پوسٹ تلاش کریں

تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں،کہہ دو!اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے

تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں،کہہ دو!اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے اخبار: نوشتہ دیوار

تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں،کہہ دو!اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے

قرآن میں اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ آپ سے یہ لوگ فتویٰ مانگتے ہیں اور اللہ انہیں خودفتویٰ دیتا ہے!

یستفتونک قل اللہ یفتیکم ”آپ سے فتویٰ مانگتے ہیں کہہ دو اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے”۔(القرآن)

سورہ نساء میں اللہ نے فرمایا: یستفتونک قل اللہ یفتیکم ” یہ لوگ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں ۔ کہہ دیں کہ اللہ فتویٰ دیتا ہے”۔ النسائ:176
جب فتویٰ اللہ کی طرف سے ہوگا تو قرآن میں موجود ہوگا اور نبیۖ نے فتویٰ دیا ہوگا تو احادیث صحیحہ میں موجود ہوگا ۔ حضرت عمر نے بھی قرآن کے عین مطابق فتویٰ دیا تھا لیکن مسلکی وکالت میں بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں ہوئی ہے۔
ایک شخص پاکستان اور دنیا بھر میں تمام مسالک شیعہ ، اہل حدیث اور حنفی کے بڑے مدارس اور بڑے بڑے دارالافتاء سے یہ فتویٰ طلب کرتا ہے کہ
میں نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ تجھے تین طلاق۔ اب بیوی کہتی ہے کہ مجھے اس طلاق کے بعد علیحدگی اختیار کرنی ہے۔ میں نہیں چاہتی ہوں کہ شوہر مجھ سے پھر رجوع کرے اور ازدواجی تعلقات استوار کرے۔ لیکن میں رجوع چاہتا ہوں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی کیجئے۔ جزاک اللہ فی الدارین۔
حضرت عمر کی عدالت کا فیصلہ یہ ہوگا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے ۔ جب عدت پوری ہوجائے تو عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ کیا حضرت عمر نے یہ فیصلہ قرآن کے منافی کردیا ہے؟۔اگر نہیں تو پھر اس کی دلیل کیا ہے؟۔
المطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء ولایحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاٰخر و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علھین درجة البقرہ:آیت228
ترجمہ :”طلاق شدہ عورتیں تین ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں۔اور ان کیلئے حلال نہیں ہے کہ اس کو چھپائیں جو اللہ نے پیٹ میں پیدا کیا ہے ، اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اوراس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر وہ اصلاح کرناچاہتے ہوں۔ اور ان عورتوں کے بھی ایسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے معروف طریقے سے ہیںاور ان پر مردوں کا ایک درجہ ہے”۔ (سورةالبقرہ:آیت228)
قرآن میں اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد اختیار دیا ہے کہ اگر رجوع نہیں کرنا چاہتی ہو تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ صلح سے انکار کردے۔ اور عورت کی طرف سے انکار کی صورت میں شوہر کو رجوع کا کوئی حق اللہ نے نہیں دیا ہے۔
حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا تھا۔ اگر حضرت عمر نے یہ فیصلہ نہیں دیا ہوتا تو پھر لوگ گمراہی کا شکار ہوکر طلاق کو کھلواڑ بنادیتے ۔اگر شیعہ اور اہل حدیث کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے غلط فیصلہ کیا ہے تو صحابہ کرام، تابعین عظام ، تبع تابعین ذی احترام اور ائمہ اربعہ اصحاب مقام ہی نہیں پوری دنیاکے تمام ممالک کی عدالتوں میں حضرت عمر اور قرآن کا یہ فیصلہ پیش کردو۔ سب اس کے درست ہونے کی تصدیق کردیں تو پھر برائے مہربانی اہل سنت کو کہنے دیں کہ حضرت عمر واقعی فاروق اعظم تھے اور اپنے اپنے مسلک اہل حدیث و اہل تشیع کو بھی قرآن اور حضرت عمر کے فیصلے کے مطابق درست کرنے کا اعلان کریں۔
اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں یا نہیں؟۔ بلکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دیتا ہے تو بیوی پھر رجوع کیلئے راضی نہیں ہے تو کیا شوہر کو پھر رجوع کا حق حاصل ہے یا نہیں ؟۔ حضرت عمر نے اقتدار کی کرسی پر فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ میاں بیوی کے درمیان حق اور نا حق کا فیصلہ کرنا تھا۔ حضرت عمر نے بالکل قرآن وسنت اور فطرت کے عین مطابق فیصلہ کیا۔ اگر نبی ۖ کے سامنے بھی ایسا تنازعہ آتا تو یہی فیصلہ دینا تھا۔ قرآن میں بھی یہی فیصلہ قیامت تک رہنمائی کیلئے موجود ہے۔
فتویٰ تو رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کا نہیں ہمارے حضرت علامہ مولانامفتی علی ہی کا چلنا تھا۔اسلئے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا: انامدینة العلم علی بابھا ”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ ایک شخص نے حضرت علی سے فتویٰ لیا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ آپ مجھ پر حرام ہو اور وہ اب میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے ۔ حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ:”اب آپ کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے”۔یہ فتویٰ بھی قرآن کی روشنی میں تھا کہ جب عورت راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے۔
سب سے بڑی مصیبت اور جہالت یہ ہے کہ عرب وعجم نے ایمان، علم اور دین کو اختلافات ، فرقہ واریت اور مسلک پرستی کی نذر کرتے ہوئے آسمان اور ثریا تک پہنچادیا ہے۔ اتنی سادہ سی بات بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ اللہ نے قرآن میں باہمی اصلاح کی صورت میں رجوع کی اجازت دی ہے اور باہمی اصلاح کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دی ہے۔ یہ امت مسلمہ یہود ونصاریٰ کی طرح افراط وتفریط کا شکار ہوگئی۔ ایک طبقہ شیعہ اور اہل حدیث اس انتہاء کو پہنچ گیا ہے کہ اگر ایک ساتھ عورت تین طلاق کے بعد راضی نہ ہو تب بھی طلاق نہیں ہوئی اور شوہر کو مکمل طور پر رجوع کا حق ہے اور دوسرا طبقہ مقلدین مغلظین ضالین اور ظالمین کا اس انتہاء کو پہنچ گیا ہے کہ باہمی اصلاح کے باوجود بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے حلالہ کی لعنت سے عورتوں کی عزتوں سے کھلواڑ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔جیسے زنا ایک جرم ہے اور اس کو سزا کے ذریعے سے ہی روکنا ممکن ہے،اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر حلالہ کی لعنت بہت بڑا جرم ہے اور اس سے روکنے کیلئے زنا سے بھی سخت سزا دینے کے بغیر یہ نہیں رک سکتاہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنماسینیٹر مشاہداللہ خان مرحوم اورایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے بیانات میں بہت کھل کر حلالہ کی مخالفت کی تھی لیکن جب تک کوئی سیاسی جماعت اس کی طرف درست توجہ نہ دے تو یہ مسئلہ اجاگر کرنا بہت مشکل ہے اسلئے کہ بڑے مدارس میں بدمعاش اور مافیا طبقہ مسلط ہے اور ان کی وجہ سے چھوٹے علماء کرام اور مفتیان عظام بھی سامنے آنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ حلالہ پیٹ بھرنے کیلئے اور نفسانی خواہشات جھڑنے کیلئے مذہب کے نام پرایک زبردست ڈھال ہے ۔ شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کی ویڈیو وائرل ہوگئی تو اس کی وجہ سے کتنی خفت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن حلالہ کی ہزار ویڈیوز بن جائیں تو ان کو بالکل بھی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ہتک عزت کا دعویٰ کریں گے۔
بہت مساجد ومدارس والے کہتے ہیں کہ ہم حلالہ کے قائل نہیں مگر بڑے مدارس ملوث ہیں تو ان سے فرق نہیں پڑتا ۔ قرآن نے یہودونصاریٰ کیلئے کہا کہ ”انہوں نے اپنے احبار و رھبان کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنالیا”۔ نبی ۖ نے فرمایا:”یہ امت بھی انکے نقش قدم پر چلے گی”۔ سیاسی جماعتیں پاکستان کو حقیقی ریاست مدینہ بنانے کیلئے حلالہ کی لعنت کیخلاف بڑے فرعونوں سے ٹکر لیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز