پوسٹ تلاش کریں

امت کے تمام طبقات اسلامی بینکاری پر اضطراب میں مبتلا ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان

امت کے تمام طبقات اسلامی بینکاری پر اضطراب میں مبتلا ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان اخبار: نوشتہ دیوار

امت کے تمام طبقات اسلامی بینکاری پر اضطراب میں مبتلا ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان

مفتی محمد تقی عثمانی کے نام مولانا سلیم اللہ خان کا خط
مروجہ اسلامی بینک اور حضرت شیخ مولانا سلیم اللہ خان کا کردار : مفتی رفیق احمد بالاکوٹی

https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detailماہنامہ بینات ، جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، پاکستان۔

جامعہ فاروقیہ کے الفاروق نے مفتی تقی عثمانی کی توہین وذاتی عناد، مولانا سلیم اللہ خان کی معافی اور متفقہ فتویٰ کے مقابلے میں غلط متفقہ فتوے کی نشاندہی کی ،یہ اقتباسات لئے ہیں!
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی رفیق احمد بالا کوٹی نے یہ مکمل مضمون جامعہ فاروقیہ کے ماہنامہ ”الفاروق” کی اجازت سے ”البینات” میں شائع کیا ہے اور نیٹ پر اس کو دیا ہے۔ مضمون سابقے اور لاحقے کی وجہ سے اچھا خاصا طویل ہے جس بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے گلستان کی مانند ہے اور شہد کی مکھی کی طرح اس کا رس بھی اچھا خاصا دشوار ہے۔ تاہم کچھ اقتباسات سے یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوگی کہ سود کو جواز فراہم کرنے والے کس طرح اس عالمی سازش کو چھپا رہے ہیں اور ذاتی عناد وتعصبات سے لیکر جھوٹے توبہ تائب اور جعلی فتوؤں کا سہارا لینے سے بھی شرم نہیں کھاتے ہیں ۔ اقتباسات دیکھ لیجئے۔
شیخ المشائخ، استاذ الاساتذہ، سرخیلِ علماء حق، پاسبانِ مسلکِ دیوبند، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مد نی کے فکری وعملی جا نشین ، حق گوئی …. حضرت مولا نا سلیم اللہ خان15جنوری2017کو راہیِ آخرت ہوگئے…..
فرمایاکہ اگلا اجلاس ہمارے ہاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی میں ہوگا۔ یہ اجلاس قریبی تاریخ اوروقت میں منعقد ہوا، جس میں شہر کے متعدد اہلِ فتویٰ کو مدعو فرمایا گیا تھا، جن میں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا زرولی خان صاحب، حضرت مفتی عبدالمجید دین پوری شہید، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید، حضرت مولانا منظور احمد مینگل، حضرت مولانا مفتی حبیب اللہ شیخ، حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز وغیرہ شامل تھے۔ ……حضرت (مولانا سلیم اللہ خان) نے شرکاء مجلس کی اس رائے سے اتفاق فرمایا اور اپنے بزرگانہ مقام پر جاکر یہاں تک فرمایا کہ : بھئی! (حضرت کے بیان کو اپنی تعبیر کیساتھ عرض کررہا ہوں، اگرچہ حضرت کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں، وہ کلمات نقل کرنا میرے لئے شاید مناسب نہ ہوں، ان کے ارشاد کا مفہوم یہ تھا)ان لوگوں (مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی محمد رفیع عثمانی) کیساتھ مجلس اور مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ الٹا نقصان ہوگا، اسلئے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ……
میں نے ان حضرات (مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی محمد رفیع عثمانی)کے سامنے اپنا ارادۂ ملاقات رکھا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ حضرت! (مولانا سلیم اللہ خان صاحب) آپ تشریف نہ لائیں، ہم آپ کے پاس حاضر ہوجاتے ہیں…
حسب ارشاد قبل از عصر حاضر ہوئے تو حضرت مولانا زر ولی خان ، مفتی احمد ممتاز، مفتی حبیب اللہ شیخ اور جامعہ فاروقیہ کے کچھ حضرات بھی تشریف فرما تھے۔
اس کے بعد نماز عصر ادا کی اور حسب مشورہ حضرت کے ہمراہ مفتی محمد تقی عثمانی کیساتھ مجوزہ اطلاعی مجلس منعقد ہوئی۔ مفتی تقی عثمانی کو اپنے اتفاقی روانگی کا پروگرام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے یہ تحریر تیار کی، جو آپکی خدمت میں سنا کر اجازت چاہوں گا۔ اسکے بعد حضرت نے مندرجہ ذیل تحریر پڑھ کر سنائی:
الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذین الصطفیٰ و بعداحقر کو علم و فضل کے اعتبار سے جناب سے کوئی نسبت نہیں ہے، علم و فضل سے ہے ہی نہیں تو نسبت کیا ہوگی؟ البتہ اللہ نے ایمان نصیب کیا ہے، دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ یہ زندگی ایمان والی زندگی اور کلمہ والی موت پر ختم فرمائے۔
1: اسلامی بینکاری پر تشویش و اضطراب ہے، علمائ، عوام، بینکنگ سے متعلق افراد، تاجر سب اسلامی بینکاری کو اسلامی تعلیمات کیخلاف سمجھتے ہیں۔
2: جتنے معتبر اور معروف دار الافتاء ہیں سب میں اس سلسلے کے استفتاء ہوتے ہیں اور جواز و عدم جواز سے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں۔
3: دوسرے ملکوں میں بھی یہ اضطراب ہے، وہ بھی سوالات کرتے ہیں۔
4: اس صورت حال سے دوسروں کی نسبت جناب کو زیادہ سابقہ رہتا ہوگا، کیونکہ آپ ہی پاکستان میں اس کے موجد ہیں۔
5: علم و ضل کے اعتبار سے جو آپ کا مقام ہے وہ محتاج بیان نہیں، لیکن عصمت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کیساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی معصوم نہیں، اس کا امکان بہر حال موجود ہے اسلامی بینک کا نظام جاری کرنے میں آپ سے غلطی ہوئی ہے۔نمبر1، نمبر2، نمبر3پر جو باتیں ہیں، غلطی کے ارتکاب کیلئے واضح دلیل ہیں، اضطراب غلطی پر ہوتا ہے ، ایسا اضطراب جس نے تمام طبقات کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، صحیح بات پر اضطراب نہیں ہوتا اور کوئی معاند مضطرب ہوتا ہے تو اس کی وجہ عناد ہوتی ہے، جبکہ امت کے تمام طبقات اسلامی بینکاری پر تشویش و اضطراب میں مبتلاء ہیں، یہاں عناد کا سرے سے کوئی احتمال موجود نہیں ہے، ان کا اضطراب اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔
6: ”ربا” کا معاملہ انتہائی نازک و سنگین معاملہ ہے، اس سلسلے کی وعیدوں سے آپ ہرگز بے خبر نہیں ہیں، چنانچہ احتیاط واجب و لازم ہے۔
7: ”ربا” میں ”شبھة الربا” بھی حرام ہے، اگر حقیقت ”ربا” کو قبول نہیں کیا جاسکتا تو ”شبھة الربا”سے تو انکار ممکن نہیں۔
8: ارباب فتویٰ اورجو بینکنگ کے امور سے باخبر ہیں، بیانات مسلسل اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں، جو اسلامی بینکاری کو اسلام کیخلاف قرار دیتے ہیں، اپنے دلائل بھی پیش کرتے ہیں، یقیناً آپکے علم میں ہونگے، ضروری تھا کہ آپ ان کو مطمئن کرتے اور جوابات شائع کرتے اور نہیں تو ارباب فتویٰ جو آپ ہی کے حلقے کے حضرات ہیں ان سے رابطہ کرکے ان کی تسلی کا انتظام کیا جاتا جو نہیں کیا گیا، اگر کبھی کوئی مشاورت ہوئی ہے تو اس کے نتیجے میں اختلاف ختم نہیں ہوا، اعتراضات بدستور موجود ہیں اور تشویش و اضطراب برقرار ہے۔
9: سننے میں آیا ہے کہ بینکاری پر آپ اپنے آپ کو ”اعلم الناس” سمجھتے ہیں،دوسروں کی معلومات کو ناقص فرماتے ہیں، مجھے تو آپ کی طرف اس قول کی نسبت درست معلوم نہیں ہوتی، اگر آپ کا یہ دعویٰ نہیں تو پھر وہی سوال ہوگا کہ آپ نے اشکال کرنے والوں کو مطمئن کیوں نہیں کیا؟ تاکہ اضطراب رفع ہوتا اور اگر آپ واقعی اپنے آپ کو عالم اور دوسروں کو ”ناقص العلم” سمجھتے ہیں ”فھو کما تراہ” یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہوگی، سور جاثیہ میں: افرایت من اتخذ الٰھہ ھواہ و اضلہ اللہ علیٰ علم و ختم علیٰ سمعہ و قلبہ و جعل علیٰ بصرہ غشٰوہ فمن یھدیہ من بعد اللہ افلا تذکرونO”کیا تو نے دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اس کو اللہ نے گمراہ کردیا علم کے باوجود۔ اور اسکے کان اور دل پر مہر لگادی اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو کون ہے اللہ کے بعد اس کو ہدایت دینے والا، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟”۔ہم نے فیصلہ کیا کہ اضطراب و تشویش کو دور کرنے کیلئے علماء و اہل فتویٰ کی وسیع مشاورت سے فتویٰ اسلامی بینکاری کے ”عدم جواز” پر جاری کیا جائے اور پورے ملک میں تشہیر کا اہتمام کیا جائے، ہم ہرگز تصادم کے خواہاں نہیں ہیں، ہم تو دل و جان سے آپ کیساتھ رہتے ہیں اور آپ کا احترام کرتے ہیں، امت کو ”ربا” کی لعنت سے بچانے کیلئے اپنا شرعی فرض ادا کرنا چاہتے ہیں، اس میں ذرا بھی تردد نہیں کہ فرض کی ذمہ داری ہم پر لازم اور ضروری ہے اور اب تک جو کوتاہی ہم سے ہوئی ہے اس پر ہم استغفار کرتے ہیں، آپ کیلئے بھی دنیا و آخرت کی فلاح کا واضح تقاضہ ہے کہ ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں اور غلط مفادات کیلئے اس پر مشورہ دینے والوں سے اپنے آپ کو بچائیں۔ ”ان فی ذٰلک لذکریٰ لمن کان لہ قلب او القیٰ السمع و ھو شھید”۔دستخط: مولانا سلیم اللہ خان ۔17جون2005۔
……….. وہ مطلوبہ دستاویزات دینے کیلئے کئی شرائط بار بار دہراتے رہے، ارشاد یہ تھا کہ: ”یہ دستاویزات یہیں پر دیکھی جاسکتی ہیں، باہر نہیں لے جاسکتے۔ اگر…… پھر ان دستاویزات کے مندرجات کا حوالہ نہیں دے سکتے۔ اگر حوالہ دینا چاہیں تو اس سے قبل ہم سے مشاورت اور مذاکرہ کرلیا جائے۔”…
اسلامی بینکوں کا اسٹیٹ بینک کی سودی پالیسیوں سے آزاد مستثنیٰ ہونے کا دعویٰ محض ”خود فریبی” یا ”دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے” کے …
جامعہ دار العلوم کراچی میں حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ کی وہاں کے اکابرسے ملاقات کے حوالے سے ”نارساراوی” ….. ….حضرت فرمانے لگے کہ : اس دن میرے سفرِ ملتان کی وجہ سے جلدی کو مولانا محمد تقی عثمانی نے شاید محسوس فرمایا تھا ……ہمارے بے تکلفانہ روئیے سے اگر انہیں رنج ہوا تو ہم اس پر ان کی دلجوئی کرلیں۔ ہم اسلئے دار العلوم چلے گئے تھے۔ یہ عنوان دیا کہ ”سلیم اللہ” مولانا تقی عثمانی وغیرہ سے معافی مانگنے آیا تھا۔ بھئی! معافی تو زیادتی یا غلطی کی ہوتی ہے۔ ہم نے بینکوں کے خلاف فتویٰ دیکر پھر ازراہِ ہمدردی و خیر سگالی اس کی پیشگی اطلاع کرکے کونسی غلطی اور زیادتی کی تھی، جس پر ہم معافی مانگتے۔ معافی کی اس میں کیا بات ہے؟! کیا ”سلیم اللہ” اس پر کسی سے معافی مانگے گا؟۔ …
واضح قرائن بتاتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈہ ایک قسم کی دفاعی مہم کا حصہ تھا، بینکوں سے وابستہ بعض حضرات نے اپنے بینک کاری سفر کے مخالفانہ فتوے کو قبل از وقت متنازع بنانے کیلئے اور اس فتویٰ کو محض مخالفت و عناد کا شاخسانہ قرار دینے کیلئے ”باہمی توہین و توقیر” کا مسئلہ بناکر پیش کیا تھا۔
مگر الحمد للہ! پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے سالارِ قافلہ حضرت شیخ کے عزم و استقلال پر اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ ان کی اس کرامت کا ظہور بھی ہوا، جسے اولِ وہلہ میں ہمارا طفلانہ اصرار سمجھنے سے قاصر تھا۔…
یہ فتویٰ کتنا مؤثر ثابت ہوا ؟ ….مجوزین کے سٹپٹاتے رویوں سے ہوتا ہے، تفصیل چھوٹے بڑے کئی دفتروں کی متقاضی ہے۔ تین طرح پر اکتفاء کروں گا:
1: متفقہ فتویٰ کو ذاتیات، ذاتی رنجشوں اور بغض و عناد کا شاخسانہ قرار دینے کیلئے رنگا رنگ دروغ گوئیوں کا سہارا لیا گیا، جس کی معمولی جھلک اوپر ہے۔
2: مجوزین نے ان بزرگوں کی عزت اور بے عزتی کا مسئلہ باور کرانا شروع کردیا، جنکے نام اور کام پر یہ لوگ اپنا کاروبار چلارہے تھے۔ حالانکہ متفقہ فتویٰ کو اختلاف تو کہا جاسکتا ہے جو ہر صاحب علم کا حق ہے، ان کے خلاف مہم قرار دینا کسی طور پر درست اور سچ نہیں تھا، لیکن کیا کریں عصری تقاضوں کے سامنے ”سچ” اہمیت نہ پاسکا اور اختلاف کو خلاف کہہ کر شدید پروپیگنڈہ فرمایا گیا۔
3: متفقہ فتویٰ کو جوازی فتویٰ کی مخالفانہ مہم قرار دینے والوں کو کہیں سے خدائی خدمت گار کے طور پر اپنے مزاج کے مطابق متفقہ فتویٰ کیلئے مخالفانہ مہم کی ایک بے ساکھی میسر آئی، جس نے ملک کے مختلف نامی اور بے نامی اداروں کو شرفِ یاوری بخشا اور ایسے اداروں کی ہر نوع خدمت سے وابستہ علماء کرام اور قراء عظام سے مروجہ بینکوں کے حق میں دستخط لئے۔ جس کی اہمیت و حیثیت وہ لوگ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ (یہ اقتباسات متفقہ فتویٰ سے لئے گئے ہیں)
اسلامی بینکاری کیخلاف متفقہ فتویٰ پر دستخط کرنیوالے مفتیانِ عظام
حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ۔مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل، مفتی سمیع اللہ، مفتی احمد خان ، جامعہ فاروقیہ کراچی۔مفتی حمید اللہ جان ، جامعہ اشرفیہ لاہور ۔ مولانا سعید احمد جلال پوری ،مولانا مفتی عبد القیوم دین پوری، دارالافتاء عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی۔ مولانا مفتی عبد المجید دین پوری، مفتی انعام الحق، مفتی رفیق احمد بالاکوٹی، مفتی شعیب عالم ،جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔مولانا مفتی غلام قادر دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سرحد ۔ مفتی محمد مدنی، معہد الخلیل الاسلامی، بہادر آباد، کراچی ۔ مفتی احمد خان، جامعہ عمر کوٹ، سندھ ۔مفتی قاضی سلیم اللہ ، دار الہدیٰ ٹھیڑی ، خیرپور، سندھ۔ مولانا مفتی احتشام الحق آسیا آبادی، جامعہ رشیدیہ آسیا آباد، تربت بلوچستان۔ مفتی امداد اللہ، مولانا کلیم اللہ،جامعہ دھورو نارو، سندھ۔مولانا مفتی روزی خان، دار الافتاء ربانیہ کوئٹہ ، بلوچستان۔مفتی عاصم عبد اللہ جامعہ حمادیہ کراچی۔مولانا مفتی احمد ممتاز ،مفتی امان اللہ صاحب، جامعہ خلفاء راشدین، کراچی۔مفتی عبد الغفار جامعہ اشرفیہ، سکھر۔مولانا مفتی حامد حسن، دار العلوم کبیر والا، پنجاب۔مولانا مفتی عبد اللہ جامعہ خیر المدارس ملتان۔مفتی حبیب اللہ شیخ جامعہ اسلامیہ کلفٹن۔ مفتی نذیر احمد شاہ جامعہ فاروق اعظم ، فیصل آباد۔مفتی سعید اللہ جامعہ عربیہ تعلیم الاسلام، کوئٹہ۔مولانا گل حسن بولانی، جامعہ رحیمیہ سرکی روڈ کوئٹہ۔ مولانا مفتی زر ولی خان ، جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال، کراچی۔مولانا مفتی سعد الدین جامعہ حلیمیہ، لکی مروت، مفتی عبد السلام چاٹگامی ، جامعہ معین الاسلام، بنگلہ دیش۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز