔
ہم نے بچپن سے دیکھا ہے کہ چاند عوام کو نظر آجاتا تھا لیکن پاکستان سے ہلال کمیٹی کا فیصلہ روزے اور عیدالفطر کے حوالے سے ایک دن بعد میں ہوتا تھا۔ پھر کراچی میں ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے فرمایا تھا کہ ”ہلال کمیٹی نے چاند کو نہیں دیکھا لیکن چاند نے ان کو ضرور دیکھا ہوگا”۔ ملازئی میں جن لوگوں نے چاند افغانستان کے حساب سے دیکھا تھا اور انہوں نے اس دن روزہ بھی نہیں رکھا توایک ذمہ دار ٹیم تشکیل دی جائے جس کے دو مقاصد ہوں ایک چاند کے حوالے سے تاریخ درست کرنے اور دوسرا یہ کہ وہاں ایک پہاڑی علاقے میں تیل وگیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ کافی عرصہ سے آگ خود بخود جل رہی ہے اور معمولی کھدائی سے بھی آگ بھڑک جاتی ہے۔ تاکہ گیس کے اس ذخیرے کو بھی عوام کیلئے کارآمد بنایا جاسکے۔ شہباز شریف نے چینیوٹ میں جن ذخائر کی بات کی تھی تو اس کی سچ اور جھوٹ کی حقیقت بھی عوام کے سامنے لائی جائے۔
ہلال کا فیصلہ کن معاملہ حل کرنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا تھا کہ لوگ ایک دن روزے کی قضاء رکھ لیں اسلئے کہ مرکز میں مفتی منیب الرحمن ہلال کمیٹی کے چیئرمین تھے اور یہ مسلکی جھگڑا بنایا جارہاتھا۔ ہم نے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں مفتی تقی عثمانی کو اس وقت چیلنج کیا تھا کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر فتویٰ دینے والو ؟ تمہارے ایمان کا اس وقت پتہ چلے گا کہ جب مرکز میں عیدالفطر ایک دن بعد میں ہوگی اور متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد میں ایک دن پہلے عیدالفطر منانے کا اعلان کرے گی۔ عید کے دن شیطان کا روزہ ہوتا ہے اور پھر متحدہ مجلس عمل کیساتھ عید نہیں منائی تو سراپا شیطان بننے کا اعزا ز بھی حاصل ہوگا۔ وہ مہینہ تھا اور آج کا دن ہے کہ مفتی محمدتقی عثمانی کے دانت تک تبدیل ہوگئے مگر پھر لب کشائی کی جرأت بھی نہیں ہوئی۔
مفتی منیب الرحمن سے ہمارے ساتھ اشرف میمن کا مکالمہ بھی ہم نے نقل کیا تھا کہ جب سعودی عرب اور امریکہ ولندن میں وقت کا دس بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور پاکستان وسعودیہ میں دو ، ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے۔ اگر یہاں عید کا چاند ایک دن بعد ہوسکتا ہے توپھر وہاں اتنے فرق پر پانچ چھ دن کا فرق ہونا چاہیے تھا؟۔ اور جب محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ اسلام آباد میں فضاء غبار آلود رہے گی اور کراچی میں مطلع صاف رہے گا اسلئے کراچی کے ساحل سمندر سے چاند نظر آنے کا امکان ہے اور اسلام آباد سے چاندنظر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تو کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے کے لئے آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ جس کا مفتی منیب الرحمن نے تاریخی جواب دیا تھا کہ ” میاںیہ پا کستان ہے اس میں انجوائے کرو، انجوائے”۔ جہاز کے ٹکٹ، ہوٹل کے خرچے اور آنے جانے کے ٹی اے ڈی اے۔ پاکستان کا قرضوں سے بیڑہ اسلئے غرق ہوا ہے کہ جب بھی کسی چمتکار کو موقع مل جاتا ہے تو وہ چپت کار بننے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔ جب آزادی ہوگی اور قانون سے پکڑکا خوف نہیں ہوگا تو جنت میں شجرممنوعہ کے پاس جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور بندہ نافرمانی بھی ضرور کرے گا۔
کراچی کی آلودہ فضاؤں میں پہلے دن نہیں دوسرے دن کا چاند بھی نظر نہیں آتا ہے۔ سندھ میں سندھیوں کورمضان کا بھی پتہ نہیں چلتا ہے۔ بلوچستان کے شہر اتنے دور دور ہیں کہ ان کا آپس میں بھی رابطہ نہیں ہوتا ہے تو دوسروں سے کیا رابطہ ہوگا؟۔ پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان جانے رمضان جانے۔ پٹھان کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی ہے۔ تو پھر دو،دو اور تین تین عیدوں کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر دنیا میں ایک خلافت کا نظام ہوگا تو ایک دن میں روزہ اور عیدالفطر کی تاریخ اور شرعی فریضہ ادا کیا جائے گا۔ ملک کا بندر بانٹ اور تقسیم کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب غیراسلامی تقسیم کو علماء ومفتیان ایک درجہ بھی دیتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت بھی قبول کرتے ہیں تو خلافت اسلامیہ کی بات بھی مان جائیں گے۔ اپنا روزہ اور عید درست کرنے کیلئے بھی عالمی خلافت کیلئے اپنا بھرپور زور لگائیں۔ قرآنی آیات کی بھی درست تشریحات کرنی ہوگی۔
رمضان کے بعد عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگردوسرے دن بھی پتہ چل جائے کہ عید کا چاند نظر آیا تھا تو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اگرعید کی نماز کا وقت نکل گیا ہو تو پھر دوسرے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ یہ مسئلہ واضح ہے لیکن ہمارے رات9بجے تک چاند نظر نہ آنے کے بعد اس مرتبہ اعلان کردیا گیا۔ حالانکہ پچھلے سال رات12بجے کے بعد چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس مرتبہ ہلال کمیٹی کے چیئرمین صحافی مجیدنظامی وغیرہ سے کہا کہ9بجے ہم نے اعلان کردیا تھا،اس کے بعد پختونخواہ کی ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ لگتا ہے کہ پچھلے سال پنجاب اور مرکز میں بھی عمران خان کی حکومت تھی اور پختونخواہ میں بھی عمران خان کی حکومت تھی تو ہلال کمیٹی کے چیئرمین کو اپنی نوکری کا ڈر نہیں تھا لیکن اس مرتبہ پنجاب اور مرکز میں عمران خان کی حکومت نہیں تھی اور اگر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی بات مان لیتے تو نوکری جانے کا خطرہ تھا۔ مریم نواز اپنے خاندان کے دورِ حکومت میں ان صحافیوں کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے جن کو سرکاری اشہارات دئیے جاتے ہیں۔ جیو نیوز اور جنگ گروپ اپنے مقاصد کیلئے معاملات کو اٹھاتے ہیں۔ باقی میڈیا کے صحافی حضرات ان کی اتباع یا مخالفت میں اقدامات کررہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” روزوں کو تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے جیسا کہ آپ سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو تم میں سے یا سفر میں ہو تو پھر دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔ اور تم میں سے جو استطاعت رکھتے ہیں تو وہ مسکین کوکھانے کا فدیہ دیدے۔اگر کوئی زیادہ نیکی کرنا چاہے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے ”۔
اس آیت میں روزوں کے دن اور بیماری وسفر کی حالت میں ان کی قضاء فرض کی گئی ہے۔ مریض اورمسافر میں دوقسم کے لوگ ہوتے ہیں ،ایک غریب اور دوسرے امیر۔ غریب تو خود فدیہ کا مستحق ہوتا ہے اور امیر کو روزہ چھوڑنے کی صورت میں ایک مسکین کو کھانے کا فدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سے زیادہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ نے ایک سہولت دی ہے اور اگر مال بھی عطاء کیا ہے تو پھر روزہ چھوڑنے کی صورت میں فدیہ دینے کی ترغیب ایک فطری بات ہے۔ البتہ چونکہ انسان کا نفس مشکلات سے فرار اختیار کرتا ہے اسلئے اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ سفر اور مرض کی حالت میں روزہ رکھ لو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ حیلے بہانے سے روزے چھوڑنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جائیں کہ معمولی مرض اور آسان سفر میں بھی روزہ چھوڑ دیا جائے ۔ جس طرح گدھے کا روزہ چھوڑنے سے انسانوں کو تکلیف نہیں ہے اسی طرح انسانوں کا روزہ چھوڑنے سے اللہ کا بھی کچھ نہیں بگڑتا ہے لیکن بندے کے مفاد میں ہے۔
اس آیت سے علماء ومشائخ نے اپنے مالدار مریدوں، نوابوں، خانون اور بڑے لوگوں کیلئے یہ سہولت نکالی ہے کہ اللہ نے روزہ رکھنے اور فدیہ دینے میں سے ایک کا اختیار دیا ہے۔ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور مرض وسفر کی حالت میں چھوڑنے پر قضا ادا کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر فدیہ اور روزے میں سے ایک کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا؟۔ اگر غریب غرباء کو بھی مساجد میں یہ حیلہ بتادیا جاتا تو ہزار پانچ سو روپے کمانے والا دیہاڑی دار طبقہ بھی کسی کو فدیہ دیکر اپنی مزدوری بہت آسانی سے کرسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں اعتدال پیدا کرنے کیلئے قرآنی آیات کو نازل فرمایا ہے۔ اس آیت میں مسافر ومریض کو بھی ترغیب دی ہے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے تمہارے لئے۔ لیکن بعض لوگ اتنے نادان اور شدت پسند ہوتے ہیں کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے کہ جب سفر ومرض میں بھی روزہ رکھنا اللہ نے بہتر قرار دیا ہے تو پھر بہرصورت اللہ کی بات کو ترجیح دینی چاہیے اگرچہ مرض وسفر میں مرنے جیسی کیفیت تک بات پہنچ جائے اسلئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں پھر روزے کو سفر ومرض میں چھوڑنے کی گنجائش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسلئے کہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کوئی مشکل نہیں ڈالنا چاہتا ہے بلکہ آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دونوں آیات میں اعتدال کا راستہ بتایا گیا ہے۔ ایک طرف حیلہ سازوں نے آیت میں اصل حکم سے ہٹ کر روزے کو عام حالت میں بھی فدیہ کے بدلے میں معاف کرنے کی بات کرڈالی اور دوسری طرف شدت پسندوں نے سفر و مرض میں سہولت کو بھی نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کرلیا ہے۔
طالبان کی افغانستان میں ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں مسافروں کوان کی سواریوں سے اتارکر روزہ نہ رکھنے پر سخت تذلیل کی سزا دی جارہی ہے۔ اگر اللہ نے نماز وروزے پر کسی سزا کا حکم نہیں دیا تو طالبان کو اپنی روش پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔ تصویر اور بے نمازی کیلئے حکم بدل گیا ہے یا حقیقت سمجھ آگئی ہے تو روزے پر بھی ترغیب کی حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ خواتین برقعے کی روایت پنجاب سے منتقل ہوئی ہے۔ بوڑھے افغانیوں سے پوچھا جائے تو وہ بتائیں گے کہ پہلے افغانستان میں کہیں پر بھی برقعے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
میری طالبان سے ہمدردی ہے اور انہوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور پھر آزادی حاصل کی ہے۔ افغان قوم انگریز کے دور سے جن مشکلات کا شکار رہی ہے اس میں بیرونی مداخلت سے زیادہ اندرونی معاملات بھی اہم عنصر رہے ہیں۔ جاندار کی تصویر کی ہم نے طالبان سے زیادہ پہلے مخالفت کی تھی لیکن جب علمی حقائق کا پتہ چل گیا تو ”جوہری دھماکہ ” نامی کتاب میں اس غلط مؤقف کی دھجیاں اڑا دیں۔ طلاق وخلع اور حلالہ کے حوالے سے بھی ہم نے بہت ہی واضح حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگر طالبان نے اس کی طرف دھیان دیا اور پاکستان سے مقتدر علماء کو بھی مجھ سمیت اس پر بحث کیلئے طلب کیا تو افغانستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز میں دیر نہیں لگے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار تسخیر کائنات کی بات کی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں فرائض کی تسخیر اور اختلافات نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے اور تسخیرکائنات کے علوم میں خواتین وحضرات کے اندر برابر کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔ دنیا نے اس تسخیر کے ذریعے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ مسلمان دنیاہر چیز میں ان کا محتاج بن کر رہ گئی ہے۔ قرآن میں جتنے فقہی احکام ومسائل ہیں ان کا احادیث صحیحہ سے کوئی تصادم نہیں ہے لیکن فقہ کی کتابوں میں اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ افغانستان میں پوری دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں کو اپنی اپنی شاخیں کھولنے کی اجازت ،ترغیب اور مکمل تحفظ کی ضمانت دی جائے تو جس طرح چین نے ترقی کرلی ہے اس سے زیادہ افغانستان تعلیمی اداروں کے ذریعے سے دنیا میں ترقی کرے گا۔ افغانستان میں غربت ، بچیوں کی فروخت اور تمام مشکلات کا خاتمہ ہوجائے تو طالبان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔
میرے دادا سیدمحمدامیر شاہ کی قیادت میں1972ء میں ایک محسود قوم کا تین رکنی وفدافغانستان اسلئے گیا تھا کہ انگریز کے خلاف باہمی تعاون کریں گے اور پھر بیٹنی قبائل کا وفد میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا تھا۔جن کے بیٹے سید ایوب شاہ پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے افغانستان میں ایک اخبار بھی نکالا تھا۔ پھر کچھ غلط حاسدین کی شکایت پر ان کو ظاہر شاہ کے والد نادر خان شاہ کے دورِ حکومت میں توپ سے اڑانے کی سزا سنائی گئی لیکن پھر ان کو جلاوطن کردیا گیا تھا۔ ہماری بیٹھک میں افغانستان کے ایک بادشاہ نے تین دن تک قیام بھی کیا تھا۔ امیرامان اللہ خان کیلئے لشکر تشکیل دینے والے پیر سعدی گیلانی عرف شامی پیر کی پہلی مرتبہ میزبانی میرے دادا نے کی تھی ۔ دوسری مرتبہ سیدایوب شاہ نے کی تھی۔ محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے علامہ اقبال نے جو اشعار بنائے ہیں ان میں وزیرومحسود اور دیگر قبائل کے نام بھی ہیں۔ قیامت کے دن تو مجرمین الگ کردئیے جائیں گے لیکن اس دنیا میں بھی مجرموں کو الگ کیا جاسکتا ہے۔ نبیۖ کی فتح مکہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ عزتدار لوگوں میں کوئی دشمن ہو تو بھی اس کو عزت سے نوازا جائے جب وہ دسترس میں آجائے تب۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے