پوسٹ تلاش کریں

علماء ومفتیان کا حال :ان عقل کے اندھوں کواُلٹا نظر آتا ہے …….مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتاہے

علماء ومفتیان کا حال :ان عقل کے اندھوں کواُلٹا نظر آتا ہے …….مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتاہے اخبار: نوشتہ دیوار

علماء ومفتیان کا حال :ان عقل کے اندھوں کواُلٹا نظر آتا ہے …….مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتاہے

فقہاء نے غلط فتوے کیلئے فقہ ایجاد نہیں کیا تھا بلکہ یہ حکمت تھی کہ اگر عورت کمزور اور مرد طاقتور ہو تو اس پر عمربھر کی حرامکاری کا فتویٰ لگانے کے بجائے بامر مجبوری عورت کیلئے حلال کاری کا فتویٰ جاری کیا جائے۔ قرآن وسنت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ نکاح کیلئے عورت کی رضامندی شرط ہے اور عورت کو مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا : ولاتکرھوا فتیٰتکم علی البغاء ان اردن تحصنًا لتبتغواعرض الحےٰوة الدنیا ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیمO”اگرتمہاری لڑکیاں نکاح کرنا چاہتی ہوں تو ان کو بدکاری (یا بغاوت) پر مجبور مت کرو۔ اسلئے کہ تم اپنی دنیاوی وجاہت تلاش کرو اور جس نے ان لڑکیوں کو مجبور کیا توپھر ان کو مجبور کرنے کے بعد اللہ غفور رحیم ہے”۔ (سورہ النور آیت33)
کسی کی لڑکی کو عشق ہوگیا، ایسے لڑکے سے نکاح چاہتی ہے جس کی خاندانی حیثیت دنیامیں نہیں تواس لڑکی کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو۔اگر اس کو اس کی مرضی کے بغیر کسی دوسرے سے نکاح پر مجبور کیا گیا تو یہ بدکاری ہے اور اگر لڑکی نے بھاگ کر اسی لڑکے سے نکاح کیا تو یہ بغاوت ہے۔ جب لڑکی کو اس کی مرضی سے نکاح کرنے دیا جائے اور اس کو بغاوت پر مجبور نہ کیا جائے تو یہی منشاء قرآن کی ہے۔ لیکن جب باپ اور ولی کو اس میں اپنی توہین لگتی ہو اور وہ زبردستی سے لڑکی کو اپنے عاشق سے نکاح نہ کرنے دے اور جہاں اس کی مرضی نہ ہوتو پھر یہ بالکل ناجائز اور بدکاری ہے لیکن لڑکی کو مجبور کرنے کے بعد اللہ غفور رحیم ہے۔ یعنی اس پر بدکاری اور حرامکاری کا اطلاق نہیں ہوگا اسلئے کہ غلطی باپ اور اولیاء کی ہے۔
عربی میں شادی شدہ ،طلاق شدہ اور بیوہ عورتوں کو محصنات کہتے ہیں جیسے اردو میں ان کو بیگمات کہا جاتا ہے اور کنواری لڑکیوں کو فتیات کہتے ہیں۔ ایسی خواتین جن کا معاشرے میں زبردست اسٹیٹس ہو اور وہ اپنا اسٹیٹس برقرار رکھنا چاہتی ہوں تو ایسی بیوہ اور طلاق شدہ کو عدت کے بعد بھی نکاح کا پیغام تک دینا بھی منع کیا گیا ہے اور جن خواتین کو نکاح کی ضرورت ہے تو ایسی طلاق شدہ اور بیوہ خواتین اور غلام اور لونڈی کا نکاح کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن وسنت میں ایک ایک بات ایسی ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے ومسالک اس کو قبول کریں گے اور فقہ وفتویٰ کے نام پر جو قرآن وسنت اور فطرت کے مخالف مسلک سازی کی گئی ہے تو اس کو کوئی ہم مسلک اور ہم فرقہ بھی تسلیم کرکے اپنی فطرت نہیں بگاڑ سکتا ہے۔
ایک لڑکی نبی ۖ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میرا نکاح میرے باپ نے میری مرضی کے خلاف کیا۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”یہ نکاح منعقد نہیں ہوا”۔ وہ لڑکی پہلے سے طلاق شدہ تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ لڑکی کنواری ہوتی تو نبی ۖ کاحکم ہوتا کہ اب تم اس نکاح سے نہیں نکل سکتی ہو اور یا نابالغ بچی ہوتی تو پھر نبی ۖ فرماتے کہ تیرے باپ نے نکاح کردیا ہے یا بردہ فروش دلال نے نکاح کردیا ہے تو اب یہ نکاح قائم دائم رہے گا۔ جیسا کہ مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا کہ عدالت سے خلع لینے کے بعد دوسری جگہ شادی کی تو اسکے ساتھ تعلق حرامکاری تھا اور پہلے سے نکاح اسلئے برقرار ہے کہ باپ نے بچپن میں کردیا ۔ اور زیادہ سے زیادہ تجھے اگر خلاصی لینی بھی تھی تو بالغ ہوتے ہی نکاح کو فسخ کرتی ۔ اگرچہ وہ بھی اس وقت معتبر ہوتا کہ جب کسی دلال نے تیرا نکاح کیا ہوتا؟۔ اگر بالفرض رسول اللہ ۖ کسی نابالغ بچی یا بالغ لڑکی کو اس فتویٰ کے مطابق شریعت پر مجبور کرتے تو وہ ضرور عرض کرتی کہ مجھے جاہلیت میں زندہ درگور کیا جاتا تو بہتر تھا۔
مفتی تقی عثمانی اور اس کے جاہل مفاد پرست یا کم عقل سادہ باپ نے جو فتویٰ جاری کیا ہے وہ اسلام اور انسانیت کی توہین ہے۔ جس طرح سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی بات اپنی کتابوں سے کھل کر اعلان کیا تھا ،اس طرح اپنے ان غلط فتوؤں سے اعلان کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں ڈنڈے والی سرکار نے غلط فتوؤں اور حلالہ کی لعنت سے ڈنڈے کے زور پر روکنا ہے اسلئے کہ قرآن میں زانی کو100کوڑے مارنے کا حکم ہے جس پر کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنایا جائے۔ جب تک کوڑے نہیں مارے جائیں گے تو حلالہ کے رسیا دارالافتاء اور مدارس میں معزز خواتین کو اپنے گمراہ کن فتوؤں سے ورغلانے سے باز نہیں آئیں گے۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” حیلہ ناجزہ” میں بھی یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ” اگر شوہر بیوی کو ایک بار میں تین طلاق دے اور پھر مکر جائے تو عورت کو دو گواہ لانے پڑیں گے اور اگر عورت کے پاس دوگواہ نہ تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو عورت اس پر حرام ہوگی لیکن عورت حرامکاری سے بچنے کیلئے خلع لے لیکن اگر شوہر کسی صورت خلع بھی نہ دے تو وہ عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی اور عورت کا فرض بنتا ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے لذت اٹھارہاہو تو وہ لذت اُٹھانے سے اجتناب کرے ”۔
یہ بکواس شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسلام، انسانیت اور فطرت پر بدترین داغ ہے۔ ایسے مذہبی طبقات کو اپنے والدین اور اپنے ایسے روئیے دیکھنے کو مل رہے ہوں تو الگ بات ہے لیکن کسی بھی مسلک وفرقہ کیلئے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ مسئلے اسلئے پیدا ہوئے ہیں کہ قرآن نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے اور انہوں نے اپنے گمراہ کن فرقہ وارانہ اور مسلکانہ ذہنیت کی وجہ سے قرآن کو مسترد کیا ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا میں قید کاٹنے کے بعد یہ احساس کیا کہ قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی امت کے زوال کا سبب ہیں اور علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی درس وتدریس میں اپنی زندگی کھپائی ہے اور پھر آخر میں فرمایا ہے کہ میں نے ساری زندگی ضائع کردی۔یہاں علماء ومفتیان کی دنیا بدل گئی ہے اسلئے اس کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز