پوسٹ تلاش کریں

تین طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر فیصلہ کن و زبردست تحریر

تین طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر فیصلہ کن و زبردست تحریر اخبار: نوشتہ دیوار

rasul-allah-ne-fatah-makka-ke-moqe-per-farmaya-tum-per-aaj-koi-malamat-nahi-tum-azad-ho-lafz-talaq-me-koi-burai-nahi

دیوبندی بریلوی حنفی ہیں ۔ عرصہ سے تین طلاق اور مروجہ حلالہ کا مسئلہ چلا آرہا ہے۔ ہندوؤں نے مذہبی کتابوں کی طرف رجوع شروع کردیا ہے۔ اگر ان کی کسی مذہبی کتاب کی سے ثابت ہو کہ ’’گائے کا پیشاب پینا جائز نہیں‘‘ تو ہندو اکثریت سوال اٹھائے کہ ہمارے آبا و اجداد کے آباو اجداد کے آبا و اجداد کے آبا و اجداد ۔۔۔ نے تسلسل سے مقدس مشروب نوش کرنا مذہبی فریضہ سمجھا او ہم کیسے مانیں کہ گائے کا پیشاب جائز نہیں۔ علامہ اقبال نے کہا کہ اصل میری سومناتی ہے ۔ پاکستان میں دیوبندی بریلوی اکثریت سومناتی ہے۔ لاتی و مناتی مشرکین مکہ اور جاہلیت عرب کے شرک و جہالت کا خاتمہ اسلام کی نشاۃ اول سے ہوا۔ اور اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ذریعے انشاء اللہ نہ صرف پاکستان ، ہندوستان ، ایشیاء بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب آئیگا اور دنیا کی تمام جہالتوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گا۔
8سو سال برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا اقتدار رہا لیکن ہندوؤں نے تین طلاق اور حلالہ کی بے غیرتی کو قبول نہ کیا۔ حلالہ کی بے غیرتی اور گائے کے پیشاب کے درمیان ایک نیا مذہب گرونانک نے ایجاد کیا جسکے پیروکاروں کا نام سکھ ہے، راجا رنجیت سنگھ نے پنجاب میں اقتدار پر قبضہ کیا تو انگریز کیلئے یہ مشکل محاذ تھا۔ راجا رنجیت سنگھ سے اقتدار چھیننے کیلئے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد بریلویؒ کو انگریز نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی اُمید پر خلافت کے قیام کیلئے چھوڑ ا۔ مگر ان کو بالاکوٹ کے مقام پر ساتھیوں سمیت شہید کردیاگیا۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قیادت میں خلافت کی کوشش ناکام ہوئی۔ فیصلہ ہفت مسئلہ میں حاجی مہاجر مکیؒ نے مریدوں اور خلفاء کے درمیان فروعی اختلافات کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مالٹا سے رہائی کے بعد تحریک ریشمی رومال کے شیخ الہند ؒ نے اپنے شاگردوں کو فرقہ واریت کے خلاف اور قرآن کی طرف اُمت کو متوجہ کرنے کی کوشش کا آغاز کیا مگر اسی سال 1920ء میں رہائی کے چند ماہ بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ایک طرف تقلید کی باگیں ڈھیلی کردیں تو دوسری طرف قرآن کا ترجمہ کردیا۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو بدعت قرار دیا اور دیوبندی اکابرؒ نے قرآن و سنت کی طرف توجہ کی۔ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے ’’حسام الحرمین‘‘ کا فتویٰ لگایا جس میں حرمین شریفین کے علماء کے دستخط بھی تھے۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے ’’المہند علی المفند‘‘ کے نام سے دیوبندی اکابر کا دفاع کیا کہ ہم چاروں ائمہ کی تقلید کو برحق مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے ہمارا تعلق ہے۔ اور چاروں سلاسل نقشبندی، قادری، سہروردی اور چشتی کو برحق سمجھتے ہیں اور ہمارا تعلق چشتیہ سلسلہ سے ہے۔ اگر مسلکی بنیادوں پر فروعی اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے قرآن و سنت کی طرف توجہ کی جاتی تو حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دونوں ایکدوسرے کیساتھ شانہ بشانہ کام کرتے۔ مزارات پر غیر شرعی رسومات کیخلاف مولانا احمد رضا خان بریلویؒ دیوبندی اکابر سے کم نہیں تھے لیکن جس جرأتمندی کا مظاہرہ دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء نے کیا وہ بریلوی مکتبہ فکر کے علماء نہیں کرسکے۔
قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ کے اندر طلاق و رجوع کے حوالے سے کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ فقہ حنفی کے اصول کا منبع قرآنی آیات کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کا تضاد ہے۔ اصول فقہ کی پہلی کتاب ’’اصول الشاشی ‘‘ کا پہلا سبق ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت: 230 حتی تنکح زوجاً غیرہ ’’یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے‘‘ میں عورت کو نکاح کی آزادی دی گئی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’ عورت اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اسکا نکاح باطل ہے ، باطل ہے، باطل ہے‘‘۔ قرآن میں آزادی ہے اورحدیث میں عورت پر نکاح کیلئے ولی کی اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا قرآن پر فیصلہ کیا جائیگا اور حدیث کو ترک کردیا جائیگا۔ یہ حنفی مسلک جمہور مسلکوں کیخلاف ہے، انکے نزدیک حدیث صحیحہ کے مطابق عورت ولی کی اجازت کی پابند ہے۔ اسی طرح اللہ نے فرمایا کہ فلیطوفوا باالبیت العتیق ’’اور کعبہ کا طواف کرو‘‘ جس میں بظاہر وضو کا حکم بھی نہیں ہے جبکہ نماز کیلئے اللہ تعالیٰ نے وضو کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ طواف پاکی کی حالت میں اور باوضو کرو۔ حنفی مسلک کے نزدیک اگر حدیث کے مطابق وضو کو طواف کیلئے بھی ضروری قرار دیا جائے تو یہ قرآن پر اضافہ ہوگا اسلئے طواف کیلئے وضو فرض نہیں۔
طلاق سے رجوع کیلئے قرآن میں وضاحت ہے : المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء … و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاً ’’طلاق والی عورتیں 3مراحل تک خود کو انتظار میں رکھیں ۔۔۔ اور انکے شوہر اس میں ان کو لوٹانے کا اصلاح کی شرط پر حق رکھتے ہیں‘‘(البقرہ: 228)۔ آیت میں رجوع کو صلح کی شرط پر عدت کے آخر تک جائز قرار دیا گیا ۔ اگر حدیث میں واضح طور سے ہوتا کہ عدت کے دوران صلح کی شرط پر رجوع نہیں ہوسکتا تو مسلک حنفی کا تقاضہ تھا کہ اس صحیح حدیث کو بھی نہ مانتے۔
لوہے کولوہا کاٹتا ہے۔ قرآن کی آیت کو قرآن کی آیت ہی سے کاٹا جاسکتا ہے ۔ مولوی کہتا ہے کہ اللہ اگلی آیت میں نعوذ باللہ خود پھنس گیا۔ فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ’’طلاق دو مرتبہ ہے اور پھر معروف طریقے سے رکھنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا‘‘(البقرہ: 229)۔ اللہ نے اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ،تو دوسری آیت میں دو مرتبہ طلاق پر غیر مشروط رجوع کی اجازت دی اور پہلی آیت کا حکم ختم کردیا اور پھر 2 مرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق پر مدت کے اندر بھی رجوع کا خاتمہ کردیا۔ اہلحدیث کے نزدیک بھی 3 مجالس میں 3 مرتبہ طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ یہ بات درست تسلیم کی جائے تو قرآن میں تضاد و اختلاف ثابت ہوگا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ نے آیت 228 البقرہ میں عدت کے دوران صلح کی شرط پر اجازت دی اور 229 میں 2مرتبہ غیر مشروط رجوع کی اجازت دی اور تیسری مرتبہ پر عدت میں رجوع کا دروازہ بند کردیا۔ جبکہ قرآن نے چیلنج کیا ہے کہ افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً ’’یہ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضاد) پایا جاتا‘‘۔
قرآن میں تضاد نہیں۔ آیت : 228میں جن 3 ادوار کا ذکر کیا تھا ، آیت: 229میں بھی انہی 3 ادوار کا ذکر ہے۔ معروف رجوع اور صلح کی شرط پر رجوع میں کوئی فرق نہیں ۔ حنفی اور شافعی مسلکوں کے تضاد کو رجوع کے حوالے سے سامنے لایا گیا تو منکرات بھی شرما کر رہ جائیں۔ شافعی مسلک میں نیت نہ ہوتو مباشرت سے بھی رجوع نہ ہوگا اور حنفی مسلک میں شہوت کی نظر غلطی سے پڑنے پر بھی رجوع ہوگا۔ جن 3ادوار میں اللہ نے صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت آیت 228میں دی تھی ، اسی کو آیت 229میں بھی اسی طرح وضاحت کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے۔ سورہ طلاق اور بخاری کی احادیث میں بھی وضاحت ہے۔
اللہ نے واضح کردیا کہ رجوع کا تعلق عدت سے ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ حیض میں 3 مرتبہ طلاق کا تعلق حیض کے 3ادوار سے ہے۔ اصلاح کی شرط و معروف رجوع کی اجازت عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر ہے۔ سورہ بقرہ آیت 228، 229، 231، 232۔ اسی طرح سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہ وضاحت بھرپور طریقے سے موجود ہے۔ علماء کرام و مفتیان عظام اور عوام کو سب سے بڑا مغالطہ سورہ بقرہ آیت 230سے ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’پھر اگر اس کو طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے شادی کرلے‘‘ ۔ کسی بھی آیت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے کی آیات اور بعد کی آیات سے اس کا ربط بھی دیکھ لیا جائے۔
علماء کرام جانتے ہیں کہ فقہ و اصول فقہ کی کتابوں میں حنفی اور جمہور علماء کے اختلافات موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟ ، تو فرمایا کہ الطلاق مرتٰن کے بعد تسریح باحسان تیسری طلاق ہے۔ مولانا سلیم اللہ خانؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں اس کو نقل کیا ۔ یہ حدیث سے واضح ہے کہ اصول فقہ اور تفسیر کی کتابوں میں یہ بحث فضول ہے کہ آیت 229 میں عورت کی طرف سے فدیہ دینے کا ذکر جملہ معترضہ ہے یا متصل ہے؟۔ اور یہ بات بھی سراسر حماقت ہے کہ اس سے مراد خلع ہے کیونکہ 2مرتبہ طلاق کے بعد خلع کی ضرورت کیا ہے؟۔ سورہ نساء آیت 19میں خلع کا ذکر ہے اور خلع کی احادیث کو اسکے ضمن میں لکھنے کی ضرورت تھی۔ آیت 229کے آخر میں اس بات کا ذکر ہے کہ ’’تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو، مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ، یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو ان سے تجاوز کرے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ حنفی مسلک کی کتاب ’’نور الانوار‘‘ میں یہ وضاحت ہے کہ’’ آیت 230کا تعلق اس متصل فدیہ کی صورت سے ہے‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے ابن عباسؓ کا بھی یہ قول نقل کیا ہے کہ قرآن کو اسکے سیاق و سباق سے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے اور اس آیت 230 کا تعلق فدیہ کی متصل صورت سے ہے۔ (زاد المعاد: ابن قیمؒ )۔
عوام الناس کو سمجھانے کیلئے یہ بات بھی کافی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی 3 شکلیں ہیں ۔ 1:میاں بیوی دونوں جدا ہونا چاہتے ہوں ۔ 2: شوہر نے طلاق دی ہو ، بیوی جدائی نہ چاہتی ہو۔ 3: شوہر جدائی نہ چاہتا ہو مگر عورت نے خلع لیا ہو۔ آیت 230البقرہ میں وہ صورت ہے جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے باہوش وحواس دونوں میں جدائی کا فیصلہ کریں۔ یہاں تک کہ عورت کو شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے کچھ دینا حلال نہ ہونے کے باوجود فدیہ کی صورت اس صورت میں جائز ہو کہ جب وہ چیز رابطے کا ذریعہ اور اللہ کے حدود توڑنے کیلئے خدشہ بنے۔ ایسی صورت میں بھی شوہر کی فطری مجبوری ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کیلئے کسی اور سے اس کی مرضی کے مطابق شادی میں رکاوٹ کھڑی کرے۔ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل ریحام خان کو طلاق دیدی تو وہ پاکستان اپنی جان پر کھیل کر آئی۔ لیڈی ڈیانا کو اس جرم پر ما ر دیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ کیلئے اللہ نے فرمایا : آپ کی ازواج سے کبھی بھی نکاح نہ کرے ، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ کوئی انسان بھی اس فطری خصلت سے انحراف نہیں کرسکتا کہ بیوی کو طلاق کے بعد کسی اور سے نکاح کرنے میں برداشت کرسکے۔ اسی طرح عورت کی بھی یہ فطری خصلت ہوتی ہے کہ طلاق کے بعد کسی اور سے شادی کرنے میں عار محسوس کرتی ہے اور اپنی غیرت کیخلاف سمجھتی ہے۔ رسول ﷺ کی چچا زاد حضرت اُم ہانیؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں مگر مشرک شوہر کی وجہ سے ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد شوہر چھوڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے نکاح کی پیشکش کی لیکن آپؓ نے اُم المؤمنین بننے کے شرف کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اُردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکرؒ کو شوہر نے طلاق دی، کسی اور سے نکاح کرلیا مگر پروین شاکرؒ فطرت پر ڈٹ گئی اور زندگی اپنے بے وفا شوہرکی نذر کردی۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں خواتین کی حقیقی ترجمان تھیں جن میں حلالہ کی وجہ سے نہیں فطری غیرت کی وجہ سے سابقہ شوہر کی وفا ہوتی ہے۔
جب لڑکی کنواری ہوتی ہے تو باپ اور ولی اس کو اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ۔ کورٹ میرج اور قتل کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ حدیث میں ایک طرف باپ کو پابند کیا گیا ہے کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا کسی سے نکاح کرانا جائز نہیں ، اور دوسری طرف ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کا نکاح باطل قرار دیا گیا ۔ معاشرے میں احادیث کی بنیاد پر توازن اور اعتدال کی راہ ہموار ہوسکتی تھی لیکن اس کیلئے کوئی سنجیدہ قسم کی علمی اور معاشرتی کوشش نہیں کی گئی۔ جس طرح باپ لڑکی کی مرضی سے نکاح میں رکاوٹ بنتا ہے ، اس طرح باہوش و حواس طلاق کے بعد بھی سابقہ شوہر عورت کے نکاح میں رکاوٹ بنتا ہے اسلئے اللہ تعالیٰ نے بھرپور طریقے سے وضاحت فرمائی ہے کہ جب وہ باہوش و حواس طلاق دیتا ہے تو کسی اور سے نکاح کرنے میں رکاوٹ کھڑی کرنا اس کیلئے جائز نہیں ہے۔
حلالہ کی لعنت کے رسیاکو زنا کاری کا حدجاری کرنے سے ہی روکا جاسکتاہے لیکن اس بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ جس طلاق سے پہلے نہ صرف میاں بیوی جدا ہونے پر باہوش وحواس بضد ہوں بلکہ وہ خود بھی اور فیصلہ کرنے والے بھی آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتاہے کہ رجوع جائز ہے یا نہیں بلکہ مسئلہ یہ آتاہے کہ اگر عورت طلاق کے بعد شوہر کے گھر میں بیٹھ جائے یا اپنے یا باپ کے گھر میں بیٹھ جائے تو شوہر کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی ہے۔ لیکن جب وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو پہلا شوہر اسکے رکاوٹ بنتاہے اور یہ فطری بات ہے انسانوں اور جانوروں کے علاوہ پرندوں میں بھی یہ خصلت ہوتی ہے، اسلئے اس موقع پر اللہ نے واضح کر دیا کہ اس طلاق کے بعد اس کیلئے حلال نہیں کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح میں رکاوٹ پیدا کرلے۔ یہ وہ صورت ہے جس کا ذکر آیت 230البقرہ میں کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوہی نہیں سکتا ہے کہ مرغی پر چھرا پھیرنے کی طرح رجوع کیلئے حلالہ کی مروجہ لعنت مراد ہے اور سورۂ بقرہ کی آیات224سے232تک دیکھی جائیں تو حلالہ کی جہالت کا بہر صورت ان میں خاتمہ نظر آتاہے۔بخاری و ابوداؤد کی حدیت اور سورۂ طلاق کی وضاحت بھی ہے۔
2: دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نے طلاق دی اور بیوی جدائی نہیں چاہتی ہے تو شوہر کو عدت کی تکمیل پر بھی معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ جسکا ذکر آیت 231 البقرہ میں ہے۔ 3: تیسری صورت یہ ہے کہ عورت جدائی چاہتی ہو اور مرد نے طلاق دی ہو تو عدت کی تکمیل کے بعد بھی جب دونوں آپس میں راضی ہوں تو معروف طریقے سے رجوع میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر آیت 232البقرہ میں ہے۔ علاوہ ازیں سورہ طلاق میں بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر نہ صرف معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے بلکہ طلاق کی صورت میں دو عادل گواہ مقرر کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ عدت کی تکمیل پر گواہوں کا تقرر تمام مسائل کے حل کا مجموعہ ہے۔
لفظ طلاق میں کوئی کراہت اور برائی نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا :لا تثریب علیکم الیوم انتم طلقاء ’’تم پر آج کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو‘‘۔ طلاق کے لفظ میں برائی ہوتی تو نبی کریم ﷺ ملامت نہ کرنے والوں کو طلقاء کیوں بولتے؟ مگر اس میں برائی نہیں۔ میاں بیوی کی جدائی کو نبی ﷺ نے ابغض الحلال الطلاق قرار دیا ہے جس کا مطلب ’’سب سے ناراضگی والی صورت حلال کی طلاق ہے‘‘ ۔ عربی کی الف ب سے ناواقف اور نا اہل علماء و مفتیان نے عجیب و غریب قسم کے فقہی مسائل گھڑ رکھے ہیں۔ عربی کہے کہ بشرت زوجتی فطلق وجہہ ’’میں نے اپنی بیوی کو خوشخبری سنائی تو اسکا چہرہ کھل گیا‘‘۔ بعض مفتیان سے اس جملہ پر فتویٰ لیا جائے تووہ کہیں گے بیوی طلاق ہوگئی۔ حدیث میں نامرد کے ذریعے حلالہ کا ذکر ہے تو اس واقعہ میں الگ الگ مرتبہ تین طلاق کی بھی وضاحت ہے اور وہ حدیث بھی خبر واحد ہے جس میں حنفی مسلک کیمطابق یہ صلاحیت نہیں کہ وہ قرآن کے مقابلے میں قابلِ عمل ہو۔ نامرد ویسے بھی مطلوبہ و ملعونہ حلالے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ صحیح احادیث کے مقابلے میں روایات گھڑی گئی ہیں۔ کوئی من گھڑت حدیث بھی نہیں، جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا حکم دیا گیا ہو۔ صحابہؓ اور چارا ماموں کا مسلک درست تھا کہ3 طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہیں لیکن حق اور گنجائش میں بڑا فرق ہے۔ قرآن میں طلاق کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا، رفاعۃ القرظیؓ کی بیگم نے دوسرے سے شادی کرلی ۔ حق مہر کے بعد شوہر کا حق بنتاہے کہ بیوی سے مباشرت کرے۔ یہ تو کہیں بھی ثابت نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد عدت میں کسی کو رجوع کیلئے حلالہ کا فتویٰ دیا گیا ہو۔ صحابہ کرامؓ اور ائمہ مجتہدینؒ نے یہ غلط کام نہیں کیا۔ عتیق

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں