جنگوں میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کا خیال۔ زرعی زمین کسان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔ - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

جنگوں میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کا خیال۔ زرعی زمین کسان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔

جنگوں میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کا خیال۔ زرعی زمین کسان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔ اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

_ لونڈی اور غلام بنانے کے تصورات_
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جنگوں میں پکڑے جانے والوں کو لونڈی اور غلام بنالیا جاتا تھا لیکن یہ غلط اسلئے ہے کہ غزوہ بدر میں70افراد کو غلام بنالیا گیا لیکن کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ دشمن کو اس طرح سے غلام بنانا ممکن تھا اس لئے کہ دشمن گھر کا نوکر چاکر اور غلام بننے کی جگہ اپنے مالک کو بدترین انتقام کا بھی نشانہ بناسکتا ہے۔بدر کے قیدیوں پر مشاورت ہوئی تو ایک رائے یہ تھی کہ سب کو قتل کردیا جائے اور دوسری رائے یہ تھی کہ فدیہ لیکر معاف کردیا جائے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سب سے فدیہ لیکر معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن ان کو غلام بنانے کی تجویز زیرِ غور نہیں آئی تھی اور نہ ان کو غلام بنانے کا کوئی امکان تھا۔
غلام اور لونڈیاں بنانے کا جنگ کی صورتحال کے بعد ایک غلط تصور بٹھادیا گیا ہے جس کوبہت سختی کیساتھ رد کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں اہل فرعون کا بنی اسرائیل کے بیٹوں کا قتل کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر عصمت دری کرنے کا ذکر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی رحمتۖ کی بعثت اسلئے نہیں کی تھی کہ اہل فرعون کی جگہ امت مسلمہ بنی اسرائیل اور دیگر لوگوں کی خواتین کو لونڈیاں بنائیںگے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ درج ہے کہ جب حضرت عمر فاروق اعظم نے ایران کو فتح کیا تھا تو شاہ فارس کی تین شہزادیوں کو حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا تھا۔ حضرت محمد بن ابی بکر بیٹا حضرت ابوبکر کا تھا مگر اس کی پرورش حضرت علی نے بیٹے کی طرح کی تھی اسلئے کہ ان کی ماں سے شادی ہوئی تھی اور اس سے پہلے وہ خاتون حضرت ام عمیس حضرت علی کی بھابھی تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلفاء راشدین نے فارس کے بادشاہ کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو اہل فرعون نے بنی اسرائیل کیساتھ کیا تھا اور حضرت عمر کے اس کردار میں ائمہ اہل بیت برابر کے شریک تھے؟۔ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول ہۖ نے فتح خیبر کے بعد حضرت صفیہ سے نکاح کیا تھا تو اس میں بھی آل فرعون کا کردار تھا؟۔ زمانے کے رسم ورواج کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ اور وسیع سے وسیع تر حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ سردست یہ لگتا ہے کہ حضرت صفیہ اور وہ تینوں شہزادیاں جو حضرت حسن و حسین اورحضرت محمدبن ابی بکر کی خدمت میں پیش کی گئیں تھیں وہ پہلے سے لونڈیاں تھیں اور ان کو آزاد کرکے ان کی عزت افزائی کی گئی تھی۔ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہکو بادشاہ نے لونڈی حضرت حاجر ہ پیش کی تھی ،البتہ حضرت حاجرہ اصل میں شہزادی تھیں۔
لونڈی و غلام بنانے کا اصل ادارہ جاگیردارنہ نظام تھا۔ کھیتی باڑی سے کچھ لوگ اپنی گزر بسر کرتے تھے اور کچھ لوگ بڑے بڑے لینڈ لارڈ ہوتے تھے، جن کے مزارعین ہوتے تھے۔ مزارع لونڈیوں اور غلاموں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ لینڈ لارڈ ان کو دیہاتوں سے شہروں کی منڈیوں میں لاکر فروخت کرتے تھے۔ منڈیوں میں فرو خت ہونے والے لونڈی اور غلام خوبصورتی اور تربیت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوتے تھے اور منڈیوں میں کاروبار کا یہ بھی ایک حصہ ہوتا تھا۔ مزارعین کو لونڈی وغلام بننے میں کوئی دکھ بھی نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ کھیتی باڑی میں ان کی زندگیاں زیادہ مشکلات کا شکار ہوتی تھیں۔
ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلام ولونڈی کی فروخت وخرید و درآمد پر پابندی لگادی اسلئے امریکہ کو اللہ نے سپر طاقت بنادیا۔ اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے ادارے مزارعت پر پابندی لگادی۔ مسلمان اور کافر کاشتکار اپنی محنت کی کمائی کے مالک تھے اور مسلمان زکوٰة وعشر اور کافر جزیہ کے نام پر حکومت کو ٹیکس دیتے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمان ہی دنیا کی واحد سپر طاقت بن گئے مگرپھر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے مزارعت کے نظام کو دوبارہ فقہ حنفی کے نام پر جواز بخش دیا تھا۔

لونڈی و غلام کی عزت وتوقیر کامقام
اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے نظام مزارعت کا خاتمہ کردیااور آزادی کیلئے بہانے تراش لئے۔ لونڈی اور غلام کو پورے پورے انسانی حقوق دیدئیے اورآزاد کے مقابلے میں ان کی سزاؤں میں کمی کے رحجانات کے قوانین بنائے۔ عرب کی جاہلیت کے نسلی امتیاز کو اسلام نے کردار کی بنیاد پر خاک میں ملادیا تھا۔ ابولہب وابوجہل ، عتبہ وشیبہ، ولیدو امیہ اور ڈھیر سارے خاندانی سرداروں کے مقابلے میں خاندانی غلام حضرت سیدنا بلال، حضرت مقداد، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت اسود کووہ اعزاز بخشا کہ تاریخ ان دونوں طرح کی شخصیات کے حوالہ سے عبرت کا آج بھی بہت بڑانشان نظر آتی ہیں۔
قرآن نے واضح کردیا کہ ” مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو، یہاں تک وہ ایمان لائیںاور مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے،اگرچہ تمہیں مشرک پسند ہو اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کراؤ،یہاں تک کہ ایمان لائیں اور مشرک عورتوں سے مؤمن لونڈیاں بہتر ہیں اگرچہ مشرک عورت پسند ہو”۔
نسلی امتیاز کے شکار جاہلانہ قبائل کیلئے یہ احکام بڑی کاری ضرب تھے۔ پہل بھی مشرکوں نے خود کی تھی۔ حضرت عائشہ کے رشتے کو پہلے مطعم بن جبیر سے طے کیا گیا تھا لیکن اسلام کے بعد انہوں نے یہ رشتہ رد کیا تھا۔ حضرت بلال کے باپ اور خاندان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا اور اس طرح بہت سے غلاموں کی اپنے خاندانی حساب سے کوئی شناخت نہیں تھی لیکن حضرت زید خاندانی غلام نہیں تھا۔ بردہ فروشوں نے بچپن میں چوری کرکے بیچا تھا۔ بھائیوں نے حضرت یوسف کوکنویں میں ڈالا تو قافلے والوں نے غلام سمجھ کر بیچ دیا تھا۔ پھر جب معلومات مل گئیں تو حضرت یوسف کی نسبت اپنے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابرہیم کی طرف کی گئی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ ” جن کے باپ دادا کا پتہ نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور جنکے باپ کا پتہ ہے تو ان کو انکے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور تقویٰ کے زیادہ قریب ہے”۔
حدیث میںتمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے۔ مشرکوں کی رشتہ داری سے اسلئے منع کیا گیا تھا کہ انصار ومہاجرین کے رشتے ناطے اہل کتاب کی نسبت مشرکوں سے زیادہ تھے۔ حالانکہ اہل کتاب بھی مشرکانہ عقائد رکھتے تھے لیکن انکی خواتین کو مسلمانوں کیلئے حلال قرار دیا گیا تھا۔ مشرکوں کے مقابلے میں غلاموں اور لونڈیوں سے نکاح کو ترجیح دینا بہت بڑی بات تھی۔ جس طرح غلام و لونڈی سے نکاح اور معاہدے کی اجازت تھی،اسی طرح سے آزاد مسلمانوں اور غلاموں ولونڈیوں کے درمیان ایگریمنٹ کی بھی اجازت تھی۔ یہ بہت ہی بڑا معاملہ تھا کہ ہجرت نہ کرنیکی وجہ سے نبی ۖ کی چچااور ماموںکی بیٹیوں کو نکاح کیلئے حلال نہیں قرار دیا گیا تھا لیکن حضرت صفیہ سے ایگریمنٹ کی جگہ نبی ۖ نے نکاح کیا تھا۔ حضرت ام ہانی نبیۖ کی زوجہ تھی اور نہ لونڈی بلکہ ان سے ایگریمنٹ کا تعلق تھا ۔حالانکہ حضرت ام ہانی اولین مسلمانوں میں سے تھیں ۔
حضرت صفیہ مال غنیمت کی وجہ سے نبیۖ کی زوجہ بنی تھیں۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ” وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ بھی حلال ہیں جو مال غنیمت میں ملی ہیں”۔ کیونکہ اگر حضرت ام ہانی سے رشتہ ہوجاتا اور پھر چھوڑنا پڑتا تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ غنیمت کے مال میں آنے والیوں کا کیا حکم ہے؟ اسلئے اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ۔ حضرت صفیہ کی دعوتِ ولیمہ صحابہ نے کھائی تو سوال اٹھایا کہ لونڈی ہیں یا منکوحہ؟ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ ”پردہ کروایا گیا تو منکوحہ اور نہیں کروایاگیا تولونڈی”۔ صحیح بخاری اور دیگر احادیث اور قرآن کے واضح احکام بیان کرنا ضروری ہے۔

قرآن کے احکام کو نہیں سمجھنے کا نتیجہ
وانکحوا الایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وایمائکم ”اور نکاح کراؤ، اپنوں میں سے بیوہ وطلاق شدہ کا اور اپنے اچھے غلاموں اور لونڈیوں کا”۔ بیوہ اور طلاق شدہ کے نکاح کرانے کے حکم پر ایسا عمل ہوا تھا کہ ایک ایک عورت کا تین تین چار چار جگہ بھی یکے بعد دیگرے نکاح کرایا گیا تھا۔
لونڈی وغلام کے حقوق کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ وبیوہ کی طرح ان کے نکاح کرانے کا بھی حکم دیا گیاہے۔لونڈیوں سے نکاح کی بات تو سب کو سمجھ میں آجاتی ہے اور غلام سے بھی نکاح کی بات قابل فہم ہے لیکن جب آزاد عورت کا کسی غلام سے ایگریمنٹ کا معاملہ ہو تو یہ صورت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن کی آیات میں مکاتبت سے یہ صورتحال لگتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد فتیات کا ذکر ہے جس میں ان کوبغاوت پر مجبور نہ کرنے کو واضح کیا گیا ہے۔ بظاہر فتیات سے کنواری لڑکیوں کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے جن کواپنی مرضی کے مطابق نکاح سے روکنا یا زبردستی سے کسی ایسے شخص سے نکاح پر مجبور کرنا ہے جس سے وہ نکاح نہیں کرنا چاہتی ہو۔ قرآن میں بغاوت کے ایک معنیٰ بدکاری کے ہیں اور دوسرا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں۔
معاشرے میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی لڑکی کسی سے اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنا چاہتی ہو لیکن اس کے سرپرست اس کو دنیاوی وجاہت کے خلاف سمجھتے ہوں۔ پھر اگر وہ چھپ کر تعلقات استوار کرے یا پھر بھاگ جائے تو اس کی ساری ذمہ داری سرپرست کے سر ہوگی اور اگر سرپرست اس کی شادی زبردستی سے ایسی جگہ کردے جہاں اس کی مرضی نہ ہو توپھر ناجائز ہونے کے باوجود اس کا گناہ سرپرست کے سر ہوگا۔ قرآن میں یہ معاملہ بہت ہی اچھے انداز میں واضح کیا گیا ہے لیکن بدقسمت اُمت مسلمہ میں قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے اس کا یہ مفہوم نکالا ہے کہ ” لونڈیوں کو بدکاری کے دھندے پر مجبور مت کرو،اگر وہ پاک دامنی چاہیں ”۔ جس کا بہت غلط مطلب نکلتا ہے اور قرآن اتنی بڑی غلطی کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کا معنی یہی مناسب ہے کہ اپنی کنواری لڑکیوں کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو،جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔ ان اردن تحصنًا کے دونوں معنی ہوسکتے ہیںلیکن ایک بہت عمدہ اور دوسرا انتہائی غلط ہوگا۔ اسلئے کہ نکاح کیلئے راضی ہونے پر کنواری کو غلط راستے پر مجبور نہیںکرنے کی بات بالکل فطری طور پر درست ہے لیکن یہ کہنابالکل غلط ہوگا کہ” لونڈی کو اس وقت بدکاری پر مجبور نہ کیا جائے ،جب وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہو” اسلئے کہ پھر مطلب یہی ہوگا کہ جب وہ خود دھندہ کرنا چاہتی ہوتو پھر اس کو بدکاری کا دھندہ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
اسلام نے بیوہ وطلاق شدہ، غلام ولونڈی اور کنواری کے جن مسائل کا نکاح کے ذریعے حل پیش کیا ہے تو اس سے قدیم دور سے لیکر موجودہ دور تک معاشرتی برائیوں اور مشکلات کا زبردست طریقے سے خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسلام نے ایک طرف معاشرے کے اندر خواتین کے سرپرستوں کو حکم دیا ہے کہ ان کا نکاح کرایا جائے تو دوسری طرف ان کی مرضی کے بغیر ان کا نکاح کرانے کو ناجائز قرار دیا۔ ایک طرف طلاق شدہ وبیوہ کو اپنی مرضی سے نکاح کے فیصلے اور ان کی مدد کرنے کا حکم دیا تو دوسری طرف کنواری کے فیصلے میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا حکم دیا۔ ایک طرف عورت کی مرضی کا خیال رکھا اور اس پر اپنی مرضی کو مسلط کرنے کو ناجائز قرار دیا تو دوسری طرف عورت کیلئے اپنے ولی کی اجازت کو شرط قرار دیدیا۔ جس سے کنواری لڑکیاں ہی مراد ہوسکتی ہیں۔ اگر غیرمسلم اور مسلم کیلئے ان معاملات کے حوالے سے شعور وآگہی کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی تو اچھے نتائج نکلتے۔

نکاح اور ایگریمنٹ میں بڑا فرق
اللہ نے فرمایا کہ ” تم نکاح کرو، عورتوں میں سے جن کو تم چاہو، دودواور تین تین اور چارچار ، اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا تمہارے معاہدے جن عورتوں کے تم مالک ہو”۔ عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اگر چہ قرآن نے کہیں کہیں غلام ولونڈی پر بھی ماملکت ایمانکم کا اطلاق کیا ہے لیکن اس میں ایک معاہدے کی بات واضح ہے اور لونڈی وغلام سے بھی ایک معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ جب اس کو مطلوبہ رقم کا عوض مل جائے تو پھر وہ اس معاہدے سے آزاد ہوسکتا ہے۔ البتہ قرآن میں جہاں عورتوں سے نکاح کے متبادل کے طور پر اس کا ذکر ہوا ہے تو اس سے لونڈی وغلام مراد نہیں ہیں ،کیونکہ غلام سے تو جنسی عمل کی اجازت نہیں ہوسکتی اور لونڈی سے بھی نکاح کا حکم بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ایگریمنٹ مراد ہے اور اس کا تعلق نکاح کے مقابلے میں ایک دوسرا معاہدہ ہے۔ نکاح میں عورتوں کو انصاف مہیا کرنے کا فرض شوہر کے ذمے ہوتا ہے جبکہ ایگریمنٹ میں یہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔ ہزاروں لونڈیوں کو قید میں رکھ کر کیا انصاف دیا جاسکتا ہے؟۔ قرآن نے وہ مسائل حل کئے ہیں جو بادشاہوں نے اپنے محل سراؤں کیلئے بنائے تھے۔
قرآن کی آیات کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ لونڈیوں کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور آزاد عورتوں کیساتھ نکاح میں رکھ کر پورا پورا انصاف مہیا کرنے کا تصور دیدیا اور زیادہ عورتوں کو انصاف مہیا نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا پھر جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ معاہدے والی کو انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی ایک محدود وقت اور مالی معاونت تک کیلئے ہوسکتی ہے۔عورت اپنا خرچہ خود بھی اٹھاسکتی ہے۔ اگر عورت آزاد ہو اور شوہر غلام تو ان میں بھی معاہدہ ہوسکتا ہے جو لکھنے کی حد تک باہمی مشاورت سے طے ہوسکتا ہے۔ قرآن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ” اگر تمہیں اس میں خیر نظر آئے تو غلام کی مالی معاونت بھی کرو”۔ قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے لکھا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کو آزاد کرنے میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ آزادی کیلئے پیسہ لے کر مکاتب کرو”۔ مولانا سید مودودی نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کی سرکشی کا خوف نہ ہو اور اس میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ مکاتبت کا معاہدہ کرلو”۔ حالانکہ غلام کی آزادی میں بجائے خود خیر ہے۔ کفارہ ادا کرنے کیلئے پہلی ترجیح غلام و لونڈی کو آزاد کرنا واضح کیا گیا ہے۔
نکاح و ایگریمنٹ کا فرق اس سے مزیدواضح ہوجاتا ہے کہ نکاح میں شوہر کو پوری ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے اور ایگریمنٹ میں عورت اپنی حیثیت ہی کے مطابق کبھی مرد کو سپورٹ تک کرتی ہے۔ خاص طورپر اگرمرد غلام ہو اور عورت آزادہو۔ایگریمنٹ میں عورت کی پوزیشن نہیں بدلتی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا، جس کو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر تبیان القرآن اور شرح حدیث نعم الباری میں نقل بھی کیا ہے۔ حالانکہ ایگریمنٹ سے عورت کا تشخص نہیں بدلتا ہے۔ پہلے شوہر ہی کی طرف اس کی دنیا میں نسبت ہوتی ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ سے بھی نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ” اپنی بیٹیوں کو مجھ پر پیش نہ کرو”۔ جب قرآن میں اللہ نے یہ واضح کیا کہ ‘ ‘ تمہارے لئے وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور پھر ام ہانی کے ساتھ ایگریمنٹ کا معاملہ ہوا تو یہ سمجھ لیا گیا کہ نکاح اور ایگریمنٹ کے حلال وحرام میں فرق ہے۔ لیکن نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ ”جن سے محرم ہونے کی وجہ سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے ایگریمنٹ بھی نہیں ہوسکتا ہے”۔ حضرت علی نے بھی امیر حمزہ کی بیٹی پیش کردی تھی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” یہ میری رضائی بھتیجی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے