اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف اخبار: نوشتہ دیوار

اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

شیعہ، اہلحدیث اور دیوبند ی بریلوی حنفیوں کیلئے اخبار حاضر ہے ۔ ہم اپنی طرف سے ان کا مؤقف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کی سمجھ قرآن اور سنت کے حوالے سے بالکل کھل جائے۔ شیعہ حضرات نے نسل در نسل اپنے ائمہ اہل بیت کا مذہب نقل کیا ہے اور اس میں صحیح بات ان تک پہنچی ہے یا نہیں؟۔ اس کا جواب شیعہ علماء وذاکرین علامہ سید جواد حسین نقوی اور علامہ شہنشاہ حسین نقوی وغیرہ دے سکتے ہیں۔ ہم مکالمے کیلئے صرف راہ ہموار کررہے ہیں۔
جب حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر تین کا حکم جاری کردیا تو شیعہ اس کو قرآن وسنت کے خلاف ایک بدترین بدعت سمجھتے ہیں ، جس کا نتیجہ گمراہی ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں اور عورتوں کی عزتیں بھی حلالہ کی لعنت کے نام پر لٹتی ہیں۔ اس بدعت کی حمایت کرنے میں علماء ومفتیان کا اپنا مفاد ہے۔ جس کی وجہ سے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود بے تاج بادشاہ ہیں۔ جس بادشاہ ، خان ، نواب، پیر فقیر اور بڑے چھوٹے طبقے کے انسان کو بھی حلالہ کا فتویٰ دے کر اس کی بیگم کی عزت تار تار کردیتے ہیں تو وہ شخص پھر اس کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے لائق نہیں رہتا ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ہاں شیخ الاسلام ، مفتی اعظم اور قاضی القضاة( چیف جسٹس) کے عہدے کسی بھی شخص کے پاس نہیں تھے لیکن جب نام نہاد شریعت سے نام نہاد فقہاء نے بادشاہوں کی خواہشات کو درباری بن کر پورا کرنا شروع کردیا اور انہوں نے بادشاہوں کو بھی اپنے دامِ فریب کا شکار کرنا شروع کیا کہ کس طرح اس کے ہاتھ سے بیوی نکل جائے گی اور کس طرح اس کی بیوی کو شریعت میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور کس طرح حلالہ کی لعنت کے ذریعے بیوی کو واپس لوٹایا جائے گا تو بادشاہوں نے اپنے دربار میں ان خدمات کے عوض زبردست عہدے دینے شروع کئے۔
عبداللہ بن مبارک، علامہ جلال الدین سیوطی اور امام غزالی نے جب لکھ دیا کہ شیخ الاسلام قاضی القضاة مفتی اعظم چیف جسٹس ابویوسف سے وقت کے بادشاہ عباسی خلیفہ نے کہا کہ ”میرا دل باپ کی لونڈی پر آیا ہے۔ کوئی شرعی طریقہ اور اخلاقی سلیقہ ایسا سکھادیجئے کہ وہ میرے لئے جائز بن جائے”۔ ابو یوسف نے کہا کہ ” مجھے اس کاکتنا معاوضہ ملے گا؟”۔ امام ابویوسف کے شاگردوں نے بڑی بڑی کہانیاں مشہور کردیں تھیں کہ مشکل سے مشکل مسائل کا حل نکالنے میں بہت بڑے مشکل کشاء اعظم ہیں۔ جب امام ابویوسف طالب علم تھے تو امیر کبیر شخص سے چندہ مانگ لیا۔ اس نے کہا کہ پیسوں کا کیا کرنا ہے؟۔ چھوٹے سے بچے نے بہت معصومیت کے لہجے میں کہا کہ محترم المقام مجھے علم حاصل کرنا ہے۔ اس مالدار شخص نے انتہائی رعونت سے کہا کہ علم میرے لئے حاصل کرتے ہو یا اپنے لئے ؟۔ جاؤ یہاں سے دفع ہوجاؤ ۔میں ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔
وقت گزر تا چلا گیا۔ امام ابویوسف بھی مشہور مشکل کشا بن گئے۔ پیچیدہ اور سنجیدہ مسائل کا حل نکال کر لوگوں سے امام کا لقب بھی پالیا۔ دوسری طرف اس مالدار شخص کی مال ودولت میں بے انتہاء اضافہ ہوا ،اسلئے کہ بہت سخت کنجوس تھا۔ صرف کمانا ہی جانتا تھا، خرچ کرنا نہیں جانتا تھا۔ اس نے شادیاں کرلیں ، بہت ساری عورتوں کو طلاق بھی دے دی اسلئے کہ اس کا بیٹا پیدا نہیں ہورہا تھا ۔ جب ایک دفعہ کسی نے کہا کہ تم بہت بخیل ہو ،اگر بیٹا بھی پیداہوگا تو کوئی خیرات صدقہ نہیں کروگے!۔ اس نے جوش میں کہا کہ اگر میرا بیٹا پیدا ہوگا تو میں بڑا مینڈھا خیرات کروں گا جس کی چکی کا سائز کم ازکم7بالش ہو۔ اہل محفل میں سے کسی نے کہا کہ جب تمہارا بیٹا پیدا ہوگا ،تب بھی تم ایسا مینڈھا ذبح کرکے خیرات نہیں کروگے۔ اس نے کہا کہ اگر میں نے نہیں کیا تو مجھ پرمیری بیوی3طلاق ہوگی۔
ایک دن اس کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو بہت خوش ہوا لیکن پریشانی بھی ہوئی کہ اتنا بڑا مینڈھا کہاں سے لائے گا؟۔ یہ تو دنیا میں موجود نہیں مفقود ہے۔ علماء ومفتیان کے ہاں چکر لگائے کہ کوئی راستہ نکلے لیکن ہر جگہ سے جواب ملتا تھا کہ ایک دفعہ اپنی اس ام ولد بچے کی ماں کو حلالہ کی لعنت سے گزر نا پڑے گا اور وہ سوچتا تھا کہ ایسی بے غیرتی سے اگر گزر بھی گیا تو پھر اگر بیوی مکر گئی تو بڑے برے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بچہ میرے پاس ہوگا اور اس کی ماں کسی اور کے پاس ہوگی۔ یہ زندگی بھر کی خواری کیسے گزرے گی؟۔ آخر کار کسی نے مشورہ دیا کہ امام ابویوسف کے ہاں جاؤ تو وہ راستہ نکال دے گا۔ امام ابویوسف کے ہاں پہنچ گیا تو اس نے پہچان لیا اور کہا کہ” میں نے علم اپنے لئے حاصل کیا ہے تمہارے لئے نہیں!”۔ پھر جب بہت بڑا معاوضہ طے ہوا تو امام ابویوسف نے کہا کہ تم نے طلاق دیتے وقت یہ نیت کی تھی کہ کس ہاتھ کے مطابق مینڈھے کی چکی7بالش ہوگی؟۔ اس نے کہا کہ نہیں!۔ امام نے کہا کہ نومولود کے بالش سے ناپ لو توتمہاری بیوی طلاق نہیں ہوئی۔ یہ باتیں امام ابوحنیفہ کے بارے میں بھی مشہور کی تھیں کہ بادشاہ نے بیوی سے کہا کہ اگر فجر کی آذان تک بات نہیں کی تو تجھے تین طلاق۔ پھر امام نے صبح کی آذان وقت سے پہلے دی اور عورت نے بات کی تو طلاق نہیں پڑی۔ اس طرح بادشاہ نے کہا کہ اگر میری سلطنت سے صبح تک نہیں نکلی تو تجھے3 طلاق۔ پھر امام صاحب نے مشکل حل کردی کہ مسجد میں کسی کا اقتدار نہیں ۔ وہاں پہنچادی جائے تو طلاق نہیں ہوگی۔
امام ابویوسف نے بادشاہ کو اس کے باپ کی لونڈی حلال کرنے کیلئے پہلے بڑا معاوضہ طے کیا اور پھر فتویٰ دیا کہ لونڈی عورت ہے اور اس کی گواہی قبول نہیں ہے اسلئے تمہارے لئے کاروائی حلال ہے۔ مولانا الیاس گھمن کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر موجود ہیں کہ اگر ماں سے بھی نکاح کرکے جماع کرلیا تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ وغیرہ
شیعہ علماء وذاکرین نے اسلئے نعرہ لگایا تھا کہ حضرت عمر کی طلاق بدعت اور فقہاء کی خواہشات سے اپنا ایمان، عقیدہ اور عزتیں بچانے کیلئے حضرت علی کے سلسلہ امامت و فقاہت سے استفادہ حاصل کرلو۔ وہی اصل مشکل کشا ہیں۔
تین طلاق کا قرآن وسنت اور مذہب اہل بیت کے فقہ میں مفہوم واضح ہے اور اس کی وجہ سے حلالہ کی لعنت اور فقہاء کی خواہشات پوری کرنے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ پہلے طہر میں جب پہلی مرتبہ طلاق دو تو پھر اس پر نکاح کی طرح دو شرعی اور عادل گواہ بھی بنالو۔ پھر حیض کے بعد دوسرے طہر کی حالت میں دوسری مرتبہ طلاق دو اور اس پر دوعادل گواہ بنالو۔ پھر تیسری مرتبہ بھی طہر کی حالت میں تیسری مرتبہ طلاق دو تو اس پر دو عادل گواہ بھی بنالو۔ اس طرح جب قرآن وسنت کے مطابق طلاق کا عمل پورا ہوگا تو حلالہ کی لعنت سے بچت ہوگی اور حضرت عمر کی رائج کردہ بدعت کے مطابق معاشرے کو تباہی اور بربادی سے ہمکنار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قرآن وسنت میں اس طرح کی3بارطلاق کے بعد پھر اگر رجوع کرنے کی ضرورت پڑے گی تو حلالہ سے گزرنا پڑے گا لیکن اہل تشیع کے ہاں حلالے سے پھر عورت حلال نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ قرآن وسنت میں مستقل نکاح مراد ہے۔
اہلحدیث ایک مجلس کی3طلاق ایک سمجھتے ہیں حضرت عمر نے اجتہاد سے3طلاق کو3طلاق شمار کرنے کا حکم جاری کیا ۔ ان کے پاس اجتہادی شریعت جاری کرنے کا اختیار نہ تھا۔ جس طرح قرآن وسنت میں ایک ساتھ حج کا احرام باندھنے کی اجازت تھی اور حضرت عمر نے پابندی لگائی ۔ صحابہ نے اس کو بہت برا جانا تھا اور حضرت علی نے حضرت عثمان سے بخاری کے مطابق مجادلہ کیا تھا اس طرح طلاق کا مسئلہ بھی غلط تھا جس کی وجہ سے امت بہت گمراہی کا شکار ہوگئی۔

نوٹ: ”اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف” کے عنوان کے تحت اس کا جواب اور تبصرہ دیکھیں۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں