پوسٹ تلاش کریں

اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟

اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟ اخبار: نوشتہ دیوار

اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟

عجمیوںکی کوئی نسل ،خاص طور پر برمی بنگالی عورتوں اور بچیوں کو دلالی کے نام سے فروخت کیا جاتا تھا ، جس میں بالغ لڑکیوںاور نابالغ بچیوں کا دلال کے ذریعے نام نہاد نکاح بھی شامل تھا

دارالعلوم کراچی کے ” فتاوی عثمانی جلد دوم ، طبع جدید ستمبر2022 عیسوی” برمی کالونی کورنگی میں باقاعدہ عورتوں کی منڈی لگتی تھی ۔ ڈارک ویب اور جنسی تسکین کا دھندہ فتوؤں کی آڑ میں ہوتا تھا۔

عوام الناس کی زبان میں سادہ الفاظ کے اندر پیچیدہ معاملے کو سمجھنانے کی سخت ضرورت ہے۔پچھلے شمارے میں کچھ حوالہ جات دئیے اور اب مزید تفصیل کیساتھ کچھ دیگر معاملے کو بھی علماء حق اور عوام الناس کے سامنے لاتے ہیں۔
دنیا بھر میں معصوم بچیوں کیساتھ جنسی درندگی کا مکروہ دھندہ ہوتا ہے اور کوئی مہذب قوم ، ملک اور قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ پاکستان میں یہ دھندہ کراچی کے اندر مظلوم برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ جاری رہتا تھا۔ اور اس میں مولوی طبقہ دلال بن کر پیسے بٹورنے میں مصروف رہتا تھا۔
پاکستان میں16اور18سال سے کم عمر بچی کیساتھ نکاح قانوناً منع اور مجرمانہ فعل ہے جس میں پولیس کی مداخلت سے ایسے جرم میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ ریاستِ پاکستان نے اس پر پابندی لگائی ہے۔ تاہم14اور15سال کی عمر میں بھی بچیاں جوان اور شادی کے قابل ہوتی ہیں، جس پر حکومت کی طرف سے نظر انداز کرنے کی بات سامنے آسکتی ہے۔
اسلام نے چودہ سو سال پہلے جن قوانین کا اجراء کیا تھا وہ معاشرے میں بڑا اچھا کردار ادا کرنے کے قابل تھے ، تب ہی دنیا کی دونوں سپر طاقتیں فارس اور روم خلافت راشدہ کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ عرب زیادہ طاقتور نہیں تھے بلکہ اسلام کے فطری قوانین میں یہ صلاحیت تھی کہ دنیا نے ان کو اپنے لئے بہترین سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی اور یہی وجہ تھی کہ1924عیسوی تک کسی شکل میں خلافت کا نظام قائم تھا۔ اگرچہ بہت ساری خوبیاں دوسروں نے اپنالی تھیں اور خامیاں ہم نے اپنی بنالی تھیں اسلئے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ” یورپ میں مسلمان نہیں ہے لیکن اسلام ہے اور یہاں مسلمان ہیں لیکن اسلام نہیں ہے”۔
آج بھی مسلمانوں سے دنیا میںزیادہ آبادی عیسائیوں کی ہے اور عیسائی مذہب میں اسلام کی آمد کے وقت طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا۔چند سوسال سے بادشاہ نے ایک ترقی پسند فرقہ بناکر طلاق کو جواز بخش دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ عیسائیوں نے معاشرتی مسائل نکاح ، طلاق ، عورت کے حقوق اور شوہر کے حقوق کیلئے جمہوری بنیادوں پر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرنا شروع کردی اور آج انہوں نے مذہبی طبقات کو عبادت گاہوں تک محدود کردیا ہے۔
اسلام ایک عظیم دین ہے اور قرآن وسنت میں اپنی اصلی حالت میں محفوظ بھی ہے۔ قرآن میں لڑکے کیلئے نکاح کی خاص عمر کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ یتیم لڑکوں کو اس وقت ان کا مال سپرد کرنے کا حکم ہے کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ حتی اذا بلغوا النکاح ( یہاں تک کہ وہ نکاح تک پہنچ جائیں)۔
لڑکی کے ساتھ کم عمری میں نکاح بہت بڑی زیادتی ہے۔ دورِ جاہلیت میں بھی بچپن کے اندر اگر کہیں رشتہ پکا کیا جاتا تھا تو رخصتی بلوغت اور نکاح کے عمر تک پہنچنے کے بعد ہی ہوتی تھی اور آج بھی یہ رسم ورواج معاشرے میںکہیں نہ کہیں موجود ہے جس میں دوستوں یا رشتہ داروں کا اچھا تعلق کارفرماہوتا ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی اور خاص طور پر کورنگیKایریا وغیرہ میں برمی و بنگالی غریب الوطن افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ پہلے دارالعلوم کراچی میں بھی غربت کا سماں ہوتا تھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی اس کو بھی بڑی سعادت سمجھتا تھا کہ کوئی امیر اس کو اپنے فوت شدہ باپ کے بدلے حج بدل کی مزدوری پر بھیج دے۔ ان لوگوں کا ایک دھندہ غریب لوگوں کو پھانس کر فتویٰ فروشی بھی ہوا کرتا تھا۔
برمی و بنگالی بچیوں و خواتین کو جب دلال دوسری قوموں کے پاس بیچ دیتے تھے تو پاکستان کے قانون کے تحت انسانی سمگلنگ کی اجازت نہیں ہوتی تھی اس کیلئے ان کو شرعی فتوے کی ضرورت ہوتی تھی۔
دارالعلوم کراچی نے یہ فتوی عام دیا تھا کہ
نابالغ بچیوں کا نکاح باپ دادا کرے تو یہ شریعت کے عین مطابق ہے۔
اور اگر نابالغ بچیوں کا نکاح دلال کرے تو بھی شریعت کے مطابق ہے۔
بالغ لڑکی کو اغواء کرکے یا خرید کر اس کو نکاح پر مجبور کرے تو بھی یہ نکاح لڑکی کی اجازت اوررضامندی کہلائے گا اور شریعت میں منعقد ہوجائے گا۔
لڑکی کا خاندان عرف میں کمتر ہو تو پھر اس میں ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کرے، دلال کے ذریعے کرے یا اس کو اغواء اور زبردستی سے نکاح پر مجبور کیا جائے ، یہ سب رضامندی ہے اور شرعاً جائز ہے۔
ملک کے طول وعرض میں کتنی برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہے؟۔ اس کے اعداد وشمار کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے۔ چھوٹی بچیوں کے سیکس کو کاروبار بنانے والے اور اس کے خریداروں پر پروگرام لوگوں نے ریکارڈ کئے ہیں۔ ڈارک ویب میں بھی ایسی مظلوم خواتین کو مظالم کے لئے استعمال کرنے کے کرتوت کو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ انہیں بے سہاراخواتین کے ذریعے ایسی خوفناک ویڈیوز کا رواج عمل میں آسکتا ہے۔
ٹانک شہر میں ایک برمی یا بنگالی پاگل عورت تھی ، جس کیساتھ کسی نے زیادتی کی تھی اور پھر اس کو حمل ہوا تھا اور جب اس نے بچے کو جن لیا تھا تو کسی نے بچہ اس سے چوری کیا تھا۔ ٹانک شہر پر دہشت گردی کا عذاب بھی اس انسانی المیہ کی وجہ سے آسکتا تھا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کے کچھ فتاویٰ جات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں کو اسلام کے نام پر کس طرح سے انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے ” شرعی نکاح منعقد ہوگیا ” کے فتوے ملوث کئے گئے ہیں؟۔ مفتی محمد شفیع تک کا اسلام یہ تھا کہ ” بیوی بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کرنا شوہر کے ذمہ نہیں ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے پھر بھی اس فتوے کو بدلنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ جب برمی یا بنگالی عورت ٹانک شہر میں پاگل ہوگئی تھی اور اس کا علاج شوہر کے ذمہ نہیں تھا تو اس نے چھوڑ ہی دینا تھا اور جب دلال کے ذریعے عورت خرید لی جاتی ہے تو اس کا والدین کے پاس واپس جانے کا بھی کوئی خاص امکان نہیں ہوتا ہے اسلئے کہ یہ دلال کا دھندہ ہوتا ہے۔ برمی اور بنگالی قوم کو چاہیے کہ ان غلط فتوؤں کے خلاف حکومت کے سامنے پرامن احتجاج کریں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے رونا بالکل بجا ہے اسلئے کہ قوم کی بیٹی ہے لیکن ہماری مسلمان برمی وبنگالی بہنیں، بیٹیاں اورمائیں بھی خنزیرکی اولاد نہیں ہیں کہ ان کیساتھ جو کچھ بھی غیرانسانی سلوک ہو تو اس کو جواز بخشا جائے۔
برمی بنگالی بچیاں اور خواتین تو عرفاً دوسری قوموں کی برابری بھی نہیں رکھتے اور مفتی تقی عثمانی نے عرف کو بھی واضح کردیا ہے لیکن دوسری قوموںکو بھی فکر مند ہونے کی بہت سخت ضرورت ہے اسلئے کہ پختون، بلوچ، سندھی، ہندی، پنجابی اور افغانی سب کے سب عجمیوں کیلئے بھی شیخ الاسلام ومفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی کے فتوؤں میں کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ جب ان پر ظالم وجابر کا تسلط ہوگا اور ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو اغیار اٹھاکر لے جائیں۔ ڈرادھماکر ان سے نکاح کرلیں تو پھر شرعی نکاح منعقد ہوگا اوروہ ان کی بیویاں ہوں گی۔ پھر عدالتوں سے بھی انصاف نہیں لے سکیں گے۔
ایک طرف عالمی سودی نظام کو اسلامی قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف اس طرح نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں اور عورتوں کے حوالے سے بھی بدترین انداز کی غلامی کا پورا پورا پروگرام موجود ہے۔ مجھے100فیصد معلوم ہے کہ ہمارے بڑے بڑے مدارس کے بڑے بڑے علماء ومفتیان کو بھی ان غلاظت سے بھرپور فتوؤں کا علم نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو تو اس کی بھنک بھی نہیں پڑی ہے۔ جب عالمی دہشت گردوں نے مظالم کے پہاڑ گرائے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے ان پر خراسان کے دجال کی حدیث فٹ کردی تھی۔
سوات میں لڑکیوں اور خواتین کیساتھ زبردستی سے نکاح کا معاملہ میڈیا پر سامنے آیا تھا اور انہوں نے مفتی تقی عثمانی کے فتاویٰ سے اپنے لئے جبری نکاح کا معاملہ اخذ کیا ہوگا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کی پہلی اشاعت جولائی2007کو ہوئی تھی۔ سوات میں طالبان کی کاروائیاں2008کے بعد شروع ہوئی تھیں اور فتاوی عثمانی جلد دوم سے جبری نکاح کے شرعی مسائل اخذ کئے ہوں گے۔
سب سے پہلے کسی چیز کے جواز اور عدم جواز پر بحث ہوتی ہے اور پھر اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔2008سے2013تک پانچ اضلاع کی حالت ایسی خراب تھی کہ لوگوں نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو بیچنا شروع کردیا تھا۔ ایک قرارداد خیبر پختونخواہ کی حکومت میں متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی کہ ان پانچ اضلاع سے خواتین اور لڑکیوں کو نکاح کے نام پر بیچنے کا کاروبار بند کیا جائے اور قرار داد جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی کفایت اللہ صاحب رکن صوبائی اسمبلی نے پیش کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ جن لوگوں کے خطرناک دانت ہم نے توڑ دئیے، ہمیں طلب کریں اور ہم صورتحال کو سمجھادیں گے۔ اگر قومی اسمبلی و سینٹ میں غلط فقہی مسائل کے خلاف بل اتفاق رائے سے منظور ہوں گے تو الیکشن میں ملک کی سطح پر جمعیت علماء اسلام و جمعیت علماء پاکستان جیت سکیں گے۔
مذہبی طبقات کو یہ گلہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا اویس نورانی نے اسلام کی تعلیمات چھوڑ کر مسلم لیگ ن کا دوپٹہ پکڑلیا ہے۔لیکن جب ان کو یہ پتہ چل جائے گا کہ خرابی مدارس کے ان فتوؤں میں ہے جن کو پان کی طرح چبایا اور چیونگم کی طرح گھمایا جاتا ہے اور اپنی مرضی سے جس ڈسٹ بن میں ڈالا جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی ہے لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔
برصغیر پاک وہند میں عورت اور بچیوں کا تحفظ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس میں باطل فتوؤں کی بہتا ت نے معاملے کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
افغان طالبان کے ہاں بھی فقہ کے بنیادی مسائل رکھ دئیے جائیں جو حنفی اصولِ فقہ کے منافی معاملات ہیں ان کو بھی سدھاردیا جائے تو اسلام دنیا کی سطح پر سب سے زیادہ محبوب اور قابل قبول دین بھی بن جائیگا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی عمر نکاح کے وقت16سال اور جب رخصتی ہورہی تھی تو19سال تھی۔ جس پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ایک حکیم نیاز احمدفاضل دارالعلوم دیوبند کی کتاب کشف الغمہ عن عمر عائشہ ہے ۔دیگر کتابیں بھی ہیں۔ بہت موٹی موٹی یہ ہیں کہ طبقات ابن سعد اور صحابہ کرام پر تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت ابوبکر کی ام رومان سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بعثت نبی ۖ سے پہلے تھے۔ جن میں حضرت عائشہ اور اسماء بنت ابوبکربیٹیاں تھیں۔ حضرت اسماء عمر میں10سال حضرت عائشہ سے بڑی تھیں۔ نبی ۖ نے بعثت کے بعد پہلے5سال دارارقم میں گزارے اور ان میں یہ دونوں بہنیں بھی موجود ہوتی تھیں۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ11نبوی کو حضرت عائشہ سے نکاح ہوا اور اس وقت ان کی عمر6سال تھی تو پھر ماننا پڑے گا کہ بعثت کے5سال بعد حضرت عائشہ پیدا ہوئیں۔ پھر مشرکین مکہ کیساتھ اتنے سخت خراب حالات کے باوجود اس عمر کے بعد ایسے دشمن سے رشتہ کیسے ہوا؟۔ حضرت عائشہ کی بہن16سالہ حضرت اسماء موجود تھیں تو خاتون نے6سالہ بچی کی پیشکش کیسے کی تھی؟۔ البتہ حضرت عائشہ کی عمر16سال اور حضرت اسماء کی عمر26سال ہو تو پھر یہ معقول بات تھی۔اللہ تعالیٰ نے مشرک کے نکاح کی اذیت سے بھی بروقت چھڑادی تھی اور جب رخصتی ہوگئی تو نبی ۖ نے فرمایا کہ ” اللہ نے مجھے خواب میںاس کی تصویر دکھائی تھی،میں نے سوچا کہ اگر خواب شیطان کی طرف سے ہوگا تو پورا نہیں ہوگا اور اللہ کی طرف سے ہوگا تو پورا ہوگا”۔ ( صحیح بخاری)۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا محمدی بیگم کو تنگ کرنا کس قدر بے غیرتی تھی؟۔ جھوٹے نبی اور سچے دجال نے یہ بھی نہیں سوچا کہ شیطان کی طرف سے ہوسکتا ہے اور جعلی وحی کی عربی بھی غلط لکھ ڈالی۔اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زباں سے”۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو وحی پنجابی میں نازل کروانی تھی؟۔ اس نے کہا کہ ” جو میری نبوت پر ایمان نہیں لاتا ہے تو وہ رنڈی کی اولاد ہے”۔ حالانکہ باپ کا کیا قصور تھا؟۔ پھر تو جو بعد میں قادیانی بن گئے تو ان کے آباء واجداد پر بھی رنڈی کی اولاد کا فتویٰ لگے گا۔
مفتی عبدالرحیم اورمفتی تقی عثمانی نے حاجی عثمان کے معتقد کیساتھ نکاح کو عمر بھر کی حرام کاری اور اولاد الزنا قرار دیا۔ اس فتوے کا شکار مفتی منیراحمد اخون مفتی اعظم امریکہ سے لیکر کتنے لوگ بنیں گے؟۔مسجد الٰہیہ کا امام وہ بنے جو مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرحیم کے اس فتوے سے برأت کا اعلان کرے ۔ورنہ اس کی ذات کیلئے بھی یہ بہت بڑی بے غیرتی ہے۔؟۔اگرچہ یہ غیرت نہیں رکھتے۔
اسلام کے نام پر بڑا دھبہ یہ ہے کہ بچیوں کا نکاح باپ دادا کے ذریعے اور دلال کے ذریعے معتبر قرار دیا اور بالغ لڑکی کے اغواء اور ڈرادھمکا کر نکاح کو بھی اجازت ورضامندی قرار دیا ۔
نکاح منعقد ہونے کیلئے سب سے بنیادی شرط عورت کی رضامندی ہے ۔ لیکن مفتی تقی عثمانی اور کم عقل فقہاء نے عورت کا یہ حق اس سے چھین لیا ہے۔ نکاح کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے بنیادی شرط بھی عورت کی رضامندی ہے۔ عورت خلع چاہتی ہو تو عورت کو نکاح میں رکھنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ نکاح سے نکلنے کیلئے عدت ہے لیکن کم عقلوں نے عدت کاتصور ختم کردیا ہے۔ قرآن میں پہلی عدت 4ماہ کی ہے جس میں شوہر نے طلاق کا اظہار نہ کیا ہو۔ قرآن گنجلک ،بے بنیاد، غلط فقہی مسائل وتضادات سے نکلنے کا بڑاراستہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں