پوسٹ تلاش کریں

حلالہ کی لعنت کے تحت صحافی محمد مالک کا پروگرام "ہم نیوز” پر خوش آئند ہے۔ علامہ طاہر اشرفی، قبلہ ایاز اور ڈاکٹر راغب نعیمی نے صوفیانہ جاہلیت سے کام لیا

حلالہ کی لعنت کے تحت صحافی محمد مالک کا پروگرام "ہم نیوز” پر خوش آئند ہے۔ علامہ طاہر اشرفی، قبلہ ایاز اور ڈاکٹر راغب نعیمی نے صوفیانہ جاہلیت سے کام لیا اخبار: نوشتہ دیوار

صحافی محمد مالک کا ”ہم نیوز” پر حلالہ کی لعنت میںپروگرام خوش آئند ہے، حلالہ سینٹرز سے زیادہ بڑا کردار دیوبندی بریلوی حنفی معروف مدارس کا ہے۔علامہ طاہر اشرفی ، قبلہ ایاز اور ڈاکٹرراغب نعیمی نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیکر لعنت کے اصل ذمہ دار کرداروں کے چہرے سے نقاب نہیں اُٹھایا ہے۔ آئیے، دیکھئے، سمجھئے! اسلام کے نام پر خواتین کی عزت کو تار تار کرنے والوںکا محاسبہ کیجئے،ورنہ کل اس کربِ عظیم کے شکار آپ بھی ہوسکتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حنفی مسلک کے امام ابن ہمام اورعلامہ بدر الدین عینی نے اپنے نامعلوم مشائخ کی طرف یہ منسوب کیا ہے کہ” حلالہ میں نیت دوخاندانوں کے ملانے کی ہو تویہ کارِ ثواب بھی ہے”۔ کیا”حلالہ” سینٹروں کیلئے لعنت اوراپنے حنفی مدارس کیلئے کارِ ثواب ہے؟

_ ذہنی پسماندگی کی انتہاء ا ور پاکستان ؟_
آج سے 70سال پہلے پاکستان اور نیویارک کا کیا حال تھا؟۔ دنیا نے جو ترقی70 سالوں میں کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ چین، جاپان،فرانس اور پاکستان کہاں سے کہاں پہنچے؟۔ گدھوں پر سفر کرنے والے قیمتی گاڑیوں تک پہنچ گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن نے تسخیرکائنات کا جو نظریہ دیا تھا اس میں پہلے دور میں مسلم سائنسدانوں کا بہت بڑا حصہ تھا لیکن مسلمان حکمرانوں نے جدید تعلیم کو عام کرنے کی جگہ اپنے محل سراؤں میں لونڈیوں اور تعمیرات میں تاج محل بنانے کو ترجیح دی اور سائنسی ترقی میں اپنا کوئی حصہ نہیں ڈالا۔ پاکستان نے پھر بھی اچھا کیا کہ ایٹم بم ، میزائل اور جدید ہتھیاروں میں اپنے سے کئی گنا بھارت کے مقابلے میں اپنی ایک حیثیت بنالی ہے۔ حالانکہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا راستہ پانی کے بہاؤ سے فائدہ اٹھاکر سستی بجلی اور زراعت کے شعبے میں ترقی تھی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ صاف پانی کو بھی آلودہ کردیا ہے۔ دریاؤں کے صاف پانی میں گٹر اور کارخانوں کیمیکل چھوڑرہے ہیںاور زیرزمین پانی کے ذخائر بھی انتہائی آلودہ کرکے اپنے ظاہر اور باطن تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہمارے پاس گرمی وسردی سے تحفظ کیلئے وافر مقدار میں سستی بجلی ہونی چاہیے تھی لیکن ائیرکنڈیشن تو دور کی بات ہے پنکھے اور لائٹ سے بھی پاکستان کے اکثر علاقے محروم ہیں۔اس کا ذمہ دار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاستدان سارامقتدرطبقہ ہے۔
صاف پانی سے گٹر لائن کو جدا کرکے پاکستان کے صحراؤں اور بنجر علاقوں میںبڑے پیمانے پر جنگلات اور باغات اُگائے جاسکتے ہیں۔ سستی بجلی سے اپنی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن ہمارا اشرافیہ بیرون ملک سے سودی قرضے لیکر اپنااثاثہ باہر ممالک میں منتقل کرکے اپنے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ۔ درخت اُگانا تو بہت دور کی بات ہے ،ہم اپنے جنگلات سے بھی اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

مذہبی پسماندگی کی انتہاء اور علمائ؟
ایک لڑکی کو حال میں طلاق ہوئی۔ علماء نے حلالہ کی لعنت کا فتویٰ دیاتو اس نے حلالہ کے تصور پر خودکشی کرلی۔ محمد مالک نے اہم موضوع ترک کیا اور حلالہ پر پروگرام کیا۔ قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا طاہر اشرفی اور مفتی راغب نعیمی نے حلالہ سینٹروں کی مخالفت کی۔ علامہ امین شہیدی نے اہلبیت اور صحابہ کے مسلک میں فرق بتایاکہ ہمیں کبھی اس مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ جبکہ اہل حدیث کے نزدیک بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع نہیں ہوتی ہیں
قرآن و سنت اور فقہ واصولِ فقہ کی رُو سے مسائل کا حل انتہائی آسان ہے لیکن جب مسائل کے حل کی جگہ پیچیدگی پیدا کرنے کی تقلید کی جائے تو اس مذہبی بیماری کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟۔ مسلک حنفی کی فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ” اگر نکسیر پھوٹ جائے (ناک سے خون نکلے) تو اس خون سے پیشانی پر سورۂ فاتحہ لکھنا جائز ہے اور اگر پیشاب سے سورۂ فاتحہ لکھا جائے تو بھی جائز ہے”۔ آج کل مساجد میں بڑے علماء ومفتیان نے روحانی علاج کے نام پر خواتین کا علاج شروع کررکھا ہے۔ کسی خوبصورت دوشیزہ یا خاتون کو اپنے جال میں پھانسنے کیلئے کوئی علامہ صاحب یہ تجویز پیش کرے کہ خون یا پیشاب سے سورۂ فاتحہ کوپیشانی پر لکھا جائے تو اس کا علاج ہوجائے گا ؟۔ تو سیدھا سادا مسلمان اپنی مشکلات کے ہر حل کیلئے علماء کے ایمان واسلام پر اعتماد کرے گا۔
اکبر بادشاہ کی بیٹی کا واقعہ مشہور ہے کہ گال پر بچھو نے ڈنگ مارا تو اسکے ہندو بیربل نے چوسنا شروع کیا کہ میں نے زہر نکالا۔ ملادوپیازہ نے پیشاب پر چیخنا شروع کردیا کہ بچھو نے ڈنک مارا ۔ چنانچہ بیربل کو اس کو بھی چوسنا پڑگیا تھا۔ ادنیٰ ایمان والے کو بھی یہ یقین نہیں ہوسکتا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھ کر علاج ہوگا؟۔ اسی طرح غیرتمند عورت خود کشی تو کرسکتی ہے لیکن حلالہ کی سزا پانے کے بعد اپنے شوہر کیلئے حلال ہونے کا تصور نہیں کرسکتی ہے اور یہی واقعہ ہوگیا۔

قرآن کی بے حرمتی اور مفتی؟
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب تکملہ فتح الملہم شرح مسلم اور فقہی مقالات میں صاحب ہدایہ کی کتاب کا حوالہ دیا کہ ” سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے” لیکن جب ہم نے عوام کو آگاہ کیا اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑاتو روزنامہ اسلام اور ہفت روزہ ضربِ مؤمن میں اپنی دونوں کتابوں سے یہ مسائل نکالنے کا اعلان کردیا۔ پھر وزیراعظم عمران خان کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کیاہے۔
اصولِ فقہ میں قرآن کی تعریف: المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبة”(جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے، آپۖ سے نقل ہے تواتر کیساتھ بلاشبہ )۔مصاحف میں لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں کیونکہ یہ محض نقوش ہیں۔متواتر کی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جیسے مشہور اور خبر احاد، بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ بسم اللہ کی قرآنیت میں شک ہے”۔
قرآن کی تعریف میں جو کفریہ عقیدہ ہے یہ جہالت، ہٹ دھرمی اور گمراہی ہے۔اگر قرآن تحریری شکل میں اللہ کا کلام نہیں تو سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے مصحف پر حلف لیا جائے تو یہ حلف نہیں۔ حالانکہ الکتاب سے مراد لکھی ہوئی کتاب ہے۔والقلم و ما یسطرون قلم کی قسم اور جو سطروں میں لکھا ہوا قرآن ہے اس کی قسم۔ پہلی وحی میں قلم کے ذریعے انسان کو وہ سکھانے کا ذکر ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اگر قرآن میں متواتر اور غیرمتواتر ہو تو پھر قرآن کے محفوظ ہونے پر ایمان کیسے باقی رہ سکتا ہے؟۔ اگر بسم اللہ کو مشکوک قرار دیا جائے تو پھر قرآن کو ذٰلک الکتاب لاریب فیہ کیسے کہنا درست ہوگا؟۔ جب مولوی قرآن کی تعریف بھی غلط پڑھتا اور پڑھاتا ہے تو اس کی بنیاد پر مسائل کیسے نکالے گا؟۔عربی میں کتابت کی گردان اورقرآنی آیات میں کتاب کی تعریف بھی نہیں سمجھی ہے۔

طلاق کے بعد صلح اوررجوع!
صحابہ سے زیادہ اسلام کو کس نے سمجھا؟۔ حضرت عمر نے اکٹھی 3 طلاق پر 3 کا فیصلہ جاری کیا اور حضرت علی نے حرام کے لفظ پر3 طلاق کا فتویٰ جاری کیا تو یہ قرآن کے عین مطابق تھا۔ اگر شوہر حرام کا لفظ استعمال کر دے یا 3طلاق کہہ دے اور بیوی صلح کیلئے راضی نہ ہو تو قرآن کے واضح احکام کا یہی تقاضہ ہے کہ وہ عورت اس طلاق کے بعدپہلے شوہر کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہرسے نکاح کرلے۔ اگر ایک طلاق کے بعد بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو قرآن کا یہی حکم ہے۔ قرآن میں بھرپور وضاحت ہے مگر جب عورت اس طلاق کے بعد صلح کیلئے راضی ہو تو قرآن نے کسی بھی حلالہ کے بغیر ہی رجوع کی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باربار واضح الفاظ میں اجازت دی ہے۔ قرآن کی وضاحتوں کے باوجود حلالہ کی لعنت کا فتویٰ انتہائی غلط ہے۔
پاکستان کے علماء و مفتیان اور افغانستان کے طالبان اپنے مسلک حنفی کے مطابق سب سے پہلے اپنی خواتین کو حلالہ کی لعنت سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں تو اس سے اسلام کی نشاة ثانیہ اور عورت کے حقوق کا وہ آغاز ہوجائیگاکہ ہندوستان کے مسلمان ، ہندو اور سکھ بھی اس کا خیرمقدم کریں گے۔ حلالہ کے نام سے غلط فتوؤں اور حلالہ سینٹروں سے اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کا بدترین استحصال ہورہاہے۔ جس میں کسی قسم کا کوئی دنیاوی مفاد یا غیرت کا بھی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مفادات کے خلاف اور انتہائی بے غیرتی کی بات ہے ۔ ہم نے ہر پہلو سے سیر حاصل بحث کرکے مسئلہ انتہائی آسان طریقے سے قابلِ قبول بنادیا جو ہمارا کمال قطعی طور پر نہیں بلکہ قرآن کی وضاحتوں کا کمال ہے۔ صرف توجہ ہو تو پھرشعور وآگہی کی ہوائیں چلیں گی۔ قرآن میں بار بار باہمی رضا سے رجوع کی وضاحت ہے اور باہمی رضا کے بغیر رجوع کی اجازت نہ ہونے کی وضاحت ہے۔رجوع کی علت 3طلاق نہیں ہے بلکہ باہمی رضامندی ہے۔ بقیہ صفحہ 2پر

اگر خواتین کو افغانستان میں اسلام کے مطابق آزادی اور تحفظ دیا گیا تو ان کی ویزوں کی مَد میں اچھی خاصی آمدن ہوسکتی ہے۔ طالبان ایران سے سستا تیل ، بھارت سے سستی دوائیاں اور پاکستان کے مزارعین سے سستی اناج لیں اور ان کے ساتھ تعاون ہو تو پھر اس خطے میں امن کی زنجیر اور خودمختاری کی تصویر بن سکتے ہیں۔ دوبئی ، سعودیہ اور مصر کا مولوی اپنی ریاستی پالیسی کا پابند ہوتا ہے۔ جو عورت سعودی عرب میں برقعہ کے بغیر نہیں گھوم سکتی وہ دبئی میں سمندر کے کنارے ننگی ہوسکتی ہے۔ جنوبی وزیرستان کانیگرم کی ندی اور شمالی وزیرستان درپہ خیل کی مسجد میں جوان بوڑھے ننگے نہاتے تھے۔ لیکن مولوی کو رسم و رواج اور ریاست کے خلاف بولنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

طلاق کے مقدمے میںبھی غلطیاں
سورۂ بقرہ کے دو رکوع میں طلاق اور اس سے رجوع کا تفصیلی ذکرہے۔
ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذًی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولا تقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فأتوھن حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرینO البقرہ222
” اور تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ یجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس عورتوں سے حیض میں علیحدگی اختیار کرو ،حتی ٰکہ وہ پاک ہوجائیں اور جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ، جیسے اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے”۔
حیض میں عورت کو تکلیف ہوتی ہے اور ناپاکی بھی۔ آیت کے شروع و آخر میں دونوں باتیں واضح ہیں۔ تکلیف سے توبہ اور گند سے پاکیزگی والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ اللہ نے حیض کو قذر ( گند) نہیں اذًی قراردیا۔ جس سے طلاق و عدت کے مسئلے میں عورت کی تکلیف کو پہلے نمبر پر رکھ دیا ہے۔ آنے والی آیات میں طلاق کے حوالے سے خواتین کو جن اذیتوں کا سامنا ہے ،ان کا حل ہے۔
نسائکم حرث لکم ……….ترجمہ:” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ، پس تم اپنے اثاثے کے پاس جیسے چاہو ،آؤ۔اور اپنے لئے آگے بھیجو( دنیا و آخرت کے مستقبل کو سنوارو) اور اللہ سے ڈرو،اور جان لو! بیشک تم نے اس سے ملنا ہے اور ایمان والوں کو بشارت دو”۔ (آیت223، سورةالبقرہ)
عربی میں حرث کھیتی کو بھی کہتے ہیں اور اثاثہ کو بھی۔ عناصر کی جو صفات ہیں وہ بھی اثاثہ کہلاتی ہیں۔ میٹر اور پراپٹیزکا یہ تعلق ایکدوسرے کیساتھ لازم وملزوم ہوتا ہے۔ جب کوئی استاذ اپنے شاگرد یا باپ اپنے بیٹے کو اپنا اثاثہ یا ایسٹ قرار دیتا ہے تو یہ بہت زیادہ اعزاز کی بات ہوتی ہے۔اگر میرے مدارس کے اساتذہ کرام مجھے اپنا اثاثہ یا ایسٹ قرار دیںگے یا میرا ملک پاکستان یا میرا وزیرستان مجھے اپنا اثاثہ قرار دے گا تو یہ میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہوگی لیکن اگر مجھے اپنی کھیتی ، گاجر اور مولی قرار دینگے تو میرے لئے اذیت کا باعث ہوگا۔ جب اپنی عورت کوکھیتی کے بجائے اپنا اثاثہ قرار دیا جائیگا تو عزت افزائی ہوگی۔
علماء نے نہ صرف عورت کو کھیتی قرار دیا بلکہ اس مسئلے پر دو متضاد قسم کی بہت ساری احادیث بھی درج کردیں کہ عورت کیساتھ لواطت جائز ہے یا نہیںہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر اور امام مالک کی طرف یہ منسوب ہے کہ اس آیت سے وہ نہ صرف عورت کیساتھ لواطت کو جائز سمجھتے تھے بلکہ آیت کے شان نزول کو یہ سمجھتے تھے کہ عورت کیساتھ لواطت کے جواز کیلئے نازل ہوئی ہے۔جس کا ذکر بہت سی کتابوں میں صراحت کیساتھ ہے اور صحیح بخاری میں بھی اس کا حوالہ موجود ہے۔ دوسری طرف حضرت علی اور امام ابوحنیفہ کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ اس عمل کو حرام اور کفر سمجھتے تھے اور اس کیلئے احادیث کے ذخیرے میں مواد بھی ہے۔

مقدمہ ٔ طلاق کی غلطی اور اسکے نتائج
اگر آیت 222میں اذیت سے گند کے بجائے تکلیف مراد لیتے تو پھر تضادات اور اختلافات کی ضرورت نہ ہوتی۔ ایک ایرانی نژاد امریکن خاتون کی کتاب میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایران میں ایک شخص نے کسی خاتون سے شادی کرلی اور وہ لواطت کرتا تھا جس کی وجہ سے عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی اور پھر عورت نے خلع کا مطالبہ کیالیکن شوہر خلع پر راضی نہیں تھا۔ آخر کار عورت کو حق مہر سے زیادہ رقم دیکر اپنے شوہر سے خلع کے نام پر جان چھڑانی پڑی تھی۔ کیا علماء ومفتیان کے نزدیک قرآن وسنت کے مطابق خلع کا یہ غلط تصور صحیح ہے؟۔
ولاتجعلوااللہ عرضة لایمانکم…….” اور اللہ کو مت بناؤ اپنی ڈھال اپنے عہدوپیمان کیلئے کہ تم نیکی کرو، پرہیزگاری اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ۔اور اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ آیت224: سورةالبقرہ)
ایمان یمین کی جمع ہے۔ یمین دائیں کو کہتے ہیں۔ دائیاں ہاتھ ملاکر عہد کیا جاتا ہے اور اس سے عہدوپیمان، قسم اور بیوی کو طلاق اور لونڈی کو آزاد کرنا وغیرہ سب مراد ہوسکتا ہے لیکن یہاں پر طلاق اور بیوی سے علیحدگی کے الفاظ مراد ہیں اور یہ آیت طلاق کیلئے بہت بڑا بنیادی مقدمہ ہے۔ میاں بیوی میں جدائی کے الفاظ کے بعد ان کو حلالہ کے بغیر ملانانیکی ، تقویٰ اور سب سے بڑھ کرصلح ہے۔ قدیم دور سے یہ روایت رہی ہے کہ محض الفاظ کی بنیاد پر مذہبی طبقات اللہ کو بنیاد بناکر میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتے رہے ہیں اور اسی رسم ورواج اور مذہبی فتوے کو ختم کرنے کیلئے قرآن کی ان آیات میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ ” مذہبی طبقے اللہ تعالیٰ کو ڈھال بناکر کسی کے عہدوپیمان اور طلاق صریح وکنایہ کے الفاظ بناکر عوام خاص طور پرمیاں بیوی میں صلح کرانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کریں”۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی صورت نہیں رکھی ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور اللہ نے ان میں رکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی لفظ ڈالا ہو۔ اگر یہ ثابت ہوجائے تو پھر قرآن میں یہ بہت بڑا تضاد ہوگا۔ قرآن میں مخالفین کی خبر تھی کہ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو پھر اس میں بہت سارا اختلاف (تضاد) وہ پاتے”۔
لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ……….”اور اللہ تمہیں لغو عہدو پیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر تمہیں پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔ سورۂ بقرہ کی اس آیت 225کو سیاق وسباق کیساتھ دیکھا جائے تو اس سے مراد یہی ہے کہ طلاق کے صریح وکنایہ کے تمام الفاظ میں لغو الفاظ پر اللہ نہیں پکڑتا ہے مگر وہ دلوں کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ اس آیت سے طلاق کا موضوع نکال کر قسم پر بحث کی گئی ہے ۔جس میں فقہی تضادات ہیں۔ حالانکہ سورۂ مائدہ میں ہے کہ ذٰلک کفارة ایمانکم اذاحلفتم ”یہ تمہارے عہدوںکا کفارہ اس وقت ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یمین عہدوپیمان کو بھی کہتے ہیں اور قسم کو بھی۔ جہاں یمین سے مراد حلف ہوگا تو وہاں پختہ قسم کھانے پر اس کا کفارہ بھی دینا ہوگا۔ سورۂ بقرہ کی ان آیات میں یمین سے مراد حلف نہیں ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ طلاق ، عتاق(لونڈی یا غلام کو آزاد کرنا) ، رجعت (طلاق سے رجوع) سنجیدگی میں بھی معتبر ہے اور مذاق میں بھی معتبر ہے۔ جب شوہر طلاق دے لیکن دل کا ارادہ نہ ہو تو پھر فیصلہ قرآن کے مطابق ہوگا یا حدیث کے مطابق؟۔ قرآنی آیت اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ۔ مذاق یاسنجیدگی سے شوہر نے لغو طلاق دی ،اگر عورت راضی ہے تو اللہ نہیں پکڑتا اور اگر عورت راضی نہیں ہے تو وہ طلاق کے لغو لفظ پر بھی پکڑ سکتی ہے۔ طلاق میں شوہر کو مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور خلع میں عورت کو طلاق کے مقابلے میں کچھ مالی حقوق سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ قرآن کی اس آیت اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

طلاق کا اظہار نہ کیا تو بھی مسئلہ حل!
ایک بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اگر شوہر طلاق نہیں دیتا ہے مگر اس کی بیوی سے ناراضگی رہتی ہے تو بیگم کو کتنی مدت تک اس انتظار کی مدت گزارنی پڑے گی؟۔ کیونکہ طلاق کے عزم کا اظہار شوہر نے نہیں کیا ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مسئلے کو سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر حل کردیا ہے تاکہ عورت کو اذیت سے بچایا جاسکے۔ اگر علماء وفقہاء اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیتے تو سرخروہوجاتے۔
للذین یؤلون من نساء ھم تربص………” جو لوگ اپنی بیگمات سے لا تعلقی اختیار کرلیں تو ان کیلئے انتظار ہے چار مہینے کا۔ پس اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے” ۔ (سورۂ البقرہ آیت226) یہاں ایک بات یہ اچھی طرح واضح ہے کہ ناراضگی کی صورت میں عورت کی عدت 4ماہ ہے اور دوسرا یہ کہ ناراضگی کے بعد صرف مرد کا راضی ہونا ضروری نہیں بلکہ عورت کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عورت راضی نہیں تو چار ماہ کی عدت کے بعد وہ دوسرے شوہر سے شادی کرسکتی ہے۔ اگر شوہر کو ناراضگی اور پھر یکطرفہ طور سے چار ماہ میں راضی ہونے کا اختیار دیا جائے تو یہ عورت کیساتھ بہت بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ کا ظالمانہ قانون ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت دینے کیلئے یہ آیت نازل نہیں کی ہے بلکہ اذیت سے اس کی جان چھڑانے کیلئے یہ حکم نازل کیا ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب چار ماہ تک رجوع نہیں ہوا تو پھر وہ عورت طلاق ہوگی لیکن جمہور فقہاء کے نزدیک طلاق کیلئے الفاظ ضروری ہیں، جب تک شوہر طلاق کا لفظ استعمال نہیں کرے گا تو وہ عورت زندگی بھر نکاح میں رہے گی۔ ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آیت ایک ہے مگر اس کا نتیجہ بالکل مختلف اور متضاد نکالا گیا ہے، تو کیوں؟۔اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے عورت کا حق اور اس کی عدت کوہی واضح کردیا تھا لیکن فقہاء نے عورت کو نظر انداز کرکے اختلاف وتضاد اسلئے پیدا کیا کہ حنفی کہتے ہیں کہ چار ماہ تک شوہر نہیں گیا تو اس نے اپنا حق استعمال کرلیا اور جمہور ائمہ کہتے ہیں کہ جب تک طلاق کا لفظ نہ کہے تو شوہر نے طلاق کا حق استعمال نہیں کیا۔ اگر عورت کی اذیت کا خیال رکھا جاتا تو پھر یہ تضادات نہ ہوتے۔ جب بیوہ عدت کی تکمیل کے بعدبھی اپنے شوہر سے اپنا تعلق برقرار رکھنا چاہتی ہے تو موت اور قیامت تک اسکا نکاح برقرار رہتا ہے۔ نشانِ حیدر اورستارہ جرأت پانے والے فوجی شہداء جوانوں کی جوان بیگمات اسوقت تک اپنے شوہروں کے نکاح میں ہوتی ہیں جب تک دوسرا نکاح نہ کرلیں اس طرح جس کا شوہر ناراض ہوجائے تو اگر چار ماہ کی عدت مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے شوہروں سے تعلق قائم کرنے پر راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے اور نکاح بھی قائم ہے لیکن اگر عورت اپنا ناطہ توڑ لے تو نکاح باقی نہیں رہتا ہے اور چار ماہ کی عدت کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے اور بہت سارے مسائل کا بہترین حل بھی ہے۔

قرآن سے گھمبیرمسائل کا حل مگر؟
وان عزموا الطلاق ……” اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو بیشک اللہ سنتا اور جانتا ہے”۔ ( آیت227، سورہ بقرہ)۔
اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتا اور جانتا ہے اور اس پر پکڑبھی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم نہیں تھا تو پھر یہ دل کے گناہ کی بات نہیں ،پھر عدت ایک ماہ بڑھنے پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ آیات225،226اور227ایک دوسرے کی زبردست تفسیر ہیں اور ان میں خواتین کے مسائل حل ہوئے ہیں ۔
والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ……….” اور طلاق والی اپنے نفسوں کو انتظار میں رکھیں تین ادوار تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیںجو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا ،اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہیں اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کے حقدار ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہیں اور ان کے حقوق ہیں جیسے ان پر حقوق ہیں معروف طریقے سے اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ”۔ ( آیت228سورة البقرہ)
جاہلیت میں ایک یہ برائی تھی کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد شوہر حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا تھا،دوسری برائی یہ تھی کہ عدت میں شوہر جتنی بار چاہتا تو ایک ایک مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کرسکتا تھا۔ اس آیت کا کمال یہ ہے کہ جتنی بار اور جتنی تعداد میں طلاق دی جائے رجوع کا تعلق صلح اور عدت کیساتھ ہے۔ دس بار طلاق کے بعد بھی عدت میں اس آیت کی وضاحت سے رجوع ہوسکتا ہے ۔
اس آیت میں واضح کیا گیاہے کہ عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح سے یکساں حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے اسلئے کہ مردوں کا طہر وحیض اور عدت کا مسئلہ نہیں۔ اس وجہ سے حق مہر اور دوسرے معاملات میں عورت کو بہت سی رعایتیں حاصل ہیں۔
رسول اللہۖ ، حضرت ابوبکر کے دور میں اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ جاری کردیا اور فرمایا کہ جس چیز کی اللہ نے رعایت دی تھی ۔ تم لوگوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھایاہے”۔ (حضرت ابن عباس :صحیح مسلم)
حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ کیا تھا اسلئے کہ اگر عورت راضی ہوتی تو حضرت عمر کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ صحابہ اور تابعین کیلئے قرآن کو سمجھنا مسئلہ نہیں تھا۔ ایک طلاق کے بعد بھی باہمی صلح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں تھی۔ جب شوہر نے تین طلاق کا لفظ کہہ دیا تو عورت ڈٹ گئی۔ جب حضرت عمر کے پاس مسئلہ پہنچا تو قرآن کے مطابق وہی فیصلہ کیا جو آیت میں واضح ہے کہ باہمی صلح واصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔
صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ نے حضرت عمر کے فیصلے کی تائید کی۔ یہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب قرآن کو چھوڑ کر فتویٰ دیا جائیگا کہ باہمی صلح کے باوجودبھی حلالہ کی لعنت کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ حنفی مسلک اور تمام مسالک کے بنیادی اصول کا تقاضہ ہے کہ آیت کے مقابلے میں کوئی ایسی حدیث بھی ہوتی کہ عدت میں تین طلاق کے بعد بھی باہمی اصلاح کے بغیررجوع نہیںہوسکتاہے تو اس حدیث کو یکسر رد کردیا جاتا۔ حلالہ کی لذت نے بڑے بڑوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی زحمت پر مجبور نہیں کیا ۔
یہ رکوع ختم ہوا۔ اللہ نے عورت کی اذیت کا لحاظ رکھتے ہوئے جاہلیت کی رسوم کو ختم کیا ۔ناراضگی میں طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں چار ماہ کی عدت ہے اور طلاق کااظہار کرنے کے بعد تین ماہ تک انتظار ہے اور تین طلاق کے بعد بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے اور طلاق کے بعد صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے مگر علماء نے اس رکوع سے اہم ترین مسائل کااستنباط نہیں کیا۔

قرآن میں تضادات بالکل بھی نہیں
پھر دوسرا رکوع شروع ہوتا ہے۔ قرآن میں تضادات نہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ قرآن عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت بھی دے اور پھر دوسری آیت میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق پر عدت ہی کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ بند کردے۔ اور نہ ایسا ہوسکتا ہے کہ آیت 228 میں صلح کی شرط کے بغیر رجوع کا حق نہ دے اورآیت229 میں ایک مرتبہ نہیں دومرتبہ طلاق کے بعد بھی اصلاح کی شرط کے بغیر رجوع کا حق دے۔ قرآن میں یہ تضادات دشمن بھی نہیں نکال سکتے تھے لیکن اپنے نالائق مسلمانوں نے قرآن میں تضادات پیدا کرکے اسلام کوبالکل ا جنبی بنادیا ہے۔
الطلاق مرتٰن ………” طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لو۔ مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر وہ قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پرنہیں رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ عورت کی طرف سے اس کو فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں۔ ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ ( آیت 229سورة البقرة)
اس آیت 229کے پہلے حصے کا آیت228 سے یہ ربط ہے کہ طلاق شدہ عورتوں کی عدت کو واضح کیا گیا تھا کہ تین ادوار ہیں۔ یعنی تین طہرو حیض ۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار سے ہے۔ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟، جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ” آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تسریح باحسان تیسری مرتبہ احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری مرتبہ کی طلاق ہے”۔
بخاری کی کتاب الاحکام ، کتاب التفسیر، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار طہرو حیض سے ہے۔ سورة الطلاق کی پہلی آیت میں بھی بہت وضاحت کیساتھ یہ موجود ہے کہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور جب عورت کو حمل ہو تو پھر عدت کے تین مراحل ہیں اور نہ ہی تین مرتبہ طلاق بلکہ وضع حمل تک ایک ہی عدت ہے۔ رجوع کا تعلق بھی بچے کے پیدائش سے متعلق ہوجاتا ہے۔ چاہے 8یا9ماہ ہوں یا3یا4ہفتے، دن ،گھنٹے، منٹ یا سکینڈ۔ عورت کی عدت ختم ہونے کے بعد اس کو دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ البتہ عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے بار بار باہمی رضامندی سے رجوع کی وضاحت کی ہے۔
آیت229کے دوسرے حصے کا تعلق تین مرتبہ طلاق کے بعد کے مرحلہ سے ہے لیکن افسوس کہ اس سے بالکل باطل طورپر خلع مراد لیا گیا ہے اور یہ آیت 230 کیلئے مقدمہ ہے جس کو فقہ حنفی کی اصولِ فقہ میں بھی ثابت کیا گیاہے۔

_ معرکة الآراء مسئلے کا قرآن میں حل _
فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ……. ”پس اگر پھر اس نے طلاق دی تواس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہرسے نکاح کرلے۔ پس اگر اس نے پھر طلاق دی تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ اگر وہ آپس میں رجوع کریں۔ اگر ان کو یہ گمان ہو کہ اللہ کی حدودپر وہ دونوں قائم رہ سکیں گے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے بیان کئے جار ہے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں”۔ (آیت230 سورة البقرہ)
قرآن نے جاہلیت کی ایک ایک باطل رسم کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ شوہروں کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیگم سے طلاق یا خلع کے بعدکوئی اور شادی کرلے۔ تہمینہ درانی سے مصطفی کھر کی طلاق کے بعد شہباز شریف کی شادی ہوئی تھی تو جنرل مشرف دور میں دونوں کے اس قدیم اورجدید رشتے کو اس وقت پنجاب کے جیالے صحافیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب وہ ایک ساتھ جہاز میں تشریف لائے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے خلع لیکر خاور مانیکا کی بیگم سے شادی کرلی تو بشریٰ بی بی کی اولاد نے بھی اس کا انکار کیا تھا۔ اور کچھ نہیں ہے تو روایتی غیرت کے مقابلے میں عمران خان نے ایک شرعی مسئلے کو معاشرے میں زندہ کرکے مدینے کی ریاست کا آغاز ضرور کردیا۔ عمران خان کا یہ اقدام غیرمعمولی اسلئے نہیں تھاکہ جمائماخان کو بھی آزادی سے جینے کا حق دیا تھا البتہ ریحام خان کیساتھ یہ زیادتی ضرور ہوئی تھی کہ عمران خان سے طلاق کے بعد لندن سے پاکستان آتے وقت قتل کی سنگین دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اور اس کی وجہ PTMوالے یہی بتاسکتے ہیں کہ آخر وہ ایک پٹھان تھی۔
آیت229کے پہلے حصے کا تعلق آیت228کی مزید وضاحت ہے اور آیت229کے آخری حصے کا تعلق آیت230سے ہے۔ بدقسمتی سے اس کو خلع قرار دیا گیا۔ حالانکہ دو،تین بار طلاق کے بعد خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ جب حدیث میں بھی واضح ہے کہ تیسری طلاق کا تعلق طلاق مرتان کے بعد او تسریح باحسان کیساتھ ہے اور آیت230میں فان طلقہا کا تعلق آیت 229کیساتھ کے آخری حصہ فدیہ دینے کیساتھ حنفی مسلک ہے اور علامہ ابن قیم نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو پھر ان سارے حقائق کو کھاکر کس طرح ہضم کرکے ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کو مسلط کیا جارہاہے ؟۔ حلالہ کی لذت آشناؤں اور اس کو ایک منافع بخش کاروبار بنانے والوں کو سزاؤں کے بغیر روکنا ممکن نہیں لگتا ہے۔
واذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف …….. ”اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور وہ اپنی مدت کو پہنچ گئیں تو ان کومعروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور ان کو ضرر پہنچانے کیلئے مت روکو، تاکہ تم اپنی حد سے تجاوز کرواور جو ایسا کرے گا تو اس نے بیشک اپنے نفس پر ظلم کیا۔اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔اور ملاحظہ کرو جو اللہ نے تم پر نعمت (بیوی)کی ہے اور جو اللہ نے کتاب میں سے (رجوع کے) احکام نازل کئے ہیں۔ اور (جو اللہ نے تمہیں) حکمت ( عقل وسوچ کی صلاحیت)دی ہے ، جس کے ذریعے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ اور ڈرو اللہ سے اور جان لو کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرہ: آیت231)
یہ دوسرا رکوع ختم ہوا۔ باہمی اصلاح سے جس طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے ،اسی طرح عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح سے اللہ نے رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ نے 230البقرہ میں جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی وضاحت فرمائی ہے تو اس سے پہلے بھی اس صورت کا ذکر ہے کہ جس میں بہرصورت جدائی پر سب تلے ہوں۔

حلال نہ ہونے کا ذکر بار بار ہواہے
جب آیت226البقرہ میں واضح ہے کہ ناراضگی کے بعد جب عورت کی رضامندی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پھر شوہرکیلئے وہ حلال نہیں ہے۔ اسی طرح آیت228میں واضح ہے کہ ” اس عدت میں شوہروں کو اصلاح کی شرط پر انکے لوٹانے کا حق ہے”۔جس کا مطلب یہی ہے کہ اصلاح کی شرط کے بغیر شوہروں کیلئے ایک طلاق کے بعد بھی لوٹانا حلال نہیں ہے۔ اسی طرح آیت229میں ہے کہ ” طلاق دومرتبہ ہے۔ پھر معروف کے ساتھ روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ اس آیت میں بھی یہ واضح ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر روکنا حلال ہے اور صلح و معروف کی شرط کے بغیر دو طلاق کے بعد بھی روکنا حلال نہیں ہے۔ ان آیات میں دماغ کے بند دریچے کھولنے کی ہرسطح پر زبردست وضاحتیں ہیں اور ایک ایک آیت میں ایک ایک طلاق کے بعد یہ واضح ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا قطعی طور پر حلال نہیں ہے۔ آیت230سے پہلے اس صورت کی وضاحت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کا عورت کو دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی واپس کرنا حلال نہ ہو لیکن جب دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ اس چیز کی وجہ سے آپس میں رابطہ ہوسکتا ہے اور اللہ کی حدود پامال ہوسکتے ہیں تو پھر اس چیز کا عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی قرآن کے ترجمہ میں اتنی فاش غلطی کردی ہے لکھا ہے کہ ” عورت فدیہ دیکر خلع لے”۔ حالانکہ دو، تین بار طلاق کے فیصلے کے بعد خلع کا کوئی تُک نہیں بنتا ۔ علماء کرام کی یہ صفت بہت اچھی ہے کہ اپنے اکابر کی غلطی پر گرفت کو اچھا سمجھتے ہیں لیکن جاہل جماعت اسلامی والوں نے مولانا مودودی کو اپنے مال واسباب کمانے کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ آیت229کے آخری حصے میں بھرپور طریقے سے یہ وضاحت ہے کہ دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ نہ صرف یہ تعلق ختم ہو بلکہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ باقی نہ رہے۔ اس صورت میں پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو اس طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی مرضی سے دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کی اجازت دیتا ہے یانہیں؟۔ اس گھمبیر رسم کا خاتمہ بھی قرآن ہی نے کردیا ہے اور یہ عورت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے زیادہ احسان کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ جہاں تک حلالہ کے بغیر نکاح ناجائز ہونے کا تصور ہے تو آیت231اور پھر آیت232میں اللہ تعالیٰ نے عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی کیساتھ حلالہ کئے بغیر رجوع کی زبردست الفاظ میں اجازت کو واضح کیا ہے۔ قرآن میں ایک بھی تضاد نہیں ہے لیکن علماء کے غلط فہم نے قرآن کو بازیچۂ اطفال بنایا ہے۔ دنیا قرآن پر ایمان نہ رکھے لیکن مانے گی ضرور۔

قرآن حدیث میں کوئی تصادم نہیں
صحیح حدیث کو احناف نے رد کیا ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ، باطل ، باطل ہے” ۔ کہ یہ آیت 230 سے متصادم ہے۔ حالانکہ جب شوہر طلاق دیتا ہے تو وہ عورت پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے کہ اس کا یہاں وہاں نکاح نہ ہو۔ لیڈی ڈیانا کو اسی لئے قتل کیا گیا کہ شہزادہ چارلس کیلئے یہ غیرت کا مسئلہ تھا اور نبیۖ کی ازواج سے ہمیشہ کیلئے نکاح کو اسلئے ناجائز قرار دیا گیا کہ اس سے نبیۖ کو اذیت کا سامنا ہوسکتا تھا۔ کنواری لڑکیوں کا بھاگنا حنفی مسلک کا نتیجہ ہے۔ عورت کی شادی کیلئے رضا کو نبیۖ نے ضروری قرار دیا تھا لیکن فقہی مسالک کے ارباب نے ولی کے جبری اختیار کے حوالے سے عجیب وغریب قسم کی متضاد فضولیات بکی ہیں۔
جن احادیث کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کو جواز بخشا گیا ان میں یہ حقیقت نظر انداز کی گئی کہ ایک شوہر کا فعل ہے کہ اکٹھی تین طلاق دے اور دوسرا باہمی رضامندی سے رجوع کی بات ہے۔ قرآن نے رجوع کیلئے باہمی رضامندی کو بنیاد بنایا ہے۔ فحاشی کی صورت میں شوہر ایک ساتھ فارغ کرنے کیلئے تین طلاق دے یا غصہ کی صورت میں تین طلاق کے الفاظ نکل جائیں اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو انسانی فطرت اور دنیا کی ہر عدالت کا یہی فیصلہ ہوگا کہ عورت کو شوہر سے خلاصی پانے کا بھی حق ہے اور شوہر کا عورت سے خلاصی پانے کا بھی حق ہے۔ قرآن نے باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہے تو ٹھیک ہے۔
جس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبیۖ نے رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد عورت کا زبیر القرظی سے شادی کے بعد فرمایا کہ ”جب تک اس کا ذائقہ نہ چکھ لو، رفاعہ کے پاس واپس نہیں جاسکتی ہے”۔ پہلی بات یہ ہے کہ حدیث خبر واحد ہے جو قرآن کی وضاحت سے متصادم ہونے کے بعد قابلِ عمل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ دوسرا شوہر نامرد تھا اور حلالہ کی صلاحیت سے محروم تھا تو نبیۖ کس طرح حکم دیتے ؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ رفاعہ نے مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں اور وہ عورت دوسرے شوہر کی بیگم بن چکی تھی اسلئے محض رجوع کا نہیں بلکہ اس شوہر سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ بخاری میں ہے کہ اس عورت کے جسم پر مار کے نشانات حضرت عائشہ نے بیان کئے اور اسکے شوہر نے اپنے بچوں کو ساتھ لاکر اپنے نامرد ہونے کی تردید کی۔
جہاں تک اکٹھی تین طلاق واقع اور اس پر نبیۖکے غضبناک ہونیکا تعلق تھا تو حضرت عبداللہ بن عمر پر غضبناک ہونے کے باوجود بھی رجوع کا حکم فرمایاتھا۔ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا مفاد عورت کے حق میں اس وقت ہے کہ وہ رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق اور ناراضگی کی صورت میں بھی عورت کے اس حق کی قرآن میں وضاحت ہے۔سورۂ بقرہ آیت232میں اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی اسی مؤقف کی بھرپور وضاحت اللہ نے کردی ہے اور کوئی صحیح حدیث قرآن سے متصادم نہیںمگر فقہاء نے آیات کومتصادم بنادیا ہے۔
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ………
” جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو ان کو اپنے شوہر سے نکاح کرنے سے مت روکو۔ جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ اس کو نصیحت ہے جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اور طہارت ہے ۔ اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے” ۔
یہ آیت232البقرہ اور تیسرا رکوع شروع ہے۔ یہ طلاق سے رجوع کیلئے قول فیصل ہے اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی ان آیات کا خلاصہ ہے جس میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور طلاق کے فیصلے کے بعد کافی مدت گزرنے کے بعد بھی اللہ نے باہمی صلح سے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں