پوسٹ تلاش کریں

علماء کرام و مفتیانِ عظام کون ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے اورامام مہدی کون ہیں اور حقیقت کیا ہے؟

علماء کرام و مفتیانِ عظام کون ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے اورامام مہدی کون ہیں اور حقیقت کیا ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

علماء کرام و مفتیانِ عظام کون ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے اورامام مہدی کون ہیں اور حقیقت کیا ہے؟

امام مہدی کون ہیں؟، کب آئیںگے اور اس کا علماء کرام ومفتیانِ عظام سے کیا اختلاف ہوگا اور اس کو مہدی کیوں کہا جائیگا، علماء کرام ومفتیان عظام اور عام تعلیم یافتہ میںکیا فرق ہے؟

سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علماء کرام ومفتیان عظام کون ہیں اور یہ کس طرح علماء ومفتیان بنتے ہیں؟۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے زندگی قرآن کریم پڑھنے ، پڑھانے اور خلافت قائم کرنے میں گزاردی لیکن عالم دین نہیں کہلائے اور نہ خود کو وہ عالم دین سمجھتے تھے اور نہ وہ عالم دین تھے۔ ایسے کئی سارے مذہبی اسکالر ہیں۔ ایک آدمی قرآن کے ترجمہ وتفسیر کو سمجھتا اور سمجھاجاتا ہے مگر عالم دین نہیںہے۔ ایک آدمی احادیث صحیحہ علماء ومفتیان سے زیادہ سمجھتا ہے اور تبلیغ بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی عالم دین نہیں ہے اور ایک آدمی قرآن کے ترجمہ وتفسیر کو بھی سمجھتا ہے اور احادیث صحیحہ کو بھی لیکن پھر بھی وہ عالم دین نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی فقہی مسائل کو علماء دین سے زیادہ ازبر کرلیتا ہے اور قرآن وحدیث کو بھی علماء دین سے زیادہ سمجھتا ہے تب بھی اس کو عالم دین نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ عالمِ دین کیلئے بنیادی چیز درس نظامی ہے اور اصولِ فقہ ہے جس میں قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس کو فرقِ مراتب اور ائمہ کے اختلافات کیساتھ پڑھایا جاتا ہے۔
برصغیر پاک وہند کے علاوہ جامعہ ازہر مصر اور مدینہ یونیورسٹی میں بھی کافی عرصہ سے اصول فقہ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جس نے اصول فقہ سے قرآن واحادیث کی بنیادوں اور حفظ مراتب کو نہیں سمجھا تو وہ عالم دین نہیں ہے اور اس بات میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے۔ اصولِ فقہ ایک بنیادی علم ہے۔
پاکستان میں دیوبندی بریلوی مکتبۂ فکر کا تعلق حنفی مسلک سے ہے اور ان کا تعلیمی نصاب ”درسِ نظامی ” ایک ہے ۔ مسلک حنفی اور دیگر فقہی مسالک کے حوالے سے دونوں مکاتب فکر کا یکساں مؤقف ہے۔ دونوں کے اکابرنے ایک ہی طرح کی کتابوں اور اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی ہے۔
اصولِ فقہ چار ہیں۔پہلا کتاب اللہ ، دوسرا حدیث ، تیسرا اجماع ہے اور چوتھا قیاس ہے۔ کتاب سے مراد سارا قرآن نہیں بلکہ500آیات جو احکام سے متعلق ہیں۔ باقی کتاب وعظ اور قصے ہیں جن کا احکام سے تعلق نہیں ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھی کے مرشد بھرچنڈی شریف والے تھے جس کے اب جانشین بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کا تعلق بھی دیوبندی مکتبۂ فکر سے تھا لیکن پہلے مرشد حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف تھے۔ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلفاء میں دیوبندی اور بریلوی دونوں تھے۔
اگر دونوں مل کر قرآن کریم کی ان500آیات کو نکالتے ،جن سے احکام نکلتے ہیں تو ان پانچ سو آیات کی برکت سے دونوں فرقہ واریت میں تقسیم ہونے کے بجائے متحد ومتفق رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے۔500آیات ان سب کیلئے رشد وہدایت کا بہترین ذریعہ ہوتیں۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی والے بھی ان کے اس نصاب سے بھرپور ہدایت حاصل کرتے اور ہدایت عام ہوتی۔
ہوتا کیا ہے کہ اصول فقہ کی تعلیم میں ایک طرف آیت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے جس کے سیاق وسباق سے اصول فقہ پڑھنے والا طالب علم اور پڑھانے والا استاذ دونوں ناواقف ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک طرف قرآنی آیت کا ایک ٹکڑا حتی تنکح زوجاً غیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ دوسری طرف حدیث ایماامرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل باطل باطل ” جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ قرآن میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے کہ ”یہاں تک کہ وہ نکاح کرے” تو حدیث صحیحہ خبر واحد کا اس قرآنی حکم پر اضافہ نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ناقابل عمل ہے۔ عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر بھی مسلک حنفی میں نکاح کا حق حاصل ہے۔ وہ بھاگ کر اور کورٹ میرج سے نکاح کرسکتی ہے۔ جبکہ جمہور مسالک شافعی، مالکی ، حنبلی، اہلحدیث اور جعفری میں حدیث صحیح ہے اور اگر عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ یہ نکاح نہیں حرامکاری ہے۔
حنفی مسلک والے کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ حدیث صریح وصحیح اور جمہور فقہی مسالک کے مقابلے میں حنفی مسلک قرآن کے مطابق ہے اور باقی باطل ہیں۔ یہ پختہ ذہن بنتا ہے کہ قرآن کی باقی آیات ،احادیث صحیحہ ،دیگر مسالک کے دلائل اور نئی اجتہادی فکر کی طرف دیکھنے کے بجائے بس حنفی مسلک کی تقلید ہی نجات ، رشد وہدایت اور کامیابی وکامرانی کا ذریعہ ہے۔
طالب علمی کے دوران جب ایک واضح حدیث کو اسلئے رد کردیا جائے کہ وہ قرآن کے منافی ہے۔ بھلے قرآنی آیت کے سیاق وسباق کو جانتا ہے یا نہیں ؟۔ اور بہت سارے طلبہ کوتو یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ قرآن کا جو مفہوم اصولِ فقہ کی کتاب میں لکھا ہے وہ کیا ہے اور کس طرح حدیث سے ٹکراتا ہے؟ لیکن انہوں نے یہ رٹا لگانا ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ہے اسلئے اس کو قابلِ عمل نہیں سمجھا جاسکتاہے۔ پھر احادیث کے ذخائر سے بھی ان کا اعتمادبالکل اٹھتاہے ۔ اصول فقہ میں حنفی مسلک کی بڑی پریکٹس احادیث کو رد کرنے کی ہوتی ہے۔
اصولِ فقہ میں ہے کہ طلاق کی عدت ثلاثة قروء ” تین ادوار ہیں”۔ لفظ تین خاص ہے۔ طلاق کیلئے عدت میں عورت کے پاکی کے دن اور حیض کے دن ہوتے ہیں۔ شریعت میں پاکی کے دنوں میں طلاق دینے کا حکم ہے۔ جب پاکی کے دنوں میں طلاق دی جائے تو جس طہر میں طلاق دی جائے ،اس کا کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ طہر ادھورا ہوگا۔ تین طہر شمار کئے جائیں تو ایک طہر ادھورا ہونے کی وجہ سے ڈھائی بن جائیںگے اسلئے قرآن کے لفظ خاص ”تین” پر پورا پورا عمل کرنے کیلئے عدت کے تین ادوار سے ”تین حیض ” مراد لئے جائیں۔ تاکہ قرآن پر عمل ہو۔ جبکہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ” طلاق کی عدت میں تین قروء سے تین اطہار مراد ہیں”۔ عربی میں گنجائش ہے کہ قروء سے تین حیض مراد لئے جائیں یا تین طہر ۔ حضرت عائشہ نے تین اطہار مراد لئے ۔ جمہور نے بھی حضرت عائشہ کی وجہ سے تین اطہار مراد لئے ہیں لیکن حنفی مسلک قرآن کے مطابق ہے اسلئے حضرت عائشہ ، صحابہ ، جمہور فقہاء اور سب کے مقابلے میں حنفی مسلک کی تقلید قرآن کا تقاضاہے۔ امام ابوحنیفہ کیلئے نبیۖ نے فرمایا کہ ”فارس میں سے ایک شخص ہوگا ، اگر دین، ایمان اورعلم ثریا پر پہنچ جائے تب بھی وہاں سے واپس لے آئیگا”۔قرآنی آیت واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم ”اور ان میں سے آخرین جو ابھی پہلوں سے نہیں ملے ہیں” (سورہ جمعہ)
اصول فقہ میں ہے کہ فان طلقہا کا تعلق اپنے ماقبل سے متصل فدیہ سے ہے ۔ لغت میں ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے۔ اس طلاق کا تعلق اسلئے خلع سے ہے۔شافعی مسلک میں فدیہ یعنی خلع جملہ معترضہ ہے۔ تاکہ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق بھی واقع ہوسکے۔ جبکہ فدیہ خلع بذات خود طلاق ہے اور تیسری طلاق کے بعدچوتھی طلاق بن جائے گی۔
جس امام ابوحنیفہ کے نام پر احادیث اورحضرت عائشہ کی علمی حیثیت نہ ہو اسلئے کہ قرآن ، عربی لغت اور ریاضی کے حساب سے امام ابوحنیفہ نے علم کو ثریا سے واپس لوٹا یا ہو توکسی اسلامی سکالر کی کیا حیثیت رہتی ہے جس نے اصول فقہ کی گہرائی نہ پڑھی ہو اور قرآن وحدیث کا ترجمہ کیاہو؟۔جب درسِ نظامی میں ترجمہ قرآن، تفسیر، احادیث ، فقہ ،اصول فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے تو سب کے اپنی اپنی جگہ پر اپنے فن کی مہارت رکھتے ہیں اور جو کتاب بار بار پڑھاتے ہیں وہ بھی طلبہ کو اچھی طرح سمجھانے کی صلاحیت بھی مشکل سے حاصل کرتے ہیں۔ ایک علم کا دوسرے علم سے کوئی ربط بھی نہیں ہوتاہے۔ فقہی مسائل کے انبار ہوں تو ان کا اصول فقہ سے تعلق نہیں ہوتا اور اصول فقہ میں آیات کے ٹکڑوں کا تفسیر وترجمہ سے کوئی ربط نہیں ہوتا ہے اور قرآن کی آیات کا احادیث سے ربط نہیں ہوتاہے۔
اساتذہ کرام فرماتے تھے کہ درسِ نظامی میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ صرف ان علوم وفنون پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہیں اس کاہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ فارغ التحصیل بن گئے ہیں۔ گویا عالم بننے کی صلاحیت درسِ نظامی سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلئے درسِ نظامی کے بڑے علماء کرام ہمیشہ خود کو ایک طالب علم ہی قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ علم پر گرفت حاصل کرنا بہت زیادہ مطالعہ و صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ درس نظامی کا پڑھا ہوا نہیں ہوتا ہے تو انجینئر محمد علی مرزا، جاوید احمد غامدی اور غلام احمد پرویز کی طرح یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس جیسا کوئی دوسرا پیدا نہیں ہواہے۔
اصول فقہ کی کتابیں ہمیں شیخ التفسیر مولانا بدیع الزمان نے پڑھائی تھیں۔ جوجامعہ بنوری ٹاؤن سے پہلے دارالعلوم کراچی اور مفتی تقی عثمانی کے استاذ تھے۔ مفتی محمد شفیع جب دارالعلوم کراچی میں طالب علم تھے تو شیخ الہند مولانا محمودالحسن حدیث کے استاذتھے۔شیخ الہند چار سال مالٹا کی جیل سے رہا ہوکر آئے تو مفتی شفیع اس وقت درسِ نظامی سے فارغ ہوکر دارالعلوم دیوبند میں استاذ تھے مگر مفتی محمد شفیع نے اپنی ویڈیو میں کہا ہے کہ وہ شیخ الہند کی باتیں سمجھنے سے قاصر تھے۔
جب میں ساتویں، آٹھویں، نویں ، دسویں جماعت میں تھا تو آزادی ہند، قادیانیت اور سیاسی جماعتوں کی تحریکوں کو نہ صرف سمجھتا تھا بلکہ انقلابی ذہن بھی بن گیا تھا۔ بریلوی دیوبندی اور شیعہ سنی مناظرانہ کتابوں میں بھی دسترس حاصل کی تھی ۔ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا تو نصاب کی کتابوں پر ایسے سوالات کا ریکارڈ بنایا کہ ہمارے چھوٹے اساتذہ اپنے بڑے اساتذہ کے پاس جواب کیلئے بھیج دیتے تھے لیکن ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہوتا تھا تو مجھے دادملتی تھی۔ اور اساتذہ نے یہ کریڈٹ دیا کہ نصاب کی اصلاح تم خود ہی کرلوگے۔
مولانا بدیع الزمان کے سامنے جب میں نے یہ بات رکھی کہ فقہ حنفی کا مسلک یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث کی تطبیق ہوسکے تو دونوں کو قابلِ عمل بنایا جائیگااور آیت اور حدیث میں مسلک حنفی کے اس اصول پر عمل ہوسکتا ہے۔ قرآن میں طلاق شدہ عورت کو بااختیار قرار دیا گیا ہے اور حدیث میں کنواری کیلئے ولی سے اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ استاذ کی آنکھوں میں خوشی کی چمک پیدا ہوئی اور آئندہ کیلئے اس پر مزید تصفیہ کی طرف جانے کاارشاد فرمایا۔ قرآن میں بیوہ کو بھی عدت کے بعد مزید زیادہ وضاحت کیساتھ خود مختار قرار دیا گیا ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ قرآن کی دھیمی اور کھلی وضاحت کے باوجود طلاق شدہ اور بیوہ پر ولی کی اجازت لازم ہے اور یہ احناف کے مقابلے میں زیادہ گمراہی کی بات ہے اور کنواری ہی کا ولی ہوتا ہے ۔ شادی کے بعد طلاق یافتہ اور بیوہ خود مختار ہوجاتی ہے۔ اسلئے حدیث میں ولی کی اجازت کا تعلق کنواری سے ہے ۔ قرآن میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ الایامیٰ یعنی طلاق شدہ وبیوہ کا نکاح کراؤ۔ اور اپنی کنواری لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو،اگر وہ نکاح چاہتی ہوں۔ اگران پر جبر کیا گیا تو پھر اللہ ان کے جبر کے بعد غفور رحیم ہے۔ معاشرے میں کنواری کیلئے جبر کا تصور عام ہے۔ اللہ نے ایک طرف ان کو بغاوت سے منع کیا ہے اور ان کی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف اگر ان کو مجبور کیا گیا تو بغاوت کی طرح جبر بھی غلط ہے۔ لیکن اس پر حرام کاری کا اطلاق نہیں ہوتا۔
بفضل تعالیٰ قرآنی آیات میں زبردست تفصیل ہے جس سے حدیث صحیحہ کی مزید توثیق بھی ہوتی ہے لیکن بغاوت اور جبر پر حرامکاری کا بھی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اگر ایک وسیع مشاورت قائم ہوجائے تو پھر مدارس و عوام کیلئے مشترکہ اور متفقہ مسائل کا حل نکالنے میں بھی کوئی دیر نہیں ہوگی۔اسی طرح ثلاثة قروء میں3کے لفظ کی ریاضی کے حوالے سے بالکل غلط نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جس طہر میں طلاق دی ہے اور پھر اس کے بعد تین حیض شمارکئے جائیں تو عدد ساڑھے3سے بھی بڑھ جائے گا۔ یہ سوال بھی زمانہ طالب علمی میں اپنے اساتذہ کرام کے سامنے اٹھایا تھا۔ اب اپنی کتاب اور اخبارمیں یہ مسائل ایسے حل کردئیے ہیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے جومیرے اساتذہ کرام کیلئے اعزازہے۔
جہاں تک ف تعقیب بلامہلت سے تیسری اور دومرتبہ طلاق کے درمیان خلع کا تعلق ہے تو اس پر بھی تشفی بخش جوابات دیکر مسئلہ حل کردیا ہے۔ حنفی مسلک اور عربی قاعدے کا تقاضا ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ ف تعقیب کی وجہ سے فامساک بمعروف او تسریح باحسان کیساتھ ہو۔جو حدیث میں بھی واضح ہے اور اس کے بعد خلع کا کوئی ذکر بنتا بھی نہیں ہے جس کی تفصیل صفحہ نمبر2پر دی گئی ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اس معاملے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ اگر قرآنی آیات کا فطری ترجمہ سیاق وسباق کیساتھ کیا جائے توپھر اس گمراہی کے دلدل سے بہت جلد نکل سکتے ہیں۔ جب اصول فقہ کی کتابوں کا درست مفہوم بھی سمجھ نہیں آتا ہو اور قرآن کا ترجمہ وتفسیر بھی الٹاسیدھا کیا جائے تو اس کے نتائج ہدیت کی جگہ پر گمراہی والے ہی نکل سکتے ہیں۔البقرہ آیت229کاترجمہ ومفہوم سب نے غلط لکھا ہے اور یہ ایک دوسرے سے نقل کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس میں خلع کا ذکر نہیں ہے۔ خلع کا ذکر سورہ النساء آیت19میں ہے اور اس کا بھی بالکل غلط ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کی تفسیر بھی غلط لکھی گئی ہے۔
جب تک سنی یا شیعہ کا امام مہدی آئے تو اس سے پہلے پہلے غلطیوں کا ازالہ اور گمراہی کا خاتمہ اچھی بات ہے بلکہ فرضِ عین ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بیہودہ فقہی مسائل تضحیک کا نشانہ بننے سے پہلے باہمی مل کر ان کو درست کرینگے تو ایک بہت بڑا معاشرتی اسلامی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ بڑے علماء ومفتیان سود کو حلال کرکے حرمت سود سیمینار سے بھی نہیں شرماتے تو قرآن واحادیث سے ہدایت حاصل کرنے میں کیا چیز حائل ہوسکتی ہے؟۔ درس نظامی میں قرآن کریم کی جو تعریف کی گئی ہے وہ اگر اسلامی اسکالروں کو سمجھ میں آگئی تو علماء ومفتیان کو آڑے ہاتھوں لینے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ ان کو پتہ نہیں اسلئے جاہل ہیں۔
قرآن کی500آیات درج کرنے کے بجائے یہ تعریف کی گئی ہے
المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلاً متواتر بلا شبة ” لکھا ہوا ہے جو قرآنی نسخوں میں نقل کیا گیا ہے جوآپ(ۖ ) سے متواتر بلاشبہ”۔ یہ بہت عمدہ اور بہترین تعریف ہے اسلئے کہ قرآنی نسخوں میں کسی بھی حرف اور زیر،زبر،پیش کا بھی معمولی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ جان کر قارئین حیرت کی انتہاء کو پہنچیںگے کہ اس تعریف کی یہ تشریح کی گئی ہے کہ ” نسخوں میں لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا قرآن نہیں ہے کیونکہ یہ محض نقوش ہیں۔ متواتر کی قید سے مشہور اور خبر احاد کی آیات نقل گئی ہیں ۔ اگر چہ وہ بھی اللہ کی کتاب ہیں لیکن اس تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ بھی اللہ کا کلام ہے لیکن اس میں شبہ ہے اسلئے کتاب اللہ کی تعریف سے خارج ہوگئی”۔ اگر مساجد کے منبروں پر عوام کو قرآن کی یہ تعریف پڑھائی جائے کہ لکھا ہوا نسخہ اللہ کی کتاب نہیں ہے۔ اسلئے فتاویٰ قاضی خان، صاحب ہدایہ اور فتاویٰ شامیہ نے سورۂ فاتحہ کو علاج کی غرض سے پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ جب لکھائی کی شکل میں اللہ کا کلام نہیں تو پھر پیشاب سے لکھنے میں حرج کیا ہوسکتاہے؟۔ یہ کتنی بڑی حماقت ، جہالت اور گمراہی ہے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے؟۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ مولوی سے کہا جائے کہ تمہارے باپ سے مراد تمہارا باپ نہیں بلکہ تمہاری ماں کا آشنا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ کے کلام کو اسکے بارے میں یہ غلاظت پڑھائی جائے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے۔ قرآن کتب یکتب کتاباسے لکھنے کی بات کرتا ہے۔ قلم اور سطروں میں موجود کلام کی قسم کھاتا ہے لیکن گمراہ مولوی اس بات پر ڈٹا ہواہے کہ میں اس گمراہی کو پڑھاؤں گا اور اس کی غرض اللہ کے کلام کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اپنے پیٹ پوجا کی وجہ سے مدرسے کی روٹیاں توڑ رہاہے۔ قرآن سے باہر کوئی آیات نہیں ہیں۔ رجم و رضاعت کبیر کی آیات بکری کھاجانے والی ابن ماجہ کی روایت بالکل لغو اور بکواس ہے۔ بسم اللہ کے قرآن ہونے میں کوئی شبہ نہیں جو یہ عقیدہ پڑھاتا ہے تو اس کے اپنے نسب میں شک وشبہ ہوسکتا ہے۔
ہمارے اساتذہ کے سامنے یہ حقائق کبھی نہیں آئے اور اگر آتے تو وہ ضرور اپنے نصاب سے ان خرافات کو نکلوانے کیلئے میدان میں اترتے۔ امام مہدی کا بھی اس سے بڑا کردار اور کیا ہوسکتا ہے کہ قر آن کی حفاظت کیلئے مدارس کی اس غلط تعریف سے جان چھڑادے۔ صدیوں سے الجھے ہوئے گمراہانہ مسائل سے امت مسلمہ کے گمراہ فرقوںمیں مبتلاء مذہبی طبقات کو ہدایت کی طرف لائے؟۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں میں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ لیکن درمیانہ زمانے میں کجرو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں ہے اور میں اسکے طریقے پر نہیں ہوں”۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے بارہ خلفاء قریش کی خبردی ہے جن میں سے ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا اور اب تک ان میں سے کوئی بھی خلیفہ نہیں آیا ہے۔ اور یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ مہدی کے بعد جابر، سلام اور امیرالعصب ہوں گے۔ یہ روایت بھی درج کی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ قحطانی امیر مہدی کے بعد ہوں گے۔ جس کی تشریح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ مہدی چالیس سال تک رہیںگے۔ پھر قحطانی امیر منصور ہوںگے جن کے دونوں کانوں میں سراخ ہونگے۔ وہ بھی مہدی کی سیرت پر چلیںگے۔ اس کے بعد امت محمدۖ کے آخری امیر ہوں گے جو نیک سیرت ہوںگے اور ان کے دورمیں حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامت قیامت اور نزول مسیح ”میں یہ روایات نقل کی ہے لیکن کجروی کا یہ عالم تھا کہ ایکطرف درمیانہ زمانے کے مہدی کی روایت کو نقل کرنا اور دوسری طرف جس مہدی کا قحطانی امیر سے پہلے ذکر ہے اور ساتھ میں اس روایت کو بھی نقل کرنا کہ مہدی کے بعد قحطانی منصور اور پھر امت محمد ۖ کے آخری امیر ۔ لیکن پھر بھی عوام کو اپنی کج رو ی کے سبب حقائق سے آگاہ نہ کرنا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی مہدی ، قحطانی امیر منصور اور پھر آخری امیر کی یہ روایت علامہ جلال الدین سیوطی سے نقل کی ہے لیکن الگ الگ مہدیوں کا تصور نہیں بتاتے ہیں۔
جس دن مذہبی طبقات، سیاستدانوں ، حکمرانوں اور عوام الناس نے اسلام کے فطری نظام ، درس نظامی کی طرف سے اسلام کے بگاڑے ہوئے حلیہ ، آخری امیر اُمت محمد ۖ سے قبل مہدی اور گیارہ خلفاء کے سلسلے کی طرف توجہ دے دی تو علم کی درستگی سے بھی بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔ بارہ خلفاء قریش کی حدیث کے بارے میں مشکوٰة کی شرح مظاہر حق میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ مہدی کے بعد پانچ افراد اہل بیت کا تعلق حضرت حسنکی اولاد سے ہوں گے اور پانچ افراد حضرت حسین کی اولاد سے ہوں گے اور آخری فرد پھر حضرت حسن کی اولاد سے ہوگا۔ پیر مہرعلی شاہ گولڑہ شریف نے اپنی کتاب ”تصفیہ مابین الشیعہ والسنی” میں یہی لکھا ہے کہ بارہ خلفاء قریش آئندہ آئیںگے اور اہل تشیع کی کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ مہدی اور آئیںگے جو حکومت بھی کریںگے۔ لیکن پھر اس روایت پر سند کی صحت کا نہیں صرف عقلی اعتبار سے ایک خدشے کااظہار کیا گیا ہے کہ اگر مہدی کے بعد گیارہ افراد حکومت کرینگے تو پھر مہدی آخری امیر کیسے ہوںگے؟۔ جس کا جواب یہی بن سکتا ہے کہ جب ان سے پہلے ہوں گے تو پھر اس کے آخری امیر امت میں کوئی شک نہیں رہے گا اور اہل تشیع نے یہ بھی لکھا ہے کہ درمیانہ زمانہ کے مہدی سے حضرت عباس کی اولاد کے مہدی بھی مراد ہوسکتے ہیں ۔ (الصراط السوی فی الاحوال المہدی )
علامہ طالب جوہری نے اپنی کتاب ”ظہور مہدی ” میں لکھا کہ ” مشرق کی طرف سے دجال نکلے گا تو اہل بیت کا فرد قیام کرے گا”۔ اس قیام قائم سے مراد آخری امیر مہدی غائب نہیں ہیں ۔ آخری امیر سے پہلے مختلف قیام قائم کا ذکر ہے۔ مشرق کے دجال کے مقابلے میںقیام قائم حضرت حسن کی اولاد سے ہوگا اور اس سے مراد ”سید گیلانی ” ہے جس کی تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ اہل سنت کی روایات میں بھی ایک دجال کا تعلق خراسان سے ہے جس کی مختلف اقوام ہتھوڑے اور ڈھال جیسے چہرے رکھنے والے لوگ پیروکار ہونگے۔اس طرح ایک مہدی کا تعلق بھی خراسان سے ہے۔ جس کا شاہ اسماعیل شہید نے ذکر کیا ہے۔ جب ہم پر تحریک طالبان پاکستان نے حملہ کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کے موقع پر جمعہ کی نماز میں خطاب کرتے ہوئے تحریک طالبان پر ہی خراسان کے دجال کی حدیث فٹ کی تھی ۔ مولانا عطاء الرحمن نے سیکیورٹی فورس کو فتویٰ جاری کیا تھا کہ ان دہشت گردوں کومارنا صرف سرکاری نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ مولانا عطاء الرحمن کا فتویٰ مشرق پشاور نے شائع کیا تھا مگر مولانا فضل الرحمن کا بیان پریس نے شائع نہیں کیا۔اس وقت ہماری ریاست یا میڈیا کی پالیسی ان لوگوں کو سپورٹ کرنا تھا اور اب حقائق سامنے لانے ہوں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز