پوسٹ تلاش کریں

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا! اخبار: نوشتہ دیوار

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

جب سود کے حوالے سے آیات نازل ہوئیں تونبی کریم ۖ نے زمینوں کی مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے مزارعت کے حوالے سے قرآن ،احادیث صحیحہ اور فقہ کے چاراماموں کی طرف سے متفقہ طور پر مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے اور اس پر زبردست کتاب بھی شائع کردی ہے جس کی تائید جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کی تھی جب وہ علماء کیلئے باغی اور انقلاب کے امام تھے۔آج مولانا ان کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف مولانا انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے اور جن سے مقابلہ ہوتا تھا وہ مولانا کی جماعت میں شامل ہیں ۔
جب ہم نے علماء ومفتیان کے دانت کھٹے کردئیے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” میں ان علماء ومفتیان کے فتوؤں کو جوتوں کی نوک پر رکھتا ہوں ”۔ اگر کسی ایک عورت کی عزت حلالہ کی لعنت سے لٹ جائے تو کیا وہ عورت جوتے کے نوک پر اس فتوے کو نہیں رکھ سکتی ہے؟۔ کیا عورت کیلئے یہ سزا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ ایک رات گزارے؟۔ یہ تو سزا ہے کہ کسی کا ہاتھ کاٹا جائے، کسی کا سرقلم کیا جائے، کسی کے ہاتھ اور پیر مخالف جانب سے کاٹے جائیں اور کسی کو کوڑے لگائیں جائیں یا کسی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن یہ کونسی سزا ہے کہ جرم مرد کرے اور اس کی سزا عورت کو دی جائے اور سزا بھی ایسی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ ایک رات گزاری جائے اور اس کی عزت کا فالودہ بنادیا جائے؟۔
کیا قرآنی آیات میں اتنے تضادات ہوسکتے ہیں کہ ایک طرف اللہ یہ بات واضح کردے کہ عدت کی تکمیل سے پہلے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور پھر اللہ کہے کہ عدت میں ایک مرتبہ کی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور پھر اللہ کہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اس قسم کے تضادات تو کسی پاگل ومجنون کے کلام میں بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اللہ نے تو پھر چیلنج بھی کردیا کہ ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تووہ مخالف اس میں بہت سارے تضادات پاتے”۔ کیا قرآن کا چیلنج غلط ہے؟۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے ، اسکے وہ تمام مسائل بھی حل کئے ہیں جو جاہلیت میں اس کو درپیش تھے۔ اور معاشرے کے تمام مذہبی مسائل کا حل بھی نکالا ہے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ شوہر بیوی کے درمیان صلح میں اللہ رکاوٹ ہے۔ آیت224البقرہ میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں اللہ کبھی بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ نمبر2یہ تھا کہ بعض الفاظ سے اللہ پکڑتا ہے جسکے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے آیت225البقرہ میں واضح کردیا کہ الفاظ کی وجہ سے اللہ نہیں پکڑتا ہے بلکہ دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق صریح وکنایہ اور ان مسائل پر تمام اختلافات اور تضادات کی اللہ تعالیٰ نے بیخ کنی کردی ہے۔ نمبر3یہ تھا کہ لوگ طلاق کا اظہار کئے بغیر سالوں سال عورت کو رلاتے تھے لیکن اللہ نے آیت226البقرہ میںواضح کردیا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ تک انتظار کی ہے اور اس میں بھی اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عورت کو تین ماہ کی جگہ چار ماہ تک انتظار کروایا جائے تو عدت میںایک ماہ کا اضافہ گناہ ہے۔ جس کی نشاہدہی آیت227البقرہ میں بھی کردی ہے۔ نمبر4یہ تھا کہ عورت کو عدت میں طلاق دی جاتی تھی تو عدت میں بار بار رجوع کا اختیار بھی شوہر کو ہوتا تھا اور نمبر5یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت228میں دونوں مسائل کا ایک حل نکال دیا۔ جب عدت کے اندر صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو پھر بار بار غیرمشروط رجوع اور ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا مسئلہ نہیں رہتا ہے۔جس کی وجہ سے طلاق رجعی کا تصور بھی بالکل باطل ثابت ہے کیونکہ طلاقِ رجعی کی وجہ سے شوہر عورت پر نہ صرف تین عدتیں گزارنے کا قانونی حقدار بنتا ہے بلکہ اس سے دوسرے بھی لامتناہی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس آیت سے حلالہ کا تصور بھی ختم ہوتا ہے اسلئے کہ جب رجوع کا تعلق باہمی اصلاح کی شرط سے ہے تواکٹھی تین طلاق اور حلالے کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ نمبر6یہ تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ناراضگی اور طلاق میں بار بار باہمی رضامندی ، اصلاح کی شرط پر اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت کی وضاحت کردی ہے جس سے باہمی رضا،اصلاح ، معروف طریقے کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن مردوں کی دنیا میں عورت بیوی بن جائے تو اس کی غیرت کا مسئلہ بنتا ہے اسلئے کوئی آیت بھی دل ودماغ میں بٹھانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ نیت نہ ہو تو بھی شہوت کی نظر پڑجائے تو رجوع ہے اور شافیوں کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع کرنے کے باجود بھی رجوع نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے معروف رجوع کو فقہاء نے منکر رجوع میں بدل دیا۔ جس دن قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسلام کے بنیادی اور اہم حساس معاشرتی مسائل پر بحث ہوئی یا میڈیا پر معاملات منظر عام پر آگئے تو مذہبی طبقات بھی بہت خوش ہوں گے کہ مسائل سے جان چھوٹ گئی۔
اللہ تعالیٰ نے آیت229البقرہ اور230البقرہ میں اہم معاشرتی مسئلے کا حل نکال دیا کہ جب شوہر دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے تین مراحل میں تیسری مرتبہ بھی معروف رجوع کرنے کے بجائے تیسری طلاق دے تو پھر اس کیلئے حلال نہیں ہے کہ حق مہر اور جو کچھ بھی اس کو دیا ہے اس میں سے بھی اس عورت سے واپس لے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر وہ نہ دی جائے تو دونوں کے میل ملاپ اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ تین طلاق کی وضاحت تو آیت229البقرہ میں موجود ہے اور اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ چونکہ مردوں کی ایک فطرت ہے کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے جہاں بھی چاہیں تو دوسرے سے نکاح کرنے کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں اسلئے اللہ نے ایسی طلاق کے بعد کہ جب دونوں اور معاشرے کی طرف سے نہ صرف جدائی کا فیصلہ ہو، بلکہ آئندہ رابطے نہ رکھنے کی کوئی سبیل بھی نہ چھوڑی جائے ،پھر رجوع کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے عورت کیلئے آزادانہ دوسرے سے نکاح کی اجازت بھی بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بنتا ہے اسلئے اللہ نے آیت230البقرہ میں فرمایا کہ پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
کوئی دانشمند قوم ہوتی تو یہی سمجھ لیتی کہ قرآن نے حلالے کی لعنت میں ہمیں ڈالا نہیں ہے بلکہ بچایا ہے۔ البتہ جب بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو اس کیلئے فتویٰ اسی آیت سے لیا جائے گا تاکہ عورت کو صحیح معنوں میں آزادی مل جائے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ طلاق پر اتنی ساری بحثیں پھر کیوں ہیں ؟۔ کہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی ؟۔ بچے اور مجنون کی طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ غصے کی حالت میں طلاق معتبر ہے یا نہیں؟۔ طلاق کیلئے گواہوں کی تصدیق اور مطالبہ؟۔ کس کے نزدیک کس لفظ سے طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟۔
اگر ان ساری باتوں کا نتیجہ دیکھ لیں تو اس کا خلاصہ یہی ہے کہ عورت خلع لے تو اس کے حقوق طلاق سے بہت کم ہوتے ہیں لیکن اگر مرد طلاق دے تو اس میں عورت کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ سورہ ٔ النساء آیت19میں خلع کا حکم بیان کیا گیا ہے اور سورہ ٔ النساء آیات20،21میں طلاق کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شوہر نے طلاق دی ہو تو عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد میں سے جو کچھ بھی دیا ہو تو وہ واپس نہیں لے سکتا ہے اور عورت خلع لے تو پھر عورت صرف منقولہ دی ہوئی چیزوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے لیکن گھر سے اس کو نکلنا ہوگا اور غیرمنقولہ اشیاء جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے کہ طلاق دی ہے یا نہیں؟۔ تو اصل میں حقوق کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عورت جھوٹ بول رہی ہے یا سچ بول رہی ہے؟۔ پھر طلاق کیلئے جو بھی الفاظ، اشارے، کنائے ، صریح اور کنایہ کے الفاظ معتبر قرار دئیے جائیں تو اس میں عورت ہی کا فائدہ ہے کیونکہ جدائی میں شوہر کی طرف سے پہل ہو تو اس کا خمیازہ شوہر کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ البتہ اگر عورت ایک طرف اپنی جان چھڑانے کے چکر میں ہو اور دوسری طرف شوہر پر طلاق کی تہمت لگائے تو یہ شوہر کیساتھ بڑی زیادتی ہوگی لیکن اس کو ثابت کرنے کیلئے عورت کو گواہ لانے پڑیں گے۔
مولانا اشرف علی تھانوی جیسے جید عالم دین اور حکیم الامت کہلانے والے نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب ” حیلہ ناجزہ ” میں یہ لکھا ہے کہ ” اگر شوہر نے اکٹھی تین طلاق دے دیں اور پھر وہ مکر گیا تو عورت اس پر حرام ہوگی لیکن عورت کیلئے اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے ہوں گے۔ اگر وہ دو گواہ نہ لاسکی اور شوہر نے قاضی کے سامنے حلف اٹھالیا تو وہ عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ پہلے وہ ہر قیمت پر خلع لے ،لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور اسکے ساتھ جماع کرتا ہے تو پھر عورت دل سے خوش ہو ،نہ لذت اٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی” ۔
یہ فقہ کا مسئلہ ہے جو دیوبندی اور بریلوی دونوں میں رائج ہے۔ یہ اسلام نہیں بلکہ گدھوں کی ڈھینچو ڈھینچو اور وہ آواز ہے جو گدھا پیچھے سے خارج کرتا ہے۔ اگر نکاح وطلاق کے حوالے سے یہ گھناؤنے مسائل میڈیا یا پارلیمنٹ میں آگئے تو سب کی طبیعت صاف ہوجائے گی۔ اسلام کے نام پر یہ مسائل بدنمادھبہ ہیں ۔
علماء ومفتیان نے اسلام کے نام پر بہت سہولت، عزت، دولت، شہرت اور قیمت وصول کرلی ہے ،اب اسلام کی جان چھوڑیں۔ مسلمانوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع ٹس سے مس اسلئے نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو اسلام اور مسلمانوں کی سرخروئی سے زیادہ اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حضرت عمر کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا کہ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حکمران کے دربار میں عورت اور شوہر کا تنازعہ آتا ہے لیکن اگر دونوں آپس میں راضی ہوتے تو حضرت عمر کے پاس کیوں جاتے؟۔ اگر یہ تنازعہ ایک طلاق پر بھی کھڑا ہوتا تو حضرت عمر نے یہی فیصلہ دینا تھا اسلئے کہ اس کے بعد قرآن باہمی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
پاکستان میں لینڈمافیا کے پیچھے بااثر طبقات کا بہت بڑا کردار ہے۔ بہت دیر کردی مہرباں نے آتے آتے۔ نسلہ ٹاور گرانے کے بعد سپریم کورٹ نے فوج کے تینوں اداروں کے سربراہوں کو طلب کیا ہے کہ دفاعی مقاصد کیلئے دی جانے والی زمینوں پر کاروبار کیوں کررہے ہو؟۔ علی وزیر کو بھی رہا کردیا گیا ہے لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حامد میر نے علی وزیر کی قید اور تحریک لبیک کیساتھ مذاکرات کوپختون پنجابی مسئلہ کیوں قرار دیا تھا؟۔ حالانکہ تحریک طالبان ولبیک کیساتھ ایک جیسا معاملہ تقریباً ہورہاہے۔ وانا جنوبی وزیرستان میںطالبان کے خلاف پاک فوج نے کبھی کوئی آپریشن نہیں کیا تھا اورPTMجن گمشدگان کے لواحقین کیلئے آواز بلند کررہی تھی وہ سب کے سب طالبان کے پسماندگان تھے۔
قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی مسائل کا حل نہیں ہے۔ قوم کو مزید آنکھ مچھولی میں ڈالنے کے بجائے سیدھے انداز میں ایک بہت شفاف سیاسی، عدالتی ، ریاستی اور انتظامی ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ اس قوم کی تقدیر بدل جائے۔ تعصبات کے نعروں کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کو تحفظ دینے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ نبیۖ نے جب سود کی حرمت کے بعد مزارعت کا نظام ختم کردیا تو زمیندار اور کاشت کار اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے، بھوک اور افلاس کی نوبت ختم ہوگئی۔ شہروں کے تاجروں کے بھلے ہوگئے اور مزارعت کے نظام سے جو جاگیردار لونڈی اور غلام پیدا کررہے تھے تو اس کا ریاستِ مدینہ نے خاتمہ کردیا تھا۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن قبضہ مافیا نے مسائل پیدا کرکے پاکستان کو مسائلستان بنادیا۔ آخر میں ایک بھائی کے اشعاردیکھ لیں!
سب کو معلوم عدل وانصاف کی نزاکت
کمزور پہ ہے لاگو قانون کی حجامت
ججوں کی تشریحات ترجیحات عدالت
بنیئے کا ترازولارڈ مکالے کی قدامت
جائیداد کی منی ٹریل یاجج کی علالت
بنتا نہ تھا جواب تو سوال پہ ندامت؟
رشوت کامال ہے عدلیہ کی حقارت
بیویوں کی ضرورت بچوں کی کفالت
غیر قانونی طریقے پر بھی یہ سخاوت
جج کی بیگم کو ملی جو کھلم کھلی اجازت؟
ووٹ کو عزت دو نوٹوں کی شرارت
گدھوں کا بیوپار، گھوڑوں کی سیاست
لال کرتی کی پیداوارواقعی ملامت
کمینی ہے اشرافیہ چوروں کی قیادت
مَلِک ، سردار، نواب غدارسلامت
ملا کی شریعت، پیرومرشد کی ارادت
رنگیلے سربراہ بہروپئے کی صداقت
جمہوری شکنجے، آمروں کی ریاست
رائیونڈ کے محلات شداد کی حمایت
اقتدار میں مدہوش فرعون کی غلاظت
ہوس نہ بجھی ،ہوش ربازرکی رفاقت
قارون کی دولت زرداری کی لاگت
ملک ہوا آزاد شبِ قدر کی مسافت
جناح کی عزیمت،اقبال کی اقامت
غلامی کی زنجیریں بیڑی کی تجارت
وہی قانون ہے وہی شیطان کی وکالت
تنگ آمد بجنگ آمدقوم کی بغاوت
اب آئے گا اسلام، ظالم سے شکایت
سب کا پاکستان سب کی امامت
ہے اسکا مقدر ، دنیا کے امن کی ضمانت
اقوام عالم کے فیصلوں کی نظامت
ہوگی یہاںقائم طرزنبوت کی خلافت
رہے کوئی جہالت نہ کسی کی ضلالت
بندے بنیں رب کے، کریں عبادت
کوئی سزا دے نہ کرے کوئی ملامت
آئے جس کی بھی اپنے ضمیر کی شامت
بتارہا ہوں سادہ لفظوں میں حکایت
بے انتہاء بلند منزل ہے اللہ کی عنایت
صاحر کی آرزو نہیں ہے کوئی جنایت
سب کی حکومت ایک امیر کی اطاعت

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں