حق مہر ''اعزازیہ'' نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے اخبار: نوشتہ دیوار

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

اگر ترقی یافتہ دنیا میں عورت کے حقوق کے حوالے سے قرآن کا صور پھونکا جائے تو بڑا انقلاب آئے گا۔

توراة میں تحریف کرنے والے یہود کو قرآن نے گدھا قرار دیا اور یہ اُمت بھی ان کے نقش قدم پر چلے گی

قرآن میں طلاق واقعی ایک بڑا حساس معاملہ ہے لیکن کیوں؟۔
اگر عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تب بھی آدھا حق مہر فرض بن جاتا ہے۔ اگر مقرر نہ کیا ہو تو امیر پر اس کی وسعت کے مطابق اور غریب پر اس کی وسعت کے مطابق دینا ضروری ہے۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر عورت نصف سے کچھ کم بھی لے تو حرج نہیں۔ اور مرد نصف سے زیادہ بھی دے تو حرج نہیں لیکن مناسب یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ زیادہ دے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل کرنا مت بھولو۔
قرآن کی ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر شوہر کی وسعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر اتنا ہونا چاہیے کہ جب مرد اس کو ادا کرے تو اس کو اچھی خاصی کلفت کا سامنا ہو۔ یہاں تک کہ عورت سے یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے حق میں سے کچھ معاف کرے۔ اگر اعزازیہ ہوگا ایک کروڑ پتی آدمی پانچ دس ہزار یا50ہزار، لاکھ مہر دے گا تو اس میں کیا سوچ بچار ہوگی کہ کون معاف کرے کون نہیں؟۔ اور جب معاملہ طلاق کا ہے اور طلاق مرد ہی کی طرف سے ہوتی ہے تو اللہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جس کے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے اس کو چاہیے کہ وہ رعایت لینے کے بجائے رعایت دے۔ کیونکہ عورت کے خلع کا معاملہ نہیں ہے۔ ان بیوقوفوں نے اس سے یہ اخذ کرلیا کہ طلاق صرف شوہر کا حق ہے اور خلع عورت کا حق نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں چونکہ معاملہ خلع کا نہیں طلاق کا تھا اسلئے گرہ کی نسبت شوہر کی طرف کی گئی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو طلاق کے مقابلے میں اس کے حقوق بہت کم ہوجاتے ہیں۔
البتہ حق مہر تو بہر صورت اس کا حق ہوتا ہے۔ خلع میں گھر اور جائیداد وغیرہ چھوڑنے پڑتے ہیں اور طلاق میں سب دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہی ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے آسان ترجمہ قرآن میںصریح آیات کیخلاف بالکل غلط تفسیر لکھی ہے۔ حق مہر اعزازیہ نہیں ،آئیے میں بتاتا ہوں کہ کیا ہے؟۔
بیمہ اردو میں انشورنس کو کہتے ہیں۔ جب تاجر پرانے دور میں مال کے بدلے میں ایک پرچی لکھتے تھے جو اس قیمت کی ضمانت ہوتی تھی اس کو بیمہ کہا جاتا تھا۔ حق مہر دو قسم کا ہوتا ہے ایک معجل جو فوری طور پر ادا کردیا جاتا ہے اور دوسرا موجل جس میں بیمہ کی طرح گارنٹی ہوتی ہے۔ اس حق مہر کی حیثیت کو ختم کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب شوہر چاہتا ہے تو عورت سے خدمت لے کر مدتوں بعد چھوڑ دیتا ہے اور اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی ایسی کہانیاں ہیں کہ بھتیجے نے اپنی بیگم کو طلاق دے دی ۔ پھر مرید نی سے اس کی شادی کرائی۔ پھر اس نے ان بچوں کو پالا پوسا اور بڑا کیا ، خدمت کی اور پھر ایسا وقت آیا کہ بچوں کی حقیقی ماں کا دوسرا شوہر فوت ہوگیا تو اس کو دوبارہ لائے اور مریدنی کو گھر سے نکال بھگادیا۔ اگر حق مہر کو اعزازیہ سمجھنے کے بجائے ایک زبردست گارنٹی قرار دیا جاتا تو عورتوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتی نہ ہوتی۔ جب عورت کے خلع کا حق چھین لیا گیا تو اس کے نتیجے میں فقہ کے مسائل ناقابل حل ہوگئے۔ مثلاً مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی زوجہ کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں۔ پھر مکر گیا۔ اب اگر اس کی بیگم کے پاس دو گواہ نہ ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے جھوٹی قسم کھالی تو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” میں لکھا ہے کہ عورت خلع لے گی لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ یہ فقہ کی ان کتابوں کا حال ہے جن میں باقی سب کچھ ہے لیکن فقہ نہیں۔ اسلئے کہ فقہ سمجھ کا نام ہے اور سمجھ انسانوں میں ہوتی ہے گدھوں میں نہیں۔ قرآن نے تورات میں تحریف کرنے والے علماء کی مثال گدھوں سے دی ہے۔ حدیث میں یہ خبر ہے کہ یہ اُمت بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چلے گی۔
بہشتی زیور مولانا اشرف علی تھانوی کی وہ کتاب ہے جو اکثر گھروں میں بھی ہے۔ اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اس کی بہت زیادہ تعریف لکھی ہے۔ اگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیگم سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق ۔ تو بہشتی زیور کے مطابق عورت پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ لیکن اگر مفتی تقی عثمانی کا ارادہ ایک طلاق کا ہوگا تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی اور فتویٰ یہ دیا جائے گا کہ بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں ہیں۔ بہشتی زیور کے مطابق بیگم کو فتویٰ دیا جائے گا کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ اب ایک طرف وہ خاتون مفتی تقی عثمانی کے نکاح میں ہوگی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ اس پر حرام ہوچکی ہے۔ اس صورت میں تو حلالہ بھی نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ پہلا نکاح بدستور موجود ہے۔ یہ ہے قرآن کی تعلیم سے انحراف کا نتیجہ۔ اگر خلع کا حق عورت کا مان لیا جاتا تو ایسی تذلیل کیسے ہوتی؟۔ آنے والے دور میں بہت لوگ بہت کچھ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پوچھیں گے۔ اس سے پہلے پہلے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ میں خود کو ہبہ کرتی ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ ! اگر آپ کو ضرورت نہیں تو مجھے دیجئے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ کچھ بھی نہیں۔ نبی ۖ نے حکم فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ، جو کچھ بھی مل جائے۔ وہ واپس آیا اور عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ کوئی لوہے کی انگوٹھی تک بھی اس کے پاس نہیں تھی۔ پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کو قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟۔ صحابی نے کہا کہ ہاں۔ نبی ۖ نے حکم دیا کہ اس عورت کو یہ سورتیں یاد کراؤ۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے انتہائی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر بن سکتی ہے۔ حالانکہ اگر لوہے کی انگوٹھی مل جاتی تو یہ اس شخص کا کل سرمایہ تھا۔ یہ دلّے اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ عورت کا حق مہر کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک زبردست گارنٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے نبی ! یہ آپ ہی کیلئے خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے۔ قرآن نے اس بات پر پابندی لگادی کہ کوئی عورت خود کو ہبہ بھی کرے تو اس کا حق مہر نہیں مار سکتا ہے۔ جس دن ترقی یافتہ دنیا میں قرآن کا یہ صور پھونکا جائے گا کہ نکاح میں مرد کا کوئی حق نہیں ہے اور عورت کیلئے شوہر کی وسعت کے مطابق ایک معقول گارنٹی ہے۔ سارا خرچہ بھی اصولاً شوہر ہی کے ذمہ ہے۔ خلع کا حق بھی عورت کو حاصل ہے اور خلع میں بھی مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں اور حق مہر کا تحفظ اس کو ملے گا۔ البتہ دیا ہوا گھر اوردی ہوئی جائیداد سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ اور طلاق کی صورت میں گھر تو ہوگا عورت کا اور اس کے علاوہ دی ہوئی جائیداد اور تمام اشیاء کی بھی وہ مالک ہوگی۔ کاش قرآن و سنت کے مطابق مسلمان عورتوں کے حقوق اجاگر کریں اور دنیا کو فتح کریں۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
اور ”ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں