قرآن و سنت کے مطابق طلاق کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ طلاق ایک اہم ترین معاشرتی معاملہ ہے
اکتوبر 31, 2017

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ طلاق والی خواتین عدت کے تین مراحل تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، اور ان کیلئے حلال نہیں کہ جو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا ہے کہ اس کو چھپائیں۔اور انکے شوہر اس مدت میں اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘۔(سورۂ بقرہ آیت: 228)۔ ایک بہت بڑا مغالطہ یہ ہے کہ شوہر کو آیت میں غیرمشروط رجوع کا حق دیا گیاہے ، حالانکہ ایسا نہیں ۔ شوہر کیلئے طلاق کا حق اور شوہر کیلئے رجوع کی گنجائش میں بہت نمایاں فرق ہے۔ عورت کا حق سلب کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔اگر شوہر کو رجوع کی گنجائش دینے کے بجائے غیرمشروط رجوع کا حق دیا جائے تو یہ عورتوں کا حق سلب کرناہے۔ میاں بیوی دونوں طلاق کے بعد آپس میں صلح و اصلاح پر رضامند ہوں تو یہ رجوع کی گنجائش ہے ، یکطرفہ ہو تو پھر شوہر کاحق ہے۔ وان خفتم شقاق بیھما فابعثوا حکمامن اہلہ وحکما من اہلہاوان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بیھما ’’ اگر تمہیں انکے درمیاں جدائی کا خوف ہو تو ایک حکم شوہر کے خاندان سے اورایک حکم بیوی کے خاندان سے تشکیل دو، اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ دونوں کی چاہت نہ ہو توساتھ رہنے پر دنیا کی کوئی طاقت مجبور نہیں کرسکتی اور دونوں کی چاہت ہو تو انکے درمیان میں کوئی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔ یہ معاشرتی مسئلہ ہے اور قرآن نے اس کو معاشرتی بنیادوں پر حل کرنے کا پورا نصاب بتایاہے اور احادیث صحیحہ مزید وضاحتوں سے بھرپور ہیں۔ سورہ بقرۂ آیت: 224 سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں مسئلہ طلاق کے تمام معاشرتی پہلوؤں کی بھر پور نشاندہی کی گئی ہے۔
یہ بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ فقہاء نے اپنی منطقوں میں الجھ کر ہزاروں مسائل اور اختلافات گھڑنے کی عجیب وغریب صورتیں ایجاد کرلی ہیں۔ ہم نے بہت ہلکے پھلکے انداز میں ان حضرات کومسائل کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کی ہے اور جب تک حلالہ کی لعنت کے نام اپنی مذموم حرکتوں سے یہ باز نہیں آئیں گے اور ہم زندہ رہیں تو سخت لہجے میں بھی حقائق کھول کر ضربِ حق لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انشاء اللہ العزیز الرحمن الرحیم المٰلک القدوس السلام الجبارالمتکبر الخاق الوہاب الرزاق الفتاح الودود
رجعت بالفعل کی جو صورتیں لکھ دی ہیں اگر ہم بتاتے تو شکایت ہوتی اسلئے کتاب سے ’’ فوٹو اسٹیٹ ‘‘ کرکے علماء ومفتیان اور عوام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔جن خواتین کی عزتیں حلالہ کے نام پر برباد کردی جاتی ہیں ، ان لوگوں کا دکھ، درد ، تکلیف اور بے عزتی کے احساس نے ہمیں مجبور کردیاہے کہ کھل کر اور بہت ہی کھول کرمعاشرے سے اس برائی کو ختم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
اگر کسی مفتی کی صاحبزادی اور داماد کو ڈرامہ میں پیش کرکے رجعت بالفعل کی صورتیں ٹی وی پر سمجھانا شروع کی جائیں تو مفتی صاحبان مجبور ہوکر عوام کی جان حلالہ سے چھڑانے پر راضی ہونگے۔ شہوت کی شرط پر مباشرت،دخول بالدبر، فرج کو اندر سے شہوت کیساتھ دیکھ لینا جب وہ تکیہ لگاکر بیٹھی ہو۔اور نیند میں بھی رجوع معتبر ہے۔ عورت بھی شہوت سے ہاتھ لگاکر رجوع کا حربہ استعمال کرسکتی ہے مگر اس کیلئے شرط یہ ہے کہ مرد یہ اقرار کرے کہ عورت میں شہوت تھی۔ عجب حماقت ہے کہ عورت کی شہوت ہوتو اسکا اقرار مرد کرے۔ جب ڈرامہ میں رجعت بالفعل کے انواع واقسام کی صورتیں سامنے آئیں گی تو علماء خود چیخ اٹھیں گے کہ ’’ قرآن کا معروف رجوع ٹھیک ہے۔ یہ بکواس کوئی دین و فقہ نہیں ہے، ہم کبھی حلالہ کی لعنت کا فتویٰ نہیں دینگے مگر ہمیں شرمندہ کرکے ہماری پولیں نہ کھولیں! ‘‘۔
لوگوں کی راۓ
Excellent News Paper
اس کتاب سے بہت سے لوگوں کے گھر جڑیں گے
میں آپ کی رائے سے متفق ہوں۔
بہت اچھا آرٹیکل ہے، حکومت، عدلیہ او ر ریاست کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔
حقیقت یہی ہے کہ اغیار ہمیشہ امت مسلمہ سے ہی گبھراتی ہے۔۔۔تب ہی تو سب سے امت کا مرتبہ چھین کر صرف اور صرف عوام کے درجے تک گرا دیا۔۔۔ طویل مباحثہ وقت پانے پر پیش کرونگا مگر اس بے بس عوام کیلئے صرف ایک شعر آپکی خدمت میں ان کی فطری عکاسی کیلئے عرض کونگا۔۔ خدا کو بھول گئے لوگ فکرےروزی میں غالب۔۔ تلاش رزق کی ہے رازق کا خیال تک نہیں۔۔۔۔ بہت شکریہ