پوسٹ تلاش کریں

خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟

خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟ اخبار: نوشتہ دیوار

خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟

مہوش نے پشاور سٹریٹ چائلڈ بھیک مانگتے بچوں ،بچیوں کیلئے ادارہ کھولا۔6سالہ بچی کوباپ فروخت کرنا چاہتا تھا تو ماں نے انکے حوالے کردی۔ مفتی تقی عثمانی کے” فتاویٰ عثمانی جلد دوم”میں ہے کہ باپ نابالغ بچی کو نکاح کے نام پر کسی کو دے سکتا ہے۔ بچی بالغ ہوجائے تب بھی وہ چھٹکارا نہیں پاسکتی۔ سندھ کی یتیم اُم رُباب سالوں سے مقتولین باپ اور چچوں کیلئے انصاف مانگ رہی ہے۔
خلع عورت اور طلاق مرد کا حق ہے۔ ریاست نے عورت کو خلع کا حق دیا۔ علماء ومفتیان یہ حق نہیں دیتے ۔عدالتوں سے خلع لینے والی خواتین کو معاشرتی اور شرعی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم بار باریہ مسئلہ اسلئے اٹھارہے ہیں کہ معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف نے لی ہے۔ جس دن عوام اورتمام مکاتب فکر کے علماء حق نے یہ معاملہ اٹھایا تو بڑا انقلاب برپا ہو گا۔ اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ
”اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم عورتوں( بیگمات) کے زبردستی سے مالک بن بیٹھو اور نہ ان کو( خلع سے) روکوتا کہ جو تم نے ان کو دیا ہے ان میں سے بعض واپس لے لو مگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھو۔ اگر وہ تمہیں بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں خیر کثیر بنادے ”۔( النساء :آیت19)
اس آیت میں عورت کو خلع کا حق ہے۔ عورت کو شوہر پسند نہیں تو اس کیساتھ رہنے پر مجبور نہیں۔ عورت چاہے تو شوہر کو چھوڑ سکتی ہے ۔ خلع میں حق مہر سمیت جو چیزیں شوہر نے دی ہیں وہ ساتھ لے جاسکتی ہیں مگر کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں تو بعض چیزوں سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت سے دوسری خواتین مراد لینا انتہائی درجہ کی جہالت ہے اسلئے کہ ان کا مالک بننا، دی ہوئی چیزوں سے محروم نہ کرنا مگر کھلی فحاشی میں؟۔ اس سے دوسری خواتین کا کیا تعلق بنتاہے؟۔
جب عورت خلع لیکر جارہی ہو تو شوہر کو برا لگتا ہے اور بدسلوکی کا اندیشہ رہتا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ”ان سے اچھا سلوک کرو، اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز بری لگے اور اس میں تمہارے لئے اللہ خیر کثیر پیدا کرے”۔
اگر غور کیا جائے تو قرآن کے ایک ایک لفظ میں بڑی حکمت ہے۔ اللہ نے انسان کیلئے اس کی منکوحہ بیگم میں سب سے بڑی بات عزت کی رکھی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو اس کی عزت پر بات نہیں آتی۔ گھر کاسکون تباہ نہیں ہوتا۔
خلع میں حق مہر نہیں لیکن مکان اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبرداری ہے۔ شرعی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر واپس کرنا ہوگا۔ حالانکہ قرآن میں واضح ہے کہ خلع کی صورت میں شوہر کی دی ہوئی چیزوں کو بھی لیجانے سے روکنے کی گنجائش نہیں ۔ طلاق میں منقولہ و غیرمنقولہ تمام دی ہوئی اشیاء میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ۔ سورہ النساء کی20،21میں بھرپور وضاحت ہے۔من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ”کچھ یہود ی کلمات کو اپنی جگہوں سے بدلتے تھے”۔ (النساء :آیت46) علماء نے یہود کی پیروی میں قرآن کی معنوی تحریف کلمات کو اپنی جگہ سے ہٹانے کا ارتکاب کرلیا۔ چنانچہ سورہ النساء آیت19کی جگہ سورہ بقرہ آیت229سے خلع مراد لیا ۔ حالانکہ اس سے طلاق مراد ہے خلع مراد نہیں ہوسکتاہے۔ اسرائیل فلسطین پر ظلم کرتاہے، حکمران ظلم کا تدارک نہیں کرے تو مجرم بنتا ہے۔ اُم رُباب انصاف کیلئے ٹھوکریںکھا رہی ہے۔ سب کی اتنی اوقات کہاں ہے؟۔GHQکا محمد بن قاسم سندھی بچی کی دادرسی کیلئے پہنچ گیا۔ یہود سے زیادہ مجرم علماء ہیں جو اسلام کو مسخ اورخواتین کا حق غصب کر تے ہیں، آئین قرآن و سنت کا پابند ہے۔ شرعی وغیر شرعی عدالتوں کے جج اور علماء ومفتیان قرآن وسنت سے جاہل ہیں۔ خلع میں مالی معاملہ یوں ہے کہ اگر عورت خلع لے تو اسکے مالی حقوق کم ہیں جبکہ طلاق میں زیادہ مالی حقوق ہیں۔حق مہرکا تعلق اللہ نے خلع وطلاق سے نہیں رکھا ہے بلکہ عورت کو ہاتھ لگانے سے رکھا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی توپھر آدھا حق مہر ہے ۔ عورت کی اتنی بڑی عزت وحرمت اللہ نے رکھی ہے اور ہاتھ لگانے کے بعد طلاق دی تو پورا حق مہر اور دی ہوئی تمام اموال وجائیداد ۔ لعان بھی مالی معاملہ ہے۔ اگر عورت کو کچھ دی ہوئی چیزوں سے کھلی فحاشی میں محروم کرنا ہے تو پھر لعان کرنا ہوگا۔ اسلام پر عمل ہوگا تو پوری دنیا میں میاں بیوی کے حقوق اسلامی و فطری بنانا لوگ شروع ہوجائیں گے جو انقلاب ہوگا۔
اگر شرعی عدالت کے جج نے خلع کا فیصلہ مولوی کی شریعت پر کیا ہے تب بھی وہ جاہل ہے اسلئے کہ علماء ومفتیان کہتے ہیں کہ خلع لینے کیلئے عورت کا عدالت میں جانا شریعت کے خلاف ہے۔ عورت عدالت سے خلع نہیں لے سکتی ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے عدالت سے خلع کے مقدمہ کو درست قرار دیا تھا جس کا علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی حوالہ دیا ہے اور مفتی عبدالسلام چاٹگامی اسلامی بینکاری کے نام پر سودی نظام کے بھی خلاف تھے۔
موجودہ بنوری ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ اسلاف سے پھرگئی ۔ مدرسہ کاروبار اورگمراہی کا مرکز بنادیا۔ اگر مولانا امداداللہ نے اسلامی بینکاری کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی کی تائید کی تو ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید،مفتی نظام الدین شہید، مفتی عبدالسلام چاٹگامی، مفتی سعید احمد جلالپوری شہید کے فتوے کہاں گئے؟۔ مولانا سید محمد بنوری شہید کی شہادت پر خراج تحسین پیش نہیں کیا؟۔ حالانکہ شیعہ کافرفتوے کی مخالفت اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت میں مولانا بنوری شہید کا کلیدی کردار تھا، جامعہ بنوری ٹاؤن نے بنوری شہیدکا مؤقف اپنایا۔ مولانا فضل محمد نے لکھا کہ ”مولانا عطاء الرحمن سے میری کبھی بھی تلخی نہیں ہوئی ہے”۔ حالانکہ اس کیلئے جرأت درکار تھی جو مولانا فضل محمد میں نہیں تھی۔اب فلسطین کے مسئلے پر اسلام آباد کانفرنس بریلوی، دیوبندی ،اہلحدیث اتحاد نہیں تھا بلکہ شیعہ مخالف قوتوں کی عالمی سازش تھی۔ تاکہ مسئلہ فلسطین کی آڑ میں ایران اور سعودی عرب یا حماس و حزب اللہ کے درمیان تفریق کیلئے راستہ ہموار ہو؟۔
مولانا اشرف علی تھانوی تک نے حیلہ ناجزہ میں لکھ دیا ہے جس کو دارالعلوم کراچی والے اپنے علمی اثاثہ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ” اگر شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں اور پھر مکر گیا۔ بیوی کے پاس گواہ نہیں تھے تو خلع لینا فرض ہوگا اور شوہر مال کے بدلے بھی خلع نہ دے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہے اور اس صورت میں عورت مباشرت کی پابند ہے لیکن لذت نہ اٹھائے”۔
بنوری ٹاؤن کراچی سے بھی ابھی حال ہی میں فتویٰ جاری ہواہے کہ خلع مالی معاملہ ہے۔ عورت مال کے بدلے میں اپنی جان چھڑاسکتی ہے۔ کاش ! مجھے طالب علمی کے زمانے میں اسباق سے بہت زیادہ دلچسپی ہوتی اور اس وقت ان گمراہانہ مسائل تک پہنچ جاتا تو مولانا بدیع الزمان اور بڑے اچھے اساتذہ کرام کی موجودگی میں ان مسائل سے رجوع بھی ہوجاتا لیکن میری غلطی اور کم نصیبی تھی۔ میرے کلاس فیلو مولانا عبدالرحمن قریشی نے کہا تھا کہ ”اگر آپ تعلیم پر توجہ دیں۔ تصوف کے ذکر اذکار ، سیاست اور انقلابی زندگی کے عمل سے کنارہ کش ہوجائیں تو تعلیمی میدان میں بڑا انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اس وقت اساتذہ کی طرف سے حق بات کی تائید بھی ملتی تھی۔ اب تو معاملہ بہت ہی بدل چکا ہے۔
عرب اور پشتون اپنی بیٹیوں کو بیچ دیتے ہیں اور مذہبی طبقے میں زیادہ عرب ہیں یا ہمارے پٹھان ہیں۔ جب لڑکی کو بیچ دیا جائے گا تو خلع کو بھی مالی معاملہ ہی سمجھا جائے گا۔ جب چھوٹی بچیاں بھی بیچنے کا رواج ہوگا تو شرعی مسائل سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجائے گی۔ ہمارے خاندان میں شروع سے الحمد للہ لڑکیوں کو بیچنے کی روایت نہیں ہے اسلئے ہمارے اجداد نے علماء ومشائخ ہونے کے باوجود بھی سیاسی طور پر امیر امان اللہ خان کی حمایت کی تھی۔ افغانستان کے طالبان کی طرف سے لڑکیوں کو بیچنے کے خلاف فیصلہ میڈیا پر آیا تھا۔ اگر افغان طالبان کی طرف سے افغانستان کے اقتصادی مسائل کا حل نکالا گیا لیکن شرعی مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو بھی ان سے اقتدار چھن جائے گا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی حفاظت اچھی لگتی ہے۔ اگر طالبان نے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کردیا تو پھر یہ یاد رکھ لیں کہ پاکستان میں بھی اسلام کا آغاز ہوجائے گا۔ اسلام کو مذہبی طبقے کی وجہ سے دنیا میں پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔ جنرل مبین کے ناچتے ویڈیو سے کچھ مسئلہ نہیں،اصل بات اسلام کے لبادے میں قرآن سے انحراف کا مسئلہ ہے۔

نوٹ: مکمل تفصیلات جاننے کیلئے اس کے بعد عنوان ” عمران کا نکاح عدت میں نہیں مگر علماء و مفتیان عدت میں نکاح تڑوا کر عورتوںکی عزتیں لوٹتے ہیں مولانا فضل الرحمن اور
علماء کرام فیصلہ کریں! ” ”یتیم بچیوں کو ہراساں…جنسی استعمال…بنی گالہ میں کالے جادو میں ذبح کی بدلتی ہوئی کہا نی :افشاء لطیف کی زبانی”
اور ” بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں”کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں