خلع و طلاق کا درست تصور اجاگر ہوتا تو اجتماعی شعور نہ مرتا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی
جولائی 13, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
خلع کا حکم سورة النساء آیت 19میں واضح طور پر دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ کند ذہن علماء نے اپنے نصاب میں آیت 229البقرہ سے خلع مراد لیا
فقہاء نے عورت کے حقوق کو نظر انداز کرکے قرآنی آیات کو تضادات کا آئینہ بنادیا۔ اس مرتبہ کے اخبار میں ادارئیے کے علاوہ زبردست علمی مواد ہے۔
عورت کو ترقی یافتہ ممالک نے مرد کے مساوی حقوق دئیے ہیں لیکن وہ عورت کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ جبکہ اسلام نے عورت کو مردوں سے کئی لحاظ سے بہت زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ حق مہر اور خرچے کی ذمہ داری اسلام نے شوہر پر ڈالی ہے خلع اور طلاق کے جن مسائل کے بہت واضح اور ٹھوس حل قرآن وسنت میں نکالے گئے تھے،افسوس ہے کہ علماء نے عورت پر مظالم اور مسائل کے انبار ہی لگادئیے ہیں۔ قرآن وسنت بہت واضح ہیں مگر فقہاء نے بہت الجھاؤ اور مکڑی کے جالے بنالئے ہیں۔
عورت بڑی امیر کبیر ہو یا غریب غرباء ، اس پر بہتان کی سزا 80کوڑے ہیں۔ اگر جج کو یقین ہو کہ سچ بول رہی ہے تو جنسی طور پر ہراساں کرنے، زنابالجبر میں رسولۖ نے اکیلی عورت کی گواہی کو معتبر قرار دیا ۔ کئی بک اسٹالوں پر موت کا منظر نامی کتاب ملتی ہے جس میں زنابالجبر کی سزا سنگساری ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ تحفظ دیاہے جس کا حق ہر ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو ہونا چاہیے۔ مغرب کو حقیقی اسلام کا پتہ چل جائے تو عورت کو وہی حقوق کا قانون بنانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
لوگوں کی راۓ