پوسٹ تلاش کریں

عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں

عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں

___باپ کا کیا ہوا نکاح فسخ نہیں کیا جاسکتا___
سوال :۔ رحیم بخش نے اپنی حقیقی لڑکی کا نکاح بحالت نابالغی بعمر9،10سال کے خوشی و رضا مندی کیساتھ کردیا ، کچھ عرصہ بعد شیرمحمد باہر چلا گیا اور عدم الخبرہوا۔ عرصہ چار پانچ سال بعد لڑکی کے باپ نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا۔ مقدمہ سات آٹھ ماہ چلتا رہا، عدالت نے شیرمحمد کے وارثوں کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر اندر حاضر کریں، ورنہ حکم تنسیخ کردیا جائیگا، چنانچہ اس قلیل وقت میں لڑکے کو عدالت میں حاضر نہ کیا جاسکا تو عدالت نے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا۔ تنسیخ سے قبل عدالت نے سرکاری طور پر شیرمحمد کو تلاش نہیں کیا، نہ تو عدالت نے کوئی نوٹس دیا اور نہ اعلان یا اخبار میں اشتہار دیا، تنسیخ کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیدی گئی۔ چنانچہ بعد تین ماہ عدت گزارنے کے لڑکی کے باپ نے اس کی شادی ایک اور شخص محمد شفیع سے کردی ، نکاح کے دو تین ماہ بعد شیرمحمد آگیا اور اس نے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا مگر لڑکی کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ لڑکی دوسرے شخص محمد شفیع کے گھر میں رہے گی، کیونکہ عدالت نے نکاح ثانی کی اجازت دے دی ہے اور اب تک بضد قائم ہے۔ لہٰذا اب صورت مذکورہ میں کیا نکاحِ اول منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب :۔ اس سوال کیساتھ عدالت کا جو فیصلہ منسلک تھا،اس میں فسخِ نکاح خیار بلوغ کی بناء پر کیا گیا ہے ، جس پر تنقیحات کی گئیں، ان تنقیحات کے بعد مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوئے۔1:لڑکی کا نکاح خود باپ نے کیا تھا ۔2:لڑکی نے آثار بلوغ ظاہر ہوتے وقت نکاح نامنظور کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
لہٰذا اولاً تو یہ نکاح چونکہ باپ کا کیا ہوا ہے (اور اس کے سیئی الاختیار ہونے کا دعویٰ لڑکی نہیں کرتی) اسلئے اس میں لڑکی کو خیارِ بلوغ سرے سے حاصل ہی نہیں ہے، کما ھو مصرح فی سائر کتب الفقہ ، دوسرے اگرحاصل ہوتا تب بھی لڑکی نے خیارِ بلوغ کے حق کو استعمال کرنے کا وقت گزار دیا، لہٰذا شرعاً خیارِ بلوغ کی بناء پرعدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور شریعت کی رو سے اس کا فسخِ نکاح صحیح نہ ہوا ، لہٰذا محمد شفیع سے اس کا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اصل خاوند شیرمحمد بدستور لڑکی کا شوہر ہے۔البتہ اگر محمد شفیع لڑکی کیساتھ صحبت کرچکا ہو تو جب تک تین حیض نہ آجائیں شیر محمد کیلئے اس سے صحبت کرنا جائز نہیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احقر محمد تقی عثمانی ٤/٢/١٣٨٨ھ (فتویٰ نمبر٢١٢/١٩ الف ) الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ282۔283
سوال اور اس کا جواب دارالعلوم کراچی والوں نے خود مرتب کیا ہے اور اس میں کمالِ فن دکھانے کا بھی مظاہرہ کیا ہے لیکن اس سب کے باوجود جب شوہر مفقود الخبرتھا تو اصل فتویٰ یہ بنتا تھا کہ4سال انتظار کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور برصغیر پاک وہند کے حنفی علماء ومفتیان کا فتویٰ یہ تھا کہ نکاح فسخ ہوچکا ہے اور4ماہ10دن کی عدت گزارنے کے بعد وہ لڑکی شادی کرسکتی تھی۔ طلاق کی عدت بھی تین ماہ نہیں بنتی تھی اس لئے کہ لڑکی کی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ عدالت سے منسوخ نکاح کروانے اور اتنی مدت گزارنے کے بعد اگر رخصتی ہوچکی ہوتی اور عورت بچوں کی ماں بھی ہوتی تب بھی اس کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق تھا اور اس پر یہ فتویٰ لگانا کہ نکاح نہیں ہوا ہے اور یہ تعلق بھی جائز نہیں تھا ،انتہائی افسوس کی بات ہے۔ محمد شفیع کوئی بہت غریب بندہ ہوگا اور اس کا باپ بھی بے بس ہوگا اور شیرمحمد کوئی امیر ہوگا اور اس نے پیسہ بھی ان فتویٰ فروشوں کو دیا ہوگا۔ ان لوگوں نے دین اور فتوے کو کاروبار بنالیا ہے۔ انفرادی فتوے بھی ان کے بہت متضاد ہیں۔ ایک فتویٰ لکھ دیا کہ شیعہ سے سنی لڑکی کا نکاح جائز نہیں اور دوسرا لکھ دیا ہے کہ جائز ہے مگر مناسب نہیں ۔
جب حاجی عثمان پر انہوں نے فتویٰ لگایا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ یہ پیر کوئی اچھا آدمی ہوگا اور ان مفتیوں نے اس پر1970 عیسوی کے فتوے کی طرح مال کمایا ہوگا۔ دارالعلوم کراچی نے اس وقت بھی یہ کھیل ایسا کھیلا تھا کہ الاستفتاء میں لکھ دیا تھا کہ ” خلیفہ اول کہتا ہے کہ مجھے پیر بار بار مجبور کرتا تھا کہ تم نبیۖ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟”۔ حالانکہ ایسا عملاً نہیں ہوسکتا ہے کہ پیر خود تو نبی ۖ کو نہیں دیکھتا ہو لیکن مرید سے کہے کہ تم نے دیکھا ہے یا نہیں؟۔ اور زبردستی دیکھنے پر مجبور کرتا ہو۔ اگرایک خلیفہ ہوتا تو پھر بات ہوتی یہاں تو علماء ومفتیان ، بہت سارے خلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والوں کی ایک بہت بڑی فہرست تھی اور عام ہزاروں کی تعداد میں مکاشفات دیکھنے والے ان کے علاوہ تھے جن میں اہلحدیث بھی شامل تھے۔
دارالعلوم کراچی نے حاجی عثمان سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ نہیں آئے تو ہم یک طرفہ فتویٰ دیں گے اور پھر وہ فتویٰ جس پر کوئی یقین نہیں کرتا شائع کردیا اور علماء ومفتیان بکاؤ مال نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے حاجی عثمان سے تفتیش کے بعد فتویٰ دیا اور یہ نہیں بتایا کہ خلیفہ اول کے علاوہ جن علماء اور دیگر لوگوں نے مشاہدات دیکھے تھے تو وہ تمہاری بیویوں ، ماؤں اور بیٹیوں کے پاس چرنے گئے، چڑھنے گئے یا کیا کرنے گئے؟۔ ایک پر تو زبردستی کی لیکن دوسروں کا کیا بنے گا کالیا؟۔ ہم فوجی حکام ، مقتدر، علماء حق اور عوام الناس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان غلیظ علماء ومفتیان کا راستہ روکنے کیلئے بندوبست کرنا چاہیے ۔ہماراذاتی معاملہ تو ایک بہانہ ہے لیکن ہمارا اصل نشانہ غریب وبے بس لوگوں کو حلالہ ، سود ، حلال نکاح کو حرام قرار دینے ، جھوٹ ، فریب اور فتویٰ فروشی کی لعنتوںسے بچانا ہے اور بس!۔ہم پر حرامکاری اور اولاد الزنا کا غلط فتویٰ بہت مہنگا پڑاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟
نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی