قرآن میں حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہے لیکن علماء اورفقہاء نے قرآن چھوڑ کر معاملہ اُلٹ دیا
مئی 3, 2023
قرآن میں حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہے لیکن علماء اورفقہاء نے قرآن چھوڑ کر معاملہ اُلٹ دیا
عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پرفرمایا کہ ”طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے ”۔ (البقرہ آیت229)پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ ” دو مرتبہ طلاق کے بعد قرآن میں تیسری طلاق اسی آیت میں یہی احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔اور پھر نبی ۖ حضرت ابن عمر پرحیض میں طلاق دینے پر بہت غضبناک ہوئے اور حکم دیا کہ ” رجوع کرلو۔ پھر پاکی کے دنوں میں طلاق دے دو، یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیدو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے”۔( بخاری)
قرآن و حدیث میں ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ طلاق کا تعلق عدت میں پاکی کے دنوں سے ہے۔جب حیض آتا ہو۔ آیت228میں عدت کے تین ادوار کا تعلق حیض وطہر سے جڑا ہوا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ” عدت میں انکے شوہر ان کو باہمی اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔(228البقرہ)
ایک مرتبہ میں3طلاق دیدئیے جائیں یا الگ الگ مراحل میں ، بہرحال اللہ نے واضح طور پر صلح کی شرط پر عدت کے دوران ان کے شوہروں کو ہی رجوع کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ البتہ جب عدت گزر جائے تو پھر اگرچہ وہی شوہر بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط پر رجوع کا حق رکھتا ہے لیکن کسی اور کو بھی نکاح کرنے کا پورا پورا حق مل جاتا ہے۔ اگر شوہر نے ایک مرتبہ طلاق دے دی تو عدت تک عورت پہلے شوہر کے نکاح میں رہنے کی پابند ہے اور صلح کی شرط پر وہی شوہر زیادہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس کو لوٹائے لیکن صلح کی شرط نہ ہو تو عورت کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور شوہر سے بھی نکاح کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے۔ قرآن کے الفاظ میں معانی اور حقائق کا توازن موجود ہے لیکن افسوس کہ اس طرف آج تک امت نے کوئی اجتماعی توجہ نہیں کی۔ جس کی شکایت اللہ نے قرآن میں درج کی کہ ” رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (سورة الفرقان )
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر اتنے جذباتی تھے کہ قرآن کے واضح احکام کو پسِ پشت ڈال کر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ جاری کردیا؟۔ اتنی بڑی طلاق بدعت کے مرتکب ہوگئے؟۔ قرآن وسنت سے امت مسلمہ کو انحراف کی راہ پر ڈال دیا ؟۔ امت مسلمہ کے اختلافات اور گمراہی کا سبب بن گئے؟۔ اہل تشیع بیچاروں کو تو غمِ حسین سے اتنی فرصت نہیں تھی کہ یزید کو چھوڑ کر حضرت عمر کے خلاف بکنے کی جسارت کرتے لیکن اہل سنت نے خود ایک جلیل القدر صحابی حضرت عمر فاروق اعظم کی طرف طلاق بدعت کو منسوب کیا اور قرآن وسنت سے انحراف کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ جب قرآن وسنت میں طلاق کا حکم اور طریقہ الگ تھا اور حضرت عمر نے اس سے انحراف کرکے امت کو بدعت پر ڈال دیا تو بہت سارے لوگ اہل سنت کے مسلک کو چھوڑ کر اہل تشیع بن گئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے داماد علامہ زعیم قادری بھی بدترین شیعہ بن گیا تھا۔
حنفی مسلک یہ ہے کہ” اگر کوئی صحیح حدیث بھی قرآن سے متصادم ہو تو اس کو چھوڑ دو۔ البتہ اگر تطبیق ہوسکے تو پھر دو ضعیف احادیث میں تطبیق کرو”۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ سے انحراف کیا جائے؟۔ فقہ کی کتابوں میں بہت سارے معاملات کے اندر حضرت عمر سے فقہ حنفی نے بھرپور اختلاف کیا ہے جو بالکل اور بہت زیادہ عیاں ہیں۔
طلاق کے مسئلے میں حلالہ کے شوقین حضرات نے گنگا کو الٹا بہانے کی کوشش کی ہے۔ جب قرآن میں واضح ہے کہ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور ایک بار میں بھی دو طلاقیں نہیں ہوسکتی ہیں ایک ساتھ تین طلاق تو بہت دور کی بات ہے تو چاہیے تھا کہ حنفی اصول فقہ کے مطابق نہ صرف حضرت عمر کے فیصلے کو بلکہ اگر اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی تو اس کی فقہ کی کتابوں میں تردید کی جاتی۔ لیکن افسوس کہ شافعی فقہاء نے حضرت عمر کے قول کو سنت اور حنفی فقہاء نے بدعت قرار دیکر قبول کیا۔ شافعی فقہاء نے حدیث سے اپنا مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی اور حنفی فقہاء نے بھی حدیث سے اپنا مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور ساتھ میں قرآنی آیات کی تفسیر میں بہت بری طرح توڑ مروڑ کی ناکام کوشش فرمائی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ قرآنی آیات میں بھرپور وضاحتوں کے باوجود اس سے معنوی تحریف کا ارتکاب کتنا زیادہ بدترین خطرناک ہتھکنڈہ ہے؟۔
اگر حلالہ کی لعنت سے جنسی لذات کا فائدہ اٹھانے والے قرآن کے ٹھوس ، واضح اور فیصلہ کن آیات کو دیکھتے تو حضرت عمر کی طرف بھی یہ بڑی غلطی منسوب کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ شارٹ کٹ میں یہ فیصلہ کرتے کہ جب اللہ نے عدت میں باہمی اصلاح وصلح کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو پھراس کے مقابلے حضرت عمر کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے کوئی صحیح حدیث بھی قابل قبول نہیں ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں لکھ دیتے کہ حضرت عمر اتنے کم عقل نہیں تھے کہ اس طرح قرآنی آیات کے منافی واضح فیصلہ کرتے۔ حضرت عمر کے دربار میں شوہر فیصلہ اسلئے لایا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ اگر وہ راضی ہوتی تو فیصلہ کرنے کیلئے حضرت عمر کے دربار تک بات پہنچنے کی ہرگزضرورت پیش نہ آتی۔ جب عورت راضی نہیں تھی تو قرآن کا یہ فیصلہ ہے کہ صلح واصلاح کے بغیر ایک طلاق کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے ،اسلئے بلاشبہ حضرت عمر کا فیصلہ قرآن کے عین مطابق100%درست تھا ۔
حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دوتین سالوں تک ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کا فیصلہ جاری کردیا۔ صحیح مسلم کی اس روایت میں قرآنی آیات کے مطابق یہ تطبیق ہے کہ پہلے اکٹھی تین طلاق پر جھگڑارہتا تھا لیکن عدت میں رجوع کا دروازہ بھی کھلا ہوتا تھا اور جب حضرت عمر تک معاملہ پہنچادیا گیا تو آپ نے علیحدگی کا فیصلہ دے دیا۔ اگر اس سے پہلے بھی جھگڑا کسی حکمران کے دربار یا مفتی کے دارالافتاء میں پہنچتا تو یہی فیصلہ اور فتویٰ ملنا تھا لیکن اتفاق سے حضرت عمر کے دور میں یہ معاملہ پیش آیا۔ باقی فسانہ بعد میں بنایا گیا۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ