طلاق کے مسائل کا بگاڑ۔ مولانا فضل الرحمان ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ علمائے دیوبند اور بریلوی پہل کریں۔
دسمبر 1, 2021
نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر3
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)
اب ہم کو قرآنی آیات اور طلاق سے رجوع کے احکام کو نظر انداز کرنے کی روش سے کھل کر توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے
جب ایک عورت پر حلالہ کی مصیبت پڑتی ہے تو اس کے پاؤں سے زمین بھی نکل جاتی ہے اور آسمان بھی سایہ فگن نظر نہیں آتا ہے۔ جب حضرت مریم نے بچے کی خوشخبری سنی تھی تو اس نے فرمایا تھا کہ ” کاش مجھے ماں نے جنا نہیں ہوتا اور میں نسیاً منسیا بھولی بسری بن جاتی”۔ حال ہی میں جب ایک19سالہ لڑکی کو ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا مژدہ سنایا گیا تو اس نے خود کشی کرلی تھی۔ جس عورت کا حلالہ کیا جاتا ہے تو وہ اور اسکے خاندان والے ویسے بھی زندہ زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں دو قسم کے لوگ تھے ،ایک بے غیرت تھے جن کی خواتین سے ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر حلالہ کی لعنت کروائی جاتی تھی اور دوسرے غیرتمند خاندان ہوتے تھے جن کی بیویوں کو ایک ساتھ تین طلاق پر اپنے شوہروں سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیا جاتا تھا۔ جن عورتوں کا حلالہ کروایا جاتا تھا ،ان کا معاملہ اور مثال زندہ دفن کرنے کے مترا دف ہی ہوتا تھا۔
قیامت میں ہمیشہ کیلئے جدا کئے جانے والوں کو ملایا جائیگااورزندہ دفن کئے جانے والی سے پوچھا جائیگا کہ کیوں زندہ دفن کیا گیا؟۔ واذا النفوس زوجتOواذالمو ء ودة سئلتOبای ذنب قتلت۔ آج یہاں دوبارہ دورِ جاہلیت کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ کسی مولوی، کسی لیڈر اور کسی بڑے شخص کی بیگم ، ماں، بیٹی اور بہن یا کسی قریبی رشتہ دار کا حلالہ کروایا جائے تو اس کو یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ زمین میں زندہ دفن ہونے کے مترادف ہے یا نہیں؟۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو اَنعام یعنی چوپاؤں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ جن وحشیوں کے نزدیک حلالہ کی لعنت ایک سزا ہے اور جرم مرد کرتا ہے اور اس کی سزا عورت کو ملتی ہے تو ان وحشیوں کو ایک دفعہ یہاں بھی جمع کرنا چاہیے تاکہ قیامت سے پہلے ایک قیامت اور جزا وسزا کا میدان سج جائے۔
کیا کوئی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شوہر کے جرم میں اس کی بیوی کو کسی اور شوہر کے ذریعے ریپ کرنے کی سزا دے سکتا ہے؟۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے تمام حدود معطل ہیں۔ زانی، چور، ڈکیت ، قاتل اور زنابالجبر کے مرتکب کو کوئی سزا نہیں دی جاتی ہے لیکن حلالہ کی لعنت کو شرعی سزا کے طور پر جاری رکھا ہواہے۔ ایک عرصہ سے مختلف کتابوں ،اخباراور ویڈیو کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز سے یہ کام لیا ہے جس پر اللہ کے اس بڑے فضل کا بہت شکرادا کرتا ہوں لیکن بڑے بڑے لوگ میدان میں کیوں نہیں آتے ہیں؟۔ پاکستان میں اہل حق کا دعویٰ کرنے والے اور بھی بہت لوگ ہیں مگر اس طرح سے ہمارا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ میرے چند ساتھی ہی میرا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ہمارامشن اتنا بڑا ہے جتنا ہم اپنے اللہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور ہمارا مشن قرآن ہے جس کو رب العالمین نے اتارا ہے اور ہمارا نبی خاتم النبیین ۖ ہیں جو رحمة للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ حلالہ ایک لعنت اور زحمت ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ ” اپنے عہدوپیمان کو ڈھال مت بناؤ کہ نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ البقرہ : آیت224
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام الفاظ اور عمل کو نیست ونابود کردیا ہے جو میاں بیوی کے درمیان صلح کے اندر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کا سبب بن جائیں۔ اس سے اگلی آیات میں الفاظ کی جگہ دل کے گناہ پر پکڑکی وضاحت ہے اور پھر طلاق کا اظہار کئے بغیر عورت کے انتظار کی عدت چار مہینے بتائی گئی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم تھا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت کی عدت میں ایک مہینے کا اضافہ ہے اور اگر طلاق کااظہار کردیا توپھر عورت کی عدت تین مہینے ہے۔ دیکھئے آیات225،226،227،228
اللہ کیلئے عورت کی عدت میں بے جا ایک مہینے کا اضافہ بھی قابل قبول نہیں ہے اسلئے کہ اگر طلاق کا ارادہ تھا لیکن اسکا اظہار نہیں کیا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔
احناف کے نزدیک چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا۔ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کے الفاظ کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا تو شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت اس کے نکاح میں ہی رہے گی۔ جمہور نے تو چار مہینے کی وضاحت کا لحاظ بھی نہیں رکھا تھا اسلئے ان کی گمراہی میں شک کی گنجائش بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن احناف نے بھی چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق پڑنے کا مسئلہ بنایا ہے جس کے بعد عورت کو مزید عدت بھی گزارنی پڑے گی اسلئے وہ حق کے قریب ہونے کے باوجود بھی گمراہی کا راستہ نہیں بھولے ہیں اور امام مہدی کے انتظار میں ہدایت کے منتظر ہیں۔
بڑی ضلالت اور گمراہی یہ ہے کہ قرآن کی وضاحت کے باوجود اتنے بڑے تضادات کا کیسے شکار ہوئے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کی عدت کا تعین کیا ہے اور عورت ہی کا حق بیان کیا ہے لیکن یہ الو کے پٹھے اس بات پر لڑتے ہیں کہ شوہر کا حق استعمال ہوا ہے کہ نہیں؟۔ اگر یہ اس بات پر توجہ دیتے کہ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کے حق کا ذکر کیا ہے تو اس روشن آیت پر تضادات تک نوبت نہ پہنچتی۔ جب عورت کی عدت بیان ہوئی ہے تو پھر عورت کیلئے چار ماہ کا انتظار ضروری ہے اور اس میں بھی عورت کی رضامندی سے ہی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت مکمل ہونے کے بعد اگر عورت پھر بھی اسی شوہر کیساتھ رہنا چاہتی ہو تو اوراس کا شوہر بھی راضی ہو تو کتنی ہی مدت گزرجائے تونکاح بحال ہے اور اگر عورت عدت کی تکمیل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو اس شوہر کیلئے پھر عورت پر پابندی لگانا حرام ہے اور اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ دوسرے شوہر ہی سے عورت اپنی مرضی سے نکاح کرلے۔ جس طرح بیوہ عورت کی مرضی ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد اپنے مردہ شوہر سے نکاح بحال رکھنا چاہتی ہے یا پھر نئے شوہر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرتی ہے۔ اسی طرح ناراضگی کابھی اسے بدرجہ اولیٰ یہی حکم ہے۔ کاش قرآن کے احکام کو سمجھ کر فیصلے کئے جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت228میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے ایک حیض کی صورت میں عدت کے تین مراحل تک عورت کو انتظار کا حکم دیا ہے اور حمل کی صورت میں حمل کو چھپانے سے منع کیا ہے اسلئے کہ پھر عدت حمل ہے۔ دوسرا یہ کہ عدت کے دوران شوہر کو اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تیسرا یہ کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق کو برابر قرار دیا گیا ہے لیکن مردوں کو ان پر ایک درجہ عطاء کیا گیا ہے۔ ایک درجہ یہی ہے کہ عورت کی عدت ہوتی ہے اور مردکی عدت نہیں ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ دو، تین اور دس درجات نہیں دئیے گئے۔
آیت کا پہلاتقاضہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں تین مرتبہ طلاق کا فعل خود بخود وارد ہوگا اور حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل اور تین مرتبہ طلاق کے فعل کا کوئی اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری کی احادیث میں نبیۖ نے یہی وضاحت فرمائی ہے جو کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں موجود ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں بھی اسی کی وضاحت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229میں الطلاق مرتان کے بعد تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں تضادات کی جھک ماری گئی ہے۔
آیت229البقرہ میں تینوں طلاق قرآن واحادیث اور انسانی فطرت سے ثابت ہیں کیونکہ قرآن وسنت میں طلاق کو ایک فعل بتایا گیا ہے اور پہلی مرتبہ کا طہر و حیض عدت کا پہلا مرحلہ اورپہلی مرتبہ کی طلاق ہے، دوسری مرتبہ کا طہروحیض عدت کا دوسرا مرحلہ اور دوسری مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسری مرتبہ کاطہروحیض عدت کا تیسرا مرحلہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ لیکن ان تینوں مرتبہ کی طلاق سے بھی حرمت غلیظہ ثابت نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے دوسرے شوہر سے اس کا نکاح کرانا ضروری ہو۔ احناف کے نزدیک البقرہ آیت226کے چار مہینے میں طلاق کااظہار کئے بغیر بھی طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے اور اگر عورت حیض والی ہو تو تین مرتبہ کی جگہ چار مرتبہ طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے لیکن اس سے حرمت مغلظہ ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حرمت مغلظہ کا سبب ہی قرآن میں کچھ اور ہے۔
امت کی بڑی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ آیت229میں تین مراحل کے اندر تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا ذکر ہے کہ ان کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے بھی اپنی نری جہالت کی وجہ سے عورت کی طرف سے اس مجبوری کے فدیہ کو خلع کا معاوضہ قرار دیا ۔ حالانکہ یہ کتنی بھیانک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ طلاق کے بعد یہ وضاحت کی ہے کہ شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ یہی بات سورۂ النساء کی آیات20اور21میں طلاق کے حوالے سے اللہ نے کی ہے اور خلع کا حکم سورہ النساء آیت19میں بالکل واضح ہے۔آیت229البقرہ میں تین مرتبہ طلاق کے بعددی ہوئی کسی بھی چیز کو واپس لینا حلال نہ ہونے کی وضاحت ہے لیکن اس صورت میں یہ استثناء ہے کہ جب اس چیز کی وجہ سے دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے، اور اس کاتعلق دونوں کے میل ملاپ سے ہے۔ جب عورت اور شوہر کا ازدواجی تعلق ختم ہوجائے تو پھر شوہر کی دی گئی کسی چیز کی وجہ سے میل ملاپ اور دونوں کا اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ کس قدر کم بختی اور بدقسمتی کی بات ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کو تحفظ فراہم کیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے فعل اور علیحدگی کے حتمی فیصلے کے بعد عورت سے شوہر وہ کوئی بھی چیز نہ لے جو اس نے دی ہو لیکن مذہبی طبقہ اسی بات کو خلع اور عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنارہاہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ آیت226البقرہ کی عدت میں بھی باہمی رضامندی کے بغیر عورت کو رجوع پر زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اورآیت228البقرہ میں بھی طلاق کے بعدصلح کے بغیر عورت کو زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو یا تین طلاق اور تین مرتبہ کی طلاق کیونکہ اس سے رجوع کا تعلق عدد سے نہیں بلکہ عدت کی مدت سے ہے۔ البتہ عورت سے صلح کئے بغیر رجوع کرنا شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ آیت229میں بھی معروف طریقے کی رجوع سے صلح کی شرط پر رجوع مراد ہے۔ اور صلح کی شرط کے بغیر نہ ایک مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دومرتبہ کی طلاق کے بغیر۔ اور صلح کی شرط کیساتھ تین مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کرنے کی ممانعت نہیںہے اور جس چیز کے حلال نہ ہونے کا حکم ہے وہ شوہر کی طرف سے دیا گیا مال ہے۔
جب آیت229میں وہ صورتحال بیان کی گئی ہے کہ جب دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس بات کو پہنچ جائیں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے تو سوال رجوع کرنے یا نہ کرنے کا نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علیحدگی وطلاق کے بعد پہلا شوہر اس عورت کو اپنی مرضی سے جس سے بھی چاہے نکاح کی اجازت دے سکتاہے؟۔ انسان کی غیرت اور فطرت گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیوی اور بچے کی ماں اس طلاق کے بعد اڑوس پڑوس یا قریبی رشتہ داروں اور احباب سے نکاح کرلے۔ کیونکہ یہ غیرت انسانوں کے علاوہ چرندوں ، پرندوں اور وحشی درندوں میں بھی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مردانہ غیرت سے کسی بھی طلاق کے بعد عورت کو زبردست تحفظ دے دیا ہے۔
جن الفاظ سے تحفظ دیا ہے وہ بھی کمال کے ہیں اور اس وجہ سے بہت زیادہ خواتین نے ظالم وجابر اور بہت زیادہ طاقتورمردوں سے چھٹکارا پایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بنوں کی سوشل میڈیا پر ایک مولوی کے خلاف زنا بالجبر کا کیس مشہور ہوا تھا جس نے کسی عورت سے اس کی اجازت کے بغیر حلالے کا ارتکاب کیا تھا اور اس وجہ سے اس مولوی کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کیس کی تحقیقات کرکے اس کو پوری دنیا کے سامنے بھی لاسکتے ہیں۔
آیت230میں اس طلاق کے بعد عورت کا دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو آیت229کی صورتحال سے نتھی کرنا درست ہے ۔ فقہ حنفی، علامہ ابن قیم اورحضرت عبداللہ بن عباس کی طرح قرآن کے فہم کا یہی تقاضا ہے جس کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس آیت230میں بھی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد پہلے شوہر اور اس عورت کا اس شرط پر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب دونوں کو یہ گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ اسلئے کہ دوسرے شوہر سے ازوداجی تعلقات کے بعد پھر جب اس کو طلاق دی جائے تو اس عورت کا دوسرے شوہر سے تعلق نہ بنے اور پہلاشوہر اس کو پھر قتل نہ کردے۔ یہ پوری طرح اطمینان ہونا چاہیے کہ پہلے شوہر کے مقابلے دوسرے شوہر کی جسمانی، مالی اور ہر لحاظ سے کیفیت ایسی نہ ہو کہ عورت بھی اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکے اور شوہر بھی اس کو غیرت کے نام پر پھر اس کو قتل کردے۔
قرآن نے اپنی آیات بینات کے ذریعے سے معاشرے کی تمام برائیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدت کے اندر باہمی صلح واصلاح سے بہر صورت اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا تھا لیکن کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے؟۔ فقہ حنفی میں فدیہ جملہ معترضہ نہیں ہے بلکہ آیت230کی طلاق سے مربوط ہے۔ اور آیت229میں دومرتبہ کے طلاق کا تعلق ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اگلے جملے سے بنتاہے جس میں فامساک بمعروف او تسریح باحسان کی ف تعقیب بلامہلت ہے۔ اسلئے اس تین مرتبہ کی طلاق کے بعد عدت کی تکمیل سے معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش واضح تھی اور پھر ایک خاص صورتحال کا ذکر کیا گیا کہ اس طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کرلے۔ پہلی آیات میں بھی یہ واضح تھا کہ صلح واصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن جب تک سمندر کے شکاریوں کی طرح مچھلیوں کو جھینگا نہیں پھینکا گیا تو مولوی قرآن کی آیات کا شکار نہیں ہوئے اور نہ اُمت مسلمہ ان کا شکار بن گئی لیکن جونہی حلالے کا جھینگا پھینک دیا گیا فوری طور پر مولوی اس کا شکار ہوگیا۔ ویسے تو قرآنی آیات کو پوچھتا تک نہیں ہے لیکن حلالے پر ایسی ایسی منطقیں گھڑ دی ہیں کہ شیطان بھی عورت کی اس توہین پر مولوی کو نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن پھر اللہ نے اگلی آیات231اور232میں جس طرح عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھولا ہے۔ جس کے سامنے مولوی کا سارانام نہادفقہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ثابت ہوتا ہے۔
مسائل طلاق کی بہت بگڑی حالت
میرے کزن ، بچپن سے دوست اور ہر دلعزیز شخصیت سید عبدالوہاب شاہ گیلانی نے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان اور اس بد حالی کی صورتحال پر کہا کہ ”پاکستان بھی کرائے کی سائیکل ہے جس پر مختلف لوگوں کو حکمرانی سکھانا جاری ہے، اب یہ کرائے کی سائیکل عمران خان کو دی گئی ہے کہ تم اس پر سیکھو۔ اس سے پہلے محمد خان جونیجو، شوکت عزیز، ظفراللہ جمالی ، نوازشریف، بینظیر بھٹو، زرداری اور سب نے اس پر سیکھا ہے ، اب خیر ہے عمران خان بھی سیکھ لے گا”۔
جو صورتحال پاکستان کے حکمرانوں کی ہے جنہوں نے سودی قرضوں سے ملک وقوم کوIMFکے ہاتھوں گروی رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور پہلے ادوار میں موٹرویز بنائے تھے جن میں ایکسیڈنٹ کے خطرات نہیں ہوتے تھے اور لانگ روٹ کی گاڑیوں کومقامی گاڑیوں سے بالکل الگ کرنا انسانی جانوں کے خوامخواہ کے نذرانے پیش کرنے سے بچانے کیلئے ضروری تھا لیکن حیدر آباد اور کراچی کی سپر ہائی وے کو موٹر وے میں بدلنے کے بعد یہ ایک خواب بن گیاہے اور ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ لاہور اسلام آباد جی ٹی روڈ میںبھی لانگ روٹ کی گاڑیوں پر پابندی لگائی جاتی لیکن نوازشریف کے قافلے میں حادثاتی موت کو بھی شہادت کا درجہ دیا گیا تھا کیونکہ مجھے کیوں نکالا کے پاس کوئی شہادت نہ تھی۔
اسلام کا بھی مختلف ادوار میں فقہاء اور علماء نے وہی حال کیا ہے جو پاکستان کی موٹروے کا حیدر آباد سے کراچی اور متوقع طور پر سکھر سے حیدرآباد تک دکھائی دیتا ہے۔ لیاقت علی خان ، محمد علی بوگرہ،سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، نوازشریف سے عمران خان تک اچھے برے لوگوں نے اقتدار کی کرسی سنبھال کر پاکستان سے کچھ لیا اور کچھ دیا ۔ اس طرح اسلام کی بھی علماء ومشائخ نے بہت خدمت بھی کی ہے اور نقصان بھی پہنچایا ہے۔
مدارس عربیہ کی بات میں نہیں کرتا ہوں کیونکہ مدارس عربیہ کا سب سے بڑا کریڈٹ قرآن کے الفاظ ، عربی تعلیم اور دین کی حفاظت ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں ۔ لکیر کے فقیروں کو اس میں مویشی منڈی کی طرح ڈال دیا جاتا ہے اور وہاں مفت میںکھانے ، پینے اور ہگنے کیساتھ ساتھ چندوں کے نام پر اپنا کاروبار کرنے والوں سے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی جاتی ہے تاکہ بیروزگار طبقے کو مذہب کے نام پر تھوڑا بہت روزگار مل جائے۔ میں بھی رسیاں توڑ کر نہیں جاتا تو مجھے اپنے گھر والے مدارس میں تعلیم کی اجازت کبھی نہیں دے سکتے تھے۔
سرکاری خزانوں سے نوازے جانے والے شیخ الاسلاموں اور ملاؤں کی تاریخ بہت لمبی ہے اور سکہ رائج الوقت کی طرح فتویٰ انہی کا چلتا ہے۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے مسائل طلاق پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں فقہ کے تمام مسالک کے بنیادی مسائل بیان ہوئے ہیں اور اس سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بانیانِ فقہ نے اسلام کیساتھ کس طرح کا مذاق کیاہے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کیلئے جن آیات سے استدلال کیا گیا ،ان پر بھی مختلف مذاہب یا مسالک کا اتفاق نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کا جو تصور دیا گیا ہے اس سے قرآنی تعلیمات کے بنیادی ڈھانچے کا بیڑہ غرق ہوتا ہے اسلئے کہ دو مرتبہ کی طلاق رجعی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کو ایک عدت کا عورت پر حق حاصل نہیں بلکہ تین عدتوں کا حق حاصل ہے کیونکہ شوہر طلاق دیکر ایک مرتبہ رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے تو وہ طلاق دے اور جب عورت کی عدت پوری ہونے کے قریب ہو تو رجوع کرلے۔ اس طرح ایک عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری اور پھر تیسری مرتبہ عدت کے آخر میں رجوع کرنے کے بعد عورت کو تیسری عدت گزارنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
قرآنی طلاق کی سدھری حالت تھی
جب دو مرتبہ طلاق رجعی کے غلط تصور سے قرآنی آیات میں عدت کی مدت کا بہت کباڑہ ہوجاتا ہے تو اکٹھی تین طلاق سے ایک طلاقِ رجعی مراد لینے کا اس سے بھی زیادہ بھیانک تصور ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے مطابق صلح کی شرط کیساتھ رجوع کو منسلک کیا جائے تو پھر دونوں صورتوں میں کسی خرابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ہے۔ طلاق ایک مرتبہ کی ہو، دومرتبہ کی ہو یا تین مرتبہ کی ہو۔ ایک طلاق کا تصور ہویادو طلاق کاتصور ہو یا تین طلاق کا تصور ہو لیکن رجوع کیلئے صلح واصلاح اور معروف طریقے سے باہمی رضامندی کو شرط قرار دیا جائے تو پھر کسی قسم کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اصل سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اصل علت باہمی رضامندی اور صلح واصلاح ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے اور بعض آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ایک طرف عدت کے اندر ہی رجوع کی گنجائش رکھ کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد عورت کیلئے دوسرے سے شادی کرنا بھی جائز ہے اور دوسری طرف عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط اور باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش رکھ دی گئی ہے تاکہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی جتنا عرصہ گزرے تو رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں بھی عورت اور اس کے شوہر کو رجوع کی گنجائش دی گئی ہے۔
کہاں قرآن کریم کی یہ وسعت اور کہاں فقہاء کی تنگ نظری ؟۔
مسئلہ٢٦:بچے کا اکثر حصہ باہر آچکاتو رجعت نہیں کرسکتامگر دوسرے سے نکاح اسوقت حلال ہوگا کہ پورا بچہ پیدا ہولے۔ ( رد المختار ، الطلاق ج5ص193نعم الباری شرح بخاری ج10ص766شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی)
دارالعلوم کراچی سے یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ حاجی عثمان کے معتقد کا اس کے مرید کی بیٹی سے نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن بہتر ہے کہ ان کے حالات سے اس کو آگاہ کردیں اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے یہ فتویٰ آیا تھا کہ جن باتوں کو حاجی محمدعثمان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر وہ باتیں ان میں نہیں ہیں تو علماء کا فتویٰ بھی ان پر نہیں لگتا ہے لیکن نکاح تو بہرحال جائز ہے۔ پھر مفتی رشید احمد لدھیانوی کے نالائق شاگردوں نے استفتاء اور اس کا جواب خود مرتب کرکے لکھا کہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ ”نکاح جائز نہیں ہے گو کہ منعقد ہوجائے”۔
جب ہم نے اکابر ین کے حوالے سے نام لئے بغیر فتویٰ لیا تھا تو یہ لوگ معافی مانگنے کیلئے دوڑے لگارہے تھے اور اس وقت مولانا فضل الرحمن نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ” دنبہ آپ نے لٹادیا ہے اور چھرا آپ کے ہاتھ میں ہے ،ان کو ذبح کردو، اگر یہ ٹانگیں ہلائیں گے تو ہم پکڑ لیں گے” اور مفتی محمد تقی عثمانی نے وکیل کے جواب میں کہا تھا کہ ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے لیکن جب ہم نے چھوڑ دیا توپھر ان لوگوں نے اپنی خباثت کی انتہاء کردی۔ البتہ ہمارے لئے اس میں سب سے زیادہ خیر تھی اسلئے کہ اس دھکے سے ہمارے اندر لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اپنی بیگم کو اسوقت طلاق دی تھی جب مفتی محمد رفیع عثمانی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور پھر جب بالکل وہ آدھا ماں کے پیٹ کے اندر اور آدھا ماں کے پیٹ سے باہر نکل چکے تھے تو اس کا رجوع کرنا درست تھا یا نہیں تھا؟۔ اور اس کے بعد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس رجوع کے بعد اسی عورت کے پیٹ سے جنم لیا ہے تو اس کی حیثیت جائز ہے یا ناجائز؟۔ سودکو جواز بخشنے سے کیا سودی نظام جائز بن جائے گا؟۔ بینوا وتوجروا۔
مولانا فضل الرحمن انقلابی شخصیت؟
مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی کہتے ہیں کہ وہ مفتی نہیں ہے اسلئے طلاق کے مسائل پر اپنی رائے نہیں دے سکتے ہیں اور مفتی شاہ حسین گردیزی نے کہا ہے کہ میں طلاق کے حوالے سے فتویٰ نہیں دیتا ہوں۔ دارالعلوم کراچی کے مفتی عصمت اللہ شاہ نے بھی طلاق کے مسائل پر فتویٰ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی محمد نعیم نے ملاقاتوں میں طلاق کے مسائل پر اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ اور وفات سے قبل مفتی زر ولی خان سے بھی میں نے ملاقات کی تھی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بہت سے مسائل پر اتفاق ہے لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا لیکن میں نے ملاقات اور آئندہ وقت دینے کی درخواست کی تھی جس پر انہوں نے بہت خوش دلی کے ساتھ فرمایا تھا کہ ” بالکل ! چشم ماروشن دل ماشاد” اور ملاقات کے بعد میری بہت تعریف بھی اپنے شاگرد سے کی تھی اور میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا لیکن وہ پہچان گئے تھے۔ وہ جرأت مند انسان تھے ۔ میں نے اپنی کتاب ‘ ‘ عورت کے حقوق ” میں ان کا خاص طور پر تذکرہ بھی کیا تھا۔
اپنے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی خدمت میں بھی حاضری دی تھی اور انہوں نے مجھے تحفے میں عطر بھی عنایت فرمایا تھا۔ اپنی تحریک کیلئے دعا لینے مولانا خان محمد کندیاں امیر عالمی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت، مولانا سرفراز خان صفدر ، مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ ، مولانا عبدالصمد ہالیجی، امروٹ شریف شکار پوراور مولانا عبداللہ درخواستی صاحب سے دعائیں لی تھیں اور میرے استاذشیخ الحدیث مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید میرے مرشد حاجی عثمان سے فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے اور مولانا حبیب الرحمن درخواستی صاحب ، مولانا محمد مکی حجازی، مولانا سیف الرحمن جامعہ صولیہ مکہ مکرمہ ، مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ، مولانا سید محمد بنوری، مفتی محمد نعیم سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کی طرف سے فتوے کے بعد بھی حاجی عثمان سے ملنے آئے تھے۔ ٹانک کے اکابر علماء مولانا فتخ خان، مولانا عبدالرؤف گل امام ، مولانا عصام الدین محسود جمعیت علماء اسلام( ف) ، مولانا شیخ محمد شفیع شہید جمعیت علماء اسلام (س) مولانا غلام محمد مکی مسجد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، قاری محمد حسن شکوی شہید وزیر گودام مسجد ٹانک اور ملک بھر سے مختلف مکاتب کے علماء کرام کی طرف سے تائیدات کا ایک بہت ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ جس کو کتابوں اور اپنے اخبار میں شائع بھی کردیا ہے۔ حضرت شیخ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے دادا تک علماء ومشائخ کا ایک سلسلہ تھا اور میں نے پھر دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے۔
حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں35سال لگائے تھے اور ان کا مدعا یہ تھا کہ اکابر بھی عوام کیساتھ نشست وبرخاست، کھانے پینے اور وقت لگانے میں گھل مل جائیں۔ جس وقت تقریر کررہے ہوں تو منبر ومحراب اور اسٹیج پر لیکن عام حالت میں عوام کیساتھ سامعین کی نشست میں بیٹھ جائیں۔ جس سے ان کی بھی اصلاح جاری رہے گی۔ اگر تبلیغی جماعت اس مرد قلندر کی بات پر عمل کرتی تو پھر عالمی مرکز بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ میں امیر کے مسئلے پر تفریق پڑنے تک نوبت نہیں پہنچ سکتی تھی۔ مرز اغلام احمد قادیانی ایک نبی اور مھدی تو بہت دور کی بات ہے ایک اچھا انسان بھی نہیں تھا اسلئے کہ محمدی بیگم کے حوالے سے اس نے جھوٹی وحی کے ذریعے بہت گری ہوئی حرکت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا اگر انقلابی بننے کا پروگرام ہے تو پہلے فقہ کے نام پر قرآن وسنت اور فطرت سے دوری کا راستہ روکنے کیلئے ہمارا کھل کر ساتھ دیں اور پھر اسلامی انقلاب کیلئے بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔ یہ وقت کھونا اچھا نہیں۔ ورنہ پھر پانی سر سے گزر جائیگا۔
علماء دیوبند اور بریلوی پہل کریں!
فقہ حنفی کے نام پر درسِ نظامی کے علمبردار دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان اور مشائخ کام کررہے ہیں۔ مولانا مفتی زرولی خان ایک سخت گیر پٹھان تھے اسلئے مولانا منظور مینگل کے خلاف علامہ خادم حسین رضوی کی حمایت پر تجدیدِ نکاح کا فتویٰ جاری کردیا تھااورمولانا احمدرضاخان بریلویبھی ایک قندھاری پٹھان اور الٹا بانس بریلی کے رہائشی تھے اسلئے علماء دیوبند اور دیگر فرقوں اور مسالک کے لوگوں پر بھی قادیانیت کے فتوے جاری کردئیے لیکن پاکستان میں متفقہ تحریک ختم نبوت چلانے والے دیوبندی بریلوی ایک تھے۔
افغانستان کے طالبان نے ملاعمر کی قیادت میں جو سخت گیر مؤقف اپنایا تھا تو آج کے افغانی طالبان اس سے بہت پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے عالم وشیخ طریقت نے لکھا ہے کہ ” شاہ اسماعیل شہید نے شروع میں نئے جذبے سے بدعات اور شرکیہ عقائد کے خلاف جو کتابیں لکھی تھیں تو اس میں اعتدال کے خلاف بعض جملے لکھ دئیے تھے مگر پھر علم اور ان کی عمر میں پختگی آئی تو منصب امامت اور صراط مستقیم جیسی اعتدال پسندانہ کتابیں لکھیں ہیں۔
حکومت نے تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک سے معاہدہ کرکے بڑا اچھا کیا ہے۔ شدت پسندانہ جذبات کا غبار وقت کیساتھ ساتھ خود بخود اُتر جاتا ہے۔ نکاح وطلاق کے حوالے سے جو مسائل گھڑے گئے ہیں اگر حکومت نے اس حوالے سے مقتدر علماء ومفتیان اور دانشوروں کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی تو پھر ریاست مدینہ کی طرف سب مل کر زبردست اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ آج عمران خان کیساتھ بھی اچھا وقت ہے اور اپوزیشن بھی اس کو گرانے کے چکر میں نہیں لگتی ہے۔ اگر صرف حلالہ کی لعنت کا مکمل خاتمہ بھی ہوجائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ فواد چوہدری ، علامہ طاہر اشرفی ، مفتی سعید خان ، وزیرتعلیم شفقت محمود اور علی محمد خان وغیرہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت آنی جانی چیز ہے لیکن مذہبی نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے اُمت کی اصلاح ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ بفضل تعالیٰ ہم نے اتنا سارا کام کرلیا ہے کہ معروف مدارس کے علماء ومفتیان اور طلبہ اس کا زبردست استقبال بھی کریں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی اور چیف جسٹس آف پاکستان ، چاروں صوبائی چیف جسٹس اس میں اپنا حصہ ڈال لیں۔ سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قائدین بھی اس کار خیر میں بھرپور شرکت کریں۔
پورے پاکستان میں ہم سے زیادہ کمزور سے کمزور تر جماعت کوئی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے بے خطر ہم میدان میں اترگئے۔ آج بہت سے لوگوں کے مسائل بھی اللہ کے فضل سے حل ہوئے ہیں۔ ہماری دشمنی کسی کی ذات ، شخصیت ، جماعت اور اپنے دشمنوں سے بھی نہیں ہے کیونکہ غلط فہمی کے نتیجے میں کوئی ہم سے دشمنی کرتا ہے تو یہ اس کو حق پہنچتا ہے اور ہم بعض لوگوں اور اپنے حوالے سے نشاندہی بھی مجبوری کے تحت کرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمیں کسی سے کوئی بغض وعناد ہے۔ ہمارے جد امجد رسول اللہ ۖ نے جب اپنے چچا امیر حمزہ کے کلیجے نکالنے والے وحشی کو اور چبانے والی ہندہ کو فتح مکہ کے وقت معاف کردیا تھا تو ہم اسی سنت پر عمل کرنے کے خود کو پابند سمجھتے ہیںلیکن جب تک لوگ راہِ حق پر نہیں آجاتے ہیں تو اپنی عقل اور صلاحیت کے مطابق ٹھیک طریقے سے کام کرنے کی کوشش کریںگے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں گے کہ ہماری بھی ایک دن اصلاح فرمائے۔ عتیق گیلانی
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ