پوسٹ تلاش کریں

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا 60 x6=360 پورا سال؟

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا 60 x6=360 پورا سال؟ اخبار: نوشتہ دیوار

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا60×6=360پورا سال؟

تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے کارکن چلّہ کشی میں برداشت پیدا کرتے ہیںاور ایک حلالہ کی لعنت کرانے سے ان میں پورے سال کی محنت کے برابر برداشت پیدا ہوجاتی ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دیوبندی بریلوی علماء کیلئے تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی بڑا سرمایہ ہیں۔ انکے کارکن غصے میں بیگمات کو اکٹھی3طلاق دیں تو حلالہ کی لعنت کروانے کیلئے علماء کے پاس پہنچتے ہیں۔ علماء فتویٰ دیتے ہیں کہ ان کیساتھ شب باشی کی لعنت نہ کی جائے تو صلح حرامکاری ہے۔ قرآنی آیت کو سیاق وسباق کے بغیر اور حدیث کوبالکل غلط پیش کرکے بے گناہ خواتین کی عزتیں اسلام کے نام پر لوٹ لی جاتی ہیں۔مفتی حلالہ انجن تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے ایندھن سے چلتا ہے۔ تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی اعمال کو کروڑوں سے ضرب دیتے ہیں اور قوت برداشت پیدا کرتے ہیں، حلالہ سے ڈیڑھ چلہ60دنوں پر چھکے6کی ضرب لگتی ہے تو360دنوں سال کے برابر برداشت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ علماء نے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر نماز و آذان کیخلاف فتویٰ دیا مگر عمل نہ کیا۔ تصویر کا فتویٰ دیا مگر پھر جواز کے قائل ہوگئے۔ اب سود کو جائزقرار دیا۔بے ایمان علماء نے حلالہ کے درست مؤقف کو سمجھ لیا لیکن اس لعنت سے تبلیغی جماعت و دوعوت اسلامی کے کارکنوں کی عزتیں نہیں بچاتے ۔ علماء میںکسی نے توحید وسنت پر زور دیا۔ کسی نے رسول اللہ ۖ کیخلاف گستاخانہ لہجے کا تعاقب کیا۔ کسی نے اقامت دین کو مشن بنایا۔ کسی نے جہاد کی طرف توجہ دی۔کسی نے ختم نبوت کو تحفظ دیا۔ کسی نے صحابہ اور اہلبیت کا تحفظ اپنا فرض سمجھا۔ کسی نے ردِ بدعات کو مشن سمجھا۔ کسی نے تقلید کو تحفظ دیا۔کسی نے تفسیرقرآن اور کسی نے حدیث کو مشن قرار دیا۔ علماء نے مختلف میدانوں میں نمایاں کارنامے انجام دئیے ،علوم وفنون میں ان کی مہارت کا سکہ دنیا مانتی ہے۔قرآن و سنت، فقہ وعقائد، صرف ونحو، منطق و فلسفہ اور عربی ادب کے میدان میں مخصوص کتابوں کے ماہرین سے طلباء اپنی تعلیم کیلئے دور دور سے تشریف لاتے ۔ علمی شخصیات کے علاوہ مدارس کا وجود بھی تھا جن میں مختلف علوم اور کتابوں کے ماہرین طلبہ کو اسلامی علوم پڑھاتے تھے۔
کانیگرم وزیرستان میں ہماری آبائی مسجد کو ”درس” کہتے تھے۔ درس مسجدکو نہیں بلکہ جہاں تعلیم اورتدریس ہو ،اسے درس کہا جاسکتا ہے۔ کانیگرم کی مساجد میں رہائش پذیر طلبہ قرآن وسنت ، فقہ، عربی فارسی کتابیں اور مختلف علوم وفنون سیکھنے کیلئے مرکزی مسجد میں آتے ۔ علماء حکیم تھے۔ طلبہ کو گھروں سے صبح وشام وظائف کی طرح کھانا ملتا تھا ۔ علماء اپنے کاروبار اور حکیم ہونے کی وجہ سے زکوٰة لیتے نہیں تھے بلکہ غرباء کو دیتے تھے۔ طلبہ کو زکوٰة کی ضرورت نہ تھی۔ زکوٰة فقرائ، مساکین ،حادثات کا شکار ہونے والوں، گردنیں آزاد کرنے اور قرآن میں بیان کردہ آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم ہوتی تھی۔ جن میں مولفة القلوب شامل تھے۔ لارڈ میکالے کاانگریزی تعلیمی نظام ہندوستان میں متعارف ہوا تو اس میں دینی تعلیم کا اہتمام نہ تھا۔ دنیاوی علوم کیلئے علی گڑھ نے کردار ادا کیا، مذہبی علوم کیلئے دارالعلوم دیوبند نے کردار ادا کیا۔ علی گڑھ کے بانی سرسیداحمد خان کی داڑھی علماء دیوبند سے زیادہ لمبی تھی۔ علی گڑھ نے چندہ اکٹھا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ دارالعلوم دیوبند کو لوگ خود چندہ دیتے تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کیلئے بڑے پیمانے پر چندہ کیا لیکن مولانا فضل الرحمن نے اپنے مدرسہ جامعہ الشریعہ کیلئے چندہ نہیں کیا۔
دیوبندیوں کے بعد بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کے بھی مدارس بن چکے ہیں اور مدارس نے بہت زبردست کاروبار اور انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دارالعلوم دیوبند طلبہ کو دنیاوی ہنربھی سکھاتا تھا تاکہ دین نہ بیچا جائے۔ کانیگرم ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف فاضل دارالعلوم دیوبند درزی اور دکاندار تھے۔ کانیگرم کے دوسرے مولانا شادا جان کے بھائی عبدالرشید کی دکان تھی۔ البتہ کانیگرم کے مولوی محمد زمان اور اسکے بھائی قربانی کی کھالوں پر لڑے تھے۔
مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک نے مدرسہ سے پہلے انگریزی سکول کی بنیاد رکھ دی تاکہ لوگ دین کی بجائے دنیا کمانے کیلئے سکو ل کے ذریعے ہنر سیکھ لیں۔ ہمارے کانیگرم شہر میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل پیر مبارک شاہ نے سکول کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جن کی وجہ سے وزیرستان میں سکول کی تعلیم کا سلسلہ عام ہوگیا۔
ٹنڈواللہ یار سندھ میں مولانا ظفر احمد عثمانی کا مدرسہ تھا۔ مفتی شفیع نے نانک واڑہ کراچی میں دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی ۔ مولانا محمد یوسف بنوری پہلے ٹنڈواللہ یار میں تھے۔ پھر نیوٹاؤن کی بنیاد رکھی تھی۔ مفتی ولی حسن ٹونکی اور مولانا بدیع الزمان وغیرہ پہلے دارالعلوم کراچی میں تھے، پھر نیوٹاؤن میں منتقل ہوگئے۔ دارالعلوم کراچی اور جامعہ العلوم اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی کے درمیان دنیا داری اور تقویٰ داری کاواضح فرق تھا۔ دارالعلوم کراچی نے مذہب کو کاروباربنایا تھا اور بنوری ٹاؤن دین کی خدمت کا نام تھا۔ موازنہ پیش کرنے کی زبردست ضرورت ہے۔ دونوں جگہ زوال پر زوال آگیا تو اس کے بھی ہم بالکل چشم دید گواہ ہیں۔
پہلے مولانا اور مفتی میں فرق نہیں تھا۔ پھر مدارس نے فتوے کیلئے مفتی اور دارالافتاء رکھنے شروع کردئیے اور تخصص فی الافتاء کے کورس شروع کئے گئے۔ تو مولانا اور مفتی میں حدفاصل قائم ہوگئی۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال کا نظارہ بھی کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور استاذ ملا محمود تھے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے مفتی کا کام کیا اور مولانا قاسم نانوتوی نے مفتی کا کام نہیں کیا،جو شیخ الہند کے اساتذہ تھے۔ جنکے پیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے۔ شیخ الہند کے نامور شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا انورشاہ کشمیری، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس ، مولانا اعزاز علی اور دیگر حضرات تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جمعیت علماء ہندنے کانگریس اورعلامہ شبیراحمد عثمانی جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کی سیاست سنبھالی۔ درس و تدریس کی خدمت مولانا انورشاہ کشمیری ، تصوف وطریقت کی خدمت کو مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے سرلیا اور فتوے کی خدمت مفتی کفایت اللہ نے انجام دی۔ انقلاب کیلئے مولانا عبیداللہ سندھی نے کام کیا۔ تبلیغی جماعت کی بنیاد مولانا الیاس نے ڈال دی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی نے توحید وسنت اور عقائد کے محاذ پر کام کیا ،انکے شاگرد مولانا غلام اللہ خان و مولانا طاہر پنج پیری تھے۔ مولانا غلام اللہ خان اور مولانا پنج پیری کی اشاعت التوحید دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ مسئلہ توحیدوشرک پر علماء دیوبند ایک دوسرے کے مخالف بن گئے۔ صوابی میں پنج پیر اور شاہ منصور کا اختلاف بریلوی دیوبندی اختلاف سے زیادہ سخت ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں پنج پیری تقیہ کرتے تھے اور وہ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی کی طرح سمجھے جاتے تھے ،ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتاب ” توحیدِ خالص” کمال عثمانی کی جماعت ”حزب اللہ” سے مکمل مشابہت کے باوجود بھی پنج پیری ان کو عقائد میں شدت پسند سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی و وفاق المدارس پاکستان کے فاضل تھے۔ اپنے استاذ علامہ یوسف بنوری سے اکابر کی کتابوں تک عبارات نقل کرکے ان پر شرک کے فتوے لگاتے تھے۔ پنج پیری وہی ہیں مگران میں جرأت وہمت نہیں ۔ مولانا طاہر پنج پیری جب کراچی ایک مرتبہ تشریف لائے تو ڈاکٹر مسعود عثمانی کی کتابوں کے حوالے سے کچھ سوالات کرنا چاہے مگر انکے چیلے رکاوٹ بن گئے۔ مجھ سے کہا کہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے آپ کو نکلوادیں گے لیکن جب انکے تضادات بتائے تو شرمندہ ہوگئے۔ مولانا حسین علی کی تفسیر مولانا غلام اللہ خان نے لکھی جس میں مشاہدہ بیان کیا کہ ” رسول اللہ ۖ گر رہے تھے اور میں نے سہارا دیکر تھام لیا”۔ اگر یہی مشاہدہ اس کے برعکس ہوتا کہ ” مولاناحسین علی گررہے تھے اور رسول اللہ ۖ نے تھام لیا ” تو پھر اس کو شرک قرار دیتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات قرآن میں ہیں، اگر مردوں کو زندہ کرنا اور برص ومادر زاد اندھوں کی بیماری کا علاج کرنا شرک نہیں بلکہ معجزہ ہے تو اولیاء کی کرامات کو شرک کہنا بھی اصول اور عقل کے خلاف ہے۔ یا تو سرسیداحمد خان، غلام احمد پرویز اور معتزلہ کی طرح قرآن کے اندر موجود تمام خرق عادت چیزوں کی بھی تأویل کرکے ان کو معجزہ ماننے سے انکار کیا جائے یا پھر قرآن کے معجزات کو بھی شرک قرار دیا جائے ۔یا پھر بزرگوں پر شرک کے فتوے لگاکر یا ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کا راستہ لیا جائے۔ کچھ تو اصول مان لیا جائے؟۔ نہیں تو دوسروں پر طعن وتشنیع کرنے کے بجائے دُم دباکے بیٹھا ہی رہا جائے گا؟۔
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی مثال سے بڑھ کر تصوف کی کتابوں میں بھی زیادہ کوئی بات نہیں کہ بچے کو قتل کر ڈالا اور آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر کے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے اور فراق ہوگیا۔ علماء حق اور اہل تصوف میں فراق قرآن سے ثابت ہے اور اس پر برا منانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جسد بشری اور روحانی سفر کا اختلاف مسلمانوں میں معراج پر بھی رہا۔ بعض اسے خواب قرار دیتے تھے اور بعض جسمانی سفر قرار دیتے تھے۔ حضرت سلیمان کے دور میں عفریت جن نے بلقیس کے تخت نشست کے دوران لانے کی بات کی تھی اور کتاب فطرت کے علم سے واقف شخص نے نظر ہٹانے کی دیر میں لانے کا دعویٰ سچ کرکے بتایا۔جنات کے ذریعے حضرت سلیما ن نے جو اشیاء بنائی تھیں اس کی آج کوئی افادیت نہیں ہے لیکن فطری علوم میں کمال حاصل کرنے والوں نے احرام مصر سے آج کے سائنسدانوں کو اوقات بتادئیے ہیں۔ آج دنیا میں جنات والے غائب ہوتے جارہے ہیں اور کتابِ فطرت کا علم رکھنے والوں نے قیامت سے پہلے دنیا میں قیامت ڈھادی ہے۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے مخلص کارکنوں کو حلالہ کی لعنت کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی بھرپور وضاحت کردیں۔ علماء اور مشائخ سے زیادہ چلتے پھرتے مدارس اور خانقاہیں بھی دیوبندیوں میں آج تبلیغی جماعت اور بریلویوں میں دعوت اسلامی ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا شکار بھی زیادہ تر ان کے مخلص کارکن ہوتے ہیں۔ جب پہلا فتویٰ یہ پیش کیا جائے کہ اللہ نے صلح پر پابندی لگادی ہے تو پھر حلالہ کی لعنت بھی غنیمت ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا ہے کہ صلح پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد رجوع ہوسکتا ہے تو پھر حلالہ کی لعنت سے مخلص لوگوں کو دوچار کرنا بہت غلط ہے۔
شاہ ولی اللہ کو دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مانتے ہیں۔ وہ ، انکے بیٹے اور پوتے مولانا اور مفتی نہیں کہلائے۔ شیخ الہند مولوی کہلائے لیکن شاگردوں میں دو دو شیخ الاسلام، شیخ العرب والعجم، حکیم الامت، مفتی اعظم ہندکے القابات اور سچے جھوٹے کرامات اور علمی کمالات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ قرآن و سنت کی جگہ فقہ وتقلید میں گدھوں کی طرح جت گئے۔حلالہ کے گند میںبیکار فقیہ ملوث تھے۔ علماء حق نے کبھی اس کی طرف نظر التفات نہیں کیا۔ قرآن وسنت سے جب حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہوگا تو پھر دوسرے نقابوں سے بھی پردہ اُٹھ جائیگا۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں