پوسٹ تلاش کریں

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز اخبار: نوشتہ دیوار

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

ہم مفتی تقی عثمانی کے اس فتوے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنی خواتین کو اپنے شوہروں پر حلالہ کی لعنت کیلئے انہوں نے ناجائز حرام کردیا ہے،اللہ نے ہمیں قبول کرلیا ہے!

جس طرح نسوار، سگریٹ، حقہ، بھنگ،شراب، چرس، افیم، کوکین ، شیشہ اور ہیروئن کے نشے کی علت لگتی ہے اسی طرح سے ان علماء ومفتیان کوحلال نکاح کو حرام کرنے کی بھی علت لگی ہے

ہمارا مقصد اپنا دفاع یا انتقام نہیں بلکہ ان علماء ومفتیان کے ہاتھوں جس طرح قرآن اور امت مسلمہ کی خواتین کی بے حرمتی ہورہی ہے اس کو روکنا اصل مقصد ہے۔علمائِ حق ہمارا ساتھ دیں!

مولانا فقیر محمد پر گریہ طاری رہتا لیکن حاجی عثمان کی محفل میں وہ وجد میں آکر گھومنا شروع ہوجاتے۔ حاجی عثمان نے کئی بزرگوں سے اکتساب فیض کیا۔ سیدعالم چشتی اور قادری سلسلہ سے خلافت تھی۔ مولانا سید محمد میاں جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور نے ” علماء ہند کا شاندار ماضی ”میں لکھا : ” شیح احمد سرہندی مجدد الف ثانیسب سلسلوں میں مقبول تھے اور سبھی خلافت وبیعت کی نسبت دینے کی کوشش کررہے تھے ، پھر رسول اللہ ۖ نے فیصلہ فرمایاکہ سب سلسلے کی طرف سے اجازت دی جائے لیکن نقشبندی سلسلہ کی خدمت کریں گے”۔
مولانا فقیر محمد نے کسی کے مشورہ پر حاجی عثمان سے خلافت واپس لی ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم مفتی احمدالرحمن اور مفتی ولی حسن نے کہا کہ آپ نے حاجی محمد عثمان کو ورود سے خلافت دی تو مشورے پر شرعاً خلافت واپس نہیں لے سکتے جب تک کہ دوبارہ ورود نہ ہو۔ مولانا فقیر محمد نے جامعة العلوم اسلامیة بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ” میں نے حاجی محمد عثمان کو ورود کی نسبت سے خلافت دی تھی جو تاحال قائم اور دائم ہے”۔
اس پر مفتی احمد الرحمن، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن اور مفتی جمیل خان روزنامہ جنگ کراچی کے دستخط ہیں۔
مفتی احمد الرحمن و مفتی ولی حسن غریبوںکو حاجی عثمان کے خلفاء نے گاڑیوں کا مالک بنادیا تھا۔ پھر جب سرمایہ دار مرید مفتی تقی عثمانی کی سازش سے مخالف بن گئے اور دارالعلوم کراچی نے” الاستفتاء ” کے نام سے سوالات اور جوابات کو خود مرتب کیا تو مفتی رشیداحمدلدھیانوی نے حاجی عثمان کو دھمکی دی کہ اگر نہیں آئے تو یکطرفہ فتویٰ دیںگے۔ حاجی عثمان آپریشن کیلئے داخل تھے۔ پیشاب کی تھیلی ہاتھ میں لئے پہنچے تو علماء ومفتیان کی طوطا چشمی دیکھ کر حیران ہوگئے۔
مولانا فقیر محمد نے جن علماء ومفتیان کا شرعی فتویٰ مان کر لکھا تھا کہ مشورے سے ورود کی دی ہوئی خلافت واپس نہیں لی جاسکتی ۔ انہوں نے ہی مولانا فقیر محمد کو مشورہ دیا کہ خلافت واپس لو۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گمراہ پیر کی خلافت پر مولانا فقیر کی پیری تحفظات کا شکار بن جاتی مگر حاجی عثمان کے خلفاء جگر کے ٹکڑے تھے اور مولانا فقیر محمد ورود کی نسبت خلافت دینے کے باوجود معتبر تھے ؟ ۔ اگرحاجی عثمان پیری کے قابل نہیں تھے تو یہی فتویٰ پھر مولانا فقیرمحمد پر لگتا تھا؟۔
مولانا فقیر محمد شیخ و مرشد نہیں تھے بلکہ حاجی عثمان کے بارے میں لکھ دیا کہ ”مولانا اشرف علی تھانوی کے مرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکیسے بہت مشابہت رکھتے ہیں اور ان کا بہت شکریہ کہ27رمضان المبارک کی رات مسجد نبوی ۖ مدینہ منورہ میںورود کی خلافت کوقبول فرمالیا ہے”۔اس میں بڑے راز کی بات تھی کہ ورود کی خلافت ،TJابراہیم سے الائنس موٹرز کی کہانی، علماء ومفتیان کے شرمناک فتوے اور اس پر معافی مانگنے سے لیکر دوبارہ انتہائی جہالت اور کمینہ پن سے فتویٰ بازی اور بدمعاشی کے معاملات تک بہت حقائق سامنے آگئے ۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے مرید وخلفاء میں اکابر دیوبند تھے اور بریلوی مکتبہ فکر میں بھی حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا احترام ہے اور” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں بریلوی دیوبندی اختلافات کو حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے ختم کیا۔ علماء دیوبند کااس کتاب سے اختلاف تھا بلکہ جلا دیا تھا لیکن مولانا اشرف علی تھانوی نے اس کو شائع کیا تھا۔جب فتویٰ کے بعدمیرا خانقاہ میں قیام تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ ” حاجی امداداللہ مہاجر مکی خانقاہ کے مشرقی دروازے سے داخل ہوئے اور کہا کہ میں عتیق کو دیکھنے آیا ہوں۔ میں کمرے میں آرام کررہا تھا ۔پھر کمرے کے دروازے پر آئے تو تھوڑی سی شرمندگی کا احساس ہوا اور دروازہ کھول دیا”۔ حاجی محمد عثمان مجھے حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لے گئے لیکن میں نے ایسی کیفیت کی مزاحمت کی کہ مکاشفہ ہوجائے۔ پھر ایک دفعہ خواب دیکھا تھا کہ ”پہاڑ پر چڑھتے ہوئے جس سڑک پر چل رہے ہیں۔ وہ ساری کٹی ہوئی تھی۔ گاڑی کا یہ کمال ہوتا ہے کہ سڑک کی بھرائی بھی کرتی ہے اور مرمت بھی کرتی ہے اور اس پر کارپٹ بھی خود بخود بچھاتی ہے۔ اس میںتقریباً70،80افرادتھے”۔ حاجی محمد عثمان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے پوچھ لیا کہ میں بھی اس میں ہوتا ہوں؟۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ ” آپ کیلئے70،80بھی کافی ہیں”۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ ” آپ سے اللہ نے دین کا بہت بڑا کام لینا ہے اور آپ کے ذریعے اللہ صدیقین کی جماعت پیدا کرے گا”۔قرآن میں کافروں کا ذکر ہے اور مکذّبین کا ذکر ہے جو جھٹلانے والے ہوتے ہیں۔ایمان والوں کا ذکر ہے اور متصدقین کا ذکر ہے جس کا معنی تکذیب کے مقابلے میں تصدیق کرنے والے ہیں لیکن علماء نے ان سے صدقہ دینے والے مراد لئے۔
ہمارے کئی ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ باقی ہم اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ امت کی بھلائی کیلئے ایک بڑا انقلاب برپا ہوجائے ۔
اللہ نے قرآن میںفرمایا: منھم من قضٰی نحبہ ومنھم من ینتظر ۔ ایک وہ جنہوں نے اپناہدف پورا کردیا اور دوسرے وہ جو انتظار میں بیٹھے ہیں۔
مولانا فقیر محمد سادہ تھے۔ حاجی عثمان کی خلافت قدرت کی ایک چال تھی۔ اللہ نے فرمایا : ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین ”اور یہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور اللہ اپنا جال بچھاتا ہے اور اللہ بہتر جال بچھانے والا ہے”۔
علامہ یوسف بنوری اور دوسرے اکابر علماء جب حج پر مستورات کے ساتھ جاتے تو مستورات کو حاجی محمد عثمان کے ذمہ لگاتے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری نے اپنے صاحبزادے مولاناسید محمدبنوری سے فرمایا تھا کہ ” حاجی محمد عثمان سے خوف رکھو، ان کے ہاتھ میں چھڑی ہے”۔ مولانا سیدمحمد بنوری فتویٰ لگنے کے بعد بھی حاجی عثمان کے پاس آتے تھے اور علماء کرام کو بھی ساتھ لاتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا سید عبدالمجید ندیم کو بھی ساتھ لائے تھے۔ ندیم صاحب نے کہا تھا کہ ” عثمان نام ہے تو مظلومیت کا انداز بھی وہی ہے اسلئے کہ نام کا اثر ہوتا ہے اور جنہوں نے فتویٰ لگایا ہے کہ یہ گند اور بدبو کے ڈھیر ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” یہ سن70کا فتویٰ لگتا ہے۔ علماء ومفتیان نے سرمایہ داروں سے خوب مال کھایا ہوگااور یہ پیر کوئی اچھے آدمی ہوں گے”۔
حاجی عثمان کی بیعت سے پہلے مولانا اللہ یار خان کے مریدوں نے پیشکش کی تھی کہ مولانا اللہ یار خان نے کہا کہ مجھ سے بیعت نہ ہوں بلکہ رسول اللہ ۖ کے ہاتھ میں براہِ راست بیعت ہوگی لیکن میں نے اس پیشکش سے معذرت کرلی تھی اسلئے کہ انکے مریدوں نے کہا تھا کہ ”آپ بیعت ہوجائیں تو دنیا کی ساری ضروریات پوری کردیںگے”۔ مجھے ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ مولانا اللہ یار خان کے خلیفہ مولانا اکرم اعوان انقلابی تھے اور بہت سارے فوجی افسران ان سے بیعت تھے اور حاجی محمد عثمان سے بھی فوجی افسران بیعت تھے۔ وہ بھی انقلاب چاہتے تھے لیکن مرید فوجیوں اور علماء نے کوئی ساتھ نہیں دیاتھا ۔
مولانا عبدالقدوس خطیب جامع مسجد یارک ڈیرہ اسماعیل خان نے بتایا کہ ”مولانا اللہ یار خان نے وزیرستان کا سفر کیا تھا اور کہا تھا کہ میں ایک موتی تلاش کرنے آیا ہوں،اگر اللہ نے دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کی تلاش میں گئے تھے”۔
وزیرستان جلسہ عام میں مولانا نورمحمدMNA،مولانا اکرم اعوان اور میں ساتھ تھے ۔مولانا اکرم اعوان خلیفہ مولانا اللہ یار خان نے کہا تھاکہ ”میں کسان ہوں۔ کسان فصل اٹھاتا ہے تو باقی گندم اخراجات رکھتا ہے اور بہترین گندم کوبیج کیلئے محفوظ رکھتا ہے۔ اللہ نے وزیرستان کی عوام کو بیج کیلئے محفوظ رکھا ہوا ہے”۔
مفتی عبدالرحیم نے شیخ سید عبدالقار جیلانی، شاہ ولی اللہ، علامہ سیدیوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے معتقدات پر بھی کفروگمراہی، الحاد وزندقہ، قادیانیت اور دیگر فتوے لگادئیے تھے۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے اس خوف سے اتنی پھوسیاں ماری ہوں گی کہ دارالافتاء والارشاد کو بدبوسے بھر دیا ہوگا لیکن جب ہم نے رعایت کی تو پھر انہوں نے الائنس موٹرز کی نمک حلالی کیلئے اپنا وہی کام شروع کردیا۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ فتوؤں کا کواڑ بالکل کھلا رکھا گیاہے۔
مولانا فضل محمد یوسف زئی استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا تھا کہ ” مفتی رشید احمد لدھیانوی نے علامہ سید محمد یوسف بنوری سے اذیت ناک سلوک روا رکھا تھا اسلئے اللہ نے تیرے ہاتھوں اس کو عذاب کا مزا چکھادیا ”۔
تصوف وسلوک کے میدان میںعلماء ومفتیان کی نالائقی اپنی جگہ تھی لیکن جب درسِ نظامی کے نصاب کو دیکھا جائے اور اس سے باصلاحیت علماء ومفتیان کی جگہ کوڑھ دماغ شخصیات جنم لینے کا قضیہ دیکھا جائے تو معاملہ بڑا بگڑتا ہے۔ جب دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ ہماری وجہ سے اس پر متفق ہوجائیں کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی تشریح پر اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابلِ قبول ہو ۔ حضرت عمر اور حضرت علی کا اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابل قبول ہو۔ تمام مذہبی وسیاسی قیادت ایک جگہ جمع ہوکر اسلام کے حقیقی معاشرتی نظام کا نقشہ پاکستان اور پوری دنیا کے سامنے پیش کریں۔ہمارا مشن دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کیلئے قابل قبول ہے اور مذہبی طبقہ اس وجہ سے اقتدار کی دہلیز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جان لو کہ مولانا فضل الرحمن و مریم نواز کیساتھ عمران خان اور آصف زرداری بھی اس مقدس مشن کا ساتھ دیں گے۔
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلید کو عملی بدعت قرار دیا۔ علامہ یوسف بنوری نے اسکے ترجمہ پر تقریظ لکھی ہے اور تقریظ میں دوسری کتاب ”منصبِ امامت” کی بھی بہت تعریف لکھ دی ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کی وجہ سے اکابردیوبند پر اسلاف سے انحراف کا فتویٰ لگادیا تھا لیکن علماء دیوبند نے پھر تقلید کا دامن تھامنے پرکتاب لکھ دی۔ علامہ سیدیوسف بنوری کے والد مولانا زکریا بنوری نے لکھا کہ ” ہندوستان میں مذہب حنفی کی بقاء کا سہرا مولانا احمد رضا خان بریلوی کے سر جاتا ہے”۔ اہلحدیث کے مولانا اسحاق نے کہا کہ ”ایک نواب کی تعریف میں مولانا احمدرضا خان بریلوی سے اشعار کا تقاضہ کیا گیا کہ پھر نواب ماہانہ وظیفہ مقرر کردے گا تو مولانا احمد رضا بریلوی نے صاف انکار کردیا کہ” میں نبیۖ کی تعریف میں نعمت پڑھ سکتا ہوں۔ کسی نواب کیلئے قصیدہ گوئی کی توقع مجھ سے مت رکھو”۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حق کی راہ کے متلاشی افراد کیلئے قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کا وہ راستہ کھول دیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔ فرقہ واریت نے امت کی اکثریت کو مذہبی طبقے سے بہت متنفر کردیا ہے۔ ہم علماء ومشائخ کی عزت کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
نکاح وطلاق کے مسائل کی وجہ سے علماء ومفتیان نے اچھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار قوم کو ذہنی مریض بنادیا ہے۔ ”فتاویٰ عثمانی” کے واقعات کاا ندراج کیا جائے تو دنیا دنگ رہ جائے گی کہ گیدڑ سنگھی کے بچے مفتی تقی عثمانی نے اسلام کا تماشہ بنادیا۔ انشاء اللہ دنیا میں اسلام کا نام و کام روشن ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن اپنے گھر میں میرے ساتھ مفتی تقی عثمانی کو بٹھادیں تو مولانا کا دماغ کھلے گا۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا تھا تو اپنے طعام کیلئے نوکری ڈھونڈ لی تھی، جب طلبہ نے اسرار کیا کہ مفت کی سہولت موجود ہے تو مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ میں نے کہا کہ ”میں سید ہوں اور زکوٰة میرے لئے جائز نہیں ”۔ انہوں نے کہا: ‘ ‘اکابرسادات نے مدارس میں پڑھا اور یہ نہیں کہا”۔ میں نے کہا: ”پھر کیامیرے لئے زکوٰة جائز ہوجائے گی؟ اور انشاء اللہ میں مسجد کی امامت، آذان اور قرآن کا درس دوں گا مگر تنخواہ نہیں لوں گا”۔جب یہ رپورٹ مدرسہ کے انتظامیہ کو دی گئی تو مجھے دفترمیں بلایا اور کہا: ” آپ کا داخلہ نہیں ہوسکا ہے”۔ لیکن اس کے برعکس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پہلی تقریر یہ سن لی کہ اگر دنیا کا ارادہ ہے تو دنیا کو دنیا کے طریقے سے کمانا چاہیے اور مدرسہ چھوڑدو۔ پھر وہ وقت آیا کہ میں نے مسجد الٰہیہ میں بغیر تنخواہ کے خدمات انجام دیں تو حاجی محمد عثمان نے فرمایا کہ ”ہماری مسجد کو مسجد نبویۖ کے پہلے دور سے مشابہت مل گئی جس میں امام بغیر تنخواہ کے امامت کرتا تھا”۔
ہم سے اللہ تعالیٰ نے طلاق و حلالہ، عورت کے حقوق، قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث صحیحہ کے علاوہ فقہ واصول فقہ کے حوالے سے دین، علم اور ایمان کی جو زبردست خدمات لی ہے وہ حضرت حاجی محمد عثمان کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ اس داستان میں میرے طالب علمی کے زمانے سے دین کو سمجھ اور اساتذہ کرام کی زبردست حوصلہ افزائی کا بھی بڑا عمل بلکہ بنیادی اور اصلی کمال ہے لیکن اگر یہ حادثہ نہ ہوتا تو شاید ہم سے اللہ تعالیٰ اتنا عظیم کا م بھی نہ لیتا۔سید عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں