حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟ - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

اللہ نے فرمایا : فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (البقرہ آیت230)
ترجمہ:۔” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ”۔ جب شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو مدارس کے مفتی صاحبان فقہ کی کتابوں سے اس آیت کا حوالہ دے کر فتویٰ دیتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اور شوہر سے شرعی حلالہ نہ کروائے تو اس کیلئے حلال نہیں۔
یورپ وامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے مسلمان اور مشرقی اقدار کے غیور لوگ جب اس معاشرے کا حصہ بنتے ہیں اور ان کے بچے بچیاں اسی ماحول اور تعلیمی اداروں میں جوان ہوجاتے ہیں تو ان کو خاص طور پر لڑکیوں کے بارے میں فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ دوسرے لڑکوں کیساتھ آزادانہ دوستی کریں گے تو ان کی غیرت بالکل غارت ہوجائے گی۔ مغرب کے گورے سے غیرت نکل گئی ہے تو انگریزی میں اب غیرت کیلئے کوئی موضوع لفظ بھی نہیں ہے۔ اگر مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے لڑکی کے ناجائز فرینڈشپ میں رکاوٹ ڈالی جائے تو انگریز کو یہ انسانیت کے خلاف جنگل کا قانون لگتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔
اللہ کا بہت بہت شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں شرم، حیاء ، غیرت، ضمیر اور مشرقی اقدار باقی ہیں اور اس سلیم الفطرت کی وجہ سے ہم قرآنی آیات اور سنت کے عمل کو اچھی طرح سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ حکم کیوں دیا ہے کہ ” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔
کیا انسان میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی عورت سے ازدواجی تعلق قائم کرلیتا ہے تو پھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اس میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی اور شخص سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کو اذیت ملتی ہے، غیرت محسوس کرتا ہے اور اس کے ضمیر میں خلش پیدا ہوتی ہے؟۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کو اذیت مت دو۔آپ کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح نہ کرو”۔
جب سورہ ٔ نور میںلعان کی آیات نازل ہوئیں تو انصار کے سردار سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں لعان پر عمل نہیں کروں گا۔اپنی بیوی کیساتھ کسی شخص کو کھلی فحاشی کا مرتکب پاؤں تو دونوں کو قتل کردوں گا۔ نبیۖ نے انصار سے کہا کہ تمہارا صاحب کیا کہتا ہے ؟۔ انصار نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ اس میں غیرت بہت زیادہ ہے اسلئے اس سے درگزر فرمائیں۔ اس نے کبھی کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح نہیں کیا ہے اور جس کو بھی طلاق دی ہے تو اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے۔ (صحیح بخاری) علماء نے اس حدیث کی غلط تشریح کردی کہ نبی ۖ نے سعد بن عبادہ کی غیرت کی تائید کردی اور فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول بھی غیرتمند ہیں۔
قرآن کی واضح آیت لعان پر مسلمانوں کے اندر آج تک عمل در آمد کا سلسلہ نہیں ہوسکا ہے۔ غیرت ہی کے نام پر خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے اس کی گنجائش بھی بالکل ختم کردی ہے۔ جب برصغیر پاک وہند میں انگریز کی حکومت تھی تو ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنی بیگمات کو کسی غیر کیساتھ دیکھ کر قتل کردیتے تھے تو انگریز نے تعزیرات ہند میں غیرت کی بنیاد پر قتل کرنے میں گنجائش اور معاف کرنے کا قانون بنایا تھا۔ برطانوی شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دے دی توجب وہ دودی الفائد عرب مسلمان کیساتھ پیرس فرانس میں حادثے کا شکار ہوگئی تو برطانیہ کی عدالت میں اس پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا کہ شاہی خاندان نے غیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
لوگ منگیتر سے شادی نہ کرسکنے پر بھی اس کی دوسری جگہ شادی کرنے پر قتل کرتے ہیںتو اپنی بیوی کیلئے دوسرا شوہر برداشت کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔ جب شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر بیرون ملک سے پرویزمشرف کے دور میں پابندی کے بعد ایک پرواز میں سفر کرکے آئے تو پیپلزپارٹی کے جیالے صحافی اطہر عباس نے اس پر طعنہ زنی کے خوب تیر برسائے تھے کہ شہبازشریف نے تہمینہ کھر سے رشتہ کیا ہے اور دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟۔ خاور مانیکا کا بشریٰ بی بی کو چھوڑ کر عمران خان سے رشتہ بھی پنجابی عوام کو بھی بہت عجیب اور انوکھا لگ رہاتھا۔ خیر یہاں بنیادی مقصد قرآنی آیت کے اصل مفہوم کو سمجھانا ہے۔
آیت229البقرہ میں تفصیل ہے کہ” دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورت کو جو کچھ بھی دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لو، مگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر واپس نہ کی گئی تو دونوں میں اس سے رابطہ ہوجائے گا اور دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ میں دی جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں،ان سے تجاوزمت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ لوگ ظالم ہیں”۔
اس میں زبردست حدود بیان کی گئی ہیں۔1:تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور تیسرے مرحلہ میں عدت کے اندر رجوع نہیں کیا بلکہ طلاق دے دی۔ آیت کا یہ حصہ احادیث میں تفصیلی ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ تسریح باحسان ہے اور یہ واضح فرمایا کہ تین طہروحیض کی عدت کیساتھ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے۔
2:آیت میں یہ حد بھی واضح کی گئی ہے کہ اس حتمی طلاق کے بعد شوہر کیلئے جائز نہیں کہ جو کچھ بھی دیا ہو اس میں کچھ بھی واپس لے مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے خوف رکھتے ہوں کہ اللہ کی حدود پر یہ دونوں قائم نہیں رہ سکیںگے۔ یعنی جدائی کے بعد شوہر دی ہوئی چیزواپس نہیں لے سکتا اس جدائی میں باہوش وحواس دونوں کا نہ صرف کردار ہو بلکہ فیصلہ کرنے والوں کا بھی کردار ہو۔اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ آئندہ کیلئے صلح کا دروازہ بند ہے، اختلاط کی کوئی صورت نہ چھوڑی جائے۔ یہ آیت کے ظاہری الفاظ میں واضح حدود ہیں۔
قرآن میں آیت229میں جن حدود کی وضاحت کردی گئی ہے تو پھر آیت230میں معاملہ واضح ہے کہ اللہ نے صرف اور صرف اسلئے اس طلاق کے بعددوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو ضروری قرار دیا ہے کہ جب سابق شوہر سے رجوع کرنا نہیں تو پھر سابق شوہر اس عورت کی اپنی مرضی سے نکاح میں کوئی رکاوٹ نہ بنائے۔ جبکہ اس کے علاوہ قرآن کی تمام آیات میں طلاق کے بعد عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور اصلاح وصلح کی شرط پر معروف طریقے سے رجوع کی کھل کراجازت دی ہے۔
جب یزیدی آمریت کے بعد لوگوں میں قتل و غارت گری کا خوف، زبردستی سے نکاح اور جبری طلاق کارواج عام ہوگیا اور لوگوں میں غیرت وحمیت کا وہ معیار نہیں رہاہے جس کا اسلام تقاضہ کرتا ہے تو پھر سب سے بڑا معاملہ یہ بھی وقت کے گزرنے کیساتھ ساتھ پیش آیا کہ قرآن کی سمجھ ختم ہوتی گئی۔ لوگوں نے آیت کو سمجھ لیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ” جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے تو اس کیلئے تب حلال ہوگی کہ جب کوئی دوسرا شخص اس میں اپنا آلۂ تناسل داخل کرے گا اور جس طرح چھری ذبح کرنے سے مرغا یا بکرا حلال ہوتا ہے اسی طرح عورت کو بھی دوسرا شوہر دخول کے ذریعے پہلے کیلئے حلال کرسکتاہے”۔
حالانکہ قرآن کی آیات بالکل واضح تھیں کہ یہ صرف اس صورت میں ہے کہ جب صلح کا پروگرام نہ ہو اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح کردیا ہے کہ صلح کی شرط پر عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ ان تمام آیات میں بھی یہ واضح ہے کہ صلح واصلاح ، باہمی رضامندی اور معروف طریقے کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے لیکن افسوس کہ تمام آیات میں صلح اور معروف کی شرط کو بھی نظر انداز کیا گیاہے۔
میرے دادا سیدامیر شاہ اور پردادا سید حسن شاہ ہماری جامع مسجد کانیگرم وزیرستان کے امام اور خطیب تھے۔جب میرے والدسید مقیم شاہ نے مسجد گرادی تاکہ تعمیر نو کرلے تو دادا سیدامیر شاہ نے کہا تھا کہ مسجد گرائی ہے اور اب بنا نہیں پائے گا۔ اچھی عمارت کی تعمیر میں دیر لگتی ہے ۔ پھر میرے والد نے مسجداچھی تعمیر کردی۔
علماء کرام فکر مند ہیں کہ سید عتیق الرحمن گیلانی نے مدارس کے نصاب کا کباڑ خانہ بنادیا۔اب اس کی تعمیر کیسے کرے گا؟۔ میرے دل میں علماء کرام کا بہت احترام ہے ۔ میرے اجداد علماء ومشائخ تھے اور میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ودیگر مدارس کے اساتذہ کرام سے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ نصاب کے معاملے میں بہت حوصلہ بھی پایا ہے۔ دیوبند اور بریلوی بعد کی پیداوار ہیں۔ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے پردادا سید حسن شاہ اوردادا سیدامیر شاہتک علماء اور دینی وقومی پیشوا تھے۔ اگر زندگی رہی تو مدارس کے نصاب میں کلیدی کردار ادا کروں گا اورمنبر ومحراب عوام کیلئے دینی اوردنیاوی پیشوائی کا مرکز ہوں گے ۔انشاء اللہ تعالیٰ
تین طلاق اور اس سے رجوع کے حوالہ سے اپنی کتابوں اور اخباری مضامین کے علاوہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز کے ذریعہ قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام اور اصول فقہ کے حوالہ سے وضاحتیں کرچکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے تاکہ مسلمان ایک بہت بڑی غلط فہمی کی دلدل سے نکل جائیں۔ عورت کے اختیارات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کیا ہے اور مذہبی طبقات نے ان کے اختیارات کو سلب کرلیا ہے اسلئے قرآن کی آیات کے ترجمہ اور تفاسیر پر بہت منکر قسم کے اختلافات ہیں۔ سنی مکتبہ فکر اختلافات کا حل دیکھ کر حقائق بھی مان لیںگے لیکن شیعہ مکتب کے لئے اپنے مسلک سے انحراف تھوڑا مشکل ہوگا اسلئے کہ ان کی فقہ جعفریہ ایک ہے اور جب ان کو اپنا فقہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل خلاف لگے گا تو وہ بھی وحدت امت میں آجائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ قرآن کی طرف تمام مکاتب نے رجوع نہیں کیا جس کی قرآن میں شکایت بھی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں