پوسٹ تلاش کریں

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف اخبار: نوشتہ دیوار

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

درسِ نظامی اور فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں جعل ساز علماء ومفتیان نے جھوٹ کی آخری سرحد پار کردی ہے۔ اسلئے کہ ”قرآن سے مراد وہ پانچ سو آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں” ۔جن کا فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں کوئی نشان تک بھی نہیں ہے۔بس صرف500آیات کا خالی نام ہے لیکن کونسی آیات ہیں ؟ اور کہاں کہاں ہیں؟۔ یہ کسی کتاب میں نہیں اور نہ کسی عالم ، مفسر، محدث اور مفتی کو اس گم شدہ معلومات کے ذخیرے کا کوئی پتہ ہے۔ بس ایک رٹ لگار کھی ہے۔
اصول فقہ اور فتویٰ کی کتابوںمیں چندمنتشر قرآنی آیات کے ٹکڑوں کو بہت انداز میں جوڑ کر اس کے انتہائی غلط نتائج نکالتے ہیں۔ خود تو بے راہ روی کا شکار تھے ،مذ ہب اہل بیت سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور حدث وحادثے سے بننے والے اہل حدیث کو بھی بدترین گمراہی میں ڈال دیا ہے۔ اگر قارئین ان مذہبی طبقات کو سمجھ لیں تو شیعہ ،دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث ، پرویزی، غامدی، ڈاکٹر نائیک ذاکری اور انجینئر محمد علی مرزا جہلمی سب کے سب اپنی اپنی فکر سے توبہ کرکے اصلی مسلک حنفی کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز اور قادیانی تو مینار پاکستان پر لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کریں گے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بالکل جھوٹا اور کذاب تھا۔ قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آسکتاہے۔
اگر قرآنی آیات ، نبی ۖ کی احادیث اور امام ابوحنیفہ کے اصلی مسلک کو سمجھ لیا تو اہل حدیث اور شیعہ حضرات کہیں گے کہ حضرت عمر کے فاروق اعظم ہونے کیلئے اور کچھ نہیں صرف مسئلہ طلاق کا حل بھی کافی ہے ۔
جس کو چراغ سحر سمجھ کر بجھادیا تھا ہم یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی
دورِ جاہلیت میں حلالہ کی لعنت کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق ہی کیساتھ تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ایک طلاق کے بعد عدت میں شوہر رجوع کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا۔ تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد عورت کو دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاتا تھا۔ چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ مسائل تو بہت تھے ، جس میں آج پھر امت مسلمہ کو اسی دورِ جاہلیت میں دھکیل دیا گیا لیکن یہاں قرآن وسنت اور فقہ حنفی کے اہداف سے امت مسلمہ کو قرآن کی طرف رجوع کی دعوت دیتا ہوں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی ،مولانا محمدانور شاہ کشمیری، علامہ سیدمحمد یوسف بنوری، مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود کی بھی یہی خواہش تھی۔
طلاق سے متعلق قرآنی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں تصویر کے دورُخ ہیں۔ تصویر کا پہلا رُخ یہ ہے کہ طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی اصلاح وصلح اور معروف طریقے سے رجوع چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے پورا پورا زور اس بات پر ہی دیا ہے کہ عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بالکل بھی بند نہیں کیا ہے ۔ایک ایک آیت اس کی دلیل ہے اور کسی ایک حدیث سے بھی ذخیرہ حدیث میں اس کی تردید نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف بالکل بھی نہیں تھا۔ تمام صحابہ کرام واہل بیت عظام اس پربالکل متفق اور متحد تھے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب شوہر طلاق دے اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ جب کوئی شوہر پھر بھی اس طلاق کے بعد اپنا اختیار اور حق جتائے تو اس کی طرف یہ فتویٰ متوجہ ہوتا ہے کہ وہ عورت اب اس کیلئے قطعی طور پر حلال نہیں ہے ،یہاں تک کہ وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے اور پھر جب وہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو بھی اس صورت میں آپس کے رجوع کی اجازت ہوگی کہ جب ان کو گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیںگے۔ اگر بالفرض دونوں کیلئے اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا گمان ہو تو پھر ان کے لئے اس کے بعد بھی رجوع کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلا شوہر بہت مالدار ہو لیکن خصی ہو اور دوسرا شوہر غریب ہو لیکن مردانہ قوت کا مالک ہو۔ اگر دونوں پڑوس میں رہتے ہوں۔ اگر نامرد مالدار سے نکاح ہوجائے اور مردانہ قوت کے مالک غریب سے رابطے کی کوئی سبیل نکلتی ہو اور اللہ کے حدود ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو پھر ان کو گمان ہوسکتا ہے کہ اللہ کے حدود کو پامال بھی کرسکتے ہیں تونکاح جائز نہ ہوگا۔ تصویر کے دوسرے رُخ میں یہ طے ہے کہ جب طلاق کے بعد پہلے شوہر سے صلح کرنے کا کوئی پروگرام نہ ہو تو پھر کسی صورت میں بھی صلح نہیں ہوسکتی ہے ۔
تصویر کا پہلا رُخ سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232کے علاوہ سورہ طلاق میں بھی یہ پورا نقشہ اچھی طرح سے بہت وضاحتوں کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے۔ عام تعلیم یافتہ اور ان پڑھ بھی اس کا ترجمہ سن کر معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن میں کوئی تضادات نہیں ہیں اور سمجھنے کیلئے بہت آسان ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ سورۂ بقرہ کی آیت229اور230کو اچھی طرح تدبر کیساتھ دیکھ کرسمجھ سکتے ہیں۔ جس میں تین مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کودیا ہے کہ ان میں سے کچھ واپس لیں مگر یہ کہ جب دونوں کوخوف ہو کہ وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو معاملہ دونوں کے درمیان اللہ کے حدود کو توڑنے تک پہنچ سکتا ہے تو پھر وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ پھر اگر اس کو طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ البقرہ:230-229
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا مالک بنادیا ہے اور اس کے حق کی حفاظت کو واضح کیا ہے لیکن اگر کوئی ایسی چیز ہو جس سے اس کی عزت محفوظ نہ رہے تو دی ہوئی چیز میں سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کہ اس کی عزت سے تو وہ چیز زیادہ قیمتی نہیں ہے۔
علماء ومفتیان تو تقلیدی مرض کا شکار تھے اسلئے قرآن کے متن کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا لیکن مولانا مودودی، علامہ وحیدالزمان اور جاوید غامدی بھی اس جہالت کا شکار ہوگئے کہ جہاں اللہ نے عورت کے مالی حق کی حفاظت میں شوہر کے دئیے ہوئے مال کا بھی مالک قرار دیا ہے وہاں یہ خلع مراد لے کر عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنادیا ہے۔ درسِ نظامی کے علماء ومفتیان بہت فخر کریں گے کہ مدارس کی تعلیم سے ایک طالب علم نے امت مسلمہ کو کشتی نوح فراہم کردی۔ سینٹر مشتاق خان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ فوج کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر بولنا شروع کریں۔ ان کو جماعت اسلامی کی غلط فکر کے سامنے ڈٹنے کی جرأت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ اب ایک مافیا بن چکا ہے اور مولوی کے سامنے جماعت مرغی بن کر کھڑی ہے۔
قرآن کے عظیم مقاصد کے خلاف سارا معاملہ صحیح بخاری نے بگاڑ دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ اور بدعت ہے اور شافعی کے نزدیک مباح وسنت ہے۔ بخاری نے رفاعة القرظی کی بیگم کو طلاق دینے کی روایت کوامام شافعی کی حمایت اور امام ابوحنیفہ کی مخالفت میں نقل کیا جس سے تأثر پیدا ہوا کہ نعوذ باللہ نبی ۖ نے نامرد سے حلالے کا حکم دیا۔ حالانکہ بخاری نے دوسری جگہ نقل کیا ہے کہ اس شخص نے نامرد ہونے کو جھٹلایا تھا اور رفاعة نے طلاق بھی الگ الگ مراحل میں دی تھی۔ تمام روایات درج ہوتیں تو مغالطہ نہ ہوتا۔

نوٹ: ” اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف” کے عنوان کے تحت کے یہ تبصرہ کیا گیا ہے۔مکمل آرٹیکل پڑھنے کیلئے یہ آرٹیکل بھی ضرور پڑھیں۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟
نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی