پوسٹ تلاش کریں

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے! اخبار: نوشتہ دیوار

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

فحش لاہوری عورت سے بے غیرت فوجی کا نکاح اورمفتی تقی عثمانی کا ایک انتہائی بیہودہ غلیظ فتویٰ

کہاںنبیۖ کا ایلاء اور تفویض طلاق پراللہ کاحکم اور کہاںیہ بے غیرت اور بدکردار جوڑا؟

سوال میں تاریخ کے تضادات کی زبردست بھر مار ہے۔غلط اور بیہودہ مسائل پرتنبیہ کرنے کی جگہ پیسہ لے کرمرد کے حق میں عورت کا سکون تباہ کرنے کا فتویٰ دیدیا گیا؟

مسئلہ غلط سمجھنے کی بناء پر تفویضِ طلاق محقق نہ ہونے کے باوجود طلاقِ بائن کا وقوع سمجھنا۔ فتاوی عثمانی ص404تا409انتہائی بے غیرتی پر مبنی سوال وجواب

فتویٰ میں یہ تأثر ہے کہ” فوجی اپنے بچوں کی ماں پر غیرت نہیں کھاتے تو مادرِ وطن پر کیا غیرت کھائیں گے؟” اگر نبیۖ کی توہین پر غیرت نہیں آتی توپاک فوج اپنی توہین پرغیرت کھائے

مفتی تقی عثمانی واضح کردیتا کہ فحاشی کے ارتکاب کی صورت کو نبیۖ کی ذات اور ازواج مطہرات سے مشابہ قرار دینے پر توبہ کرو۔فحاشی میں طلاق ناپسندیدہ عمل نہیں بلکہ تم تو لعان کرو

کسی نے انتہائی عیاری سے سوال مرتب کرکے کچھ دے دلا کر فتویٰ لیا ہے تاکہ عوام الناس کا علماء ومفتیان پراعتماد ختم ہو ۔علماء میرے لئے نہیںبلکہ اللہ اور اسکے رسولۖ کیلئے اُٹھ جائیں

سوال : ۔ میری شادی لاہور میں24جولائی1953کو یعنی چوبیس سال قبل نجمہ خاتون سے ہوئی، نجمہ خاتون کے ماں باپ نہیں تھے۔ اپنی خالہ اور پھر خالہ کی وفات کے بعد خالہ زاد بہنوں کے پاس پرورش پائی۔ میری شادی ان کی خالہ زاد بہن کے ذریعے سے ہوئی۔ شادی سادہ طریقے پر ہوئی ۔ مہر مبلغ پانچ ہزار معجل عندالطلب قرار پایا۔ میں پاکستان ائیرفورس کا ملازم تھا، پانچ اولادیں ہوئیں، تنخواہ قلیل تھی لیکن زندگی ہنسی خوشی سے گزر ی، اس کے بعد میری بیوی نے مانع حمل دوائیں استعمال کرکے اپنے کو مزید اولاد سے بچالیا (چونکہ کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور مزید بچوں کی پیدائش تعلیم میں مانع ہوسکتی تھی)۔
جب میری شادی ہوئی تو وہ معمولی پڑھی لکھی تھی، گھر میں پڑھانا شروع کیا۔ پہلی بچی ہونے والی تھی اُسے آٹھویں جماعت کا کورس پڑھانا شروع کیا ۔1960میں تیسرابچہ پیدا ہوا تو اس کو میٹرک کا امتحان دلوایا، وہ دو تین پرچوں میں فیل ہوگئی۔1969میں بچی میٹرک کا پرائیویٹ امتحان دے رہی تھی ، بیوی کو ساتھ پڑھایا اور دونوں کا امتحان دلادیا، خدا کے فضل سے دونوں کامیاب ہوگئیں۔ بعد میں بچی نے بی اے کرلیا اور بیوی کو طبیہ کالج کراچی میںچارسالہ کورس کیلئے داخلہ دلوادیااور میں نے یہ اس خیال سے کیا کہ اگر میں مرجاؤں تو میری بیوی کسی پر بار نہ بنے اور عزت کیساتھ اپنا پیٹ بھر کر بچوں کی پرورش و تعلیم دلاسکے۔
1965کی سترہ دن کی جنگ میں ایک دم بوڑھا ہوگیا ، جب سرگودھا سے واپس آیا تو میرے سر کے آدھے سے زیادہ بال سفیدہوچکے۔12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا، اس وقت میری بیوی طبیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھیں اور میں کورنگی کریک میں رہتا تھا، جانے سے قبل ناظم آباد میں کرایہ پر مکان لیکر بیوی بچوں کو منتقل کر دیا اور چلاگیا۔
1967 میں طبیہ کالج سے چار سالہ کورس مکمل کرلیا، کالج کے ایک ساتھی جو ان سے دوسال پہلے فارغ ہوچکے تھے،وہ ان دنوں کلینک چلارہے تھے اور اپنی ہونے والی بیوی کیلئے علیحدہ کلینک چلانے کا پروگرام تھا۔ ان شرائط پر کہ ان کی زیرِ نگرانی شام کے اوقات میں کلینک پر بیٹھیں گی اور وہ جلد ہی ان کو رجسٹریشن کیلئے سر ٹیفکیٹ دیں گے اور ساتھ ہی اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ ان کو مل جایا کرے گا۔ لہٰذا وہ بیٹھنے لگیں ، یہ تمام باتیں میری بیوی نے مجھ کو خط کے ذریعے مطلع کیں اور میں نے اجازت دیدی، چونکہ مجھے اپنی بیوی پر مکمل اعتماد تھااور میں اس کی بات پر شک نہیں کرتا تھا ،اب تک ہماری زندگی انتہائی مسرت سے گزری تھی ۔
ابوظہبی کے دورانِ قیام میں تین ہزار ماہوار بھیجتا رہا ، دو ہزار خرچ اور ایک ہزار مکان کی تعمیر یا مکان خریدنے کیلئے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ تین ہزار خرچ ہوتے رہے اور پھوٹی کوڑی بھی جمع نہ کرسکی ، اس دوران انہوں نے دوسرا مکان ناظم آباد میں کرایہ پر لیا جس کا کرایہ چار سو روپے ماہوار تھا، اس میں ٹیلیفون بھی تھا۔ مجھے یہ کہا گیا کہ ٹیلیفون سے یہ فائدہ ہے کہ مہینے میں کم ازکم ایک بار ٹرنک کال پر بات ہوسکتی ہے، میں مطمئن بلکہ خوش تھا لیکن یہ ٹیلیفون میرے لئے سب سے بڑی پریشانی کا سبب بنا ، میری بیوی نے دوستیاں بڑھانا شروع کردیں، ماں بیٹے میں جھگڑے شروع ہوگئے ، میرے بڑے لڑکے کو ان باتوں پر اعتراض تھا ، تنگ آکر لڑکے نے مجھ کو ایک خط میں ان حالات سے مطلع کیا ، میں نے لڑکے کو بہت سخت اور ڈانٹ کر خط لکھا کہ تم نے اپنی ماں کے بارے میں ایسا کیوں سوچا؟، ساتھ ہی اپنی بیوی کو بھی کافی ڈانٹ کر سخت خط لکھا، یہ بات فروری1966کی ہے لیکن میری بیوی نے مجھے اور اپنی اولاد سے اب جھوٹ بولنا شروع کردیا اور ان کی دوستی کا سلسلہ چلتا رہا ، انتہا یہ کہ انہوں نے اپنے ایک ” بھائی” کے اشتراک میں علیحدہ کلینک کھول لی اور مجھ کو انہوں نے یہ باور کرایا کہ لڑکا شادی شدہ ہے ( جوکہ غلط تھا) ، اور ایک ڈاکٹر صاحب کا لڑکا ہے ( یہ بھی غلط تھا) ، خود میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہاہے (یہ بھی غلط تھا) ، غرض یہ کہ مجھ سے تمام باتیں جھوٹ اور غلط لکھ کر نئی کلینک کھولنے کی اجازت لے لی ، اب حالات اور خراب ہوگئے دو، دو ماہ تک خط کا منتظر رہتا ، خیرت کی اطلاع نہیں ملتی ، روپیوں کا کوئی حساب نہیں معلوم ہورہاتھاکہ ان کے پاس کتنے کس قدر رقم جمع ہوئی ہے؟۔
دوسرے لوگوں کے خطوط کے ذریعہ معلوم ہوا کہ گھر کا ہر فرد تباہ ہورہاہے، بچے سکول نہیں جا رہے ہیں اور مسلسل ناغوں کی وجہ سے ایک بچے کا نام کٹ گیا ہے۔ غرض یہ کہ نہایت پریشان کن اطلاعات ملتی رہیں، ان حالات سے تنگ آکر ایک تفصیلی خط لکھا اور اس میں ان تمام حالات کی نشاندہی کی ، ساتھ ہی ساتھ خط میں ایک جملہ محض روانی میں تحریر کردیا : ” حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید کب کا دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تومیں اس پر غور کرسکتا ہوں۔”
حسنِ اتفاق سے میں انہی دنوں تفہیم القرآن کا معالعہ کررہاتھا اور یہ بھی محض اتفاق تھا کہ اس دن جو سورت زیرِ مطالعہ تھی وہ سورہ اَحزاب تھی، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ پر ظاہر کیا کہ اگر تمہاری بیویاں دنیا کی آسود گیاں چاہتی ہیں تو ان کو کچھ دے کر علیحدہ کردو ،اور اگر اللہ اور رسول کا قرب چاہتی ہیں تو اس کا بڑا اجرو ثواب ہے۔ جب میں نے اس کی تفسیر پڑھی تو میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے اور میں یہ سمجھا کہ میرے اس مذکورہ جملے سے میں نے اپنی بیوی کو یہ حق منتقل کردیا حالانکہ قبل ازیں میرا کوئی ارادہ یا مقصد نہ تھا اور نہ بعد میں کوئی ارادہ ہوا ،اور نہ اب ہے۔ چنانچہ میں نے اس جملے کے بعد کا سارا مضمون جو زیادہ اہمیت کا حامل نہ تھا، حذف کیا اور تفہیم القرآن کی وہ تمام عبارت جو اس سورة سے متعلق تھی نقل کی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ :” میں نے محض اتفاقیہ طور پر نادانستہ یہ جملہ لکھ دیا تھا، لیکن اب پتہ چلا کہ اگر مرد ، عورت کو طلاق کا اختیار دیدے اور وہ اس کو حاصل کرنے کے بعد مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور اسکے بعد سارا معاملہ ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا تم کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح حالات کودیکھ لو، اسی لئے میں نے تم کو پوری تفسیر نقل کرکے روانہ کی ، ساتھ ہی ساتھ میں اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی24جولائی1976کو رات بارہ بجے تک تم مجھ کو اپنے جواب سے مطلع کردو۔ خیال رہے کہ یہ تاریخ ہماری شادی کی سالگر ہ بھی ہے ، تمہارا جواب30،31جولائی کو مل جائے گا۔ میں بہت بے چینی سے تمہارے خط کا منتظر ہوں ۔” وغیرہ۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو خط بھیجا اس میں اس سے متعلق جو جملہ تھا وہ اس طرح کا تھا :” آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر کبھی مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی کہ ہوگئی، اس خط میں تو آپ نے لفظِ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیاہے”۔
میں نے انکے جواب سے سمجھا کہ طلاق مانگ لی ، چنانچہ میں نے ان کو خط لکھا اس میں جو جملہ تحریر تھا وہ یہ تھا :” آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے ، باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر واقع ہوجائیں گی۔ جس کی تفصیل میں اپنے پچھلے خط میں تحریر کرچکا ہوں۔” ساتھ ہی ان کو ہدایات کیں کہ اپنی رہائش کیلئے کسی جگہ کا انتخاب کرلیں، حق مہر ادا کرچکا ہوں ، پھر بھی آپ کہتی ہیں کہ نہیں ملاتو جو رقم آپ کے پاس بینک میں جمع ہے اس میں سے آپ اپنا مہر لے سکتی ہیں ، گھر کی ہر چیز آپ کی ملکیت ہے ، البتہ بچی کی جہیز کی جو چیزیں ہیں وہ اس کو دے دیںاور اگر بچوں کے کپڑے دے دیں گی تو آپ کا بڑا احسان ہوگا۔ ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ، بچوں سے پوچھ لو کہ وہ کس کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں؟ اگر ماں کیساتھ رہنا پسند نہ کریں تو ان کو میرے بڑے بھائی کے گھر پہنچادو۔
اس خط کے جواب میں23اگست کو میری بیوی کا جو خط آیا اس میں انہوں نے لکھا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ نہ تو میں نے جب طلاق مانگی تھی اور نہ اب مانگ رہی ہوں ، میں نے اس خط میں آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں۔ میرا کون ہے اور اب میں طلاق لے کر کیا کروں گی؟۔ وغیرہ وغیرہ ۔ جب یہ خط مجھ کو ملا ، میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور نمازِ شکرانہ ادا کی ، لہٰذا24ستمبر سے پہلے13ستمبر کو میں پاکستان آیا اور باقاعدہ تعلقات زن وشوہر قائم کئے ۔
اب میری بیوی کو چند لوگوں نے یقین دلایا کہ طلاق ہوچکی ، چنانچہ میں ابوظہبی سے قیام ختم کرکے جون1977کو واپس آیا تو کچھ عرصہ بعد ہی اس نے کہنا شروع کیا کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے اور18ستمبر1977کو بچوں اور گھر کو چھوڑ کر چلی گئی اور عدالت میں تنسیخِ نکاح کا دعویٰ بھی کردیا۔ اس کا کہنا یہی ہے کہ یہ مجھ کو طلاق دے چکے ہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا واقعی ان حالات میں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں ؟۔
تنقیح:۔ صفحہ:5کے آخری خط کشیدہ عبارت اور صفحہ:6کی شروع کی خط کشیدہ عبارت کے متعلق چند باتیں وضاحت طلب ہیں ، جن کے بارے میں آپ کی زبانی عبارت زیادہ مناسب ہے ۔ لہٰذا آپ جمعہ کے علاوہ کسی دن بھی صبح9بجے دارالافتاء دارالعلوم کورنگی کے ایریا کراچی نمبر14میں تشریف لاکر ملاقات کریں۔ والسلام بندہ عبدالرؤف سکھروی ١٦/٤ / ١٣٩٨ ھ
جوابِ تنقیح :۔1:۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اگر اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید میںکب کا طلاق دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تو اس پر غور کرسکتا ہوں۔2:لیکن اب پتا چلا کہ اگر مردعورت کو اختیار دیدے اور وہ اسکو حاصل کرنے کے بعد طلاق مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اسکے بعد معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔3:ساتھ ہی ساتھ اس تفسیر کے مطالعے کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی ٢٤جولائی ١٩٧٦ء رات بارہ نجے تک تم مجھے جواب سے مطلع کردو ۔4:آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی ہوگئی اور اس خط میں تو آپ نے یہ لفظ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیا ہے ۔5:آپ کے خط بمو جب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر ہوجائیں گی ،جسکی تفصیل پچھلے خط میں تحریر کر چکا ہوں۔6:آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟ نہ تو میں نے طلاق مانگی تھی ، نہ اب مانگ رہی ہوں ،میں نے اس خط میں(سیاہ )تو آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور میں اب طلاق لیکر کیا کروں گی ۔7:میں نے ان خطو ط کی نقل اپنے پاس رکھ لی تھی جو میں نے پھاڑ کر جلادیئے تاکہ ا س تلخ واقعے کی یاد پھر کبھی نہ آئے ۔8:یہ معلوم کر نا چاہتا ہو ں کہ واقعی ان حالات میں طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟۔
جواب :۔ جس قدر باتیں سوال میں لکھی گئی ہیں ،اگر وہ درست ہیں تو صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ سائل نے جو جملے صفحہ: 4کے آخر میں نقل کیا ہے کہ :” اگر اللہ تعالیٰ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند طلاق نہ ہوتا توشاید میں کب کا طلاق دے چکا ہوتا، بہر حال اگر تم چاہوتو میں اس پر غور کرسکتا ہوں” اس جملے سے تفویضِ طلاق متحقق نہیں ہوتی ،لیکن سائل نے تفہیم القرآن کے مطالعے سے غلط طور پر یہ سمجھا کہ مذکورہ جملے سے طلاق ہوگئی ہے۔ اس کی بنیاد پر جب بیوی نے خط لکھا تو سائل نے کہا کہ ”آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔”
یہ انشاء طلاق نہیں بلکہ حکم شرعی کا غلط بیان ہے اسلئے اس سے طلاق واقع نہ ہوگی لیکن یہ جواب صرف اس صورت میں ہے جبکہ سائل نے اپنے خطوط میں یا یا زبانی انشاء طلاق کا کوئی جملہ استعمال نہ کیا ہو۔ اگر کوئی ایسا جملہ اس نے کہا یا لکھا ہو جس کا ذکر اس سوال میں نہیں تو صورت حال مختلف ہوگی لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر اور آخرت کو پیشِ نظر رکھ کر عمل کریں۔ ھٰذا ماعندی واللہ سبحانہ اعلم فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ404تا409

___تبصرۂ نوشتہ دیوار___
قارئین عوام حضرات بالعموم اور علماء مفتیان حضرات بالخصوص اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارا کوئی الگ علم و فہم نہیں ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس دینیہ کے اساتذہ سے فقہ اور اصول فقہ کی جو تعلیم میں نے حاصل کی ہے ۔ علم النحو،اصولِ فقہ اور قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں شیخ التفسیرحضرت مولانا بدیع الزمان سے بنیادی تعلیم حاصل کی ہے جو مفتی محمد تقی عثمانی اوردیگر بڑے علماء کرام حضرت مولانا قاری اللہ داد مدظلہ العالی کے بھی استاذ ہیںاورمزے کی بات یہ ہے کہ دورانِ طالب علمی میرے اساتذہ کرام نے درس نظامی کی تنقید پر نہ صرف میری تائید اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے بلکہ اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ میں اصلاح کرلوں گا۔ اہل تشیع کا اپنی فقہ کو حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرنا اہل سنت کی نقل اور شیعہ مسلک کے اصول کے منافی ہے اسلئے بارہ اماموں میں سے کسی ایک طرف فقہ کی نسبت عقیدۂ امامت کا تقاضہ نہیں ہے۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ ایک مولانا سے مسئلہ پوچھ لیا تو اس نے کہا کہ حرام ہوچکی ہے، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ آخر کار اس شخص نے مصلے کے نیچے پیسے رکھے تو مولانا نے کہا کہ طلاق عربی کا لفظ ہے۔ جس کے آخری ق کو اس طرح سے پڑھتے ہیں۔ آپ نے کتے والا کاف طلاک کہا ہے اسلئے طلاق نہیں ہوئی ۔ بڑے مدارس کے مفتی اعظم وشیخ الاسلام کا طریقہ واردات مختلف ہوتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی کے فتوے ، تنقیح وجواب تنقیح میں کیا ہے؟، سوال وجواب اورتنقیح وجواب تنقیح خودمرتب کرکے اچھے پیسے لئے ہونگے تاکہ اس فتویٰ سے وہ شخص عورت کو تنگ کرسکے۔
اس فتوے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ سائل پر واضح کردیا جاتا کہ
1:تم بے غیرت نے اپنی بدکردار بیوی کا معاملہ نبی ۖ اور ازواج مطہرات پر قیاس کرکے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کیا، سب سے پہلے اس سے توبہ کرلو۔ قرآن کے ایلاء کا اس بے غیرتی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
2:جب کوئی عورت فحاشی میں مبتلاء ہو تو پھر اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل بالکل بھی قرار نہیں دیا ۔
3:جب تم نے اپنی عورت پر فحاشی میں کھل کر مبتلاء ہونے کا اعلان کردیا ہے تو شریعت کا تقاضہ ہے کہ تمہارے درمیان لعان کے ذریعے سے جدائی ہو ، یا پھر اس کو طلاق دے کر فارغ کردیتے۔
4:تمہارے سوال میں وضاحت کہ ”ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ۔” سے معلوم ہوتا ہے کہ غلط بیانی سے کام لے کر تم نے اس کا سکون فتوے سے تباہ کرنا ہے۔ جب وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو فتوے بازی کے بجائے اس کا پیچھا کرناچھوڑ دو۔
5:سوال میں ان معاملات کی تنقیح کرتے۔ الف: عورت ماں باپ کے بغیر نسل پر الزام لگ گیا اوریہ تأثرہے کہ فوجیوں کی بیگمات کس قسم کی ہوتی ہیں؟۔ب: شوہر سے خیانت کے باوجود فوجی اس کو رکھتے ہیں۔ جس فوجی میں اپنے بچوں کی ماں کیلئے غیرت نہیں ہوگی تو وہ مادرِ وطن کے دفاع کیلئے کیا غیرت کرے گا؟۔ ج:مسلمانوںکو بے غیرتی کی تعلیم قرآن نے دی، پرویزیوں کی غلط تفاسیر میں یہی واضح طور پر موجود ہے۔ د: اس فتوے کے سوالات کی ترتیب سے یہ بھی لگتا ہے کہ یہ شخص پرویزی ہو گااور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے یہ سوالنامہ مرتب کیا ہو اور فتویٰ فروشوں کی وجہ سے اسلام کو بدنامی پہنچائی جارہی ہو۔
6:ایک طرف یہ لکھ دیا ہے کہ”1965کی سترہ دنوں کی جنگ نے مجھے بوڑھا کردیا اور جب سرگودھا سے واپس آیا تو آدھے سے زیادہ بال سفید ہوچکے تھے” اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ”12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا”۔ یعنی65کی جنگ کے دوران جب تھا نہیں تو پھر17دن کے جنگ سے الو کا پٹھا بوڑھا کیسے ہوگیا؟۔ ایک طرف لکھ دیا کہ”1969میں بیوی نے میٹرک کاا متحان دیا، دوسری طرف وہ1964میں طبیہ کالج کراچی میں زیر تعلیم تھی؟۔ جو1967میں طبیہ کالج سے کورس مکمل کرکے پریکٹس بھی شروع کردی؟۔ یہ سارا جھوٹ کا پلندہ لگتا ہے جو پرویزی اور مفتی تقی عثمانی نے مل جل کر قرآن ، نبی ۖ ، مسئلہ طلاق اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے رچایا ہے۔ فتوے میں عورت کا نام ہے لیکن شوہر کا نہیں ہے؟۔
جس طرح بہت سارے مخلص مذہبی لوگ مولویوں کی وجہ سے قرآن وسنت سے دور ہیں ،اسی طرح سے پرویزیوں نے بھی بہت مخلص لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ ہمارا مقصد قرآن وسنت کی وہ درست تصویر پیش کرنا ہے جس کی وجہ سے بہت مختصر وقت میں دنیا کی دونوں سپر طاقتیں قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو شکست مل گئی تھی۔
فقہ الگ دنیا نہیں جس میں پیسہ لیکر حیلہ سازی سے عورت اور کبھی شوہر کے حق میں فتویٰ دیا جائے۔ بلکہ قرآن وسنت کے درست فہم کا نام فقہ ہے۔ اور اس کے ذریعے سے عوام کی درست رہنمائی کا نام مفتی کی اہلیت ہے۔ جب مفتی تقی عثمانی نے حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگایا تو اس وقت جمعیت علماء اسلام پاکستان کے دو دھڑے تھے۔ جمعیت مولانا فضل الرحمن و جمعیت مولانا عبداللہ درخواستی نے حاجی عثمان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ یہ اظہاربھی کیا کہ ان علماء ومفتیان نے الائنس موٹرز (ٹی جے ابراہیم مضاربہ کمپنی ) سے اچھا خاصا مال بٹور کر فتویٰ دیا اسلئے کہ1970میں اکابرین جمعیت علماء اسلام کے خلاف خوب مال بٹور کر فتویٰ دیا گیا۔
ہم اپنے اساتذہ کرام کی توقعات کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے فقہ ، اصول فقہ ، قرآن اور حدیث کے ذریعے درست رہنمائی کا فرض ادا کررہے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی بھی یہی خواہش تھی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں