راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟
جون 13, 2023
راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن و سنت کی روشنی میں
میرا شوہر تین سال قبل سمندر میں ماہی گیری کے دوران انڈین آرمی کے ہاتھوں گرفتارہوچکا تھا ،اس وقت سے لیکر آج تک اس کے زندہ ہونے یا مرنے کی کوئی خبر نہیں ہے ، میرے5بچے بھی ہیں ،ان کی کفالت میرے لئے بہت مشکل ہوچکی ہے۔میں خلع اختیار کرکے دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تاکہ شرعی حدود میں رہ کر اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کرسکوں۔
جناب میں ایک عورت بہت ہی بے کس اور غریب ہوںاور خلع کیلئے کیس فائل کرنے کی میرے پاس استطاعت نہیں۔ لہٰذا میرے خلع کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت جاری فرمائیں۔آپکی بڑی نوازش ہوگی۔
از طرف : راشدہ بنت نور عالم سکنہ محمدی کالونی ماڑی پور روڈ کراچی
الجواب: قرآن وسنت میں عورت کو خلع کا حق حاصل ہے جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے۔ خلع اور طلاق میں حقوق وفرائض کا فرض ہے۔ عورت جب اپنے شوہر سے شادی کرلیتی ہے تو اس کا نان ونفقہ ، رہائش، بچوں کی تعلیم و تربیت اور سارا خرچہ شوہر پر اپنی حیثیت اور بیگم کے حالات کے مطابق فرض بن جاتا ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کا سب سے بڑا کارنامہ اور کریڈٹ یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمد شفیع تک کے علماء وفقہاء نے واضح کیا تھا کہ ” بیوی کے علاج معالجے کا خرچہ شوہر کے ذمے نہیں ہے اور مفتی تقی عثمانی نے یہ وضاحت کی کہ” میرے خیال میں بیوی کا علاج شوہر کے ذمہ ہونا چاہیے”۔
___زوجۂ مفقود کا حکم___
سوال : ایک بیوی کا شوہر تقریباً دوسال سے نہیں ہے کچھ پتہ نہیں چلتا، اب یہ بیوی نان نفقہ کی وجہ سے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کی خلاصی کی صورت یہی ہے کہ وہ عورت کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں نان ونفقہ نہ ہونے اور مبتلا بالمعصیة ہونے کے اندیشے کی بناء پر فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کرے ۔ عدالت شوہرمذکورہ کو حاضر ہونے پر مجبور کرے ۔اور اگر ثابت ہوجائے کہ وہ نہیں آتاتو اس کی طرف سے یہ عورت کو طلاق دیدے، اس کے بعد عورت عدت طلاق گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ اگر عدالت مذکوہ بالا کاروائی کرلے تو اس کا فیصلہ شرعاً نافذ ہوگا۔ہاں ! دعویٰ دائر کرنے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ خلع یا شوہر کے مفقود ہونے نہ ہونے کا دعویٰ نہ ہو، بلکہ شوہر پر نان ونفقہ ادا نہ کرنے کا دعویٰ ہو کیونکہ خلع اور مفقود کے دعوؤں سے متعلق موجودہ عدالتیں جو فیصلے کررہی ہیں ان میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
الجواب صحیح بندہ محمد شفیع فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ457
جب عورت علماء کی تفاسیر میں پڑھتی ہے کہ شوہر کو چار شادیاں کرنے کی اجازت اسلئے ہے کہ ایک کو حیض ہوگا تو دوسری سے شہوت پوری ہوگی اور دو کوحیض آئے تو تیسری اور تین کو حیض آئے گا تو چوتھی سے شہوت پوری ہوگی اور ایسا تو نہیں ہوگا کہ بیک وقت چار بیویوں کو حیض آئے لیکن عورت کو برسوں تک ترسانے کے باوجود بھی خلع کی اجازت نہیں دیتے۔ کیا یہی فطری دین ہے؟۔
علماء ومفتیان نے اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے فتوؤں میں عجیب وغریب انداز اپنانے کی کوشش کی ہے۔ اصل معاملہ مفقودالخبر اور خلع کا ہے اور اس کو طلاق کی صورت دی جارہی ہے ۔ کیا جھوٹ پر مبنی بیانیہ مسئلے کا حل ہوسکتاہے؟۔
ومن اوتی الحکمة فقد اوتی خیر کثیرًا” اورجس کو حکمت دی گئی تو اس کو خیر کثیر دیا گیا”۔(القرآن) من یرید اللہ بہ خیرًا یفقہہ فی الدین ”جسکے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے”۔( حدیث)
حکمت اور فقہ ( سمجھ) کی دَین (عطائ) اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر سے اللہ نے نواز دیا اور جس کیساتھ بھلائی کا ارادہ کیا تو اس کو دین کی سمجھ دے دی ۔ اگر مدارس،تبلیغی جماعت اور خانقاہوں میں حکمت اور فقہ یعنی دین کو سمجھنے کی تعلیم ہوتی تو بہت زبردست اثرات اس کے مرتب ہوسکتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ مدارس میں بھی فقہ کے نام پر قرآن وسنت کی جگہ بھول بھلیوں کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان مراکز کو دین کی خدمت سے زیادہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر نتیجے میں قرآن وسنت اور مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے اور یہ لوگ مدارس کو تجارت کے مراکز بناکر دنیا کی شادابی کا مزہ لیتے ہیں۔
بشری بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تو اس پر کیا نان ونفقہ نہ دینے کا الزام تھا؟۔ جب علاج شوہر کے ذمہ نہ ہو تو کیا عورت محنت مزدوری کریگی یا پھر یاری دوستی سے کام چلائے گی؟۔ خدا غارت کرے ، ان مذہب فروشوں نے دین کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے اور میں اس سے خلع لینا چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” وہ باغ جو اس نے آپ کو دیا ہے وہ واپس کرسکتی ہو؟”۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ اور بھی بہت کچھ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”اور کچھ نہیں” ۔ چنانچہ نبیۖ نے اس کو طلاق دینے کا حکم فرمایا اورباغ اس کا واپس کردیا۔ یہ حدیث قرآن کی سورہ النساء آیت19کی تفسیر میں لکھنے کی ضرورت تھی۔ جس کو سورۂ بقرہ کی آیت229کے ضمن میں احادیث کی کتب میں لکھ دیا گیا ہے۔ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ قرآن کے مطابق جب عورت خلع لینا چاہتی ہو تو اس کو غیرمنقولہ جائیداد باغ وغیرہ واپس کرنے پڑتے ہیں مگر کپڑے ، زیورات اور منقولہ اشیاء میں سے بعض چیزیں بھی شوہر کو واپس لینے کا کوئی حق اور اختیار نہیں اور نہ عورت کو زبردستی سے نکاح میں رکھنے کا اختیار ہے۔ کاش قرآن و سنت کی تعلیم کو مسلمان معاشرہ اپنے ماحول کا حصہ بنادیتا اور قرآن کے مطابق بار بار طلاق کے باوجود باہمی رضا مندی سے رجوع کا اختیار مل جاتا اور عورت کو خلع کا پورا پورا اختیار حاصل ہوجاتا تو مظلوم خواتین کی چیخوں سے عرش لرزتا نظر نہ آتا۔ یہ محاورے کی زبان ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب فرشتے زمین میں انسان کی حالت دیکھتے ہیں اور ان کو عذاب کی اجازت اللہ نہیں دیتا ہے تو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے ۔ پھر فرشتے اہل زمین کی مغفرت اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمہ قرآن ” کے حاشیہ پر اس کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ فرشتے اتنی بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں کہ آسمان ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے کم عقل لوگوں کو سود کے جواز کی وجہ سے شیخ الاسلام بنادیا ہے ۔ عوام پر اسلام کے نام سے ظلم کرنا چھوڑ دیاجائے، ورنہ عذاب آسکتا ہے اور اس سے بڑا عذاب کیا ہوگا کہ غلط فتوؤں کے پول کھل رہے ہیں؟۔
راشدہ بی بی کا شوہر موجودہوتا تو بھی اس کو خلع لینے کا اختیار تھا۔ عدالت کا مقصد شریعت کا تقاضہ پورا کرنا نہیں ہوتاہے بلکہ دنیاوی طور پر حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینا ہوتا ہے۔ جس طرح شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح اس عورت کو بھی خلع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ خلع کی عدت بھی صرف ایک ماہ ہے اور صحیح حدیث میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ وہی فقہ حنفی معتبر ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہے۔ باقی چوں چوں کا مربہ مولوی اپنے پاس رکھیں۔
خلع اور طلاق میں حقوق اور فرائض کا فرق ہے۔ خلع کی صورت میں بیوی کو شوہر کے گھر سے نکلنا پڑے گا اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ طلاق کی صورت میں منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کی مالک عورت بن جائے گی اور طلاق و خلع کی صورت میں بچوں کا خرچہ بھی شوہر ہی کے ذمہ ہوگا۔
قرآن میں ایک ایک مسئلے کی بھرپور رہنمائی اورزبردست حل موجود ہے اور اس کیلئے عدالتوں میں خرچہ اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مرد یہ دعویٰ کرے کہ وہ طلاق نہیں دیتا ہے یا اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عدالت ہی یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ عورت کو خلع کے حقوق ملیں یا پھر طلاق کے؟۔ راشدہ بی بی کے شوہر کا اگر کوئی مکان یا جائیداد ہے اور وہ اتنے طویل عرصہ سے غائب ہے اور اس کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتا ہے اور اس کی بیگم اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات کیلئے مجبور ہے اور کسی اور شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا بالکل حق بنتاہے کہ وہ شادی کرلے۔ اس شوہرکو بھی اطلاع ملنے پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ بیوی کی عزت اور بچوں کے پیٹ کا بندوبست ہوگیا ہے۔ اگر وہ بھارت کی جیل سے چھوٹ کر واپس آجائے تو پھر عورت کے پاس اختیار ہوگا کہ اگر اس کا پہلا شوہر اس کو واپس لینا چاہتا ہو اور وہ بھی اس کے پاس ہی جانا چاہتی ہو تو پھر دوسرے شوہر سے خلع لے اور اگر اس بات میں کوئی تشویش ہے کہ شوہر والی کا نکاح کیسے ہوسکتا ہے؟۔ تواس کا جواب یہی ہے کہ خلع کے ذریعے پہلے شوہر سے تعلق منقطع ہوگیا ہے۔
قرآن نے محرمات کے آخر میں فرمایا: و ان تجتمع بین الاختین والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم ”اور یہ کہ تم دوبہنوں کو جمع کرو اوربیگمات عورتوں میں سے مگر جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے”۔
جب دو جڑی ہوئی بہنوں کے بارے میں مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی سے فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ” قرآن میں عام حالت میں یہ منع ہے لیکن جب خاص حالت ہو تو مخصوص صورت اس سے مستثنیٰ ہے”۔ المیہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف مخصوص صورتوں میں فتویٰ دینے والے لوگ قرآن کے واضح احکام پر فتویٰ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں اسلئے کہ پھر نام نہاد علماء ومفتی صاحبان کی ضرورت یہ نہیں پڑے گی۔ قرآن وسنت اور اسلام فطری دین ہیں۔
بیوہ وطلاق شدہ ساری زندگی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے تو اپنی نسبت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ جنت میں میاں بیوی کا نکاح اسی طرح برقرار رہتاہے۔
قال تعالیٰ :جنّٰت عدن یدخلونھا و من صلح من آبائھم وازواجھم و ذریاتھم ”ہمیشہ کیلئے باغات ہوں گے جن میں یہ داخل ہوں گے اور ان کے نیک آباء واجداداور ان کی اولادیں”۔ (القرآن)
عورت دنیا کے اپنے آخری شوہرکیساتھ ہوگی،میمون بن مہران سے الحرانی نے الرقة کی تاریخ میںنقل کیا ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان نے ام درداء کیلئے نکاح کا پیغام بھیج دیا تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ ابودردائ نے رسول اللہ ۖ سے روایت نقل کی ہے کہ عورت اپنے آخری شوہر کیساتھ ہوگی۔ اسماء بنت ابی بکر زبیر بن عوام کے نکاح میں تھی۔ وہ اس پر سخت تھے اور اس نے اپنے باپ سے اس کی شکایت کردی تو ابوبکر نے فرمایا: پیاری بیٹی صبر کرو۔ جب عورت کا شوہر نیک ہوتا ہے اور اس سے فوت ہوجاتا ہے اور پھراس کے بعد وہ کسی اور سے نکاح نہ کرے تو ان دونوں کو جنت میں جمع کردیا جاتا ہے”۔(ابن عساکر)۔
بیہقی نے اپنی سنن میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ حذیفہ نے اپنی بیوی سے کہا کہ ” اگر آپ چاہتی ہیں کہ جنت میں میری بیوی رہو تو پھر میرے بعد شادی مت کرو اسلئے کہ جنت میں عورت اپنے آخر شوہر کیساتھ ہوگی” ۔
ابن کثیر کی النھایة فی الفتن وملاحم میں وارد ہے کہ ام حبیبہ نے کہا :یارسول اللہ! اگر عورت کے دنیا میں دو شوہر ہوں تو دونوں میں سے کس کیساتھ ہوگی؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: دونوں میں جس نے زیادہ اچھا برتاؤ کیا ہو ۔ تو ام حبیبہ نے کہا کہ حسن اخلاق کا سونا تو دنیا اور آخرت میں بہترین چیز ہے۔
حضرت علی کی ہمشیرہ ام ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے اتنی محبت تھی کہ اس نے اپنے شوہر کی خاطر اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت تک نہیں کی ۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت علی نے اس کے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا۔ ام ہانی نے اپنے شوہر کیلئے نبیۖ سے پناہ طلب کی تو نبیۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور جس کو بھی چاہو ،پناہ دے سکتی ہو۔ یہ وہی مولیٰ علی تھے جس کے بارے میں نبیۖ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لیکن امت کے پہلے مولیٰ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کے مقابلے میںآپ کی بہن ام ہانی کو ترجیح دیتے ہوئے اسکے مشرک شوہرکو پناہ دیدی۔ جب امت کے پہلے مولیٰ نبیۖ سے ظہار کے مسئلے پر حضرت خولہ بنت ثعلبہ نے مجادلہ کیا تو اللہ نے عورت کے حق میں فیصلہ نازل فرمایا۔ جب امت کے پہلے مولانبیۖ کے بارے میں قرآن کے اندرسورہ مجادلہ کی وضاحت موجود ہے اور دوسرے مولا علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں حدیث کا واقعہ موجود ہے تو اس کا مطلب نبی ۖ و علی کی توہین نہیں بلکہ قیامت تک یہ رہنمائی مقصود ہے کہ مذہب کے نام پر کسی کو مولانا اور مفتی بن کر عورت کے حقوق کو غصب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
راشدہ بی بی کیلئے کوئی حیل وحجت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو وہ کرسکتی ہے۔ پاکستان بھر میں مسنگ پرسن کے مسائل ہیں اور جو لوگ سال سال اور ڈیڑھ سال کیلئے یا اس سے بھی زیادہ بیرون ملک رہتے ہیں اور ان کی بیگمات خلع لینا چاہتی ہوں تو وہ لے سکتی ہیں۔ تبلیغی جماعت نے بہت بگاڑ پیدا کیا ہے۔ مولانا الیاس نے زندگی بھر میں چار مہینے اسلئے رکھے تھے کہ حضرت عمر کے دور میں مجاہدین کی بیگمات سے مشورہ کرکے یہ چار ماہ کی مدت رکھی گئی تھی اور قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن ہے اور ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ گمشدگی کی حنفی فقہاء نے پہلے80سال اور پھر امام مالک کے مسلک کے مطابق4سال کردی اور قرآن وسنت میں اس کی کوئی بھی اصل نہیں ہے۔
جب عورت کا اختیار غصب کیا گیا تو آیت226البقرہ میں4مہینے کا ذکر ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک4ماہ کے بعد طلاق ہوجائے گی اور دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا۔جمہور کے نزدیک عمر بھر نکاح ختم نہیں ہوگا ۔جب تک کہ شوہر زبان سے طلاق نہ دے۔ کیا واضح آیات پر یہ اختلاف ہوسکتاہے؟۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کیا اسلئے طلاق ہوگئی ۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے حق استعمال نہیں کیا اسلئے طلاق نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ نے عورت کی عدت بیان کی ہے کہ طلاق سے ایک ماہ زیادہ ہوگی اور اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جس پر شوہر کی پکڑ ہوگی۔جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تو ایک ماہ کے بعد رجوع پر اللہ نے فرمایا کہ اب عورتوں کو اختیار دے دو کہ آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں یا نہیں؟۔ قرآن کے کھلے الفاظ سے بھی مولوی کا دماغ نہیں کھلتا ہے یا اس کو جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتا ہے کہ کاروبار دنیا تباہ ہوجائے گا؟۔
جب شوہر مرتا ہے تو بیوہ کو4ماہ10ماہ کے بعد اختیار مل جاتا ہے کہ فوت شدہ شوہر سے تعلق برقرار رکھے یا کسی اور سے نکاح کرلے۔ علماء سانس نکلتے ہی نکاح تڑوا بیٹھتے ہیں اور پھر بے شرم اپنی ماؤں کو اپنے باپ کی زوجہ کی تختی لگاتے ہیں۔ کاش ! علماء قرآن وسنت کی طرف رجوع کرکے امت کا بیڑہ پار کردیں اور غلط نصاب تعلیم اور فتوؤں کے حصار سے باہر نکلیں۔ جس سے مساجدو مدارس اور علماء ومفتیان کی رونقیں بڑھیں گی اور پاکستان بھی سرسبز وشاداب بن جائے گا۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ