پوسٹ تلاش کریں

قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی

قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی اخبار: نوشتہ دیوار

قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی

اللہ تعالیٰ نے رجوع کا تعلق طلاق کی تعداد سے نہیں بلکہ عدت کیساتھ باہمی صلح واصلاح سے جوڑا ہے جو اتنا واضح ہے کہ سود خور مفتی تقی عثمانی اورمفتی عبدالرؤف سکھروی جیسوں کو بھی نظرآسکتا ہے

سندھ کی ایک بیٹی کیلئے محمد بن قاسم اس پورے خطے کو فتح کرسکتا ہے لیکن کیا ہماری فوج، ہمارے حکمران اور علماء ومفتیان اپنی خواتین کی عزتوں کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کرسکتے ؟

محمود شوکت اور فرحت کو ساڑھے چار سال کے بعدشک کی بنیاد پر حلالے کا فتویٰ دیا گیا، اس دوران اولاد بھی پیدا ہوئی ہوگی۔ سوال میں بیگم کا نام نہیں لیکن جواب میں ہے،دیدار بھی کیا ہوگا۔ اگر قرآنی آیات سے اُمت کو دور نہ رکھا جاتا تو سورہ ٔ طلاق کی پہلی آیت بھی رہنمائی کیلئے کافی تھی۔علماء میں یہ صلاحیت بھی نہیںکہ اس کا ترجمہ کرسکیں۔ اللہ نے فرمایا” جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت تک کیلئے طلاق دو”۔ طلاق کوئی ٹوپی اور دوپٹہ نہیں کہ مخصوص وقت کیلئے دی جائے۔ علماء کے نزدیک عورت کی عدت تین حیض ہیں۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ عورت کو حیض کیلئے طلاق دی جائے۔ حیض میں تو ویسے بھی مقاربت نہیں۔ عورت کی طہارت کے دنوں کو علماء نے عدت الرجال یعنی مردوں کی عدت قرار دیا ۔ جس میں مرد طلاق دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق دینے کی وضاحت کردی تو علماء کے پاس اس کا جواب تک نہیں۔
بیوی کوچھوڑ نا طلاق ہے اللہ نے فرمایا: ” جب تم عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے ان کو چھوڑ و”۔ پھر فرمایا: ” ان کوانکے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کریں”۔ وجہ یہ بتائی کہ ” ہوسکتا ہے کہ اللہ نئی صورت پیدا کردے”۔ یعنی عدت میں دونوں آپس میں اکٹھے رہنے پر راضی ہوجائیں۔ اگر ہم مان لیں کہ اللہ نے حکم دیا کہ”عدت کیلئے طلاق دو” سے مراد یہ ہے کہ” پہلے طہر میں پہلی طلاق ، دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق”۔ تو پھر اگر ایسا کربھی لیا تو اللہ نے اگلی آیت2سورہ ٔ طلاق میں فرمایا: ”جب وہ عورتیں اپنی عدت پوری کرچکیں تو معروف طریقے سے ان کو روک لو یا معروف طریقے سے الگ کردو۔ اور اس پر اپنے میں سے دو عادل گواہ بھی بنالو۔ اللہ کیلئے گواہی قائم کیا کرو۔ اور جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے پھر بھی (اس مشکل ) صورت سے نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔ (آیت2سورۂ طلاق )
آیات میں یہ بالکل واضح ہے کہ اگر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور پھر عدت کی تکمیل کے بعد آپس کی رضامندی سے رجوع کرلیا تو بھی ٹھیک ہے اور اگر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تواس پر دو عادل گواہ مقرر کریں ، تاکہ طلاق کی صورت میں عورت کو مالی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ پھر بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی اللہ کا خوف رکھے گا تو اللہ اس کیلئے اس مشکل سے نکلنے کا راستہ نکال دے گا۔
رکانہ کے والد نے رکانہ کی ماں کو تین طلاقیں دیں، دوسری عورت سے شادی کی،اس نے اسکے نامرد ہونے کاکہا تو نبی ۖ نے فرمایا کہ اسکے بچے اسکے مشابہ ہیںاور اس کو چھوڑنے کا حکم دیا اور فرمایا : ام رکانہ سے رجوع کرلو؟ ۔ عرض کیاگیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : مجھے علم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف) رکانہکے والد نے سورہ ٔ طلاق کے مطابق مرحلہ وار تین طلاق دی تھیں۔ آخر میں دو عادل گواہ بناکر عورت کے حقوق کی پاسداری کی تھی اسلئے اللہ نے راستہ بنادیا۔
مفتی محمد شفیع جیسے لوگ مدرسہ کے وقف مال میں اپنے بیٹوں کیلئے ناجائز مکانات خریدتے ہیں تو جب وہ تین طلاق اپنی بیگمات کو دیتے ہیں تو فقہ کی کتابوں سے حلالہ کی تجویز کے بغیر چارۂ کار نہیں پاتے ہیں۔وہ اپنے معتقدین کے ساتھ بھی حلالہ کی لعنت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کیلئے تمام شبہات اور دلائل کو مسترد کرتے ہوئے حلال قرار دے دیا لیکن لوگوں کی عصمت کو بچانے کیلئے کھلی آیات نہیں دیکھتا۔
جب محمود شوکت اور فرحت نے صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کرلیا تویہ درست تھا۔ سورۂ طلاق کے علاوہ سورۂ بقرہ آیت228میں بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں”۔
اس آیت میں ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے غلط مذہب اور جہالت سے بھی امت مسلمہ کی اللہ نے جان چھڑائی ہے اور طلاق رجعی کے غلط تصور سے بھی جان چھڑائی ہے اسلئے کہ رجوع کو عدت میں صلح کیساتھ مشروط کردیا۔ صلح کیساتھ عدت میں اکٹھی تین طلاق ہو یا پھر مرحلہ وار تین طلاق ہو رجوع کا حکم واضح کردیا ہے۔ علماء بنی اسرائیل کی طرح ہمارے علماء ومشائخ نے بھی گدھوں کا کردار ادا کرنا تھا۔ اسلئے کہ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے اور ان گدھوں سے امت کو بچانے کیلئے رجوع کا مسئلہ واضح کیا۔
سورہ بقرہ آیت229میں مزید واضح کردیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ۔پھر معروف طریقے سے روکناہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ جس طرح تین دن میں تین روزوں کا تصور واضح ہے کہ دن کو روزہ رکھا جاتا ہے اور درمیان میںرات کا وقفہ آتا ہے۔ اسی طرح آیت228البقرہ میں عدت کے تین مراحل کو واضح کیا ہے اور آیت229میں مرحلہ وار تین طلاق کا ذکر ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہی تیسری طلاق ہے جس کا ذکر229البقرہ میں ہے۔ پھر آیت229کے آخر میں اس صورت کا ذکر ہے کہ جب عدت بھی پوری ہوجائے، عورت کو اس کے مالی حقوق بھی دئیے جائیں اور دونوں اور صلح کرانے والے فیصلہ کرلیں کہ آئندہ ان دونوں میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ چھوڑا جائے۔ اسی صورت کے بعد آیت230البقرہ کا معاملہ ہے۔ لیکن اگر عدت کی تکمیل کے بعد بھی صلح کرنا چاہتے ہوں تو آیات231اور232البقرہ میں پھر بھی عدت کے فوراً بعد رجوع اور کافی عرصہ بعد بھی آپس کے نکاح سے نہ روکنے کے احکام واضح ہیں۔
احادیث صحیحہ، صحابہ کے فتوے اور فیصلے قرآن کے عین مطابق تھے۔ صلح کی شرط پر رجوع کا انکار نہیں کیا جاسکتاتھا۔ فقہاء اس فضول بحث میں لگ گئے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں؟، بدعت ہے؟ یا سنت؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں