پوسٹ تلاش کریں

تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی بغیر حلالہ کے رجوع کر سکتے ہیں۔ سورہ البقرہ

تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی بغیر حلالہ کے رجوع کر سکتے ہیں۔ سورہ البقرہ اخبار: نوشتہ دیوار

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر2
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

_ طلاق سے رجوع کی علت صلح ہے!_
سفر میں روزے معاف ہونے کی بنیادی علت سفر ہے۔ شرعی اصولوں میں علت اور سبب میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ معاف ہے اور اس کا سبب مشقت ہے لیکن اس کی علت سفر ہے۔ مشقت محنت مزدوری میں بھی ہوتی ہے لیکن اس سبب کی وجہ سے روزہ معاف نہیں ہوتا ہے اور جب سفر میں مشقت نہ ہو تب بھی روزہ معاف ہے۔ یہ فرق علماء وفقہاء کا بہت بڑا کمال اور زبردست کریڈٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں اس فرق کو واضح کیا ہے اور بعض معاملات میں علماء وفقہاء کے مغالطہ کھانے کا بھی ذکر کیاہے۔ اس کتاب کے اردو ترجمہ کا مقدمہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے لکھا ہے۔
طلاق اور اس سے رجوع کی علت اور سبب معلوم کرنے کیلئے علماء کرام و فقہاء عظام نے شاید کبھی غور وتدبر سے کام نہیں لیا ہے اور اگر لیا ہے تو اس تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ابن رشد کی کتاب ” بدایة المجتہد نہایة المقتصد” میں اس پر تفصیل سے بحث ہے۔ ظواہر کا مؤقف قرآن کے ظاہری الفاظ سے مطابقت رکھتا ہے اور باقی فقہاء نے احادیث وروایات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی علت باہمی رضامندی اور اصلاح کو قرار دیا ہے۔ اگر عورت صلح و اصلاح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر بھی طلاق سے رجوع کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی شرط صلح واصلاح ہے۔ جس کی تفصیل قرآنی آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے ایک ایک آیت کے اندراس کی بھرپور وضاحت بھی کردی گئی ہیں لیکن افسوس کہ امت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ عدت کے تین مراحل تک عورت کو تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ جس کے بعد شوہر کیلئے عورت کو دی ہوئی کوئی چیز حلال نہیں ہے مگر اس صورت میں جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ باہمی رابطے کے ذریعے سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو کہ اس چیز سے وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایسی صورت میں طلاق کے بعد یہ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اگر رجوع کرلیا تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی طلاق کے بعد شوہر اس عورت پر اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے پر کوئی پابندی لگاسکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگائے تو اس عورت کو اللہ نے کوئی تحفظ دیا ہے یا نہیں؟۔ اسی تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے انتہائی درجہ کا حکم نازل کیا کہ اس طلاق کے بعد وہ اس کیلئے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔
جہاں تک باہمی رضامندی اور صلح سے رجوع کی بات کا تعلق ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کی دو آیات228،229میں عدت کے اندر رجوع کی وضاحت کردی ہے اور پھر اسکے بعد آیات231،232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی بھرپور انداز میں وضاحت کردی ہے۔ آنکھوں کا نہیں اصل میں دل کا اندھا اندھا ہوتا ہے۔

احادیث پر اشکال کابہترین جواب
رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں اورپھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کیا تھااس نے نبیۖ سے عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے اور اپنے دوپٹے کا پلو دکھایا تھا۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو ؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو یہاں تک کہ تیرا دوسرا شوہر تیرا ذائقہ نہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ نہ چکھ لیں۔(صحیح بخاری)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن میں باہمی اصلاح سے بار بار صلح کی گنجائش کی وضاحت ہے تو رسول اللہ ۖ نے اس پر فتویٰ کیوں نہیں دیا تھا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ خاتون حضرت رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرتیں تو اس کو نبیۖ سے اپنے شوہر کی شکایت بھی نہ کرنی پڑتی بلکہ وہ خود حضرت رفاعہ سے رجوع کی درخواست کرسکتی تھیں۔ البتہ اگر حضرت رفاعة اس کے باوجود بھی راضی نہ ہوتے تو ان کو باہمی رضامندی کے بغیر رجوع پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ پہلی بات یہ معلوم ہے کہ حضرت رفاعة نے مرحلہ وار تیں طلاقیں دی تھیں۔ عدت کی تکمیل کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی تھی۔ کیا اسکے باوجود علماء ومفتیان کا اس حدیث کی بنیاد پر یہ فتویٰ دینا جائز ہے کہ ایک دم تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا جائے؟۔ حالانکہ قرآن میں واضح طور پر صلح کی گنجائش موجود ہو؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ جب اس عورت نے اپنے شوہر کی شکایت لگائی تو حضرت عائشہ کے سامنے خلوت میں اپنے جسم پر شوہر کے مارنے کے نشانات دکھائے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں نے ایسی سخت مار کے نشانات کسی جسم پر نہیں دیکھے۔ اس کے سفید جسم پر نیل کے نشانات پڑے تھے۔ جب اس نے اپنے شوہر پر نامرد ہونے کا الزام لگایا تو اس کے شوہر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے اندر اتنی مردانہ قوت ہے کہ میں اس کی چمڑی کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ احادیث کی تمام تفصیل کے بغیر اس بات پر فتویٰ جاری کرنا کس قدر حماقت ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو جیسی چیز ہے ، جس کی وجہ سے وہ عورت حلال بھی نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ اسکے ذریعے حلال ہونے کا فتویٰ کیسے دیتے؟۔
نبی کریم ۖ کو معلوم تھا کہ حضرت رفاعة القرظی نے اس خاتون کو واپس لینا نہیں ہے اور عبدالرحمن بن زبیر القرظی کو سمجھا دیا ہوگا کہ مار دھاڑ سے شکایت بھی پیدا ہوئی ہے اسلئے دوبارہ اس قسم کی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ فقہ وفتوے کی کتابوں میں حلالہ کیلئے راستے تلاش کرنے کے بجائے اس کا سدباب بھی کرنا چاہیے تھا لیکن جب مفتی عزیز الرحمن جیسے لوگ اپنے شاگرد صابر شاہ جیسے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑتے تو یہ باشرع لوگ حلالہ کیلئے کیا بہانے تراشتے ہوں گے؟۔ اس کی تفصیلات سامنے آجائیں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
پھر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آسانی سے عدت میں رجوع ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖنے اکٹھی تین طلاق پر سخت ناراضگی کا اظہارکیوں کیا تھا؟۔اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق میں حدیث ہے کہ جب حضرت عمر نے نبیۖ کو اطلاع دی کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر اس کو رجوع کا حکم دیا اور پہلے طہر میں اپنے پاس رکھنے حتی کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں رکھنے حتی کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہے تو رجوع کرے اور چاہے تو طلاق دے اور یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا طریقہ امر کیا ہے۔ جس میں غضبناک ہونے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟
ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ حضرت عمر کی طرف منسوب ہے۔ کیا یہ نسبت درست ہے؟ اور حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟۔
حضرت عمر ایک عادل حکمران تھے۔ قرآن کی آیات کے احکام سے اچھی طرح واقف تھے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے باہمی رضامندی اور صلح کی نبیاد پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو رجوع کرنے کا حق قرآن نے نہیں دیا ہے۔ طلاق سے رجوع کا مسئلہ بہت پرانا تھا۔ شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہوتا تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں خلافت کی توسیع ہوگئی تو دور دراز کے علاقوں سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد مسلمان بن کر خلافت کے زیر اثر آگئی تھی۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو پھراس کی بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی۔ اسلامی خلافت میں بیوی پر جبر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور وہ شخص حضرت عمر سے انصاف لینے آگیا۔ حضرت عمر چاہتے تو اس شخص کو اس کی بیوی واپس دلانے کا حکم جاری کرتے۔ لیکن حضرت عمر نے قرآن کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اس نے جلد بازی میں ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں اسلئے اس کو حکومت اپنی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں کرسکتی اور وہ رجوع نہیں کرسکتا ہے۔
جب حضرت عمر کے ناقدین نے حضرت عمر کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا کہ حضرت عمر نے قرآن کے خلاف ایک ساتھ تین طلاق کا فیصلہ کردیا ہے تو اس پر اُمت مسلمہ میں اختلافات کی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ بہت ہی شاذ ونادر ایسے لوگ تھے۔ جنہوں نے حضرت عمر کے خلاف اپنا فتویٰ اور فیصلہ مرتب کیا تھا کہ یہ فیصلہ قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ لیکن ان کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدے ۔ پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور فیصلہ اور فتویٰ یہ دیا جائے کہ یہ ایک طلاق ہے اور اس سے غیرمشروط رجوع کا حق شوہر کو حاصل ہے ۔تو اس سے عورت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا تھا۔ یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی تھا۔ چنانچہ چاروں ائمہ فقہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اس کا سبب عورت کو مشکلات سے بچانا تھا اور اس کی علت یہ تھی کہ باہمی اصلاح کے بغیر صلح نہیں ہوسکتی ہے اور یہ قرآن اور فطرت کا بنیادی تصور ہے۔
قرآن عربی زبان میں اترا ہے اور عرب لوگ اپنے گھروں میں قرآن کی آیات کا ادراک رکھتے تھے۔ جب میاں بیوی کے درمیان ناچاقی یا ایک ساتھ تین طلاق کی بات آتی تو وہ اگر آپس میں صلح کیلئے راضی ہوتے تھے تو حکمران سے کوئی فیصلہ لینے اور مفتی سے کوئی فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے خلافت پر خاندانی قبضے شروع کردئیے اور کچھ لوگوں کو مذہب کی تشریح کا حکمرانوں نے ٹھیکیدار بنانا شروع کیا اور پھر اسلام کی حقیقت روایات میں کھو گئی۔ اس حقیقت کو ڈھونڈنے کیلئے ان سراغ رساں انسانوں کی ضرورت ہے جو ثریا کے اوپر سے بھی علم ، دین، ایمان کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے طاقت پرواز رکھتے ہوں۔ یہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن اللہ کا فضل کوئی مشکل بھی نہیں ہے کہ کسی پر بھی ہوجائے۔

_ اکٹھی تین طلاق پرفتوؤں کی بھرمار _
سلف صالحین کے ادوار میں ایک ساتھ تین طلاق کی بحث اس حد تک تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ احادیث اور فتوؤں کی بھرمار نے مسالک کی توسیع میں اپنا اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔ احناف اور مالکیہ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں ہوجاتی ہیں لیکن یہ بدعت اور گناہ ہیں۔ شافعی مسلک والوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے ماننے والوں نے اپنے امام کے دو اقوال بھی بنالئے، ایک قول کے مطابق بدعت وگناہ اور دوسرے قول کے مطابق سنت اور مباح قرار دیا گیا۔ پہلے تو صرف ایک ساتھ تین طلاق کا معاملہ اس حدتک ہی تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ جس میں واقع نہ ہونے کا فتویٰ شاذ ونادر تھا اسلئے کہ عورت اور مرد کی طرف سے لڑائی اور صلح نہ کرنے کی وجہ سے بات فیصلے اور فتوے تک پہنچ جاتی تھی۔
پھر بہت بعد میں سیدھے سادے لوگوں نے قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے صلح کیلئے بھی فتوے لینے شروع کردئیے۔ یہ وہ دور تھا جب قرآن کی جگہ امت مسلمہ نے اپنے علماء ومشائخ کو پوجنا شروع کردیا تھا۔ ان علماء ومشائخ نے بھی قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے روایات کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں قرآن اُمت کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ احادیث اور فتوے کی کتابوں میں بہت سارے اقوال تھے جن میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فتویٰ تھا۔ پہلے مردوں کی طرف سے یک طرفہ رجوع کا راستہ روکا گیا تھا اور پھر عورت کی طرف سے صلح کی خواہش کے باوجود بھی رجوع کا راستہ روکا گیا اور جاہلیت پہلے کی طرح بالکل عروج پر لوٹ آئی ۔جب باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ رُک گیا تو تفریق کے فتوؤں نے معاشرے میں جاہلیت اولیٰ کی مثال قائم کردی۔ کچھ لوگوں نے زوجین کی تفریق کا راستہ روکنے کیلئے حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنا شروع کیا لیکن ایک بڑی اکثریت نے حلالہ کے ذریعے حلال نہ ہونے کا فتویٰ جاری کردیا۔ حیلہ سازی میں احناف کے علماء نے اقدام اٹھایا تھا۔ علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے حلالہ کو کارثواب تک قرار دیا اور اس کی نسبت اپنے بعض نامعلوم مشائخ کی طرف کردی تھی۔
علامہ ابن تیمیہ نے ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتویٰ جاری کیا اور اس غل غپاڑے میں ائمہ اہل بیت کے پیروکار اہل تشیع کے فقہاء نے طلاق دینے کیلئے سخت شرائط کا اہتمام کیا تھا۔ ان کے نزدیک طلاق کیلئے مرحلہ وار عدت کی مدت میں طلاق کے شرعی صیغے اور ہرمرتبہ کی طلاق پر دوگواہ کی موجودگی بھی ضروری قرار دے دی گئی۔ مذہبی طبقات نے یہ تأثر پھیلایا کہ ابن تیمیہ بھی اس مسئلے میں شیعہ بن چکے ہیں لیکن ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اس مسئلے میں تحقیقات کو بہت حد تک بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
پھر ہندوستان کے اہل حدیث نے حضرت ابن عباس کی روایت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھ دی۔ حالانکہ احادیث کی کتابوں میں جس کثرت سے ایک ساتھ تین طلاق کی روایات تھیں اہل حدیث کے مزاج سے انکا مسلک بالکل بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ صحاح ستہ میں اکٹھی تین طلاق کے واقع ہونے کے عنوانات ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی کا ایک ساتھ تین طلاق دینے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ اسی طرح محمود بن لبید کی روایت ہے کہ ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو نبیۖ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔
اس طرح بہت سی روایات میں ایک ساتھ تین طلاق کے تذکرے ہیں۔

قرآن اوراحادیث کے حقائق
قرآن کے الفاظ میں کوئی رد وبدل نہیں اور اس کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے لیکن احادیث کے الفاظ اور معانی میں بہت سے اختلافات اور تضادات بھی ہیں۔ اصولِ فقہ میں حنفی کی کتابوں میں قرآن کے مقابلے میں بہت سی احادیث صحیحہ کی تردید صرف اسلئے کی گئی ہے کہ وہ قرآن کے کسی آیت کے تقاضے کے ہی خلاف ہیں۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں احادیث کی اہمیت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثلاً قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاًغیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ” میں اللہ نے عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا اختیار دیا ہے اور حدیث ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ،باطل ہے”۔ اس حدیث میں عورت کو اپنے ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیا ہے۔ جمہور فقہاء اور محدثین کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر حدیث صحیح ہے اور عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہے بلکہ یہ حرام کاری ہوگی۔ احناف نے یہ حدیث قرآن کی اس آیت کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیدی ہے۔
احناف کی سب سے بڑی غلطی اور بدترین قسم کی کوتاہی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق قرآن کی واضح واضح آیات کو اپنی فقہ کی کتابوں میں درج کرکے احادیث اور دوسرے مسالک کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ مثلاً اللہ نے فرمایا کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔( البقرہ:228)
اس آیت میں وضاحت کیساتھ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کی شرط پر عدت میں طلاق شدہ کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی جس میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی ممانعت ہوتی تو اس حدیث کو قرآن کے واضح الفاظ کے سامنے ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا ۔اور یہ حنفی مسلک کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضہ تھا۔پہلی بات یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ چھان لیا جائے تو کوئی ایک بھی ایسی حدیث صحیحہ نہیں ہے کہ جس میں اس قرآنی آیت کیخلاف عدت میں اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کی ممانعت ہوتی لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی بھی تو قرآن کے مقابلے میں رد کی جاتی۔
احناف نے اپنے اصول فقہ میں اس بات کی وضاحت تو کردی کہ پانچ سو ایسی آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں اور اللہ کی کتاب سے اصول فقہ میں وہی مراد ہیں لیکن ان آیات کا کوئی نام ونشان بھی فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔ اگر طلاق اور اس سے رجوع سے متعلق قرآنی آیات کو پیش کیا جاتا اور پھر ان پر احادیث وروایات کو پیش کیا جاتا اور پرکھا جاتا تو امت مسلمہ کی درست رہنمائی ہوتی اور ہوسکتا ہے کہ احناف نمازوں میں رفع یدین کی مخالفت نہ کرتے لیکن طلاق کے مسائل میں بہت سی احادیث کو ناقابلِ قبول ضرور قرار دیتے۔
میرا اپنا تعلق حنفی مسلک اور دیوبندی مکتب سے ہے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام نے جو حوصلہ افزائی طالب علمی کے دوران فرمائی ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھ رہاہوں کہ دیوبندی بریلوی کے علاوہ اہلحدیث اور اہل تشیع کو بھی بہت اچھا لگتا ہے اور غلام احمد پرویز کی فکر رکھنے والے بھی میری تائید کررہے ہیں اور انشاء اللہ بہت بڑا انقلاب آئے گا۔

_ احادیث سے احادیث کے حقائق _
جب ہم احادیث کی کتابوں اور احادیث کی مستند شروحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک طرف کی بھرمار نظر آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور دوسری طرف پھر ان میں بہت سی احادیث غائب ہوجاتی ہیں کہ جب جمہور کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل میں چند احادیث نظر آتی ہیں۔ مثلاً جمہور کے نزدیک رفاعة القرظی کی حدیث جمہور کی دلیل ہے اور فاطمہ بنت قیس کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے۔ عویمر عجلانی کے لعان کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے اور محمود بن لبید کی روایت بھی جمہور کی دلیل ہے۔ لیکن دوسری بہت ساری احادیث وروایات کو جمہور کی دلیل کے طور پر نہیں لیتے ہیں اسلئے کہ انکی حیثیت بہت ہی ضعیف اور مجروح ہے اور ان کو دلیل بنانا جمہور کی شان کے بھی بالکل منافی ہے۔ البتہ بعض جاہل علماء ان روایات کو بھی دلیل بناتے ہیں۔
جمہور کے مقابلے میں ایک ہی روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی سال تک ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کو تین قرار دے دیا۔ اس کو اقلیت اور اہلحدیث اپنے لئے دلیل بناتے ہیں۔
پھر جب بات آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ وبدعت ہے یا پھر مباح وسنت تورفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے واقعے کو بھی ایک ساتھ تین طلاق کیلئے کوئی دلیل نہیں قرار دیتا ہے کیونکہ صحیحہ روایات سے ثابت ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کو بھی دلیل نہیں بنایا جاتاہے اسلئے کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں دی گئیں تھیں اور پھر امام شافعی کے نزدیک صرف روایت ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینا سنت ہے اور وہ عویمر عجلانی کے واقعہ میں لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق کی روایت ہے اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک صرف ایک روایت ہے محمود بن لبید والی جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر نبیۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا لیکن وہ امام شافعی کے نزدیک بڑی مجہول روایت ہے اسلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔
جب احناف ایک ساتھ تین طلاق کو خلافِ سنت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک طرف محمود بن لبید کی مجہول روایت پر گزارہ کرتے ہیں تو دوسری طرف حضرت عویمر عجلانی کے واقعہ کی تأویل کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ طلاق کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہو اور علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق دی ،جس طرح رفاعة القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا ذکر ہے لیکن تفصیل میں الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے”۔
غرض احناف کی سوئی پھر صرف اور صرف محمود بن لبید کی روایت پر اٹک جاتی ہے۔ محمود بن لبید کی روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے کہاتھا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ تو وہ حضرت عمر تھے۔ اور کس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے جس کی اطلاع بھی حضرت عمر نے خود ہی دی تھی۔ حضرت حسن بصری نے کہا مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں جس سے نبیۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا اور پھر بیس سال تک کوئی اور ایسا شخص نہیں ملا جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی ہو۔ پھر بیس سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا، جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم) یہ روایت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کی گئی تھی۔ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کے حوالے سے بھی باقاعدہ ضعیف احادیث میں عجیب وغریب قسم کی مہم جوئی کاواضح ثبوت ہے۔

صحیح اور ضعیف احادیث کی تأویل!
حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کے اندرقرآن کے مقابلے میں حدیث صحیح بھی قابلِ قبول نہیں ہے لیکن حتی الامکان ضعیف سے ضعیف احادیث کوبھی رد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حتی الوسع اس کی تأویل کرنی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث میں صحیح اور ضعیف کا تضاد ہو تو ان میں ایسی تطبیق کرنے کی کیا صورت ہے کہ ضعیف حدیث بھی قابلِ قبول بن جائے؟۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ میں حدیث صحیحہ یہ ہے کہ الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی تھی اور ضعیف حدیث میں ہے کہ آن واحد میں طلاق بدعی دی گئی تھی ۔ ان دونوں میں تطبیق کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آن واحد میں تین طلاقیں دی گئیں اور پھر ان کو ایک شمار کیا گیا اور مرحلہ وار بھی ایک ایک طلاق کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اس طرح دونوں احادیث کے متضاد ہونے کے باوجود ان کی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت ہے کہ نبیۖ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر ایک ساتھ تین کو تین ہی نافذ کردیا گیا اور دوسری طرف ان کے شاگردوں کی طرف سے یہ کہنا کہ ابن عباس نے ایک ساتھ تین طلاق کیلئے یہ فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول وفعل میں تضاد ثابت کرنے کے بجائے یا کسی کی ایک بات کی خوامخواہ کی تردید کرنے کے بجائے یہی درست تأویل ہے کہ جب بیوی کی طرف سے اصلاح کا پروگرام ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع ہوسکتا ہے اور جب بیوی کی طرف سے قرآن کے مطابق اصلاح کا پروگرام نہ ہو تو پھر رجوع کا فتویٰ نہیں دے سکتے تھے۔
ایک مجلس میں ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا کسی کو قتل کرنے کے بعد معافی مل سکتی ہے ؟ ، تو ابن عباس نے ان آیات کا حوالہ دیا کہ جن میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس پر بہت سخت وعیدیں ہیں۔ اس کے بعد اسی مجلس میں ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو یہ جواب دیا کہ اللہ نے معافی کی گنجائش رکھی ہے اور ان آیات کاحوالہ دیا جن میں توبہ کرنے پر معافی کی گنجائش ہے۔ اہل مجلس نے پوچھا کہ سوال ایک تھا تو جواب الگ الگ کیسے دیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ”پہلے شخص نے قتل کیا تھا اسلئے اس کو ایسی آیات کا حوالہ دیا جس میں معافی کی گنجائش تھی تاکہ وہ مزید توبہ کرلے اور دوسرے نے قتل کا پروگرام بنایا تھا تو اس کو ان آیات کا حوالہ دیا تاکہ قتل سے وہ رُک جائے۔ صحابہ نے قرآن کو سمجھا تھا اور اسی کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔
جب طلاق کے حوالے سے احادیث کا بھرپور مطالعہ کیا جائے تو اس کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ اس میں صحیح و ضعیف روایات کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے اور ان میں اپنے اپنے مسلک کی وکالت کیلئے حقائق کے منافی ترجیح قائم کی جاتی ہے اور حلالہ کیلئے بہت دلچسپی رکھنے والے اس میں دے مار ساڑھے چار کی طرح نہ صرف قرآن کی آیت کو بالکل غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ احادیث کو بھی بہت غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اب تو دارالعلوم کراچی والے اپنے فتوؤں میں صرف اور صرف فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں سے حوالہ جات نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اسلئے کہ میں نے انکواپنی کتابوں سے قرآن وحدیث کے حوالہ جات کا جواب دیاتھا۔

فقہ حنفی حق کے قریب تر مگرکچھ غلطی!
حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام جعفر صادق بہت بڑی شخصیات تھیں۔ سلف صالحین کے نزدیک قرآن کی تعلیم، دین کی تبلیغ اور فرائض کی ادائیگی پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا لیکن اب علامہ سید جواد حسین نقوی نے چیلنج کیا کہ کوئی شیعہ ذاکر بغیر معاوضہ کے مجلس پڑھ کر دکھائے تو اس کی موت کے پروانے جاری کردئیے ہیں۔ مجھ سے بھی یہ غلطی ہوگئی کہ بھائیوں اور دوستوں سے گاڑی کی سہولت لیکر سفر کرنے کے بجائے بسوں کی چھتوں اور پک اپ کی باڈی پر کھڑے ہوکر بھی سفر کرتا تھا تو لیڈرعلماء کے دل ودماغ میں خناس بیٹھ گیا کہ ہم گاڑی مانگ کر سفر کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ اتنی کتابوں کا مصنف اور ہم سے زیادہ امت مسلمہ کو لیڈ کرنے کی بات کرنے والا اپنی کوئی حیثیت بھی نہیں جتلاتا ہے تو ہماری اس لیڈری کا کیا بنے گا جو پرائے اور بھیک کے پیسوں پر چلتی ہے؟۔
فقہ کے ائمہ نے زمین کی مزارعت کو متفقہ طور پر ناجائز قرار دیا تھا مگر جب انکے شاگردوں نے دین کے نام پر معاوضے لیکر مزے اڑانے شروع کردئیے تو اپنے اماموں کے مؤقف سے انحراف کرنے لگے۔فقہ حنفی کے امام ابوحنیفہ نے جیل میں زہر کھاکر شہادت پائی اور آپ کے شاگرد نے شیخ الاسلام بن کربادشاہ کیلئے اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دینے کے حیلے بتائے تھے۔ آج کا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن بھی معاوضہ لیکر سودی نظام کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں پانچ سو علماء نے یہ فتویٰ جاری کیاہے کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری اور کچھ بھی کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ اورنگزیب کو بھائیوں کے قتل کی سزا سے بچاناتھا۔یہ فقہ حنفی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بدترین دھبہ ہے لیکن فقہ حنفی کا کمال ہے کہ اسلام کو تحریف سے بچانے کیلئے زبردست اصول عطاء کردئیے تھے۔ فقہ حنفی نے صحیح حدیث کو رد کرکے ضعیف احادیث کا ناطقہ بند کردیا ہے ،ورنہ امت گمراہ ہوتی۔
طلاق شدہ عورت کیلئے قرآن میں آزادی کا قرینہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس سے اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ نے بیوہ عورت کیلئے چار مہینے دس دن کے بعد اپنے نفس کے بارے میں آزادانہ فیصلے کا اختیار دیا ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثین ایک صحیح حدیث کی بنیاد پر بیوہ کیلئے بھی ولی سے آزادی کا تصور نہیں مانتے ہیں جو قرآن کے سراسر منافی ہے ۔ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور جب اس کی شادی ہوجاتی ہے تو اس کا شوہر اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور جب اس کو طلاق ہوجائے یا بیوہ بن جائے تووہ خود مختار اور آزاد بن جاتی ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے باطل ہونے کی حدیث سے اس آیت کی بنیاد پر انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور طلاق شدہ پر اس کا سابقہ شوہر پابندی لگاتا ہے کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرے اسلئے ولی کی اجازت والی روایت کو مقابلے میں لانا بھی حماقت ہے۔ جب مولانا بدیع الزمان نے بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمیں یہ سبق پڑھایا تھا تو میں نے اسی وقت سوال اٹھایا تھا کہ حنفی مسلک میں پہلی ترجیح حدیث کی تأویل کرنا ہے اور یہ حدیث قرآنی آیت سے متصادم نہیں ہے بلکہ اس کی تأویل ہوسکتی ہے جس پر استاذ محترم نے میری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
اگر فقہ حنفی کی درست تعلیمات اور اصول کے مطابق طلاق کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی وضاحت کی جائے تو یہ نصابِ تعلیم نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کو قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ بریلوی مکتب کے مولانا مفتی خالد حسن مجددی قادری اور دیوبندی مکتب کے مفتی محمد حسام اللہ شریفی جیسے جید علماء کرام اور مفتیان عظام کے علاوہ بہت سے علماء ہماری تائید کرتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں