پوسٹ تلاش کریں

بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں

بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں اخبار: نوشتہ دیوار

بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں

عدتِ ایلاء عدتِ طلاق عدتِ وفات عدتِ خلع

1: عدتِ ایلائ: للذین یؤلون من نساء ھم تربص اربعة اشہر فان فاء وا فان اللہ غفور رحیمOجو لوگ اپنی عورتوں سے ایلاء کریں ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے پس اگروہ مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔البقرہ:226
ایلاء کی عدت4ماہ واضح ہے۔ بیوی سے قسم کھائی یا لاتعلقی وناراضگی رکھی۔ (تفہیم القرآن: سیدمودودی) اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتاجانتا اور اس پر پکڑتا ہے ۔ جوالبقرہ آیات225،227میں واضح ہے۔ اسلئے کہ اگر طلاق کا اظہار کیا تو پھر عورت کی عدت3ماہ ہوتی ۔ اس عزم کو چھپانا دل کا وہ گناہ ہے، جس کے نتیجہ میں عورت کا انتظارایک مہینے بڑھ جاتا ہے۔
جمہور فقہائ کے ہاں4ماہ گزرنے کے بعدبھی ایلاء میں نکاح قائم ہے۔ جب تک اظہار نہ ہو، طلاق نہیں ہوگی۔ جس سے قرآنی آیات میں عدت کی ساری اہمیت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ زندہ باد کا نعرہ لگے گا۔
جمہور کے نزدیک شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے طلاق نہیں ہوئی ۔ حنفیوں کے نزدیک شوہر نے4ماہ تک صلح نہیں کی تو طلاق کا حق استعمال کرلیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کے حق کو دونوں نے نظر انداز کردیا۔ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے ایلاء میں4ماہ کی عدت رکھی جس میں قسم یا ناراضگی کی صورت میں بھی طلاق کی طرح ایک عدت کے بعد عورت کو آزادی ملتی ہے۔
رسول ۖ نے ایلاء کے ایک ماہ بعدرجوع کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ رجوع کا حق نہیں عورتوں کو طلاق کا اختیار دو۔ ازواج النبی رجوع پر راضی نہ ہوتیں تو4ماہ عدت سے فارغ ہوجاتیں۔یہ واضح سبق تھا کہ ایلاء میں عورت کا اختیار ہے۔
2:عدتِ طلاق: والمطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء ”اورطلاق والیوں کی عدت3ادوار ہیں”۔ (سورة البقرہ :آیت228)
ایلاء کے بعد اللہ نے طلاق کی عدت کو واضح کیا۔ عورت کو حیض آتا ہو تو عدت3ادوارہے اور حیض کی جگہ قائم مقام پھر عدت3مہینے بالکل واضح ہے۔
3:عدتِ وفات: والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجًا یتربصن بانفسھن اربعة اشھرٍو عشرًاO”اور جو لوگ تم میں فوت ہوں اور بیگمات چھوڑیں تو وہ خود کو انتظار میں رکھیں4ماہ10دن تک۔ (البقرہ آیت:234)
4:عدت ِ خلع: ثابت بن قیس کی بیوی نے خلع لیا تو نبیۖ نے ایک حیض کی عدت کا حکم دیا۔ (سنن ترمذی حدیث1185) ربیع بنت معوذ بن غفراء نے عثمان کے دورمیں خلع لیا تو حضرت عثمان سے کہا کہ بنت معوذ نے آج خلع لیا تو کیاوہ منتقل ہو ؟۔تو حضرت عثمان نے کہا کہ ”جی ہاں! منتقل ہو۔نہ تو ان کے درمیان وراثت ہے اور نہ ایک حیض کے سواء کوئی عدت ۔صرف حیض آنے تک وہ نکاح نہیں کرسکتی۔کہ اس کو حمل نہ ہواہو”۔(سنن نسائی حدیث نمبر 3497)

نوٹ: مکمل تفصیلات جاننے کیلئے اس کے بعد عنوان ” عمران کا نکاح عدت میں نہیں مگر علماء و مفتیان عدت میں نکاح تڑوا کر عورتوںکی عزتیں لوٹتے ہیں مولانا فضل الرحمن اور
علماء کرام فیصلہ کریں! ”
”یتیم بچیوں کو ہراساں…جنسی استعمال…بنی گالہ میں کالے جادو میں ذبح کی بدلتی ہوئی کہا نی :افشاء لطیف کی زبانی”
اور ”خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟”کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں