عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

سورۂ بقرہ آیت:229میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ اس کا ایک فیصد احتمال بنتا ہے کہ اس سے خلع مراد لیا جائے لیکن جاویداحمد غامدی ، مولانا مودودی اور مولانا وحیدالزمان نے بھی غلط کردیا

سورۂ نساء آیت:19میں خلع ہی مراد ہے مگراس سے خلع مراد نہیں لیا گیا، جس کی وجہ سے نہ صرف عورت کے حق کو پامال کیاگیا بلکہ دیگرقرآنی آیات میں بھی تضاد کا شکار ہوگئے!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوںاللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تودونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کردیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (البقرہ آیت:229)
اس آیت میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری بار طلاق کی بھی وضاحت ہے اور نبی کریم ۖ نے ایک صحابی کے پوچھنے پرفرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق یہی ہے جس کا ذکر آیت229البقرہ میں ہے کہ معروف طریقے سے رکھنے کے بجائے اس کو احسان کیساتھ چھوڑ دیا جائے۔ مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اس حدیث کو اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کیا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں واضح ہے کہ مرحلہ وار تیسری مرتبہ طلاق کے فیصلہ کے بعد شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔
پھر دوشرائط کیساتھ اس شرط پر صرف اس صورت میں وہ چیز واپس لینا جائز ہے کہ جب ان دونوں کو خدشہ ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ۔ اور یہ کہ فیصلہ کرنے والے بھی ڈرتے ہوں کہ اگر شوہر نے وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔
ایسی صورت میں وہ دی ہوئی عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلئے کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو پھر فیصلہ کن طریقے سے جدائی کے بعد وہ ذریعہ بنے گا اور اس کی وجہ سے ایکدوسرے کے رازوں سے آشنا جب میل ملاپ کریں گے تو پھر دونوں اللہ کی حدوں کو توڑ سکتے ہیں۔
آیت میں واضح ہے کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس لینا جائز نہیں ہے لیکن مجبوری میں زیادہ بڑے نقصان اور اللہ کی حدود توڑنے کے خدشہ پر واپس فدیہ کرنے کی اللہ نے گنجائش رکھ دی ہے۔
اس آیت میں خلع کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آئے گا؟۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے کہ اس کا شوہر طلاق کے بعد بہت مجبوری اور زیادہ بڑے نقصان کے پیش نظر ایسی چیز واپس کرسکتی ہے جو شوہر نے دی ہے۔ لیکن جاوید غامدی اور مولانا مودودی نے بھی اس سے خلع مراد لے کر الٹا عورت کو بلیک میل کرنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ اس غلط تشریح کی وجہ سے عورت ہی نہیں علماء وفقہاء بھی طلاق کے مسائل پر تضادات ہی تضادات کا شکار ہوکر گمراہی کے طوفان میں غوطہ زن ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے ایمان والو! عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے کہ اس میں سے بعض چیزیں واپس لے لو مگر یہ کہ جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہیں وہ بری لگتی ہوں اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیرکثیر بنادے۔(النساء آیت:19)
ایک آزاد عورت اور لونڈی میں یہی فرق ہوتا تھا کہ لونڈی مملوکہ ہوتی تھی اور آزاد عورت اپنی آزاد حیثیت سے اپنے شوہر کی بیوی ہوتی تھی لیکن عملی طور پر بیوی بھی شوہر کی مملوکہ سے بھی بدتر مملوکہ ہوتی تھی۔ جیسے پہلے یہاں لوگ انگریز کے غلام تھے اور آزادی کے بعد بھی مقتدر سیاستدان، پولیس، عدالت، فوج ، سول بیوروکریٹ ، طاقتور علماء ومشائخ اور ہر طاقتور طبقہ اپنے سے کمزور طبقے کو اپنا غلام یا مزارع اور خود کو وارث اور مالک سمجھتا ہے۔ راجن پور میں ایک رکشہ ڈرائیور کے ساتھ کار مالک نے جس طرح کا تشدد کیا وہ گوانتا ناموبے میں بھی قیدیوں کیساتھ نہیں ہوا ہوگا۔ جب طاقت کا توازن قانون سے بالاتر ہو جائے تو یہی زبردستی سے کسی کے وارث بننے کی بات ہے۔ اگر عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں نعرہ لگاتاجب شہریار آفریدی کے عزیز نے ایک کمزور لڑکی سے زبردستی سے شادی کرنے کی کوشش کی اورپھر انکار پر اس کو قتل کردیا کہ لوگ غلام ہیں کیا تو آج ریاستی نظام سے خواتین پر مظالم کے سچے جھوٹے دعوؤں کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔ الطاف حسین کا66سالہ بھائی گورنمنٹ ملازمت سے ریٹائرڈاور28سالہ بھتیجا جن کا ایم کیوایم اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا انکو اغواء اور پھر بہت ظالمانہ طریقے سے قتل کرکے لاشیں پھینک دیں۔ ایم کیوایم نے انسانی حقوق کی پامالی کی تھی اور حقیقی کی شکل میں انکے ساتھ وہی ہواتھا۔MQMاور طالبان کا راج تھا تو وہ بھی خود کو بدمعاشی سے مالک سمجھتے تھے۔
عورت کو اللہ نے شوہر کی مملوکہ نہیں بنایا ہے۔ جب بھی وہ خلع لینا چاہتی ہو تو وہ خلع لیکر گھر سے نکل سکتی ہے اور یہی اس کی طلاق ہے۔ شوہر طلاق دے تو عورت کی عدت تین مہینے ہے اور عورت خلع لے توعورت کی عدت ایک مہینے ہے۔ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ سعودیہ میں اس پر عمل ہوتاہے لیکن یہاں بشریٰ بی بی کی خلع پر ہنگامہ کھڑا کیا گیا اور وہ بھی بہت دیر سے خیال آیا۔
خلع میں عورت کو گھر اور تمام غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور طلاق میں مرد کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے کیونکہ گھر عورت کا ہوتا ہے اور اگر خلع وطلاق کے یہ حقوق واضح ہوتے اور ریحام خان کو طلاق دینے کے بعد عمران خان کو بنی گالہ کا گھر چھوڑنا پڑتا تو ریاستِ مدینہ کی تصویر نظر آجاتی مگر علماء نے خلع اور طلاق کی درست وضاحت نہ کرکے اسلام کا کباڑہ کرکے رکھ دیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں