پوسٹ تلاش کریں

اس لڑکی نے2دوستوں کے ساتھ شادی کرلی۔

اس لڑکی نے2دوستوں کے ساتھ شادی کرلی۔ اخبار: نوشتہ دیوار

اس لڑکی نے2دوستوں کے ساتھ شادی کرلی۔

”آئینہ د کلتور”سوشل میڈیا یوٹیوب چینل پراصغر چیمہ کی یہ ویڈیو ہے جس میں ایک دوست نے دوسرے دوست کی بیوی سے حلالہ کیا۔ دونوں اور حلالہ کا شکار ہونے والی لڑکی نے داستان سنائی ۔ لڑکی کی ماں بھی ساتھ ہے۔ اشرافیہ اور اہل اقتدار پرحلالہ کے نام پرعزت لٹائی کا اثر نہیں پڑتا۔ فحاشی کی دنیا میں مذہب کے نام پر اس خبر سے چینل کو پذیرائی کیساتھ مذہبی شرافت کا بھی آئینہ دکھانے کی کوشش ہوئی ہے۔ جس سے ہمارا بعض مذہبی طبقہ بھی بہت پسند کرتا ہوگا لیکن یہ قرآن وحدیث اور اسلام وفقہ کے نام پر عزت کا کھلواڑ ہے۔
حنفی علماء سوء نے کئی معاملات میں قرآن وحدیث اورحنفی بنیادی اصولوں سے ہٹ کربڑی گمراہیاں پھیلائی ہیں ۔ دارالعلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن کراچی سمیت علماء ومفتیان کو قرآن واحادیث کے دلائل سمجھ میں آگئے ہیں کہ ” حلالہ کی لعنت کے فتوے غلط ہیں ” لیکن اس ماحول سے نکلنا بہت مشکل نظر آتا ہے جس میں وہ ایک عرصہ سے پھنس گئے ہیں۔ بلوچی گھیر والی شلوار، تہبند اور پتلون پہنا آسان کام اس وقت ہے کہ جب ماحول میسر ہو لیکن ماحول کے خلاف اپنی رسم وروایت میں لباس پہننے میں بھی بہت مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
علماء کو اب اس ماحول سے نکلناہوگا۔ حلالہ کے خلاف ہم نے ماحول ختم کرنے میں بفضل تعالیٰ بھرپور کردار ادا کیا ہے اور انشاء اللہ مدارس اور دارالافتاء میں حاضری دوں گا اوراس مسئلے پر منٹوں میں سمجھاؤں گا۔ مجھے آج بھی اسی طرح مدارس سے پیار ہے جس طرح زمانہ طالب علمی میں تھا۔ ہم جب کہتے تھے
وطن میں جاکر کیا کریںگے مدرسہ ہے وطن اپنا مریںگے کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
تبلیغی جماعت میں مجھے وقت اور استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی سیاست، سپاہ صحابہ کا جذبہ ، مجاہدین کا ولولہ اور خانقاہوں کی عقیدت کا میںعینی شاہد ہوں۔ انقلابی تحریکوں کا مطالعہ ہے ۔ علماء دیوبند کا شاگرد ہوں۔ مناظرے کا فن جانتاہوں۔ سب سے بڑھ کر ایک عام گناہ گار انسان ہوں۔ جس کو کسی پر برتری ، فضیلت اور بڑائی کا احساس نہیں ۔ صالحین سے محبت ہے، امیدہے کہ میری بھی اصلاح ہوجائے گی۔ اچھا نہیں لگتا کہ بڑے بڑوں کو ان کی عمر، مقام اور مرتبے کا لحاظ رکھے بغیر سخت رگڑا لگاتا ہوں۔ دوسرے فرقے اور علماء کے مخالفین خوش ہیں لیکن اس سے حق اور اہل حق کے قریب ہونے کی فضاء بنتی ہے۔
اکابر نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا لیکن قرآن ، صحابہ اور عقیدۂ امامت سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا سکے اور اکابر علماء اور جوانوں کی شہادتیں دیکر مخالفین کی زبان بندی نہیں کراسکے ۔ سوشل میڈیا پر شیعہ زیادہ مؤثر انداز میں وہ کام کررہے ہیں جو تاریخ میں نہیں ہو ا۔ بیرون ملک سے دلائل ہم تک پہنچتے ہیں۔ جب انجینئر محمد علی مرزا اور مفتی فضل ہمدرد کسی شمار وقطار میں نہ تھے تو ہم نے نہ صرف شیعہ اور بریلوی عقیدے کا دفاع کیا بلکہ اپنے اکابرین پر حملے کردئیے۔ قرآن ، صحابہ اور عقیدۂ امامت میں درسِ نظامی اور شاہ اسماعیل شہید کے دلائل سے شیعہ پر کفر کا فتویٰ واپس کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا مگر حق کی منزل آسان کردی۔ اب وقت آیا ہے کہ اسلام کے اصل مقاصد اور علماء دیوبند کے سرخیل حاجی امداداللہ مہاجرمکی کا مشن زندہ کریں۔حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے برسوں مالٹا کی جیل میں گزارنے کے بعد دوباتوں کو امت کے زوال کا سبب قرار دیا ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ واریت۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے خلافت کے قیام کی بڑی کوشش کی تھی ۔شیخ الہند نے اپنی تمناؤں کا اظہارمالٹا جیل میں آنے کے بعد کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی محنت کا حق ادا کردیا اور مولانا محمد الیاس نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ پوری دنیا میں دین کے درد کو جگایا تھا اور حاجی محمد عثمان کے سرپر روحانیت کا تاج اکابر نے رکھا تھا ۔ ہم انشاء اللہ ان سب کا مشن پورا کرکے دکھائیں گے۔
شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگانیوالے مولانا منظور نعمانی کے فرزند مولانا سجاد نعمانی نے فتوے کو سازش قرار دیا ۔ مولانا سلیمان ندوی کواکٹھی 3 طلاق کو ایک کہنے پرنشانہ بنایا گیا۔1970سیمینارمیں مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی صدارت میں علماء دیوبند،جماعت اسلامی اور اہلحدیث نے مثبت رائے دی تھی مگر بریلوی مخالف تھے۔
اب مفتی کامران شہزاد نے بھی3طلاق کے ایک ہونے پر قرآن وحدیث کا فتویٰ جاری کیا۔ مفتی کامران شہزادکی تعلیم وتربیت کا پسِ منظر حنفی بریلوی مسلک سے لگتا ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ان کی شخصیت اچھا آغاز ہے۔ طلاق کے مسئلے پر مفتی کامران شہزاد نے بہت مثبت گفتگو کی ہے۔ پہلے اختلاف کو ایک اجتہادی مسئلہ قرار دیا ہے کہ اکٹھی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے یا تین طلاق؟۔ احادیث کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا ہے کہ ” عبداللہ بن عباس نے ہاتھ لگانے سے پہلے اور ہاتھ لگانے کے بعد کی دونوں صورتوں میں یہ قرار دیا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی”۔
مفتی کامران شہزاد نے کہا کہ ” قرآن میں دو مرتبہ طلاق کا ذکر ہے تو ایک مرتبہ میں تین طلاق کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور اس کی مثال یہ دی کہ کرکٹ کے کھیل میں ایک بار جس طرح بھی میں آؤٹ ہوجاؤں ، گیند پکڑ کر کیچ سے آؤٹ ہوں یا وکٹ اُڑ جائے لیکن ایک مرتبہ آؤٹ ہوںگا۔ ایک بار میں دو مرتبہ آؤ ٹ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے قرآن کا تقاضہ ہے کہ ایک بار میں 3 طلاق دی جائے تووہ ایک بار ہی شمار ہو پھرعدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور پھر دوبارہ طلاق دی جائے اور پھر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر تیسری بار طلاق دی جائے تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔ مفتی کامران شہزاد نے حنفی مسلک اور دیگر مسالک کا بھی استدلال پیش کیا ہے اور مشہور ومعروف علماء وفقہاء کے نام بھی لئے ہیں۔
قرآن نے حلالہ کی لعنت کے حوالے سے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی لیکن عورت کو تحفظ دینے کا مسئلہ تھا اور اس تحفظ کی خاطر آخری حد تک ایسے الفاظ بھی بیان کردئیے کہ ایک طرف عورت کو پورا پورا تحفظ مل گیا اور دوسری طرف حلالہ بھی ایک آزمائشی مسئلہ بن گیا۔ اگر یہ الفاظ آیت میں نہ ہوتے کہ ” جب تک وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے حلال نہیں ”۔( البقرہ230) تو بہت ساری خواتین اپنے شوہروں کے مظالم سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھیں۔
شوہر کے منہ سے 3طلاق کا لفظ نکلا اور بیوی نے چھٹکارا پالیا اسلئے کہ شوہر نے بھی یہ یقین کرلیا کہ اب یہ حلال نہیں ہے لیکن اصل صورتحال اس سے زیادہ بہترین تھی اور وہ یہ ہے کہ اگر شوہر نے طلاق کا لفظ بول دیا۔ صریح ، اشارہ ، کنایہ اور خاموش ناراضگی تب بھی ”شوہر کے رجوع کا حق چھن گیا، جب تک عورت صلح پر راضی نہ ہو”۔ سورہ بقرہ آیت226میں ناراضگی کا ذکر ہے جس میں زبانی طلاق کا اظہار نہ ہو اور اس کی عدت چار ماہ ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھااور اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ بھی ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار بھی کرنا چاہیے تھا۔ جب اظہار کرتا تو چار ماہ کی جگہ عدت تین ماہ ہوتی اور ایک ماہ عدت کے اضافے پر شوہر کا دل گناہگار ہے۔ (البقرہ 225،226،227)
ایلاء میں حلف ضروری نہیں۔ لاتعلقی اور ناراضگی سے بیوی کا حق معطل کرنا ایلاء ہے۔ اللہ نے ناراضگی کے بعد بیوی کو بااختیار قرار دیا ہے اگر وہ صلح کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر زبردستی نہیں کرسکتا ۔ نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے فرمایا: بیگمات کو علیحدگی کا اختیار دینا۔ نبیۖ کے ذریعے اللہ نے یہ سبق سکھایا ہے۔ جاہلیت کی یہ رسم تھی کہ عورت سے لوگ ناراض ہوکر بیٹھتے تو وہ مدتوں بیٹھی رہتی۔ قرآن نے جس وضاحت کیساتھ چار ماہ کی عدت کا ذکر کیا ،اگر عوام کو پتہ چل گیا تو پھر مذہبی طبقات لوگوں کو شیاطین کے گروہ نظر آئیں گے جنہوں نے ایسی وضاحت کو اپنی عوام کی نگاہوں سے جان بوجھ کر یا کم عقلی میں پوشیدہ رکھا ہے۔
اس معاملے میں حنفی مسلک والے پھر بھی سرخرو ہوسکتے ہیں لیکن اہل تشیع، اہل حدیث، ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم سب کے منہ کالے ہوں گے جو احناف کی مخالفت میں جمہور شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک والوں کیساتھ کھڑے ہوگئے۔
اللہ نے خواتین پر مظالم کا قانون وشریعت سے خاتمہ کردیا لیکن عورت پھر بھی مذہب کی بنیاد پر اسی ظلم کا دوبارہ شکار بنادی گئی۔ جب ایک بار کی تین طلاق سے عورت آزاد ہوجاتی ہے تو پھر چار ماہ کاانتظارکرنے کے باوجود کیوں آزاد نہیں ہوتی ہے؟۔ یہ اللہ کا دین نہیں مذہبی طبقات کا اپنا دھندہ یا بہت بڑی کم عقلی ہے۔ جس طرح تین طلاق پر حلالہ کا دھندہ بنایا گیا ہے ،اگر قرآن سمجھ میں آتا تو فتویٰ یہی دینا تھا کہ ایک بار ناراضگی یا ایلاء کے بعد بھی بیوی کو اختیار دینا ضروری ہے اور اگر شوہر اختیار نہیں دیتا ہے تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی و اختیار سے کہیں بھی دوسری جگہ نکاح کرے ۔ یہی قرآن وسنت کااصل حکم ہے۔
پھر اللہ کو پتہ تھا کہ یہود ونصاریٰ کے مذہبی گدھوں اور کتوں سے اس اُمت کا بھی واسطہ پڑے گا اسلئے واضح کردیا کہ ” طلاق والیوں کو تین ادوار تک انتظار کرنا ہے اور اس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ (آیت228البقرہ) آیت سے واضح ہے کہ” ایک،دویا تین بار طلاق کے بعد عدت میں رجوع کا اختیار اصلاح کی شرط پر ہے”۔ آیت نے دوجاہلانہ مسائل کا خاتمہ کردیا۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ایک ساتھ تین یا مرحلہ وار تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا اور دوسرامسئلہ یہ تھا کہ عورت کی رضامندی کے بغیر عدت میں جتنی بار شوہر چاہتا تھا تو رجوع کرلیتا تھا۔ اللہ نے واضح کیا کہ ایک بار طلاق کے بعدبھی عورت کی صلح واصلاح کے بغیر رجوع حلال نہیں ہے۔ شاباش ہو مولوی کے دماغ کو جس نے اختلاف کی بھول بھلیوں میں خود کو بہت کھپادیا ہے مگرقرآن کی موٹی موٹی باتیں سمجھنے کیلئے یہ وحشی گدھا تیار نہیں ہے۔
قرآن اور صحابہ کرام کے فتوؤں میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ حضرت عمر نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ” اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع حلال نہیں ہوسکتا” بلکہ جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو” قرآن کے مطابق رجوع نہ کرسکنے کا حکم جاری کیا” اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر حلالے کا پتہ چل گیا تو کوڑے بھی لگا دوں گا۔ کیونکہ طاقتور مرد سے یہ بعید نہیں تھا کہ زبردستی سے حلالے پر مجبور کرتا۔ بنوں میں بھی ایک کیس ایسا ہوا ہے جس پر مولوی جیل میں گیا۔ اگر میاں کیساتھ بیوی رہنے کیلئے راضی ہوتی تو حضرت عمر کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ حضرت عمر سے کسی نے پوچھا کہ بیوی کو حرام کہااور تحقیق سے پتہ چلا کہ بیوی رہنے کیلئے راضی ہے تو فتویٰ دیا کہ رجوع ہوسکتا ہے ۔جب حضرت علی کے سامنے ایک اور واقعہ آیا کہ بیوی کو حرام کہا ہے اور بیوی رہنے پر راضی نہیں ہے تو حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ ”اس پر رجوع حرام ہے ۔ جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو اس کیلئے حلال نہیں”۔ حضرت عمر وعلی نے یہ اختلاف اپنے اجتہادات کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ قرآن کی آیت کو سمجھ لیا تھا کہ جب عورت راضی ہوگی تو رجوع ہوسکتا ہے اور عورت راضی نہ ہوتو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں علماء کا یہ اجتہاد نقل ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا تیسری طلاق ہے اور یہ حرام کھانے پینے کی اشیاء کو حرام کہنے کی طرح نہیں اسلئے کہ بیوی کو تیسری طلاق پر حلال نہیں ہوگی”۔ یہ نہیں سوچا کہ سورۂ تحریم میں نبیۖ نے حرام قرار دیا تھا اور بیوی کو ماں کہنے سے زیادہ حرام کیا ہوسکتا ہے جس کی قرآن نے نفی کی ہے؟۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے علت باہمی اصلاح ہے ۔ جس کو مختلف آیات میں معروف رجوع اور باہمی رضامندی سے واضح کیا گیا ہے۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے فرمایا: المطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء … وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں ….. اور انکے شوہر ان کو اس مدت میں اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔
اس آیت میں عدت کے اندر صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا زیادہ حقدار قرار دیا گیا ہے اور اس میں یہ واضح ہے کہ رجوع کیلئے صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے صلح واصلاح۔ جب تک عورت راضی نہیں ہو تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا اور عورت راضی ہو تو شوہر ہی اس کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ عورت کا باپ، مذہبی طبقہ اورحکمران کسی کے مقابلے میں بھی عدت کے اندر شوہر سے زیادہ دوسرے کا حق نہیں ہے کہ اس میں مداخلت کرے۔ یہ آیت کے واضح الفاظ ہیں۔
اگر عورت صلح کیلئے راضی نہیں تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا اور مذہبی طبقہ یہ فتویٰ نہیں دے سکتاکہ” شوہر کو رجوع کا حق ہے”۔ معاشرہ اور حکمران شوہر کو رجوع کا حق نہیں دے سکتے۔ یہ عورت کیساتھ بہت بڑا فراڈاور بہت بڑی زیادتی ہے کہ ”صلح کے بغیربھی شوہر ایک یا دومرتبہ طلاق کے بعد رجوع کا حق رکھتا ہے”۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ شوہر صلح واصلاح کی شرط پر ہی رجوع کا حق رکھتا ہے تو یہ پتھر کی لکیر سے بھی زیادہ ہمیشہ قائم رہنے والا فتویٰ ہے اور اس سے قرآن کی کوئی دوسری آیت متصادم نہیں ہوسکتی ہے اور نہ اس کے برعکس حدیث ہے۔
کیا قرآن کی اگلی آیت ہی میں تضاد ہے۔ اللہ نے فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے” (آیت229البقرہ ) ملواڑیں کہتے ہیں کہ اس آیت میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ طلاق سے اللہ نے شوہر کو رجوع کا حق دیا ہے۔گویا پہلی آیت228البقرہ میں صلح کی جو شرط رکھی گئی تھی اس آیت229میں اللہ نے عورت کو پھر کم عقل وکم نصیب اور کم بخت قرار دیکر اصلاح و صلح اور عورت کی رضامندی کا حق چھین لیا اور ایک نہیں دو مرتبہ طلاق سے شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیا؟ ۔ عورت سے صلح واصلاح اور رضامندی کا حق چھین کر صرف عورتوں سے یہ زیادتی ملواڑوں اور ملاٹوں نے نہیں کی بلکہ اللہ کے کلام میں بھی زبردست تضاد پیدا کردیا۔ اللہ نے ایک مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو آیت228میں غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا تھا لیکن دوسری آیت میں دو مرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کا حق دے دیا؟۔ یہ اللہ کی کتاب میں اتنا بڑا تضاد ، گمراہی اور بھلکڑ پن ہے کہ اتنا کمزور حافظہ تو چوہے کا بھی نہیں، جس کو بلی بھگادیتی ہے اور وہ پھر شکار ہوجاتاہے۔ اسلئے کہ دونوں آیات بالکل متصل ہیں اور دونوں میں بہت بڑا تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے طلاق کے مسائل میں پوری فقہی دنیا بالکل تباہ وبربادی کا شکارہے۔
نبیۖ نے واضح فرمایا ہے کہ ” تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے”۔ اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ ” تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہی ہے”۔ نبیۖ نے اسلئے ایک ساتھ تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رجوع کا حکم دیا ہے۔ جس طلاق کے بعد آیت230البقرہ میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے اس کنڈیشن کا ذکر کیا ہے کہ ” تین مرتبہ مرحلہ وار طلاقوں کے بعد جب معروف رجوع کا فیصلہ نہیں ہو تو شوہر نے جو کچھ دیا ہے اس میں کچھ بھی واپس لینا حلال نہیں مگر جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ اگردی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ وہ چیز رابطے کا ذریعہ ہوگی اور ناجائزجنسی عمل کا شکار ہوجائیںگے۔ یہی خدشہ اگر فیصلہ کرنے والوں کو بھی ہو توپھر عورت کی طرف سے شوہر کی دی ہوئی فقط وہی چیز فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے”۔ حنفی مسلک کی اصول فقہ اور علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی حضرت ابن عباس کا یہ قول واضح ہے کہ آیت229کے اس آخری حصے کیساتھ ہی آیت230کا تعلق ہے جس میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے۔
یہ وہ صورت ہے کہ جب میاں بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں بلکہ علیحدگی پر اس حد تک اصرار کرتے ہوں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی صورت نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والوں کا بھی یہی حال ہو۔ پھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع تو کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ البتہ آیت میں ایک دورِ جاہلیت کی رسم کا خاتمہ ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد شوہر کی پابندیوں سے خلاصی نہیں ملتی تھی اور آج کی عورت بھی اس مصیبت میں گرفتا رہے۔ اس سے چھٹکارا دلانے کیلئے اللہ نے بہت بڑا حکیمانہ فیصلہ نازل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت ساری عورتوں کی جان چھوٹ گئی۔ اس آیت کا تعلق صرف اور صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ ناراضگی کے بعد شوہر بیوی کو نہیں چھوڑتا ہو، ایک طلاق کے بعد نہ چھوڑتا ہو ، دو طلاق کے بعد نہیں چھوڑتا ہو، حرام اور کسی قسم کا کوئی لفظ کہنے کے بعد آزادی میں رکاوٹ ڈالتا ہو تو اللہ کا یہ حکم اس پر جاری ہوتا ہے۔
جہاں تک باہمی رضامندی سے رجوع کا تعلق ہے تو جس طرح اللہ نے عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے ،اسی طرح عدت کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی ہے۔ جس کا حکم زیادہ دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس آیت230البقرہ سے متصل آیات231اور232میں بالکل واضح ہے۔
پارلیمنٹ اور سینٹ میں قرآن کی ان آیات پر تھوڑی بحث کی جائے تو فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کی ماں مر جائے گی اور حلالہ کی نحوست سے بھی سادہ لوح عوام کو چھٹکارا مل جائے گا۔ سورہ طلاق میں بھی یہی حکم بہت وضاحت کیساتھ موجود ہے۔ تین مرتبہ مرحلہ وارطلاق کے باوجود بھی عدت کی تکمیل پر یہ ٹھوس فیصلہ کرنا ہے کہ معروف طریقے سے رکھنا ہے یا معروف طریقے سے اس عورت کو الگ کردینا ہے۔ اگر علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے تو پھر دوعادل گواہ مقرر کئے جائیں تاکہ عورت کے مالی حقوق کو تحفظ دیا جائے۔ اور سورہ طلاق میں پھر بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ نبیۖ نے رکانہ کے والد کو رکانہ کی ماں سے تین طلاق کے باوجود رجوع کاحکم دیا اور سورۂ طلاق کی آیات پڑھ کر سنائیں۔جماعت اسلامی کے مولانا چترالی کو اگر امریکی سی آئی اے نے پلانٹ نہیں کیا تو مولانا مودودی کی کتاب” خلافت و ملکوکیت” کے برعکس تحفظ ناموس صحابہ کی طرح تین طلاق ، حلالہ اور خلع پر ایک بل پیش کریں تاکہ خواتین کو اسلامی حقوق مل جائیں اور معاشرے میں مولانا مودودی کے ”ترجمان القرآن” سے اسلام مخالف مسائل کا خاتمہ ہوجائے۔
اصل مسئلہ خلع و طلاق کے حقوق کا ہے ۔ خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے ۔ سعودی عرب میں خلع کی عدت پرصحیح حدیث کے مطابق عمل ہے۔ خلع میں عورت کو حقوق کم ملتے ہیں اور طلاق میں زیادہ ملتے ہیں۔ خلع میں عورت کو شوہر کا دیا ہواگھر اور غیرمنقولہ جائیدادباغ، زمین وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے اور طلاق میں منقولہ وغیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہوتی ہے۔ جب عورت کا قصور نہیں اور وہ چھوڑنا نہیں چاہتی تو اس کودی ہوئی چیزوں سے کیوں محروم کیا جاسکتا ہے؟۔ البتہ خلع میں محروم ہوگی۔ سورہ النساء آیت19میں خلع اور20،21میں طلاق کے حقوق ہیں۔ خلع میں عورت کو مکمل اختیار ہے اور اس میں عدالت جانے کی ضرورت نہیں ۔ آیت229میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے لیکن علماء ومفتیان کے علاوہ جدید اسکالر بھی اس جہالت میں ملوث ہیں اور جس آیت229میں اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد مالی تحفظ دیا ہے وہاں یہ گدھے عورت کو بلیک میل کرنے کیلئے خلع کا بالکل جھوٹا حکم لگاتے ہیں اور اس میں مولوی پھر بھی ناسمجھی کی وجہ سے کسی قدر معذور ہیں اور میں ان کا کفارہ ادا کررہا ہوں۔
جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے گی اور مرد اس کا انکار کرے گا تو عورت کو گواہ لانے پڑیںگے اسلئے کہ زیادہ حقوق پانے کیلئے جھوٹا دعویٰ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر عورت کے پاس گواہ نہیں ہوں اور شوہر قسم کھالے تو خلع کا حکم جاری ہوگا ۔ یہ نہیں کہ عورت خلع لے اور خلع نہ ملے تو حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ مالی حقوق پر تنازعہ ہوسکتا ہے اور اس میں قسم اور گواہی کی ضرورت ہے لیکن یہ بڑی جہالت ہے جو فقہاء نے لکھ دی ہے کہ عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔
مولوی تو عدالت کے ذریعے بھی عورت کو خلع کا حق نہیں دیتا لیکن اللہ نے فرمایا ہے کہ ” تم عورتوں کے زبردستی سے مالک نہیں بن سکتے اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو چیزیں ان کو دی ہیں وہ ان سے واپس لو مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ان سے معروف سلوک کرو اور اگر وہ تمہیں بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں بہت سارا خیر بنادے”۔ (النسائ19)
تحریک لبیک کے علامہ سعد حسین رضوی اور مولانا فضل الرحمن ایک کمیٹی تشکیل دیں جس میں جید علماء کرام اور مفتیان عظام شامل ہوں۔ جب یہ حقائق دنیا کے سامنے آجائیںگے تو پاکستان سے اسلامی نظام کا آغاز ہوجائے گا اور پھر کبھی انشاء اللہ غیرمسلم بھی یورپ وغیرہ میں بھی نبیۖ اور قرآن کی توہین کی سوچ بھی دل ودماغ سے نکال دیںگے۔نفرت کا خاتمہ ہوگا اور نبیۖ کو مقام محمود اس دنیا میں ملے گا جس کی دعا آذان میں مسلمان عرصہ سے مانگتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں