حلالہ کے حوالہ سے غلط فتویٰ اور ایسی طلاق کی وضاحت
جون 5, 2016
الطلاق مرتٰن بامساک بمعروف اوتسریح باحسان ولایحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیموھن شےءًاالا ان یخافاان لایقیما حدوداللہ ،فان خفتم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھافیما افتدت بہ ،تلک حدوداللہ فلا تعتدوھا ومن یتعدحدوداللہ فأولئک ھم الظٰلمونOفان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ۔۔۔ ’’طلاق دو مرتبہ ہے، پھر معروف طریقہ سے رجوع ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے، اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم ان سے لو جو کچھ بھی ان کو تم نے دیا ہے مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوزکرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں، پس اگر اس نے پھر طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔
ان آیات میں واضح طور پر دو مرتبہ طلاق کے بعد ایک صورت معروف طریقہ سے رجوع کرنے کی ہے، اگر معروف رجوع کی بجائے فقہاء کے منکر رجوع کا پتہ عوام کو چل جائے تو علماء ومفتیان کے علم وعقل پر تعجب کااظہار کرینگے اور دوسری صورت احسان کیساتھ رخصت کرنے کی ہے، احسان کیساتھ رخصت یہ ہے کہ طلاق کے بعد ان کو انکے حق سے زیادہ دیا جائے۔ اگر اس طرح سے تیسری طلاق کے بعد بھی انکو رخصت کیا جائے اور عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہ بھی مقرر کئے جائیں تب بھی اللہ نے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے جس کی تفصیل سورۂ طلاق میں موجود ہے۔ پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں علماء ومفتیان بھی ان پر غور کرلیں۔
علاوہ ازیں ایک مزید خاص قسم کی طلاق جسکے بعد حلال نہ ہونے کو واضح کیا گیا ہے جس کا مقدمہ بھی اللہ تعالیٰ نے وضاحت کیساتھ بیان فرمادیا ہے وہ کیا ہے؟۔ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا کہ’’ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی انکو دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے‘‘۔ ذرا غور کیجئے کہ علیحدگی کا فیصلہ اس انداز سے ہورہا ہے کہ دونوں باہوش وحواس سمجھ رہے ہیں کہ دونوں کے درمیان رابطے کی کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے کے راز سے آشنا کے ملنے کی کوئی صورت نکلے تو اللہ کی حدود پامال ہونے کا خدشہ ہو۔ ویسے تو دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا حلال نہیں مگر دوسرے بڑے حرام میں پڑنے سے بچنے کیلئے اس چیز کا واپس کرنا مجبوری کی حالت میں حلال بن جائے۔
بسا اوقات میاں بیوی ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے پر جذباتی یا سنجیدہ طور سے پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں تو بھی ان کا یہ فیصلہ ایسا وقعت نہیں رکھتا ، اسلئے اللہ نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ فیصلہ کرنے والوں کو بھی حصہ دار بنایا تاکہ میاں بیوی کا جذباتی یا باہوش و حواس فیصلہ اس ملعون عمل کا ذریعہ نہ بن سکے، چنانچہ اللہ نے مزید حدود قیود کی وضاحت کرتے ہوئے فیصلہ کرنے والوں کو بھی علیحدگی کے اس عمل میں برابر شریک ہونے کی شرط لگادی فرمایا’’ اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر گناہ نہیں کہ( دی ہوئی چیزوں) میں سے کوئی چیز عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔
یہ تو اپنی جگہ پر بہت بڑی حیرت کی بات ہے کہ حلالہ کے حوالہ سے اللہ نے جو حدود مقرر کئے ہیں ان کو کس طرح سے پامال کیا جارہا ہے۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جس قرآن سے دلیل نقل کی جاتی ہے اسکے سیاق وسباق کو بھی عوام کے سامنے لایا جاتا۔ ان حد بندیوں کا ذکر ہوتاجن سے حلال نہ ہونے اور دوسری جگہ نکاح کو ضروری قرار دیا جاتا۔ قرآن کودرست طریقہ سے پیش کیا جائے تو لوگ قرآن اور انسانیت کی عظمت کا اعتراف کرینگے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن اور وفاق المدارس کی میرے پاس اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ کی سند ہے جو درس نظامی میں شامل ہے، اسمیں حنفی مسلک کے مؤقف کی یہ وضاحت ہے کہ ’’ اس طلاق فان طلقہا فلاتحل لہ میں ’’ف‘‘ تعقیبِ بلامہلت کیلئے آتا ہے، لہٰذا لامحالہ اس کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد سے براہِ راست نہیں بلکہ عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی ہی صورت سے ہے‘‘۔اگر’’نورالانوار‘‘ کا مؤقف غلط ہے تو عام اعلان کیا جائے۔
حنفی مؤقف قرآن کریم کے حوالہ سے بڑا حساس ہے، قرآن کے مقابلہ میں تو واضح احادیث کیخلاف بھی مدارس میں حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے۔ اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ ہمیں مولانا بدیع الزمانؒ نے پڑھائی تھی اور ’’اصول الشاشی‘‘ بھی انہوں نے پڑھائی تھی۔حنفی مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک میں بھی قرآن کو حدیث پر ترجیح ہے لیکن حنفی مسلک دوسروں کے مقابلہ میں بہت ممتاز ہے۔ مولانا بدیع الزمانؒ ایک عالم دین ، ایک مفسر،ایک محدث ،ایک فقیہ اور ایک ولی کامل بھی تھے۔ انہوں نحو ،ترجمۂ قرآن اور تفسیر بھی پڑھائی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ روزانہ ایک رکوع کاترجمہ وتفسیردیکھ لیا کریں بے سمجھے زیادہ تلاوت سے یہ بہتر رہے گا۔
اصول فقہ شروع کرنے سے پہلے سمجھا جایا تھا کہ قرآن و حدیث میں تضاد ہو تو پہلے انکے درمیان تطبیق کی کوشش کرنی ہوگی اور تطبیق نہ ہوسکے تو قرآن پر عمل کیا جائیگا اور حدیث کو ترک کردیا جائیگا۔ پھر جب اصول الشاشی کا پہلا سبق شروع ہوا، جس میں قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاً غیرہ کے مقابلہ میں من نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحہا باطل باطل باطل کا درس دیا گیا ہے کہ قرآن کی آیت میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت کی گئی ہے کہ یہاں تک کہ وہ نکاح کرے۔ جس سے عورت کا خود مختار ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن حدیث میں اس کی نفی کی گئی ہے کہ جس نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے،ان دونوں میں سے کوئی ایک مؤقف ہی درست ہوسکتا ہے، حدیث کی تطبیق نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا حدیث کو ترک کردیا جائیگا اور قرآن پر عمل ہوگا۔ (اصول الشاشی)
میں نے اسی وقت زمانہ طالب علمی میں عرض کیا تھا کہ قرآن کی آیت سے اس حدیث کی تطبیق ہوسکتی ہے ۔ آیت میں طلاق شدہ عورت مراد ہے جسکے احکام بھی کنورای سے مختلف ہوتے ہیں، حدیث سے کنواری مراد لی جائے کیونکہ شادی کے بعد عورت کا سرپرست اس کا شوہر ہوتاہے اور طلاق شدہ یا بیوہ ہونے کے بعد وہ خود مختار ہوجاتی ہے۔ استاذؒ کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا ۔بات آئندہ پر رہ گئی تھی۔
مفتی نعیم صاحب بھی میرے استاذ ہیں ، معید پیرزادہ دنیا ٹی وی میں پروگرام کا آخر دیکھ سکا جس میں مفتی صاحب نے ایک معروف وکیل خاتون کاحوالہ دیاکہ اس نے کہا کہ ’’ یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کے دوران لڑکا لڑکی خود ہی پسند کا رشتہ کرلیں تو والدین کی ذمہ داری بھی ختم ہوجاتی ہے، وہ معاشرہ قائم کیا جارہا ہے جو خالص مغربی تہذیب والا ہے، اگر اسلامی اور مغربی تہذیب دونوں سے آشنا لوگوں کو بلواکر قانون سازی کی جائے تو بہتر ہوگا‘‘۔ اگر مفتی صاحب حنفی مؤقف کو حدیث پر ترجیح دینے کی تعلیم دیتے ہیں تو خاتون وکیل رہنما اور مدرسہ کی تعلیم میں ویسے بھی ہم آہنگی ہے۔حالانکہ قرآن و سنت میں جس طرح کا متوازن معاشرہ کرنے کی وضاحت تھی اس معروف کو منکر بنانے میں سب بڑا کردار علماء ومفتیان کا عمل وکردار ہی نہیں بلکہ جہالت، گمراہی،انا پرستی، کفرسازی کا وہ تعلیمی نصاب ہے جو یہ بیچارے سمجھتے نہیں۔ عتیق گیلانی
لوگوں کی راۓ