پوسٹ تلاش کریں

بخاری کی روایت میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے قصے سے غلط فتویٰ اور اس کا اِزالہ!

بخاری کی روایت میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے قصے سے غلط فتویٰ اور اس کا اِزالہ! اخبار: نوشتہ دیوار

بخاری کی روایت میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے قصے سے غلط فتویٰ اور اس کا اِزالہ!

صحیح بخاری میں ہے کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دیں۔ پھر اس سے کسی اور شخص نے نکاح کیا ۔ پھر وہ عورت نبیۖ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ دوسرے شخص کے پاس ایسا ہے ، دوپٹے کا پلو دکھایا۔ نبی ۖ نے فرمایا: کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو جب تک دوسرے شوہر کا شہد (ذائقہ) نہ چکھ لو اور وہ تیرا نہ چکھ لے ۔ جیسے پہلے نے تیرا چکھ لیا اور تو نے اس کا چکھ لیا ہے۔
بخاری کی یہ روایت کو دیکھ کر عوام اور خواص سمجھتے ہیں کہ رفاعہ القرظی نے3طلاق دئیے اور پھر اس کی بیوی نے حلالہ کروایا۔ مباشرت سے پہلے وہ دوبارہ اپنے سابقہ شوہر کے پاس آنا چاہتی تھی تو اس پر نبیۖ نے اجازت نہیں دی کہ جب تک سابقہ شوہر کی طرح اس کا ذائقہ نہ چکھ لیا جائے تو حلالہ نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی3طلاق دیتا ہے تو حنفی دیوبندی بریلوی علماء اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں اور ساتھ میں قرآنی آیات کی گردن مروڑ دیتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان آیت229البقرہ” طلاق دو مرتبہ ہے ۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ یعنی طلاق رجعی دومرتبہ ہے جس طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد اللہ نے واضح فرمایا ہے فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ آیت230البقرہ ”اور اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ پھر فقہی کتب سے بھی حوالے دئیے جاتے ہیں کہ” اگر غلام نے دو طلاقیں دیں توجب تک اس عورت سے کوئی دوسرا شوہر نکاح نہ کرلے تو وہ حلال نہیں ہوسکتی اور اگر لونڈی کو دو طلاقیں دی گئیں تو جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو وہ پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کی مہر اور دستخط ہوتے ہیں۔
کوئی ان بے شرم ، بے غیرت ، بے ضمیر ، بے حس ، بے عقل ، بے ایمان اور انسانیت سے عاری لوگوں سے نہیں پوچھتا کہ جب تم لونڈی و غلام کی دو طلاقوں پر بھی حلالہ کے فتوے جاری کرتے ہو تو پھر اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمہارا قرآن کے تین طلاق سے کوئی کام نہیں بلکہ حلالہ کی لعنت کے چکر میں پڑے ہو؟۔یہ جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کے مفتیان حیلے اور حلالے کے چکر میں مذہب کی نوکری کررہے ہیں۔ جہاد اور خود کش کے فتوے دینے والے ان علماء ومفتیان اور ان کی آل اولاد نے کبھی اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے؟۔ جب ان کو تین طلاق کے بعد حلالے کی ضرورت پیش آتی تو اہلحدیث سے بغیر حلالے کا فتویٰ لیتے تھے۔
بخاری میں یہ واضح ہے کہ رفاعہ نے مرحلہ وار تین طلاقیں عدت کے حساب سے دی تھیں۔ عدت کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے نکاح کیا۔ جب اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگایا تو اس سے پہلے اس عورت نے حضرت عائشہ کے سامنے اپنے جسم پراس کے مارنے کے نشانات بھی دکھائے۔ حضرت عائشہ نے تصدیق کی کہ بہت سخت مار پڑی ہے۔ جبکہ صحیح بخاری میں یہ بھی واضح ہے کہ اس کا شوہر اپنے بچوں کو ساتھ لیکر آگیا اور اس نے نامردی کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں اس کی چمڑی ادھیڑ دیتا ہوں۔ بخاری کی ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی مروجہ حلالے کی طرح مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ عورت اپنے دوسرے شوہر سے جان چھڑانا چاہتی تھی اور ضروری نہیں تھا کہ پہلا شوہر اس کو قبول کرتا اسلئے کہ سوچ سمجھ کر وہ طلاق دے کر جان چھڑاچکا تھا۔ بخاری کی تمام روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے فتویٰ دیناکہ ایک ساتھ تین طلاق دینے کے بعد حلالہ کرنا ضروری ہے ۔حالانکہ نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے تو نبیۖ کیسے اسی نامرد سے حلالہ کرنے پر مجبور کرسکتے تھے؟۔ کچھ تو خدا کا خوف بھی کرتے؟۔
ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان تھے جو مفتی محمد تقی عثمانی کے بھی دارالعلوم کراچی نانک واڑہ میں استاذ تھے۔ جب ہمیں سبق دیا: حتی تنکح زوجًا غیرہ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” ۔ قرآن میں عورت نکاح کیلئے خود مختار ہے جبکہ خبر واحد کی حدیث صحیحہ ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ قرآن کے مقابلے میں حنفی مسلک کے نزدیک اس حدیث پر عمل نہیں ہوسکتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ استاذ جی! حنفی مسلک کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں تطبیق کی جائے اور قرآن کی اس آیت میں طلاق شدہ عورت کا ذکر ہے اور شریعت میں طلاق شدہ اور کنواری کے احکام الگ الگ ہیں اسلئے حدیث کو آیت سے متضاد ٹھہرانے کی جگہ کنواری مراد لی جاسکتی ہے؟۔ مولانا بدیع الزمان کی نورانی پیشانی پر خوشی سے مزید نور کی جھلک نظر آئی اور فرمایا کہ آپ کی بات میں وزن ہے اور آئندہ کی تعلیم پر کوئی اچھی صورت نکالنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ مولانا بدیع الزمان حاجی محمد عثمان پر فتوے لگانے کے بھی مخالف تھے اور میری طرف سے مزاحمت پر بہت خوش تھے اور فتوؤں کے بعد ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے بھی فتوؤں کی مخالفت کی تھی اور حاجی محمد عثمان کی قبر پر اپنے داماد کیساتھ بھی گئے تھے۔ حالانکہ ان کی طرف بھی حاجی عثمان کے خلاف وہ جھوٹا فتویٰ منسوب کیا گیا تھا جس سے برأت کے اعلان میں انہوں نے اپنی معذروی اور مجبوری ظاہر کردی تھی۔ مولانا سلیم اللہ خان بھی حاجی عثمان کی وفات کے بعد مسجد الٰہیہ آئے تھے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا کہ ” بخاری کی حدیث خبر واحد ہے۔ احناف کے نزدیک اس کی وجہ سے نکاح پر مباشرت کا اضافہ نہیں ہوسکتا ”۔( کشف الباری)

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں