پوسٹ تلاش کریں

حنفی مسلک کے اصول فقہ میں مروجہ حلالے کی زبردست مخالفت اور مفتیوںکی ہٹ دھرمی

حنفی مسلک کے اصول فقہ میں مروجہ حلالے کی زبردست مخالفت اور مفتیوںکی ہٹ دھرمی اخبار: نوشتہ دیوار

حنفی مسلک کے اصول فقہ میں مروجہ حلالے کی زبردست مخالفت اور مفتیوںکی ہٹ دھرمی

ملاجیون کی کتاب”نورالانوار ” بریلوی دیوبندی نصاب میں شامل ہے۔ مجھے بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے اس کی سند ملی ہے۔ مفتی محمدتقی عثمانی شیخ الاسلام اور مفتی محمد رفیع عثمانی مفتی اعظم کو بھی مولانا بدیع الزمان نے یہ کتاب پڑھائی ہے اور مجھے بھی اس کا شرف ملا ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع اور ان کے صاحبزدگان مفتی تقی ومفتی رفیع عثمانی نے اس کے بعد مفتی محمود، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا عبیداللہ انور اور دیگر جمعیت علماء اسلام کے علماء ومشائخ پر1970میں کفر کا فتویٰ لگادیا تھا تو مولانا بنوری کے رفقاء مولانا بدیع الزمانو دیگر اساتذہ نے اپنے نالائق شاگردوں کو عاق کیا تھا اور پھر1988میں جب حاجی محمد عثمان پر اس نالائق ، چالاک، عیار، کم بخت اور بے غیرت وبے ضمیر طبقے نے فتویٰ لگادیا تو بنوری ٹاؤن کراچی کے مجذوب اور مفاد پرست طبقے کو بھی ساتھ ملایا تھا۔ لیکن بنوری ٹاؤن کراچی سے پھر اسکے بعد بھی حاجی عثمان کے حق میں فتوی آیا تھا۔ جس پر مجذوب مفتی اعظم پاکستان کے بھی دستخط تھے۔ ہم نے قریب سے مجذوب ، مفاد پرست اور بزدل طبقے کے حالات دیکھے تھے اسلئے کسی کو حق کی خاطر آواز اٹھانے کی زحمت نہیں دیتے۔
نورالانوار میں ہے کہ البقرہ230فان طلقہا فلا تحل لہ ” اگر پھر اس نے طلاق تو اس کیلئے حلال نہیں ہے ” کا تعلق احناف کے نزدیک ”ف ”تعقیب بلامہلت کی وجہ سے آیت229کے آخر میں فدیہ کی صورت سے ہے کیونکہ اس کی دلیل عربی زباں کا عام قاعدہ کلیہ ہے کہ حرف ” ف” اپنے سے پہلے فاصلے کو قبول نہیں کرتا ہے ۔اسلئے اس طلاق کا تعلق آیت229کے شروع میں دومرتبہ طلاق سے نہیں ہوسکتا ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق سے پہلے عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہی اس تیسری طلاق کا تعلق ہے۔ جبکہ شافعی مسلک میں فدیہ کی صورت جملہ معترضہ ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد جب تیسری مرتبہ خلع دیا جائے تو خلع مستقل طلاق ہے اور تین طلاقوںکے بعد چوتھی طلاق کی گنجائش نہیں رہے گی اور پھر آیت230میں مذکور چوتھی طلا ق بنے گی۔
نورالانوار کا یہ سبق اتنا گنجلک ہے یا پھر علماء ومفتیان مسلک سازی میں اس قدر پاگل بن چکے ہیں کہ اتنی موٹی موٹی باتیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ اللہ کی کتاب قرآن مبین میں اس طرح کے اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جب حنفی مسلک یہ ہے کہ حلالے کی طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو پھر اسکے بغیر حلالہ کی لعنت کا فتویٰ کیسے صادر کررہے ہیں؟۔ علامہ جاراللہ زمحشری نے تفسیر الکشاف میں لکھ دیا ہے کہ ” اس کا اطلاق دومرتبہ الگ الگ طلاق کی صورت ہی سے ہونا چاہیے”۔ علامہ ابن قیم نے بھی ”زادالمعاد ” میں عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو نقل کیا ہے کہ ” قرآنی آیات کا تقاضہ یہی ہے کہ دو الگ الگ مرتبہ طلاق کے بعد فدیہ دینے کی صورت سے اس طلاق کو منسلک کیا جائے جس میں اسکے بعد حلال نہ ہونے کا حکم ہے”۔ان سب سے حنفی مؤقف کی تائید ہورہی ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے قرآن کی تفسیر تبیان القرآن اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرحیں بھی لکھی ہیں اور مناظرے میں بھی کمال فن دکھایا ہے مگر یہ لکھ دیا ہے کہ ” اگر آیت230البقرہ میں فان طلقھا کی ف نہ ہوتی ، جس میں تعقیب بلامہلت ہے تو قرآن و حدیث سے الگ الگ مرتبہ طلاق کا حکم ثابت ہوتا”۔ حالانکہ نورالانوار میں بھی تعقیب بلامہلت کا ذکر اس تناظر میں ہرگز بھی نہیں ہے کہ اس سے قرآنی آیت الطلاق مرتٰن میں الگ الگ مرتبہ طلاق کا حکم منسوخ ہوجائے گا بلکہ مطلب ہے کہ اس کا تعلق ماقبل فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا کہتے ہیں کہ علامہ غلام رسول سعیدی اس کے استاذ ہیں۔ایک وہ شیخ زبیر علی زئی اہلحدیث سے تعلق رکھتے تھے ۔شیخ زبیر علی زئی کا مؤقف بھی ایک ساتھ تین طلاق کے بعد وہی تھاجو دیوبندی بریلوی علماء کا ہے۔انجینئر محمد علی مرزا کو میں نے بالمشافہہ معاملہ سمجھنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے انکار کیا تھا اور سوال جواب کی گنجائش سے بالکل سختی سے منع کردیا تھا۔
بریلوی ، دیوبندی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے جید علماء کرام سے گزارش ہے کہ طلاق کے مسئلے پر حنفی مسلک کے نقطۂ نظر کی طرف توجہ کریں۔ انشاء اللہ شرح صدر ہوگا کہ” وہی حنفی مسلک درست ہے جس سے حنفی مسلک کے کم عقل طبقے نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے انحراف کیا ہے”۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے اور فدیہ کی صورت وہ ہے جس میں صلح کی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے۔ قرآن کی جس آیت کو بھی بغور دیکھا جائے تو اس میں صلح کی گنجائش ہے اور صلح کی گنجائش کیساتھ اللہ نے بار بار رجوع کو واضح کیا ہے۔
آیت226البقرہ میں صلح کی شرط پر رجوع کی گنجائش واضح ہے۔ جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تواللہ نے عورتوں کو اختیار دینے کا حکم بھی واضح کیا تھا۔ آیت228البقرہ میں بھی عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت229البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت231البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت232البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت2سورۂ طلاق میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔
قرآن کی طرف رجوع کیلئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد اظہار کیا تھا لیکن موقع نہیں ملا اور مولانا عبیداللہ سندھی نے ان کے مشن پر عمل کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی آخری دور میں فرمایا تھا کہ زندگی کو ضائع کردیا۔ اسلئے کہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی اور فقہی مسالک میں اپنا وقت ضائع کردیا۔ مولانا محمد یوسف بنوری نے قرآن وسنت کی احیاء کیلئے اپنے مدرسہ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسلام کا معاشی نظام آپ کے داماد مولانا طاسین نے پیش کیا اور اسلام کے معاشرتی نظام کی خدمت اللہ تعالیٰ بنوری ٹاؤن کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے مجھ عتیق گیلانی سے لے گا انشاء اللہ تعالیٰ العزیز۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں