پوسٹ تلاش کریں

فرقہ وارانہ دلائل کی یک طرفہ وکالت سے معاملہ پیچیدہ بنا مگر حل نہیں ہوسکا۔

فرقہ وارانہ دلائل کی یک طرفہ وکالت سے معاملہ پیچیدہ بنا مگر حل نہیں ہوسکا۔ اخبار: نوشتہ دیوار

فرقہ وارانہ دلائل کی یک طرفہ وکالت سے معاملہ پیچیدہ بنا مگر حل نہیں ہوسکا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیعہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود کچھ بھی ہیں لیکن انکے بارہ ائمہ اہل بیت بنوامیہ وبنوعباس کے ادوار میں بھی مظلوم تھے اور خلافت راشدہ کے دور میں بھی انکے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے!
جب شیعہ کے وہ موٹے موٹے دلائل منبر ومحراب پر بیان ہوں جن سے صرفِ نظر ممکن بھی نہیں تو اہل تشیع کی شدت میں خاطر خواہ کمی آئیگی اور اتحاد واتفاق کی راہ بھی ہموارہوگی
جب سنی اپنی اصلاح کریں اور شیعہ کو چھوڑ دیں تو دنیا میں خلافت کانظام قائم کرنے کے اہل بن جائیںگے۔پھر شیعہ بھی صحابہ کرام کا پیچھاچھوڑکر اپنی اصلاح کرنے لگیںگے!

علی سے یہودی نے سوال کیا کہ تمہارے نبی (ۖ) کا انتقال ہوا تو غسل دینے ،کفنانے اور دفنانے سے پہلے تم جانشینی پر لڑے اور فتنے کا خدشہ پیدا ہوا ؟، تفریق وانتشار کے اختلاف کا کیا جواز تھا؟۔ اس پر ذرا بھی شرمندگی کا احساس نہیں ؟۔ حضرت علی نے تاریخی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا فروعی مسئلے پر اختلاف ہے۔ اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش اللہ نے رکھی ہے۔ خلافت کا مسئلہ عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ انتظامی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش بھی ہے لیکن تمہارے تو ابھی دریائے نیل سے پیر بھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیھماالسلام کی موجودگی میں سامری کی سازش سے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ جس پر یہودی بہت زیادہ شرمندہ ہوگیا تھا۔
آج ہم نے اپنے عقیدے ومسلک کا دفاع نہیں کرنا بلکہ اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اقبال نے کہاکہ” علماء و مشائخ کا احسان ہے کہ ہم تک دین اسلام پہنچایا مگر جس اللہ نے جبرائیل کے ذریعے حضرت محمدۖ پر یہ دین نازل کیا تھا جب وہ اس کی حالت دیکھیں گے تو حیران ہوں گے کہ کیا یہ وہی اسلام ہے؟۔
یہ انتہائی خطرناک ہے کہ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کا کردار بھیانک پیش کرکے اپنی غلطی پر پردہ ڈالا جائے۔ بارہ ائمہ اہل بیت کی بدولت شیعہ بہتر ہوتے مگر بے جا تنقید نے ان کو دنیا کے سامنے تماشا بنادیا ہے۔ رسول اللہ ۖ کی وفات پر انصار کے سعد بن عبادہ نے اپنا لشکر جمع کرکے نبیۖ کا جانشین بننے کا اعلان کرنا تھا تو یہ درست تھا؟ اور اس کی وجہ سے بعد میں بھی حضرت سعد بن عبادہ نے کبھی حضرت ابوبکر و عمر کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھی۔ کیا یہ ٹھیک تھا؟۔ حالانکہ حضرت سعد بن عبادہ السابقون الاولون کی پہلی صف میں کھڑے تھے۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کے بیٹے مولانا محمد یوسف نے اپنے وفات سے تین دن پہلے ”اُمت پن” کے نام سے اتحاد امت کیلئے آخری تقریر کی تھی جس میں انتہائی دردناک اور غم آمیز لہجہ ہے۔ اس میں سعد بن عبادہ کے کردار کا ذکر ہے جس نے امت میں توڑ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اسلئے ان کو جنات نے قتل کردیا، جب اللہ نے صحابی پر رحم نہیں کیا تو امت میں انتشار پیدا کریںگے تو ہماری خیر ہوگی؟۔ مولانامحمد یوسف کی یہ تقریر بہت مشہور ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ قلم اور کاغذ لیکر آؤ ۔ میں تمہیں ایسی چیز لکھ کر دیتاہوں کہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ (صحیح بخاری ) اگر انصار نے اپنی خلافت کیلئے ایک مجلس کا اہتمام کیا اور حضرت ابوبکر و عمر نے وہاں پہنچ کر اپنا مؤقف پیش کیا کہ ” خلافت قریش کا حق ہے اور نبی ۖ نے فرمایا: الائمة من القریش (امام قریش میں سے ہوں گے)” ۔ توسوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نبیۖ نے مجمع عام میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح کردینی تھی۔ جب نبیۖ کی وصیت لکھوانے کی ضرورت نہیں تھی اور قرآن کافی تھا تو پھر یہ حدیث انصار مان سکتے تھے؟۔ لیکن انصار کی اکثریت نے بات مان لی اور حضرت ابوبکر سے ہنگامی بنیاد پر بیعت قابلِ قبول قرار دے دی گئی۔ صحابہ کرام نے نبیۖ کی تدفین پر خلیفہ مقرر کرنے کا مسئلہ مقدم کردیا لیکن وہ خود فرماتے ہیں کہ ابھی قبر کی مٹی ہمارے ہاتھوں میں تھی کہ خود کو فتنوں میں مبتلا محسوس کررہے تھے۔حضرت علی و ابن عباس اور کچھ دیگر صحابہ نے بھی اس اقدام کو ناگوار سمجھا کیونکہ عام قریش کے مقابلے میں اہل بیت کو زیادہ حق دارسمجھتے تھے۔ اہل بیت کے فضائل کی احادیث بھی ہیں اور ابوسفیان نے بھی علی سے کہا تھا کہ اگر آپ چاہو تو ابوبکر سے یہ مسند چھین لیتے ہیں لیکن علی نے نہیں مانا۔ پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کردیا اور حضرت عمر نے خلافت کیلئے جو شوریٰ بنائی تھی اس میں ایک بھی انصاری نہ تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت عثمان کا 40دنوں تک محاصرہ ہوا۔ پانی پہنچانے میں رکاوٹ اور نماز کیلئے نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت علی نے کوفہ کو دارالخلافہ بنالیا ۔
پاکستان میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان ،محمد علی بوگرہ، خواجہ نظام الدین ، حسین شہید سہروردی اور سکندر مرزا کا تعلق ہندوستان یا بنگال سے تھا۔فیروز خان نون اور ایوب خان کا تعلق پنجاب و پختونخواہ سے تھا۔ 75سالوں سے جو پاکستان کیساتھ ہوا اورسواچودہ سو سال سے جو اسلام کیساتھ ہوا، دونوں کی کہانی ایک ہے۔ قرآن میں انصار ومہاجرین کے مقام ومرتبہ میں فرق نہیں تھا مگر جس طرح سامری نے بچھڑے کو معبود بناکر حضرت موسیٰ وہارون کی موجود گی میں بنی اسرائیل کو آزمائش میں ڈال دیا اور اس کی وجہ سے حضرت موسیٰ نے پیغمبر بھائی حضرت ہارون کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ لیا۔ اسی طرح سقیفہ بنی ساعدہ کی میٹنگ نے صحابہ کرام میں ایک وسیع تر مشاورت کا موقع گنوادیا تھا۔
فتح مکہ سے پہلے اور بعدکے صحابہ کرام میں قرآن وسنت نے فرق رکھا تھا۔ 30سالہ خلافت راشدہ کے بعد فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے حضرت حسن و حسین اور دوسرے صحابہ کی موجودگی میںفتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے امیرمعاویہ نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ حضرت علی کیلئے باقاعدہ بیعت غدیر اور پھر حدیث قرطاس سے انحراف کا معاملہ سنی شیعہ کے درمیان متنازع فیہ ہے۔بنوہاشم پر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی ترجیح پہلا مرحلہ تھا لیکن اس وقت خاندانی بنیاد پر قبضہ نہ تھا۔ بنوامیہ کے بعد بنوعباس واہل بیت کے درمیان ترجیحات کی بات آئی تو فیصلہ علی ، حسن اور حسین کی اولاد کے حق میں نہیں ہوابلکہ بنوعباس کے حق میں ہوا۔ دلیل یہ دی گئی کہ حضرت عباس نبیۖ کے چچا اور علی چچازاد تھے اور چچا کے ہوتے ہوئے چچا زاد وارث نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ پھر حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور بنوامیہ کا کیا بنے گا جو چچا تھے اور نہ چچازاد تھے؟۔ پھر جب سلطنت عثمانیہ قائم ہوگئی تو قریشی کی شرط بھی نظرانداز کی گئی تھی۔
اگر غدیر خم پر علی کی بیعت کا لحاظ رکھا جاتا۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق قرآن کیساتھ دوسری بھاری چیز اہل بیت کو تھام لیا جاتا جس کی وضاحت ہے کہ اہل بیت سے ازواج مطہراتیہاں مراد نہیں تو بھی بات ہوتی، حدیث قرطاس لکھنے دی جاتی تو بھی معاملہ بن جاتا۔ خلافت راشدہ کے دور میں عثمان کی تخت خلافت پر شہادت ، علی کا دارالخلافہ چھوڑ دینا اور پھر بنوامیہ وبن عباس کا خاندانی بنیاد پر قبضہ کرنا بالکل بھی معقول بات نہیں تھی لیکن بعد میں جب سلطنت عثمانیہ، مغلیہ سلطنت، بادشاہوں ،خانقاہوں ،مدارس ، درگاہوں اور جماعتوں کی روش بھی موروثی بن گئی تو ایک طرف خلافت راشدہ سے زیادہ بنوامیہ کا دفاع کیا گیا اور دوسری طرف خلافت راشدہ پر ایمان کو متزلزل کردیا گیا۔ حالانکہ ایران میں امام آیت اللہ خمینی کے بعد اس کی اولاد کوجانشین نہیں بنایا گیا۔ جب اہل بیت کے چھٹے امام جعفر صادق کی اولاد اورماننے والوں میں انکے بڑے بیٹے اسماعیل اور چھوٹے بیٹے امام موسیٰ کاظم کے درمیان خلافت کے مسئلے پر اختلاف ہوا تھا تو شیعہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ اسماعیلی شیعہ جماعت خانے میں نماز کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور اثناعشریہ کی جگہ سنی مکتبۂ فکر کی مساجد میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب امام جعفر صادق کو اقتدار نہیں ملا تھا تب بھی ان کے انکے پیروکار اور اولاد تقسیم ہوگئے تو پھر صحابہ کیلئے بھی ان کو نرم گوشہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب علی، حسن، حسیناور دیگر ائمہ اہل بیت کے قریبی ساتھیوں سے شیعہ خوش نہیں تھے تو نبیۖ کے ساتھیوں سے بھی خوش نہیں ہوسکتے ہیں۔
ہمیں ایک نکتہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جب ائمہ اہل بیت کو مظلوم سمجھنے کے باوجود بھی اہل تشیع کا ایک بڑا طبقہ اپنے ہی دوسرے طبقے کو مشرک اور نصیری کہتا ہے تو پھر اگر ان کو خلافت ملتی تو سبھی نصیری بن جاتے۔ جس پیریڈ میں بنی اسرائیل بچھڑے کو معبود بنانے سے گمراہ ہوگئے تھے تو اس میںوہ حضرت ہارون کی صحبت میں تھے۔ حضرت موسیٰ نے ان کو مشرک بنتے دیکھ کر حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑلیا تھا۔قدرت نے مہربانی کی کہ امت مسلمہ کی تقدیر میں شرک کی جگہ تفریق کا بیج بودیا تھا۔نبیۖ نے فرمایا کہ کسی قسم کا عذاب امت پر نہیں آئے گا لیکن آپس کی تفریق وانتشار سے بچانے کا اللہ نے وعدہ نہیں کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے مرکز بستی نظام الدین انڈیا میں مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد اور رائیونڈ کے درمیان بھی انتشار ہے اور مولانا حق نواز جھنگوی کے بیٹے کو بھی سپاہ صحابہ نے سائیڈ لائن پرلگادیاہے۔
حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ” مور مرغ کی طرح مورنی پر چڑھتا ہے” لیکن مور حرام ہے یا حلال ہے؟۔ اس پر شیعہ اثناعشریہ کے مجتہدین کا اتفاق نہیں ہے اور دونوں اپنی اپنی روایات ائمہ اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ بہت سارے دیگر مسائل وفرائض میں بھی اہل تشیع میں حلال وحرام اور جائز وناجائز کا اختلاف ہے۔ حالانکہ تین سو برس تک ائمہ اہل بیت کا سلسلہ موجود تھا۔ سنی مکتبۂ فکر کے ائمہ بھی اہل بیت کے شاگرد تھے۔ ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے سے زیادہ اپنی اصلاح اور حقائق کی طرف رُخ کرنے سے معاملہ بنے گا۔ جب خمینی کے بعد ایران میں جمہوریت ہے اور نبیۖ کے بعد خلافت راشدہ نے جمہوری انداز میں خلفاء مقرر کئے تھے تو اس پر بات ہوسکتی ہے کہ کونسی جمہوریت بہتر ہے اور کونسی بہتر نہیں ہے لیکن جمہوری نظام کے ذریعے بیعت خلافت سے معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ مذہبی جماعتوں ، مدارس اور خانقاہوں نے دو دو انچوں کے گھروندے بناکر اپنے بال بچوں کی روزی کا بندوبست کر رکھا ہے اور ہر فریق اپنے عیش وعشرت اور اللے تللے پر خوش ہے لیکن امت مسلمہ کی اجتماعیت کی کوئی بھی فکر نہیں کرتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے ”۔ (صحیح مسلم)۔ امریکہ میں جمہوری نظام کے ذریعے سے بارک حسین اوبامہ ایک سیاہ فام اجنبی مسلمان کا بیٹا دو مرتبہ صدر بن سکتا ہے۔ لندن کا میئر ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کا بیٹا بن سکتا ہے تو حق کی روایت اسلام نے دنیا میں ڈالی تھی جب بڑے بڑے سرداروں سے سیدنابلال حبشی کا مقام بڑا تھا۔
پاکستان نے جنرل ایوب خان سے پہلے میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا سے پہلے جن لوگوں کو اپنا حکمران تسلیم کیا وہ بھی بڑی قربانی اور اچھائی تھی اور پھر ایوب خان سے پرویزمشرف تک فوجی حکمرانوں اور انکے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو آج تک برداشت کررہے ہیں تو بھی بڑی بات ہے لیکن اب عوام کے جم غفیر کو نکل کر خانقاہوں سے رسم شبیری ادا کرنا ہوگی۔ بیعت کے ذریعے سے سچوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانا ہوگا ۔ اللہ نے حکم دیا کہ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین ”اے ایمان والو! اللہ کیلئے تقویٰ اختیار کرو اور سچو ں کیساتھ ہوجاؤ”۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹے اور سچوں میں تفریق کرنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہاہے۔ نبیۖ نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا تھا، کسی سے زبردستی سے زکوٰة نہیں لی تھی اور نہ کسی کو زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کیا تھا اور افغان طالبان نے بھی ملاعمر کے وقت سے اپنے اندر بہت تبدیلی پیدا کرلی ہے اور اب مزید بھی بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیںگے۔ انشاء اللہ العزیز۔
پاکستان کا ماحول ، ریاست، علماء ومشائخ اور سیاستدان وسیاسی کارکن اور عوام دنیا بھر میں بہت زبردست اور الگ تھلگ ہیں۔ یہ سبھی امامت کے حقدار ہیں لیکن اب بہت نااہل بھی بن گئے ہیں۔JUIکے سابق سینٹر صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان نے کہا کہ ” مولانا فضل الرحمن نے اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگایا ہے اسلئے مسلمان نہیں رہا۔ اسرائیل یعقوب کا نام تھا”۔جن چرواہوں اور نوابزادوں کو جمعیت میں شامل کیا گیا پھر ان کا کیا ہوگا؟، ذرا سوچئے توسہی!۔
یزیدکے دور میں شہداء کربلا کیساتھ کیا ہوا تھا؟۔ اور خان عبدالقیوم نے بھی بابڑہ میں ایک کربلا برپا کیا تھا۔ روس کی مخالفت کے نام پر پیسے لیکر مجاہد پیدا کئے اور امریکہ سے پیسہ لیکر مجاہدین کو سپرد کیا۔ بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں۔ اب سو چوہے کھا کر بلی حاجن بن گئی ہے۔ کہیں لگڑ بگاکے شکار نہ ہوجائیں۔ وقت کی مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتاہے تو ”لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی ” کے مصداق بھی بن سکتے ہیں۔ اگر فتح مکہ کے بعد صحابہ کرام مقدس تھے تو فتح مکہ سے پہلے تھوڑے لوگوں کی وجہ سے سب اچھے بن گئے۔ پاکستان کا تھوڑا اشرافیہ ٹھیک نہیں، عوام اور اداروں کی اکثریت بڑی اچھی ہے اور جب خوشگوار انقلاب آجائے گا تو پوری دنیا کی کایا بھی پاکستانی پلٹ دیں گے اور افغانستان، ایران، بنگلہ دیش اپنے بلاک کا حصہ بنیںگے اور عرب ہمارا ساتھ دیں گے۔ ہندوستان دوستی سے مسلمان ہوجائیگا اور روس نظام سے دوست بن جائیگا۔ کچھ اچھاکرکے ہی اچھا بن سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ملک اور غریب کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔اسلام کی یہی خوبی سب سے زیادہ دنیا کیلئے قابل قبول ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز