پوسٹ تلاش کریں

نکاح وطلاق کی غلط فہمیاں اور وضاحتیں

نکاح وطلاق کی غلط فہمیاں اور وضاحتیں اخبار: نوشتہ دیوار

نکاح وطلاق کی غلط فہمیاں اور وضاحتیں

نمبر1:اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعد طلاق کا حق مرد کو اور خلع کا حق عورت کو دیا ہے۔ عورت خلع لے تو اس کو دئیے ہوئے گھر، جائیداد اور تمام غیرمنقولہ اشیاء سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ لیکن دی ہوئی چیزیں کپڑے، زیورات،گاڑی، پیسہ اور تمام غیرمنقولہ اشیاء میںبعض بھی شوہر واپس نہیں لے سکتا ہے۔ جب شوہر طلاق دے تو پھر دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ تمام چیزیں چاہے بہت سارامال دیا ہو ، کوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتا۔ یہ دونوں باتیں سورۂ النساء کی آیات19،20اور21میں بالکل واضح ہیں۔ خلع وطلاق میں مالی حقوق کا فرق ہے۔ خلع عورت کا مکمل اختیار اور طلاق مرد کامکمل اختیار ہے۔علماء ومفتیان آج ہماری معیشت کو سودی نظام میں بدلنے کی خوشخبریاں سنارہے ہیں تو پہلے یہ ہمارے معاشرتی نظام کو بھی اپنی کم عقلی ، مفاد پرستی اور ہوس پرستی سے تباہ کرچکے ہیں۔
اگر سید پیر مہر علی شاہ ، سید علامہ محمد انور شاہ کشمیری ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، سیدابوالحسنات قادری، سید ابولاعلی مودودی اور سید علامہ یوسف بنوری نہ ہوتے توان غیر سادات نام نہاد علماء ومفتیان مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو بھی قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ پاکستان کے مرزائی وزیرخارجہ سرظفر اللہ قادیانی نے خود قائداعظم محمد علی جناح کے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی ،اگر وہ شرکت کرنا چاہتا تو شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع روکنے کی جرأت تو بہت دور کی بات ہے اس کا والہانہ استقبال کرتے۔ ان لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں تھا۔ مولانا ابولاکلام آزاد اور سید سلیمان ندوی کو تصویر کے جواز کا فتویٰ دینے کے بعد اپنی کم علمی وکم عقلی سے مجبور کیا لیکن جب حکومت پاکستان کے قیام میں سرکاری اور درباری بن گئے تو شرک اور اللہ سے مقابلے والی تصویر کو بھی حکومت اور تجارت کی غرض سے جائز قرار دیدیا۔ اپنے اکابر مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا عبداللہ درخواستی سے حاجی عثمان تک انتہائی لغو، دروغ گوئی ، جہالت اور مفادپرستی پر فتوے دئیے لیکن سرکاری اور درباری ملاؤں نے قادیانیوں ، شیعہ اور مودودی کے خلاف کبھی زبان اسلئے نہیں کھولی کہ جب تک ریاست کی طرف سے اشارہ نہ ہو یہ نہیں ہوسکتا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے طلاق وحرامکاری کے فتوے دئیے۔
جب یہ واضح ہے کہ طلاق کا حق شوہر اور خلع کا حق عورت کو حاصل ہے اور دونوں صورتوں میں مالی حقوق کا فرق پڑتا ہے۔ خلع میں صرف دی ہوئی منقولہ جائیداد اور طلاق میں عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ سب دی ہوئی چیزیں اس کا حق ہے تو اگر عورت دعویٰ کرے کہ شوہر نے اس کو طلاق دی ہے اور شوہر انکار کرے تو یہ ممکن ہے کہ عورت نے زیادہ سے زیادہ مالی حقوق کے حصول کیلئے جھوٹا دعویٰ کیا ہو۔ اسلئے طلاق کے مالی حقوق لینے کیلئے اس کو قاضی یا جج کے سامنے دو گواہ لانے پڑیںگے۔ گواہ بھی معقول اور قابلِ قبول۔ اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوئے تو شوہر حلف اٹھائے گا۔ اگر شوہر نے حلف اٹھالیا تو پھر قاضی یا جج طلاق کا حکم جاری نہیں کرے گا۔ اگر عورت چاہے تو خلع لیکر الگ ہوسکتی ہے لیکن اگر علیحدگی نہیں چاہتی ہو تو پھر طلاق بھی نہیں ہوگی۔ نکاح میں جڑے رہ سکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی کا یہ فتویٰ ہے جو اس نے مولانا اشرف علی تھانوی کے نام پر ”حیلہ ناجزہ” میں شائع کیاکہ ایسی صورت میں عورت شوہر سے حرامکاری پر مجبور ہوگی اسلئے کہ اگر ہوسکے تو جتنا مال شوہر مانگ رہا ہو ،اس کو خلع کے نام پر دیدے اور اگر شوہر پھر بھی خلع نہیں دینا چاہتا ہو تو عورت پھر نکاح میں بھی رہے گی اور یہ تعلق بھی حرامکاری کا ہوگا۔ جب شوہر جماع کرے تو عورت لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہ گار ہوگی۔ جس جعلی اسلام میں عورت کو خلع کا حق نہ ہو اور وہ حرامکاری پر مجبور ہو تو یہ اللہ اور اسکے رسول ۖ کا اسلام نہیں ہوسکتا ہے بلکہ درباری علماء کی طرف امت میں رائج ہوا ہے۔ درباریوں کا فقہ ہمیشہ رائج الوقت سکہ رہا ہے۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب کیلئے بھائیوں کے قتل کا قصاص معاف کیا تھا اور یہ سلسلہ کربلا کے میدان سے لیکر موجودہ دور تک اہل حق کے خلاف چل رہاہے لیکن اب ان کے چہروں سے اسلام کا جھوٹا نقاب اٹھانا پڑے گا۔
نمبر2:اللہ تعالیٰ نے کسی صورت میں بھی طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے لیکن جب عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق اور ناراضگی کی صورت میں بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔ فقہی مسائل میں طلاق صریح وکنایہ کے ذخیرۂ الفاظ کا فائدہ فقہاء حق نے عورت کو پہنچایا ہے اور حضرت عمر وحضرت علی اور ائمہ مجتہدین کا طلاق ورجوع کے حوالے سے آپس میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن بعد والے درباری شیخ الاسلاموں نے مسائل کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ جتنے جھوٹے انقلابی منظور پشتین وغیرہ عورت کے حقوق کی پاسداری میں مذہبی طبقے کیساتھ کھڑے ہیں انکے نعروں سے کبھی انقلاب نہیں آسکتا ہے۔ انقلاب معاشرے ، گھروں اور افراد کی حقیقی آزادی سے آتا ہے۔ خاتم الانبیاء والمرسلینۖ نے جو انقلاب برپا کیا تھا اس کی وجہ سے دنیا بھر کی ظالم سپر طاقتوں قیصر روم اور کسریٰ ایران کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نمبر3:نکاح وطلاق کے غلط مذہبی رسوم ورواج کا قرآن نے خاتمہ کیا تھا لیکن درباری طبقات نے اسی جگہ معاملہ پہنچادیا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔ اللہ نے ان مذہبی علماء کو گدھوں سے تشبیہ دی جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہوں۔ اور چالاک وعیار قسم کے مفادپرست علماء کو کتے سے تشبیہ دی تھی۔ کتے گدھے ہنکانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں لیکن گدھوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ کہاں سے کہاں ان کو ہنکایا جارہاہے۔ کل سارے مدارس ”حرمت سود” پر متفق تھے اور آج ”حرمت سود” کے نام پر سیمینار میں ” حلت سود” میں گدھوں کو کھڑا کردیا گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے بڑے فائدے اٹھالئے لیکن جن کو بلایا گیا تھا ان کو بھی چارہ ، بھوسہ اور کرائے کے نام پر کچھ جیب گرم کی ہوگی۔ سود کی حرمت کو چھوڑ کر علماء ومفتیان نمازجنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے پیچھے لگے۔
نمبر4:قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین میں طلاق ونکاح کے حوالہ سے کوئی حلال وحرام کا اختلاف نہیں تھا حضرت عمر کی طرف سے عورت کو ”حرام ” قرار دینے پر اسلئے رجوع کا فتویٰ دیا گیا کہ عورت راضی تھی اور حضرت علی کی طرف سے ” حرام” کے لفظ پر اسلئے رجوع کا فتویٰ نہیں دیا گیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ بعد والوں نے عجیب وغریب اقسام کے تضادات سے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے اسلئے آج اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کی چاہت تھی کہ امام ابوحنیفہ کے اصل مسلک قرآن کی طرف رجوع سے انقلاب لایا جائے لیکن علماء ومفتیان اور مولانا مودودی تک کسی نے بھی انقلاب کی تائید نہیں کی بلکہ مولانا عبیداللہ سندھی پر کفر، الحاد ، گمراہی اور دماغی خلل کے الزامات لگادئیے۔ اسلئے انہوں نے بہت سختی کی وجہ سے لکھا تھا کہ ” جس طرح ابوجہل و سرداران قریش مسلمان انقلابی نوجوانوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے،اسی طرح ہم بھی جب تک ان مقدس ہستیوں کو قتل نہیں کریںگے جو انقلاب اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں کبھی یہ عوامی سطح پر اسلام کی طرف رجوع اورانقلاب کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے دور میں سوشل میڈیا نہیں تھا اور موجودہ دور کی طرح تعلیم یافتہ معاشرہ بھی نہیں تھا اسلئے سختی کی وجہ سے قتل اور قتال کی باتیں ایک مجبوری ہوسکتی تھی۔ آج بہت آسانی سے انقلاب آسکتا ہے۔ جن خود کش حملہ آوروں کو درباریوں کے خلاف استعمال ہونا چاہیے تھا وہ ہمارے خلاف استعمال ہوگئے لیکن انشاء اللہ خلافت کے قیام کا مشن کامیاب ہوگا۔
نمبر5:اسلام کے نام پر حلالے کی لعنت قرآن واحادیث صحیحہ سے انحراف اور علماء ومفتیان کی کم عقلی وہوس پرستی کا نتیجہ ہے۔ بڑے مدارس کے بڑے علماء و مفتیان اور انکے دارالافتاء میں بیٹھے ہوئے چھوٹے مفتیان کو بات سمجھ آگئی ہے لیکن اپنی انانیت اور ہوس پرستی کی وجہ سے غریب اور جاہل طبقے کو حلالہ کے نام پر لعنت کا نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ اب خود کش کے نشانہ بننے کے قریب ہیں۔

شرعی پردہ اور شرعی حدود کا درست تصور
ایران میں ایک لڑکی کو سر کے کچھ بال کھلے ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا توبہت بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ طالبان نے کابل ائیر پورٹ پر پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کا استقبال کیا تو اسکے کچھ بال کھلے ہوئے تھے۔ طالبان ملاعمر کے دور سے بہت بدل چکے ہیں جہاں وہ داڑھی نہ ہونے پر سزائیں دیتے تھے اور بااثر لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ علماء ومفتیان کو بھی اپنے غلط نصاب تعلیم کی وجہ سے درست اسلام کا پتہ نہیں ہے تو طالبان بھی کم علم اور شعور سے عاری ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ اس جہالت سے کبھی ہمارا بھی گزر ہوا ہے لیکن اب جس طرح طالبان کے شعور میں اضافہ ہوا ہے اس طرح ہمارے شعور نے بھی تھوڑی بہت ترقی کرلی ہے۔
طالبان اعتدال کا راستہ اپناتے ہوئے نہ تو خواتین کو نقاب اٹھانے پر مجبور کریں اور نہ لگانے پر مجبور کریں۔ اسلام کا سب سے بڑا مرکز مکہ مکرمہ میں حج و عمرے کے دوران مردوں نے واجبی لباس احرام پہنا ہوتا ہے اور عورتوں کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا نہیں ہوتا ہے۔ حرم کعبہ میں نماز، طواف اور صفا ومروہ کی سعی میں خواتین و حضرات شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ چودہ سوسال سے اسلامی فریضے کی ادائیگی میں جتنی روشن خیالی اسلام نے سکھائی ہے ،کسی دوسرے مذہب میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ لونڈیوں کا ستر لباس بھی بہت مختصر ہوتا تھا۔
شرعی پردے کا حکم عورتوں کو اللہ نے دیا ہے لیکن زبردستی سے مسلط کرنے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ غیرمسلم عورتوں کیلئے تو اس کا تصور بھی نہیں ہے اور اگر طالبان اعلان کردیں کہ بدھ مت کے پیروکاردنیا بھر سے افغانستان میں آسکتے ہیں تو چین، جاپان، شمالی وجنوبی کوریا، برما، تھائی لینڈ ، بھارت اور یورپ وامریکہ وغیرہ سے بڑے پیمانے پر بدھا کے آثارقدیمہ دیکھنے کیلئے لوگ آئیں گے اورافغانستان کے سفارتی تعلقات کے علاوہ بڑے پیمانے پر سیاحوں کی آمد سے عوام کی غربت بھی ختم ہوجائے گی۔ جس برقعہ کا افغانی عورتوں کو پابند بنایا جارہاہے یہ افغانستان اور پشتونوں کا لباس نہیں ہے بلکہ پنجاب کا لباس ہے اور اس کو پشتونوں کے کلچر میں متعارف اور رائج کرنے والا بھی ہمارا خاندان ہے۔ یہ میرے بچپن اور یاد اشت کی بات ہے ، وزیرستان سے سوات تک کہیں بھی یہ برقعہ نہیں تھا۔ شرعی پردے کا جو تصور علماء ومفتیان نے اپنی طرف سے ایجاد کیا تھا اس پر علماء ومفتیان نے کبھی خود بھی عمل نہیں کیا ہے اسلئے مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” اشرافیہ کا یہ پردہ ترک کردیا جائے کیونکہ یہ شرعی پردہ نہیں ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں قوم لوط کا عمل بڑھتا ہے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے اسلام قبول کیا تھااور علماء کے علم وعمل کو دیکھا اور سمجھا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں جب اپنے ماں باپ، بھائی ، بہن، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی اور اپنے دوستوں کے گھروں میں انفرادی اور اجتماعی کھانے کی ااجازت ہے جس پر صحابہ کرام سے لیکر میرے آباء واجداد (جو سید عبدالقادر جیلانی کی آل تھے اور علماء ومشائخ تھے ) تک فقہاء کے غلط اور خود ساختہ شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں تھا تو مجھے بھی ان کی جہالتوں پر عمل نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں نے کسی دور میں اس پر عمل کرکے بھائی، ماموں ، چچا اور قریبی رشتہ داروں سے شرعی پردے کے نام پر عمل کرکے اپنے خاندان اور دوستوں میں دوریاں پیدا کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔ جب معلوم ہوا تو اپنی جہالت سے نکل گیا ۔ مولانا عبیداللہ سندھی شرعی پردے کے درست تصور کو جانتے تو شریعت چھوڑنے کی دعوت نہ دیتے۔
یہ مولانا عبیداللہ سندھی کی توہین نہیں بلکہ اسلام کی اجنبیت کی دلیل اور ان کی توثیق ہے۔ اگر اسلام کی حقیقت شرعی پردے کے نقاب میں غائب نہ ہوتی تو امام انقلاب مولانا سندھی کیلئے اپنا مشن بہت آسان ہوجاتا۔ رسول اللہ ۖ کی رہنمائی وحی کے ذریعے سے ہوتی تھی لیکن آپۖ کے وصال کے بعد وحی کی ہر معاملے میں رہنمائی کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کیالیکن حضرت عمر پہلے بھی تشویش میں تھے اور آخر میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اگر حضرت ابوبکر کے ساتھ مل کر حضرت عمر نے مانعین زکوٰة کیخلاف جہاد کیا اور اپنے دور میں اس کو غلط قرار دیتے تو یہ اجتہادی خطاء تھی۔ طالبان نے بھی ملاعمر کے دور میں جو اقدامات کئے اور اب ان کو صحیح نہیں سمجھتے تو ان کیلئے اس اجتہادی غلطی کی زیادہ گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ نے وحی کی رہنمائی سے قبل بیت المقدس کا پہلا قبلہ بنایا تھا اور جب تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی تو اہل کتاب کے حکم کے مطابق مسلمان وکافر اور مرد وعورت پر سنگساری ، کوڑے وجلاوطنی کے احکام جاری کردئیے۔ جب زانی مرد وعورت کیلئے سورۂ نور میں100کوڑوں کی سزا کا حکم واضح ہوا تو تورات کے مطابق حکم پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ اللہ نے واضح فرمایا تھا کہ تورات میں تحریف ہوئی ہے اور قرآن محفوظ ہے۔ اگر یہودی بھی تورات کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہوں تو ان کو منع کردو اسلئے کہ اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیںگے۔ حضرت علی سے یہ منسوب ہے کہ اگر آپ اقتدار کرتے تو سب پر انکی کتابوں کے مطابق سزاؤں کا حکم جاری کرتے ۔ حالانکہ یہ قرآن کے منافی ہے۔ حضرت عمر نے مسلمانوں پر بھی تورات کے مطابق باہمی رضامندی سے زنا میں پکڑے جانے پر سنگساری کا حکم جاری کرنے کا اعلان کیا مگر جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ پر چار افراد گواہی کیلئے آگئے تو مسئلہ اتنا خراب کردیا گیا کہ آج تک لوگوں کا دماغ سن ہے۔ حنفی اور جمہور فقہاء کے نزدیک الگ الگ مسالک اس پر بن گئے اور بخاری وغیرہ میں گواہوں کے نام اور ملزم کو بچانے کیلئے عجیب طریقے کا ذکر ہے اور ان پر حدِ قذف جاری کرنے کی وضاحت ہے۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا کہ” وہ تو حضرت مغیرہ کی اپنی بیگم تھی”۔ حالانکہ ام جمیل کوئی اور عورت تھی۔
اگر تین تین افراد کی گواہی پر حدقذف لگے تو طالبان بے پردگی پر سزا کیسے دے سکتے ہیں؟۔ مولانا فضل الرحمن بھی ووٹ مانگنے کے دور میں کہتا ہے کہ تین چشم دید گواہ مردعورت کو ننگے بدکاری کرتے ہوئے دیکھ لیں اور گواہی دیں تو پھر ان تینوں پر حدِ قذف لگے گی۔ علماء ومفتیان افغانستان کے طالبان کو مشکل سے نکالنے میں مدد کریں اور اپنے شرعی قوانین کی غلط تشریح کو بھی درست کرلیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اپنے پر آتی ہے تو حد کیلئے تیار ہونا مشکل کام ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ کو مینارِ پاکستان سے گرانے کی باتیں ہورہی تھیں کہ اس کی شرعی سزا ہے ۔ حالانکہ قرآن میں دونوں مردوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور جب وہ توبہ کرلیں تو ان کا پیچھا چھوڑنے اور طعنہ نہ دینے کا حکم ہے۔ قوم لوط کے فعل کو قرآن نے غیرفطری قرار دیا ہے کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آتے ہو؟۔ حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ ”یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کرنے والے ہو”۔ مدارس میں طلبہ کیساتھ بدفعلی ہیرامنڈی میں عورتوں سے تعلق کے مقابلے میں زیادہ بری ہے۔
سعودی عرب میں پردے کی سخت پابندی تھی تو گھروں میں حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ محرموں کے آپس میں معاملات بگڑنے کی خبریں تھیں۔ اگر طالبان بر وقت اپنی طرف سے ان پابندیوں کو اٹھادیں جو نہ اسلام کا تقاضاہے اور نہ افغانستان کے اپنے کلچر کا تو اس کی وجہ سے یہ قوم بہت سے اندرونی وبیرونی مسائل سے بچ سکے گی۔ جب افغانستان میں اسلامی تعلیم کا درست نقشہ پیش ہوگا تو پوری دنیا میں اسلام کے فطری دین کو پھیلنے کا موقع ملے گا۔ مولانا سندھی نے پاکستان بننے سے پہلے وفات پائی اور انکاتعلق جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ، جمعیت علماء ہند میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں تھا بلکہ کانگریس کے رکن تھے۔ انہوں نے اپنی تفسیر المقام المحمود میں سورةالقدر کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” پنجاب، سندھ، بلوچستان، کشمیر ، سرحد اور افغانستان میں بسنے والی قومیں امامت کی حقدار ہیں ۔ حنفی مسلک اور قرآن کے احکام سے اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی۔ اگر پوری دنیا کو ہندو ہمارے مقابلے میں لائے تو ہم یہا ں سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ اسلام کی نشاة کا مرکزی خطہ یہی ہے اور ایران بھی اس انقلاب کو قبول کریگا”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں