پوسٹ تلاش کریں

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی اخبار: نوشتہ دیوار

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی کے سابق استاذ حضرت مولانا مفتی عبد المنان ناصر مدظلہ العالی جو بانگی مسجد رنچھوڑلائن کراچی کے امام و خطیب بھی رہے اور پھر بلوچستان حکومت میں قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تربت اور دیگر شہروں میں فرائض انجام دئیے، اللہ تعالی انکی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ نوشتۂ دیوار کے نمائند گان عبدالعزیز اور امین اللہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ اس مرتبہ آپ نے رات کومہمان ٹھہرایا۔اللہ تعالی علماء حق کی شوکت میں اضافہ فرمائے۔ جب سید عتیق الرحمان گیلانی نے تحریک شروع کی تھی تو استاد مفتی عبدالمنان ناصر سے کسی نے کہا کہ اس نے مہدی کا دعویٰ کیا ہے۔ استاذ نے کہا کہ اگر یہ وہی عتیق ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور ثابت بھی کردیگا۔البتہ کوئی اور ہے تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا ۔ عتیق گیلانی کی کتاب تحریر1991ء کانیگرم”خلافت علی منہاج النبوت کے وجود مسعود کا اعلان عام”میں اس کا ذکربھی ہے۔ جب عتیق گیلانی نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو علم الصرف کے استاذمفتی عبدالمنان ناصر اور مولانا عبدالقیوم چترالی تھے جبکہ درجہ اولیٰ کے دیگر فریقوں کو مفتی عبد السمیع شہید پڑھاتے تھے ۔مولانا عبدالمنان ناصر نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں نے طالب علمی کے اٹھارہ سالوں اور تدریس کے دوران اتنا قابل انسان طلبہ اور اساتذہ میں نہیں دیکھا ۔ ایک مرتبہ سرِراہ مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے صیغہ پوچھا اور اسکا پس منظر یہ تھا کہ ہر جمعرات کو مفتی عبدالسمیع سارے سیکشنوں کے طلبہ کو بلا کر مناظرہ کرواتے لیکن عتیق گیلانی اس میں شرکت سے انکار کرتے تھے۔عتیق گیلانی کے سیکشن کو یہ شکایت پیدا ہوگئی تھی کہ ہمیں استاذ اچھا نہیں پڑھاتے لیکن عتیق کہتے تھے کہ ہمیں بہت اچھا پڑھایا جارہاہے۔ عتیق گیلانی کے سیکشن میں مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون بھی تھے ۔عتیق گیلانی نے بلاسوچے سمجھے مولانا عبدالسمیع کو جواب دیاکہ مجھے اس صیغے کا پتہ نہیں اور ایک چھوٹا سوال بھی کر دیا کہ ماضی کے صیغوں میں ضربتما دو مرتبہ کیوں لکھا ہے جبکہ صیغہ ایک ہے۔ مفتی عبد السمیع سے اسکا جواب نہیں بن رہا تھا اور آخر کار تقریباً گھنٹوںبحث میں بات یہاں تک پہنچی کہ مفتی عبد السمیع نے قرآن کا مصحف منگوا کر کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ نہیں یہ نقش کلام ہے۔ مفتی عبدالسمیع نے کہا کہ آپ کافر ہو گئے اسلئے کہ اللہ کی کتاب کا انکار کر دیا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں وہ بھی کافر ہو گئے اسلئے کہ یہ مسئلہ انہوں نے بتایا ۔اسوقت طلبہ کا بڑا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا، مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے غصے میں کہا کہ” تم افغانی ساری کتابیں پڑھ کر آتے ہو، تمہارا مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے”۔ ایک طالب علم نے عتیق گیلانی کا بازو پکڑا اور مسجد کے سائیڈ میں لے جاکر کہا کہ صوفی صاحب بیٹھ کر اپنا ذکر کرو۔ دوسرے دن پورے مدرسے میں یہ چرچاتھا کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتا زانی ہیں۔ مفتی عبدالسمیع کے بھی چھکے چھڑادئیے۔ عتیق گیلانی کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ میں قابل نہیں، مفتی عبد السمیع نالائق ہیں۔ استاذ مفتی عبدالمنان سے یہی سوال پوچھتا ہوں۔ مفتی عبدالمنان نے جواب دیا کہ مبتدی طالب علم کو سمجھانے کیلئے یہ صیغہ الگ الگ لکھ دیا تا کہ مذکر اور مونث کیلئے الگ الگ پہچان ہو۔ آگے کی کتاب ”فصول اکبری” میں یہ صیغہ ایک دفعہ لکھا ہے۔ جب عتیق گیلانی نے مولانا بدیع الزمان سے اصول فقہ کی کتابوں میں یہ تعلیم حاصل کی کہ کتابت کی شکل میں قرآن کے مصاحف اللہ کا کلام نہیں تو تعجب نہیں ہوا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ”فقہی مقالات” میں یہ دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غلط تعریف کا معاملہ بھی کھل گیا اور اپنے استاذ مفتی محمد نعیم بانی جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا سے بھی اس پر بات کی اور انہوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی مولانا عطاء الرحمان اور قاری عثمان سے بھی اس پر بات کی تھی۔ علاوہ ازیں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد سے بھی قرآن کی اس تعریف کی غلطی منوائی تھی جو امریکہ اور کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر رہے ہیں اور اصول فقہ میں یہ غلط تعریف علم کلام کی وجہ سے آئی تھی جس سے امام ابوحنیفہ نے توبہ کی تھی۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے سقوطِ طالبان حکومت کے بعد ظہورمہدی پر ایک کتاب میں پاکستان سے ڈنڈے والی سرکار کا بھی ذکر کیا اور ملاعمر کے حوالے سے لکھا کہ وہ بھی ایک مہدی تھے لیکن اس میں حماقت یہ کی ہے کہ ملاعمر سے پہلے بھی ایک مہدی کا ذکر کیا ہے۔ جب ملاعمر سے پہلے مہدی آیا نہ ہو تو پھر دوسرے نمبر کے مہدی کا تصور کیسے ہوسکتا تھا؟۔ عربی یوٹیوب چینل اسلامHDمیں یہ انکشاف ہے کہ فتنہ الدُھیما کا حدیث میں ذکر ہے جس میں99فیصد لوگ قتل ہوں گے۔ یہ فتنہ مہدی کے40سالہ، منصور کے20سالہ اور سلام اور امیرالعصب کے ادوار کے بعد ہوگا۔ پھر آخر میں دجال اور آخری مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔ اس میں نبیۖ کے بعد مختلف فتنوں اور صدیوں کے سرے پر مجددوں کے ادوار لکھے ہیں اور2022ء کو بھی ایک مجدد کا دور قرار دیا ہے اور اس میں پہلے مہدی کی خلافت کے آغاز کی بھی بات کی ہے۔ اس چینل میں ایک شخص نے مہدی امیر اول کا نام بھی جابر بتایا ہے۔جب مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے اور گیلانی نے طلاق کے حوالے سے سمجھایا تو شیرانی نے کہا کہ ”آپ ہم پر زبردستی سے اپنی بات مسلط مت کرو”۔
یوٹیوب پر عربی میں گھنٹوں کے حساب سے مہدی کے ظہور کے حوالے سے کئی کئی خواب ایک ایک چینل میں اپ لوڈ ہورہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہاکہ
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخرزمانی
قرآن کی واضح آیات اور سنت کی طرف توجہ کئے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی اور یہی بات ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری تحریک کیلئے لکھ دی تھی۔محمد فاروق شیخ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ
مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری
حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں