اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے اخبار: نوشتہ دیوار

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اِنَّ الّذِیْنَ جَآئُوْا بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْر لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْہُمْ لَہ عَذَاب عَظِیْم (النور)

بیشک جو لوگ بہتان کے ساتھ آئے وہ تمہارے اندر سے ایک گروہ ہے، آپ لوگ اس کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے۔ان میں سے ہر ایک نے اپنے حصے کا گناہ کمایا ہے۔اور ان میں سے جس ایک بڑے نے ان کی سرپرستی کی ہے،اس کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔(سورۂ النور:آیت11)

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورة نور کی اس آیت میں اس گروہ کی نشاندہی ہے جس نے حضرت اماں عائشہ پر بہتان لگایا تھا۔ اس گروہ میں جس جس فرد کا جس جس قدر حصہ تھا،اتنا اتنا اس نے گناہ کمایا تھا۔ رئیس المنافقین نے اس بہتان کی سرپرستی کی تھی۔جس کا نام عبداللہ ابن ابی تھا۔اس کے بیٹے مخلص صحابہ کرام تھے۔ نبیۖ نے ان کی دلجوئی اور رحمت للعالمینۖ کے تقاضے سے اس کو اپنا کرتہ کفن کیلئے عطاء فرمایا تھا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی تھی اور اسکی قبر پر کھڑے ہوکراس کیلئے مغفرت کی دعا بھی فرمائی تھی۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے عرض کیا تھا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے ،اگر اس کی دوسری شرارتوں اور فتنہ انگیزی کونظر انداز بھی کردیا جائے تو حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کی شرارت کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟۔ لیکن نبیۖ نے پھر بھی رحمت للعالمین ہونے کا ثبوت دیا تھا اور یاد رہے کہ اللہ نے فرمایا :ان المنافقین فی در ک اسفل من النار ”بیشک منا فقین جہنم کے نچلے ترین حصے میں رہیں گے”۔ عبداللہ ابن ابی ان کا سردار تھا۔اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو ایسے کردار کیلئے یہاں تک فرمایا کہ ” اگر70مرتبہ بھی آپ اس کیلئے استغفار کریں گے تو اللہ اس کو معاف نہیں کرے گا”۔ یہ کثرت کیلئے تھا۔ اگر نبیۖ کو یقین ہوتا کہ100مرتبہ استغفار کرنے پر اللہ معاف کردے گا تو ایک تسبیح ضرور عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کیلئے پھر بھی پڑھ لیتے۔لیکن اللہ نے کسی صورت اس کو معاف نہ کرنے کی وضاحت کی تھی۔
جب کوئی شرارت کا سرغنہ ایک راستہ دیکھ لیتا ہے تو ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ سیدھے سادے لوگ اس کے جال کا بری طرح شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ابن ابی کو پتہ چل گیا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ سفر کے موقع پر کاروان سے پیچھے رہ گئیں تھیں اور ایک گھر کے خادم نے دیکھ لیا تو وہ ساتھ لے کر آگئے۔ اس واقعہ کا سن کر رئیس المنافقین نے منصوبہ بندی کرلی اورایک گروہ تیار کرلیا جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے۔ اس گروہ میں ہر فرد کا اپنا اپنا کردار تھا۔
یہاں سمجھانے کیلئے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ شیطانی منصوبہ ساز گروہ کاسرغنہ کیسے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت حاجی محمد عثمان کے خلاف اپنے مرید و خلفاء نے پہلے ایک سازش تیار کی اور اس میں اندر اور باہر کے لوگوں کو ساتھ ملا کرالاستفتاء تیار کیا اور حاجی محمد عثمان پرفتویٰ بھی منصوبہ بندی سے لگادیا۔ اس کی تفصیلات دیکھ کر عوام کی عقل دنگ رہ جائے گی کہ معززین کہلانے والوں کا اتنا گھناؤنا کردار بھی ہوسکتا ہے ؟۔ اور سادہ لوح مفتی اعظم مفتی ولی حسن ٹونکی کس طرح سے اس سازش کا شکار ہوگئے؟۔ پھر ایک دوسرا دور آیا کہ حضرت حاجی محمد عثمان کے انتقال کے بعد کس طرح سے ان کو زہر کھلانے کی جھوٹی داستان گھڑی گئی اور بہت مخلص لوگ بھی اس کا زبردست طریقے سے شکار ہوگئے تھے۔
چشم دید معاملات کو دیکھنے کے بعد اچھی طرح سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رئیس المنافقین نے کس طرح سے منصوبہ بندی کی سرپرستی کی ہوگی؟۔قرآن کی آیات میں سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کی جتنی تفصیلات ہیں وہ قیامت تک کی رہنمائی کیلئے کافی ہیں۔ سورة محمد میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ” وہ کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں”۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ جب انسان اپنے مقصد کیلئے کام کرتا ہے تو پھر وہ قرآن سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
واقعہ افک بہتان عظیم میں کس کا کیا کردار تھا؟۔ حضرت ابوبکر کے رشتہ دار حضرت مسطح ،معروف نعت خوان حضرت حسان ، نبیۖ کی سالی حمنا بنت جحش نے بہتان لگایا تھا اور ان کو80،80کوڑوں کی سزا بھی ملی تھی۔ سورۂ نور کی تمام آیات میں بہت بڑا انقلاب موجود ہے لیکن یہ مختصر اخبار اسکا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ ” اس واقعہ میں اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے”۔ آج جو مسلمانوں کے اندر ایک بہت بڑا حساس معاملہ بنا ہے کہ توہین رسالت اور اذیت رسول کے نام پر لوگوں کومحض تہمت لگاکر بھی قتل کیا جاتا ہے تو اس میں خیر کا یہ پہلو ہے کہ اس سے بڑھ کر اذیت رسول کی مثال کوئی نہیں ہوسکتی ہے مگر بہتان لگانے والوں کو قتل نہیں کیا بلکہ کوڑے مارے گئے تو کیا قرآن نے ان جذباتی لوگوں کی درست ترجمانی نہیں کی ہے یا اس سے کسی کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے؟۔ علماء اس کی نشاندہی عوام کے سامنے کریں۔
خیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں لکھا ہے کہ قرآن اورسنت کے مطابق قانون سازی ہوگی لیکن ہماری عدالتوں میں حرام خوری کا مال کمانے کی مقدار پر ہتک عزت کے دعوے ہوتے ہیں۔ جو اپنے لئے جتنے پیسے خرچ کرکے بڑا کیس لڑسکتا ہے وہ اپنی ہتک عزت میں اتنے پیسوں کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔ مریم نواز کی ہتک عزت کروڑوں ،اربوں اور کھربوں میں ہوسکتی ہے لیکن ایک غریب خاتون کی عدالت میں عزت اتنی بھی نہیں جتنی رقم سے وہ اپنا کیس لڑسکے اور اگر معروضی حقائق کو دیکھا جائے تو اس غریب عورت کو اپنی عزت اتنی پیاری ہوگی کہ اس کا باپ پچاس مرتبہ بھی وزیراعظم کی کرسی تک پہنچے لیکن وہ اجنبی افراد کے ہجوم میں اس طرح سرِ عام اسٹیج پر ایک مرتبہ بھی گھل مل نہیں سکتی ہے۔
نبیۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ اسلئے نہیں ہے کہ لوگوں کیلئے قطعی طور پر قابلِ قبول نہ ہو بلکہ اعلیٰ ترین نمونہ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بدترین دشمن بھی اسکو قبول کرنے سے نہیں ہچکچاسکتے ہیں آج پاکستان میں قرآن وسنت کا یہی قانون نافذ کیا جائے کہ غریب وامیر کی عزت برابر ہے۔ جس پر بھی بہتان لگے تو اس کی پاداش میں روپے کا کھیل نہیں کھیلا جائے گا بلکہ اسی اسی کوڑے مارے جائیں گے۔80کوڑوں کی سزا سب امیر وغریب کیلئے برابر ہے لیکن امیر کیلئے زیادہ رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عزت انمول چیز ہے ۔ انسان کی غیرت بھی گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی عزت کی کوئی قیمت لگائی جائے اور جس عزت کی قیمت لگے تو وہ عزت نہیں بلکہ قابلِ فروخت دھندہ ہے۔ اسلام کوئی نایاب چیزوں پر عمل کا نام نہیں بلکہ انسانی خمیر کی اس فطرت کے مطابق رہنمائی کرنے والا ایسا دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اشرف المخلوقات کیلئے نازل فرمایا ہے۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے اوریہ سلسلہ روایات اور اپنوں پرایوں کے درمیان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اہل تشیع کے ائمہ ومجتہدین نے ان کی توہین واہانت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن کچھ لوگ قرآن سے بھی مطمئن نہیں تو حضرت عائشہ کے خلاف توہین آمیز روش کے مظاہرے سے باز نہیں آتے ہیں۔مسلمانوں کو قرآن سے رہنمائی لینی چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ