مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان
مئی 15, 2022
مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
یورپ عورت کے حقوق کامطالبہ کرتا ہے لیکن ہمارا اشرافیہ عورت مارچ سے خوف زدہ ہے، پدر شاہی نظام کے خلاف باشعورعورت بھی آواز اٹھارہی ہے۔ افغان طالبان نے مؤقف پیش کیا ہے کہ عورت آزاد جنس اور انسان ہیں ان پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا ۔ اقبال نے شیطان کی مجلس شوریٰ میں کہا کہ
الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر حافظِ ناموسِ زن ،مرد آزما ، مرد آفریں
پاکستان کا معاشرتی دارالخلافہ تختِ لاہور ہے ۔ جہاں ہیرہ منڈی ہے۔ مغرب میںعورت پرجبری جنسی تشددہوتا ہے اور وہ بھی حقوق سے محروم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو سورۂ النساء آیت19میں خلع کا حق دیا ہے اوراسکے بعد کی آیات20،21سورۂ النساء میں مردوں کو طلاق کا حق دیا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی بے غیرتی کیا ہوسکتی ہے کہ جب عورت اپنے شوہر کے پاس رہنا نہیں چاہتی ہو اور بے غیرت مرد پھر بھی اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرتا ہو؟۔
عورت کواسکا شوہر اپنی جاگیر سمجھتا ہے ۔ اسکے نام پربینک بیلنسن، زمین، اپنا گھر کرتاہے۔ عورت خلع لے تو قرآن نے فرمایا : لاترثوالنساء کرھًا و لا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیموھن شئےًا الا ان یأتین بفاحشة مبینة وعاشروھن بمعروف وان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئًا ویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO(سورہ ٔ النساء آیت19)” عورتوں کے زبردستی مالک مت بن بیٹھواور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو تم نے ان کو مال دیا ہے کہ ان میں سے بعض واپس لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریںاور ان کیساتھ (خلع کے باوجود) اچھا برتاؤ کرو۔اگر وہ تمہیں بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر بنادے”۔
عورت اپنے شوہر کو اپنا مجازی خدا کہے تویہ بھی رسم ہے لیکن شوہر اپنی بیوی کا زبردستی سے مالک نہیں بن سکتا۔ اگر وہ خلع لینا چاہتی ہو اور شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو تو اللہ نے اجازت دی ہے اور مردوں کو تلقین کردی کہ ان کو اسلئے مت روکو کہ تم نے جو کچھ بھی ان کو دیا بعض چیزیں واپس لے لو۔ البتہ اگر وہ کھلی فحاشی کریں تو بعض چیزیں واپس لی جاسکتی ہیں لیکن کپڑے ، جوتے اور سب کچھ پھر بھی نہیں۔
عورت خلع لیکر جارہی ہو تو اسکے ساتھ بدسلوکی کے بڑے خدشہ کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اچھے انداز کیساتھ پیش آنے کی تلقین قرآن کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس وقت عورت بری لگ سکتی ہے لیکن اللہ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اس میں تمہارے لئے بہت ساراخیر بنادے۔ پہلا خیر یہ ہوسکتا ہے کہ عورت کچھ دنوں یا عرصہ کے بعد خودواپس آجائے اور اس میں زندگی گزارنے کا زیادہ اچھا سلیقہ آجائے۔ دوسرا خیر یہ کہ وہ بد دلی سے خود کو اور شوہر، بچوں اور گھروالوں سے انتقام لینے کی کاروائی نہ کر ڈالے۔ تیسرا خیر یہ کہ اس کی جگہ ایسی عورت ملے جس کیساتھ زیادہ بہتر انداز میں زندگی گزرے۔ چوتھا خیر یہ کہ اس کی وجہ سے عزت برباد ہونے سے بچ جائے۔ کئی خیر ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے کہ بدلے میں بیکار عورت سے بھی واسطہ پڑسکتا ہے اسلئے اللہ نے امکان کا ذکر کیا تاکہ رشتہ جوڑنے کا کرداراداکرنے کی کوشش حتی الامکان ہوتی رہے۔
مولوی نے عورت سے خلع کا حق چھین لیا تو یہ کم علمی ،جہالت ، بدنیتی اور بد تہذیبی ہے۔ کرتوت خراب ہوں تو چہرے پر بدصورتی کے علاوہ نحوست ٹپکتی ہے پھر اس خیال میں گھر کی بھیدی عورت لنکا ڈھا سکتی ہے۔ ظاہر و باطن میں فرق ہوتووہ اپنی بیگمات سے خلع کا خوف رکھتے ہیں پھر وہ قرآنی آیات کی وضاحتوں کو بھی نہیں مانتے ۔ خلع میں عورت کو حق مہر کے علاوہ شوہر کی دی ہوئی منقولہ اشیاء ساتھ لیجانے کا حق حاصل ہو اور غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد سے وہ دستبردار ہوجائیں تو مسلم معاشرے میں نہیں مغرب میں بھی انقلاب برپا ہوجائیگا۔ خواتین وحضرات سب کیلئے یہ قانون قابلِ قبول ہوگا جو فطرت کا تقاضہ ہے۔ طلاق میں شوہر کو تمام دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس لینے کا حق نہیں۔ سورۂ النساء آیت20،21میں بھرپور وضاحت ہے۔
مغرب نے عورت اور مرد کی جائیدادوں کو برابر برابر تقسیم کرنے کا غلط اور غلیظ قانون دیا ہے ۔ جمائمانے عمران خان پر اعتماد کیا اور عمران خان نے بقول یوٹیوبر کے12ہزار کروڑ پاونڈ جمائما کی جائیداد سے لینے کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ غیرفطری قانون ہے ۔اگر عمران خان ریحام خان کو طلاق کے بعد بنی گالا کاگھر حوالے کردیتا تو ریحام خان کبھی اسکے خلاف کتاب لکھ کر اس کا تیاپانچہ نہ کرتی۔ جس سے ساکھ کو نقصان پہنچا اور قادر پٹیل کی تقریر کا اسمبلی میں سامنا کرنا پڑا۔
عورت کو خلع کا حق اور مالی تحفظ حاصل ہوتا تو ن لیگ کی حکومت پنجاب کو ضرورت نہ پڑتی کہ خواتین کوگھریلو تشدد سے بچاؤ کیلئے کوئی ایسا بل منظور کرتی جو مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کی وجہ سے واپس لینا پڑتی۔ خلع کا حق رکھنے والی خاتون پر شوہر اور اسکے گھر والے کوئی ستم نہیں ڈھاسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں خلع کا حق نہ دینے کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا علماء ومفتیان کو کرنا پڑتا ہے اور جن کا حل بھی انکے بس کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مدلل حل نکل آئیگا تو سب سے زیادہ خوشی علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کو ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ العزیزالرحمن الرحیم
یہودی علماء کاکرداریہ تھا: یحرفون الکلم عن مواضعہ ” یہ لوگ جملوں کو اپنی جگہوں سے بدلتے ہیں”۔قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا۔ علامہ انورشاہ کشمیرینے کہاکہ ”بہت معنوی تحریف ہمارے علماء نے کی ہے”۔ سورۂ النساء آیت19میںعورت کاخلع واضح ہے مگر علماء اور مذہبی اسکالروں نے جگہ بدل ڈالی ہے ۔الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان و لا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھاومن یتعد حدود اللہ فاؤلئک ھم الظٰلمونOفان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ …(.البقرہ آیت229،230)
ترجمہ :” طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں ،یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پس اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اسکے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے…..”۔ (البقرہ::229،230)
طلاق کے بعد عورت کے مالی حق کی حفاظت ہے کہ جو شوہر نے چیزیں دی ہیں ان میں سے کچھ واپس لینا حلال نہیں ۔ مگر جب دونوں اور تم خوف محسوس کرو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ وہ کونسی صورت ہے کہ جس میں وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے خوف کھائیں کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ؟۔ اگر یہ چیزواپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو پامال کریں۔ بدکاری کے مرتکب ہوجائیں ۔ قرآن کے الفاظ میں قطعی کوئی ابہام نہیں ہے۔بقیہ صفحہ 2نمبر1پر
بقیہ…… مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور جاوید احمد غامدی جیسے لوگوں کا اس آیت کے ترجمے میں معاوضہ دیکر خلع کی بات کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ”اس آیت کا ترجمہ ومفہوم انتہائی مشکل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے وتفسیر سے اسکا حل نکالنے میں تھوڑی بہت مدد ملی ہے”۔
حالانکہ قرآن میں جہاں عورت کامالی حق محفوظ ہو ،وہاں عورت کو خلع کے نام پر بلیک میل کرنا بھونڈی حرکت ہے جو یحرفون الکلم عن مواضعہ کی بڑی مثال ہے۔ اس آیت کے واضح ترجمہ میں ان مشکلات کا حل بھی ہے جن کی وجہ سے فقہاء و محدثین نے امت کوگمراہی کے دلدل میں ڈبودیا ہے۔
آیات229،230البقرہ سے پہلے اور بعد کی آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح ، رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے اور تمام آگے پیچھے کی آیات میں واضح کیاگیا ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ۔ایک طلاق یا اشارہ کنایہ کی طلاق اور حتی کہ ایلاء جہاں طلاق کے الفاظ کا اظہار بھی نہ ہو، تب بھی شوہر کیلئے عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں ۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے واضح طور پراپنی ازواج کو اختیار دینے کا بھی حکم فرمایا تھا۔
مشکلات کا شکار علماء اسلئے ہیں کہ اگر خلع سے پیدا ہونے والے مسائل کا چرچا عوام میںہواتو ان کو داڑھیاں منڈواکر شناخت بھی تبدیل کرنی پڑے گی۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا فتویٰ ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق اور پھر اپنی بات سے مکر گیا تو عورت پھر بھی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے اور اگر اسکے پاس دو گواہ نہیں تھے تو ہر قیمت پر خلع لے گی۔ اگر شوہر کسی صورت اور قیمت پر بھی خلع دینے پر راضی نہ ہو تو عورت اسکے نکاح میں حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ پھر جماع کے وقت عورت لذت نہیں اٹھائے ورنہ گنہگار ہوگی”۔توبہ العیاذ باللہ تعالیٰ
حکیم الامة مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” حیلۂ ناجزہ ” میں بھی یہ مسئلہ لکھ دیا۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا یہ فتویٰ ہے۔ کیا یہود، نصاریٰ، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ مت اور کسی کیلئے ایسے گھناؤنے مسائل قابلِ قبول ہیں؟۔ اگر پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو تو جان چھوٹ جائے گی ،جس طرح قادیانیت سے جان چھڑائی گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھ دیا کہ ”اگر شوہر بیوی سے کہے کہ طلاق طلاق طلاق تو تین طلاق واقع ہوجائیںگی اور بیوی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہو تو پھر ایک ہی طلاق واقع ہوگی لیکن بیوی پھر بھی اس کو تین طلاق ہی سمجھے”۔ (بہشتی زیور: مولانا تھانوی)
ایک طرف عورت شوہر کے نکاح میں ہو گی اور دوسری طرف عورت سمجھے گی کہ وہ اس پر حرام ہے۔ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرے توپھر نکاح پر نکاح ہوگا اور شرعی لحاظ سے حرام ہوگا اور مر د نے اس کو اپنے پاس رکھنا ہو تو اس کیلئے جائز ہوگی لیکن عورت اس کو حرام سمجھے گی۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ اور اسکے قرآن اور اسکے رسول رحمت للعالمین ۖ کی شریعت ہوسکتی ہے؟۔ اگر یہی اسلام ہے تو اس سے کفر ، یہودیت، ہندومت، نصرانیت وغیرہ بہتر نہیں ؟۔ یہ اسلام نہیں بلکہ مولوی کے پیٹ کی ہوا ہے۔ جب حقائق کا سامنا کرنا پڑئے تو ٹیٹیں مارتا ہوا گدھے کی طرح بھاگے گا اور اعتراف کرے گا کہ واقعی نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ” یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی” اور جس طرح قرآن میں یہود کے علماء کی مثال گدھے کی ہے جن پر کتابیں لادی گئی ہوں۔ ہٹ دھرم اورہڈ حرام لوگوں کا وقت قریب لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علماء حق کی حفاظت فرمائے اور حق کی آواز بلند کرنے کی بھی جلد از جلد توفیق عطاء فرمائے۔
بریلوی دیوبندی درسِ نظامی کے نصاب میں فقہ حنفی کا یہ مسلک ہے کہ عربی میں ف تعقیب بلا مہلت کیلئے ہے اور آیت230میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ یعنی ایک تو پہلے دومرتبہ طلاق دی ہو اور پھر تیسری طلاق سے پہلے فدیہ عورت نے دیا ہو۔ پھر اس سے مربوط طلاق دی جائے تو اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ اس کی تائید علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد” میں حضرت ابن عباس کے قول سے کی ہے ۔ معروف حنفی عالم علامہ تمنا عمادی نے اس پرکتاب ” الطلاق مرتان ” لکھی ہے۔جسکے لاجواب ہونے کی تعریف مدرسے کے اپنے ایک استاذ سے بھی سنی تھی۔ علامہ تمنا عمادی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان ہجرت کی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان نے طلبہ کو تلقین فرمائی تھی کہ روزانہ بلاناغہ قرآن کا ایک ایک رکوع عربی متن و ترجمہ کے ساتھ غور وتدبر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ سورۂ بقرہ میں آیت229سے231تک ایک رکوع ہے۔ اس ایک رکوع کے غور وتدبر سے چودہ طبق روشن ہوسکتے ہیں۔ اپنے اساتذہ کرام اور علماء حق کا دل وروح سے بہت قدردان ہوں۔
قرآن میں رکوع کا رکوع سے ربط ہے۔ آیت228البقرہ میں یہ واضح ہے کہ ”طلاق کے تین ادوار ہیں،عدت کے آخر تک باہمی اصلاح کی شرط پر طلاق شدہ عورتوں کو انکے شوہروں کو لوٹانے کا حق ہے”۔ قرآن میںیہ تضاد نہیں ہے کہ پہلے اصلاح کی شرط پرعدت کے آخر تک رجوع کی گنجائش رکھے پھر اسکے برعکس دومرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کی گنجائش رکھے اور تیسری طلاق کے بعد عدت کے اندر باہمی اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کا راستہ روکے۔ اتنا بڑا تضاد کسی عقلمندانسان کی کتاب میں بھی نہیں ہوسکتا۔چنانچہ اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (آیت229) معروف طریقے سے روکنے کا مطلب اصلاح کی شرط پر روکنا ہے لیکن معروف کی شرط کو حنفی وشافعی فقہاء نے منکر بنادیا ۔ حنفی کے نزدیک نیت کے بغیر شہوت کی نظرسے بھی رجوع ہوگا اور شافعی کے نزدیک نیت کے بغیر جماع سے بھی نہیں ہوگا۔ یہ مسائل اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی کتاب ” طلاق ثلاثہ :مصنف حبیب الرحمن” میں شائع کردی ہیں۔
نبیۖ نے غضبناک ہوکر ابن عمر کے سامنے واضح فرمایا تھا کہ ” اپنی بیوی سے طلاق کے بعد رجوع کرلو۔ طہر میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے، پھر طہر میں رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر طہر آئے تواگر روکنا چاہتے ہو تو روک لو اور چھوڑنا چاہتے ہو توچھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے”۔( بخاری کتاب التفیسرسورۂ طلاق)۔
عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا فعل ایکدوسرے سے جدانہیں۔ فقہاء نے قرآن اوراحادیث صحیحہ کے بالکل برعکس بہت سارے مسائل گھڑ لئے ہیں۔یہ بھی لکھاہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تو پہلا پھر بھی دوطلاق کا مالک ہو گا۔یہ بھی لکھا کہ حرام کے لفظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔یہ بھی لکھاہے کہ پہلی اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی ، دوسری طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بھی لکھاہے کہ دوسری طلاق واقع ہوجائے گی تیسری طلاق واقع نہ ہوگی۔ علماء ومفتیان کی اکثریت مخلص ہے لیکن سمجھ نہیں رکھتے۔
نبیۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ فرمایا : ”الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان حسان کیساتھ چھوڑنا تیسری طلاق ہے”۔ حنفی اصول کے مطابق ف تعقیب بلامہلت کے حوالے سے بھی تیسری طلاق کا تعلق تسریح باحسان ہی سے بنتا ہے۔
آیت229کے بعد230البقرہ میں اس صورت کی وضاحت ہے کہ جب میاں بیوی اس طرح سے جدا ہونا چاہتے ہوں کہ آئندہ آپس میں رابطے کی بھی کوئی صورت نہ رکھیں ۔ ان آیات میں جو تحفظ عورتوں کو جن الفاظ میں دیا گیا ہے اگر لوگوں پر کھل جائے تو دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمان سرخرو ہوجائیں۔ مرد اپنی معشوقہ اور منگیترکوغیرت کی وجہ سے مقدور بھر نہیں چھوڑتا کہ دوسرا شخص اس سے نکاح کرلے تو طلاق شدہ بیوی کوکہاں اجازت دے گا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں اور جس سے چاہے نکاح کرلے؟۔ برطانوی شہزادہ چارلس پر پیرس فرانس میں لیڈی ڈیانا کو طلاق کے بعد غیرت کے قتل کا مقدمہ ہوا۔ جس طلاق کے بعد بھی عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے قرآن کی تمام آیات میں رجوع کی گنجائش نہیں لیکن یہود کی توراة کی طرح قرآن کو ترک کرنے والوں نے آیات کے واضح الفاظ میں اصلاح، معروف طریقے، باہمی رضا مندی کے تمام واضح الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے دومرتبہ طلاق رجعی کا تصور دیا۔ جس سے جاہلیت میں مسلمانوں کو دھکیل دیا گیا۔ اگر دومرتبہ غیرمشروط طلاق رجعی کا تصورہو تو شوہر کو عورت پر تین عدتیں گزارنے کا حق ہوگا۔ ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع ، پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع اور پھر تیسری مرتبہ طلاق کے بعد سے تیسری عدت گزارنے پر مجبور کرسکے گا۔
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں سورۂ بقرہ کی ان آیات کا خلاصہ ہے۔ جب ام رکانہ کے شوہر نے تین طلاقیں دی اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع نہیں کیا اور ایک اور عورت سے نکاح کیا تواس نے کہا کہ وہ نامرد ہیں۔ نبیۖ نے اس کو چھوڑنے کا فرمایا اور ام رکانہ سے رجوع کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کوتلاوت فرمایا۔ یہ حدیث ابوداؤد شریف میں موجود ہے۔ جہاں تک صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ حضرت رفاعة نے جس عورت کو طلاق دیدی تھی اور نبیۖ نے اس کو دوسرے شوہر کی لذت اٹھانے کا حکم دیا تھا تو پہلی بات یہ ہے کہ عورت کو نبیۖ نے یہ حکم تو نہیں دیا کہ ایک دم تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ عدت گزارو۔ پھر دوسرے شوہر سے حلالہ کراؤ۔ پھر شوہر کے پاس آجاؤ۔ بلکہ وہ پہلے سے دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ شکایت یہ تھی کہ وہ نامرد ہے اسلئے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے۔ کیا نبیۖ اس عورت کو نامرد کے پاس رہنے پر مجبور کرسکتے تھے؟۔جب نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں تھی تو نبیۖ اس کو کیسے یہ حکم دے سکتے تھے؟۔
اصل بات یہ تھی کہ بخاری شریف میں یہ وضاحت بھی ہے کہ رفاعة نے اس عورت کو مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی تھی اسلئے اس سے یکمشت تین طلاق کا حکم نکالنا بہت بڑی بددیانتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت فرمائی ہے تو نبیۖ اس کی کیسے خلاف ورزی کا تصور بھی فرماسکتے تھے؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس عورت کو اپنے شوہر نے بری طرح مارا پیٹا تھا اور بخاری کی دوسری روایت میں تفصیل کا ذکر ہے اور اس شخص نے اپنے نامرد ہونے کی بہت سخت الفاظ میں تردید کی تھی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نبیۖ نے ان میںصلح صفائی کروائی ہوگی۔ ضروری نہ تھا کہ جب رفاعة نے ایک مرتبہ اس کو چھوڑ دیا تو اس کو دوبارہ قبول بھی کرلیتا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے اپنی کتاب ” کشف الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھا ہے کہ ”یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس میں اتنی جان نہیں کہ حنفی مسلک کے نزدیک قرآن کے الفاظ نکاح پر جماع کا اضافہ کیا جائے۔ ہم قرآن میں نکاح سے جماع مراد لیتے ہیں حدیث سے استدلال نہیں پکڑتے ”۔ یہ ساری باتیں حلالے کا شکار کھیلنے والوں کی تردید کرتی ہیں اور اسلام قرآن وسنت کا نام ہے اور فقہاء کے پیٹ کے مسائل کانام نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تیسری طلاق کو حلالے کیلئے بنیاد قرار دیا جائے ،جب لونڈی اور غلام کی دو طلاقوں میں تیسری طلاق ممکن بھی نہیں ہے تو پھرلونڈی اور غلام کی طلاق کیلئے حلالے کاراستہ دو طلاقوں سے کیوں ہموار کیا گیا ہے؟۔ حلالہ کیلئے ہرقیمت پر راستے ہموار کرنے کا فتویٰ؟۔ جب کہا جائے کہ نبیۖ کی صحیح حدیث ہے کہ ”خلع کی عدت ایک حیض ہے”۔ تو اس پر کہا جائے کہ ”قرآن میں عدت تین حیض ہے ،حدیث سے قرآن پراضافہ نہیں جاسکتا ہے”۔ حالانکہ قرآن میں بیوہ کی عدت4 ماہ10دن ہے اور حمل میں بچے کی پیدائش سے یہ مدت کم کی گئی ۔ جب ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی جائے تو عورت پر شوہر کی عدت کاکوئی حق نہیں جس کو شمار کیا جائے تو پھر خلع میں بھی حدیث صحیحہ کے مطابق ایک حیض کی عدت کافی ہے۔ جس پر سعودیہ کی حکومت عمل بھی کررہی ہے۔
محمود بن لبید کی روایت میں کسی شخص کی تین طلاق پر نبیۖ کے غضبناک ہونے کا ذکر ہے جس پر کسی شخص نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ یہ نامعلوم اکٹھی تین طلاق دینے والے ابن عمرتھے اور قتل کرنے کی پیشکش والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم میں حسن بصری کی روایت ہے کہ بڑے مستند شخص نے کہا کہ ”عبداللہ بن عمر نے بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں۔پھرزیادہ معتبر شخص نے20سال بعد بتایا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف اور من گھڑت احادیث نے قرآن وسنت کا رخ تبدیل کردیا ۔ حضرت ابوبکر و عمر نے احادیث پر پابندی لگادی تھی۔ حضرت عمر نے تین طلاق پر رجوع کا حکم ٹھیک جاری کیااسلئے کہ عورت صلح پر آمادہ نہ تھی۔اگر ایک طلاق کے بعد عورت صلح پر آمادہ نہ ہو توقرآن میں رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق ہے اسلئے اگر بیوی دعویٰ کرے کہ اس کو طلاق دی گئی اور شوہر حلفیہ انکار کردے تو پھر اس کو طلاق نہیں خلع تصور کیا جائے گا اور عورت کو طلاق نہیں خلع کے مالی حقوق ملیںگے۔ اسلام کو کم عقلوں نے بگاڑ دیاہے۔
جب ایک شخص حاضرہو اور دوسرا غائب ہوتو حاضر کے عیب کی اصلاح کرنا شریعت، فطرت اور انسانیت کا تقاضہ ہے اور غائب کے عیب کا تذکرہ کرنا غلط ہے۔ قرآن نے اس کو اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے اور حدیث میںغیبت کو زنا بھی زیادہ سخت قرار دیا گیا۔ عورت کے حقوق کی علمبردار ہدی بھرگھڑی نے اپنی ایک تقریر میں کیا خوب نکتہ اٹھایا ہے کہ نبیۖ کے دور میں مساجد کے اندر عورت بھی موجود ہوتی تھی اور آج بھی حرم مکہ میں عورت مرد کیساتھ نماز، طواف، صفا ومروہ کے سعی اور منی ومزدلفہ کے قیام میں ساتھ ہوتی ہے۔ لیکن جب عام مساجد کے اندرجمعہ کے اجتماعات میں خطیبوں کے سامعین صرف مرد ہوںگے تو خطیب حضرات مردوں کے حقوق بیان کریںگے۔
اگر فیملی پارک، شاپنگ مال، سکول،کالج اور یونیورسٹی میں مخلوط ہوسکتا ہے تو مساجد میں بھی مخلوط ماحول سے صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ فیملی مساجد کا قیام یا چھڑوں پر مساجد کے اندر خاص اوقات میں پابندی سے یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ مغربی تہذیب کا مقابلہ ،فحاشی وعریانی کا خاتمہ اپنی عورتوں کو گھروں میں بٹھانے اوردوسری خواتین کا تماشہ دیکھنے سے نہیں ہوتا۔ مسجد کے امام پراپنی فیملی مسجد میںلانے کی پابندی لگے اور امام کو گھر کی بھی سہولت ملے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
لوگوں کی راۓ