پوسٹ تلاش کریں

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل اخبار: نوشتہ دیوار

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

امام ابوحنیفہ کے مسلک کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کو پہلا نمبر حاصل ہے۔پھر احادیث صحیحہ کو دوسرا نمبر حاصل ہے۔ پھر تیسرا نمبر اجماع اور چوتھا قیاس ہے۔
طلاق کے مسئلے کو قرآنی آیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ” طلاق کے بعد رجوع کیلئے بنیادی شرط اصلاح، صلح ، معروف طریقے سے رجوع ہے،جب بیوی راضی نہ ہو تو کسی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا”۔
حضرت عمر نے یقینی طور پر قرآن کی اس عام فہم اور بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر اس وقت ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کو رجوع سے محروم کردیا کہ جب اس کی بیوی راضی نہیں تھی۔ یہ قرآن کے عین مطابق تھا۔ اس پر تین طرح کے لوگ سامنے آئے۔ ایک وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کی زبردست تائید کردی تھی۔ دوسرے وہ تھے جو حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے منافی قرار دیتے تھے۔ تیسرے وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو اجتہادی غلطی قرار دیا تھا۔
جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے عین مطابق قرار دیا تھا وہ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین تھے۔ ائمہ مجتہدین میں پھر دو طبقے بن گئے۔ ایک حنفی ومالکی اور دوسرے شافعی۔ جبکہ حنبلی دونوں طرف موجود تھے۔مالکی اور حنفی مسلک یہ بن گیا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا بدعت اور گناہ ہے”۔ شافعی مسلک نے کہا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت اور مباح ہے”۔ احادیث کی کتب کے پورے ذخیرے میں صرف ایک حدیث حنفی ومالکی مسلک کی دلیل تھی کہ ”محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص کے متعلق نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ جس پر نبی ۖ غضبناک ہوئے اور کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں”۔ جبکہ شافعی مسلک کی دلیل یہ حدیث ہے کہ ”جب عویمر عجلانی نے اپنے بیوی کیساتھ لعان کیا تو ایک ساتھ تین طلاق دے دیئے”۔ دونوں احادیث سے دلیل جمہور نے یہ لی ہے کہ ”ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجاتی ہیںاور اگر نہیں ہوتیں تو پھر نبیۖ کیوں غضبناک ہوتے یا عویمرعجلانی کی تردید کیوں نہیں فرمائی ؟۔
اہل تشیع کے نزدیک جب تک دو گواہ کی موجودگی میں طلاق نہ دی جائے تو طلاق نہیں ہوتی ہے اور حضرت عمر کا یہ فعل قرآن وسنت کے منافی ہے۔جبکہ اہل حدیث کے نزدیک حضرت عمر کی یہ اجتہادی غلطی ہے ۔ اکٹھی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اور حضرت ابن عباس کی روایت سے یہ بالکل واضح ہے۔
اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے تو اس سے نکلنے والے مسائل قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوںگے اسلئے کہ شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے گا اور بیوی راضی نہیں ہوگی لیکن پھر بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ تین طلاق تو بڑی بات ہے ،اگر ایک طلاق دینے کے بعد بھی بیوی رجوع پر راضی نہیں ہے تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ یہ قرآن وسنت کا واضح حکم ہے۔ بیوی کی رضامندی ، اصلاح، صلح اور معروف کی شرط کو نکال کر ہم نے دین کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اگر بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق دیا جائے تو شوہر طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور دوبارہ طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا۔ سہ بارہ طلاق دے گا تو عورت کو ایک نہیں تین عدتیں گزارنے پر مجبور کیا جاسکے گا؟۔ شوہر کہے گا کہ میں نے طلاق دی ہے اور پھر کہے گا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔ اگر مذاق تسلیم نہ ہو تو پھر اس کو طلاق رجعی قرار دیا جائے گا؟۔ ایک اور تین طلاق کی بحث ہی فضول ہے۔ ایک دی ہو یا تین طلاق لیکن اصل مسئلہ باہمی اصلاح سے رجوع کا ہے۔ عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا اور تین طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور عورت راضی ہو تو ایک طلاق پر بھی رجوع ہے اور تین طلاق پر بھی رجوع ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم کی کتاب ” زادالمعاد ” میں بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر20الگ الگ اجتہادی مسائل ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ”امام حسن بصری نے کہااگر بیوی کو حرام کہہ دیا تو بعض علماء کے نزدیک یہ تیسری طلاق ہے۔ جس کے بعد جب تک عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرے گی تو اس کو پہلے کیلئے حرام قرار دیا جائے گا”۔ ایک روایت چھوڑ کر اگلی روایت میں ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ ” بیوی کو حرام قرار دینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے اور یہ سیرت رسول ۖ کا تقاضہ ہے کہ اس میں نہ طلاق ہے اور نہ کفارہ ہے”۔
خلفاء راشدین کے اجتہادات کی کتاب میں لکھا ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا حضرت عمر کے نزدیک ایک طلاق ہے اور حضرت علی کے نزدیک تین طلاق اور حضرت عثمان کے نزدیک ظہار ہے”۔ یہ سعودی عرب سے عربی میں چھپی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی کی طرف حرام سے تیسری طلاق یا تین طلاق کی نسبت کیوں کی گئی ہے؟ جواب یہ ہے کہ حضرت علی نے معلوم کیا ہوگا اور جب پتہ چلا ہوگا کہ بیوی راضی نہیں ہے تو فتویٰ دیا ہوگا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور اس کو کسی نے تین طلاق اور کسی نے تیسری طلاق قرار دے دیا ہوگا۔
حضرت عمر سے پوچھا گیا کہ حرام کے لفظ کے بعد رجوع کی اجازت ہے تو معلوم کیا کہ بیوی راضی ہے؟ تو رجوع کا فتویٰ دیا ہوگا اور اس کو ایک طلاق سے تعبیر کیا ہوگا۔ قرآن کی سورۂ تحریم میںہے کہ نبی ۖ نے اپنے اوپر ماریہ قبطیہ کو حرام کیا تھا لیکن کیا صحابہ کرام نے اتنی بڑی سورت کی طرف توجہ نہیں دی؟۔
جب یہ صحابہ کرام کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ سے تین طلاق بھی واقع ہوتی ہیں اور ایک بھی تو پھر یہ بحث فضول بن جاتی ہے کہ ایک اور تین طلاق پر امت مسلمہ کے اندر فضول قسم کے نصاب اور مسائل پڑھائے جائیں۔ مجھے اتنا عرصہ ہوگیا کہ یہ مسائل بیان کررہا ہوں۔ دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور اہل تشیع نے کھلے دل سے میری حمایت کی ہے لیکن مدارس کے وڈیروں نے اس پر چپ کی سادھ لی ہے اور امت مسلمہ کو گرداب سے نکالنا ان کے مفادات کے خلاف ہے یا نہیںمگر ان کو اپنی اجارہ داری کے جانے کا خوف دامن گیر ہے۔
جس شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط روایت صحیح مسلم کی ہے جس میں یہ واضح ہے کہ ابن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں اور اس سے زیادہ مضبوط صحیح بخاری کی ہے جس میں نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود حضرت ابن عمر سے رجوع کا ارشاد فرمایا اور عدت و طلاق کا طریقہ بھی سکھادیا تھا۔ عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں لیکن کم عقل مذہبی طبقات نے جس طرح طلاق کے انتہائی احمقانہ مسائل کتابوں میں درج کئے ہیں ، اگر عوام کی نظروں میں آگئے تو علماء ومفتیان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور دریائے مردار میں غرق ہونا پڑے گا۔
میں صالحین علماء ومشائخ کی بات نہیں کرتا جیسے موجودہ دور میں تقی عثمانی کی موجودگی میں علماء حق اور صالحین دبا دئیے گئے یہ ہردور میں چلتا آیا ہے اور اب خدا کرے کہ یہ شیخ الاسلام اس حیلہ ساز اور اسلام دشمن علماء سوء کی آخری کڑی ہو اور امت مسلمہ ان حیلہ سازوں اور قرآن وسنت کے مجرموں سے بچ جائے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں