پوسٹ تلاش کریں

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ اخبار: نوشتہ دیوار

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

(نوٹ: خبر کے آخر میں تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ پڑھئے۔ یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا بڑا فیصلہ
چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کا مقدمہ ان کے خلاف ہونا چاہیے جو طلبہ کی آواز کو دباتے ہیں۔یہاں پر ایک آئین ہے،عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھنے پر درج FIR کے مطابق یکم مارچ کوپولیس پر پتھر برسائے۔ کیمپ دادشاہ، ایمان مزاری ،قمربلوچ اور200طلبہ بلوچ اسٹودنٹ کونسل نے لگایا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ایمان مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان طلبہ کی آواز دبائی، یہاں پر ایک آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کرے گی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی اور وکیل ایمان مزاری کی درخواست پر پولیس کو آئندہ سماعت تک گرفتاریوں سے روک دیا۔وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب پر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ اور ایمان مزاری سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے خلاف ایمان مزاری نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔جس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر درج ہوئی ہے؟ جس پر ایمان مزاری کی وکیل نے آگاہ کیا کہ ہماری معلومات کے مطابق ایف آئی آر درج کر کے سیل کر دی گئی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کیا ہو رہا ہے، احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبا کی بات سنی جانی چاہیے۔طلبا کے احتجاج پر آپ بغاوت کے مقدمے درج کر دیتے ہیں، بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان کی آواز دبائی۔ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ طلبہ کے احتجاج میں پولیس کے تین اہلکار زخمی ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی حدود میں کسی کی آواز دبائی جائے، کسی کی بھی بالخصوص بلوچستان کے طلبا کی آواز دبانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزیدکہا کہ طلبہ کی آواز دبانا درحقیقت بغاوت ہے، ساتھ ہی استفسار کیا کہ کتنے طلبا زخمی ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ یہ عدالت ایک کمیشن تشکیل دے، یہاں پر آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کرینگے۔ ضروری نہیں کہ پولیس ہر ایک کو گرفتار کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔بعدازاں سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تینوں افسران 7 مارچ کو عدالت کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ عدالت نے آئندہ سماعت تک پولیس کو مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا اور صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے معاونت طلب کر لی۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی وکیل ایمان مزاری نے اندراج مقدمہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے FIRکی کاپی فوراً فراہم کرنے اور اسکا آپریشن معطل کرنے کی استدعا کی اور استدعا کی گئی کہ FIRسیل کرنا اور کاپی فراہم نہ کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا جائے اور FIRکی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔درخواست میں ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ سیل کی گئی FIRکا آپریشن معطل کیا جائے تاکہ کوئی زیر التوا کیس کے دوران ہراساں نہ کرے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیاکہ بلوچ طلبا پر پریس کلب کے سامنے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پھر مجھ سمیت سب پرFIR درج کی۔ان کا کہنا تھا کہ پریس کلب کے باہر طلبہ جبری گمشدگیوں کیخلاف اور اپنے حقوق کیلئے احتجاج کر رہے تھے، آزادی رائے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی تھی۔ پریس کلب کے باہر پولیس نے پرامن طلبہ پر لاٹھی چارج کیا پھر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ FIRمیں بغاوت کی دفعات شامل ہیں، پولیس FIRکی کاپی فراہم کرنے سے بھی انکاری ہے اور مجھے گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔ درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا۔
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے طلبہ پر FIR درج کی گئی تھی،FIR کے مطابق مظاہرین نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے اور کیمپ کے باہر پولیس پر پتھر برسائے، کیمپ داد شاہ، ایمان مزاری اور قمر بلوچ کی سربراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل نے لگایا تھا جس میں 200 طلبہ شریک تھے۔طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کیخلاف احتجاج کررہے تھے۔
مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس کے انتباہ کے باوجود مظاہرین نے ٹینٹ لگایا جو پولیس کو بزور طاقت اپنے قبضے میں لینا پڑا جسکے نتیجے میں جھڑپ ہوئی۔بعد ازاں طلبہ پولیس کو دھکیلتے ہوئے چائنا چوک پہنچے اور دھرنا دے دیا جہاں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین گتھم گتھا ہوگئے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے موقع پر پہنچ کر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے طلبہ سے مذاکرات کیے۔پولیس اور طلبہ کی جھڑپ کے دوران 6 طالب علم اور انسداد فسادات یونٹ کے 2 افسران بھی زخمی ہوئے۔

تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ
یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔ قدوس بلوچ کی زندگی پرامن احتجاج کے ذریعے ظالم کے خلاف مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے سے عبارت ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے ظالم بادشاہوں کیخلاف پہلے مرحلے میں پرامن طریقے سے کلمہ حق بلند کرنے کے ذریعے سے جدوجہد کی تھی اور نبی کریم ۖ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ زندگی بھر کیلئے کیا تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے اس کو توڑ دیا۔ فتح مکہ میں حضرت خالد بن ولید کے ذریعے قیس عبدالرشید کی قیادت میں پختون قبائل کے لشکر نے بھی مدد کی تھی لیکن جب خالد بن ولید کے ظالمانہ طرزِ عمل کا پتہ چلا تو نبی کریمۖ نے تین دفعہ آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ”اے اللہ !میں خالد کے فعل سے بری ہوں”۔ پختونخواہ کے کوہ سلیمان کی چوٹی سلیمان تخت پر قیس عبدالرشید کی قبر آج بھی موجود ہے۔
قدوس بلوچ کی زندگی تضادات کا بالکل بھی شکار نہیں تھی۔ وہ بلوچوں کیلئے اگر مسلح جدوجہد کے حامی ہوتے تو زبانی جمع خرچ سے حمایت کرنے کے بجائے سرماچاروں کیساتھ بذات خود بھی شریک ہوتے اور اپنے بچوں اور احباب کو بھی شریک کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ ” افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے”۔ بلوچ اسلام کیلئے کبھی عرب گئے تھے لیکن امام حسین کی شہادت سے بد دل ہوگئے تھے۔ آج بھی عرب میں البلوشی کے نام سے بلوچ موجود ہیں جن کا بڑا نمایاں تاریخی کردار ہے۔عراق کے عرب البوشی نے ہی پہلی مرتبہ سرعام بازاروں میں کربلا کے شہداء کیلئے اس احتجاج کی جرأت کی تھی ورنہ تو پہلے چاردیو اریوں کے اندر احتجاج ہوتا تھا۔
منظور پشتین نے آواز لگائی کہ ”جو بھی ظلم کرے ، ہم اس کے خلاف ہیں”۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ بھی مسلح جدوجہد چھوڑ کر اپنے حق کیلئے بہت پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ قدوس بلوچ کا پروگرام تھا کہ 15مارچ سے اسلام آباد میں اپنی تحریک کے ساتھیوں اور احباب کیساتھ مشن کیلئے مستقل کام کریں۔ قدوس بلوچ نے بلوچ اسٹودنٹ کی طرف سے پرامن جدوجہد کے نتیجے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو ایک بہت مثبت پیش رفت قرار دیا ۔ آپ نے یہ مہینہ انقلاب کیلئے فیصلہ کن بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ اپنے بھانجے احسن بلوچ کو بھی دعوت دی کہ اسلام آباد میں ڈیرہ لگانے کیلئے ساتھ چلوگے۔
قدوس بلوچ کی علالت کے سبب عورت مارچ سے پہلے نوشتۂ دیوار کراچی کیلئے لاہور ، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں باقاعدہ جماعتیں نکالنے کا کام نہیں ہوسکا۔ امید تھی کہ قدوس بلوچ صحت یاب ہوکر جماعت کی قیادت بھی کریں گے۔ ہمارے ساتھی جمہوری طریقے سے امیر منتخب ہوتے ہیں اور جب تک اس کی کوئی شکایت یا سست روی کا رویہ سامنے نہیں آئے تو اس کو عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ اپنے اور پرائے ظالم کی کھل کر مخالفت کریں تاکہ منزل آسان ہو اور بے گناہ مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ صحافت کے ذریعے مخصوص طبقے کی حمایت اور مخالفت صحافت کے تقدس پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ اچھی صحافت سے ملکوں اور قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ
مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری
حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں