پوسٹ تلاش کریں

سورۂ بقرہ کی آیت230کا مغالطہ اورسیاق وسباق کی آیات سے فیصلہ کن اِزالہ!

سورۂ بقرہ کی آیت230کا مغالطہ اورسیاق وسباق کی آیات سے فیصلہ کن اِزالہ! اخبار: نوشتہ دیوار

سورۂ بقرہ کی آیت230کا مغالطہ اورسیاق وسباق کی آیات سے فیصلہ کن اِزالہ!

اگر قرآنی آیات سورہ بقرہ224سے232تک کو غور وتدبر کرکے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو دلوں سے نہ صرف زنگ اتر جائے گا بلکہ قرآن کو حلالہ سمیت بہت ساری ان برائیوں کے خاتمے کا ذریعہ بھی سمجھا جائے گا جن میں دورِ جاہلیت کے اندر بھی لوگ مبتلاء تھے اور آج بھی بہت بری طرح اس کا شکار ہیں۔
حلالہ کی لعنت رسم جاہلیت کا مذہبی مسئلہ تھا جسے قرآن نے بالکل ختم کرکے رکھ دیا تھا اور حلالہ کے علاوہ بھی جاہلیت کے بہت سارے رسوم تھے جن سے قرآن نے آزادی دلائی تھی مگر آج پھر ان میں امت کو قرآن کے نام پر مبتلاء کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں ایک ایک رسم کی پوری پوری تفصیل بیان کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ امید ہے کہ علماء کرام ، مفتیان عظام اور صلحاء امت اس طرف ضرور توجہ فرمائیں گے۔
جب میں نے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیاتو پڑھانے والے بعض علماء ومفتیان کی جہالت نے میرے سامنے رقص کیا۔ داخلہ سے پہلے مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے درس میں یہ مسئلہ سن لیا تو حیران ہوگیا کہ ” قرآن کا مصحف کتابی شکل میں اللہ کا کلام نہیں ہے اور اس پر حلف کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ البتہ یہ زبان سے کہا جائے کہ اللہ کے کلام کی قسم ! تو پھر اس کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا”۔
جامعہ میں داخلہ لیا تو ہمارے اساتذہ مولانا عبدالقیوم چترالی اور مولانا عبدالمنان ناصر تھے اور دوسرے فریق (سیکشن) کو مفتی عبدالسمیع شہید پڑھاتے تھے۔ مفتی عبدالسمیع اپنے شاگردوں اور ہمارے فریق میں مقابلہ کراتے تھے۔ ایک دن سرِ راہ مجھ سے سوال کیا تو میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ!۔ پھر میں نے سوال کیا تو انہوں نے درست جواب نہیں دیا۔ مکالمے کا سلسلہ آخر اس حد تک پہنچ گیا کہ انہوں نے کہا کہ قرآن کی کتابی شکل کو آپ اللہ کا کلام نہیں مانتے ؟۔ میں نے کہا کہ نہیں!۔ انہوں نے قرآن منگوایا ،بڑے مجمع میں پوچھا کہ ” یہ اللہ کا کلام ہے؟” ۔ میں نے کہا کہ ” نہیں!”۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کافر ہوگئے ہو!۔ میں نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں ، ان سے میں نے یہی مسئلہ سنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”تم افغانی لوگ پڑھ کر آتے ہو اور مقصد پڑھنا نہیں بلکہ ہمیں ذلیل کرنا ہوتا ہے”۔ اور بہت برا بھلا کہا۔
اس سے مجھے پتہ چل گیا کہ عوام ہی دینی علوم سے جاہل نہیں ہیں بلکہ علماء کا بھی حال مختلف نہیں ہے۔ پھر اصول فقہ میں قرآن کی تعریف پڑھی کہ ”مصاحف میں مکتوب اللہ کا کلام نہیں ہے” جس پر تعجب نہیں ہوا لیکن جب شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب میں دیکھا کہ ” علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے ” تو بہت پریشان ہوا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اس کے خلاف فتویٰ لیا اور دونوں مؤقف کو اخبار میں شائع کردیا۔ جب مفتی تقی عثمانی پر دباؤ پڑگیا تو اپنی دونوں کتابوں سے اس کو نکالنے کا اعلان کردیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ”یہ میرا فتویٰ نہیں، میں نے صرف نقل کیا ، میں اس کے جواز کا تصور بھی نہیں کرسکتاہوں”۔ تو یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ فتاویٰ شامیہ، فتاویٰ قاضی خان اور صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ” تجنیس” میں اس کو پھر کیوں نقل کیا ہے؟۔ پھر اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ جو اصول فقہ میں قرآن کی تعریف ہے کہ” مصحف اللہ کی کتاب نہیں ہے” تو یہ یہی غلطی کی بنیاد ہے جس کو شیخ الاسلام سے شہیدالاسلام تک کسی نے بھی نہیں سمجھا ہے ۔ جب لکھائی کی شکل میں نعوذباللہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے توپیشاب سے لکھنے میں پھر کیا حرج ہوسکتا ہے؟۔
آج بھی پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کا مصحف اللہ کی کتاب نہیں اور اس پر حلف نہیں ہوتا۔ جن کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھناجائز ہے ان کو مستند مانا جاتا ہے اور علماء ومفتیان انتظار میں لیٹے ہوئے ہیں کہ جب امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو انکے چوتڑوں پر لاتیں مار مار کر ان کو گمراہی کی دلدل سے نکالیںگے۔اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ: زانی اور زانیہ کو کھلے عام100،100کوڑے لگاؤ اور اس پر کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنالو۔ جب تک حلالہ کی لعنت میں مبتلاء علماء ومفتیان کو100،100کوڑے سرعام لگانے کا تماشہ لوگوں کو نہیں دکھایا جائے گا تو انہوں نے اس حلالہ کی لعنت اور اس کی لذت آشنائی سے باز نہیں آنا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو جب سودی بینکاری پرمعاوضہ اور مراعات مل رہے تھے تو سارے علماء اور مفتیان کے مشوروں ، نصیحتوں، فتوؤں ، وعیدوں اور ملامتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ہٹ دھرمی کے مظاہرے پر زبردست طریقے سے ڈٹے رہے۔ جب حاجی محمد عثمان اور انکے معتقدین پر فتوے لگائے گئے تھے تو اس وقت ہم نے ان سب کی علمی اور ایمانی حیثیت کو اچھی طرح سے بھانپ لیا تھا کہ یہ کیا چیز ہیں؟۔
جب آیت224البقرہ میں لوگوں کے درمیان صلح نہ کرنے کیلئے اللہ کو بطور ڈھال استعمال کرنے سے منع فرمایا تو پھر آیت230میں میاں بیوی کے درمیان صلح کا راستہ روکنے کی تضاد بیانی کیسے کرسکتاہے؟۔
جب آیت225البقرہ میں واضح فرمایا کہ اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر دل کی کمائی پر پکڑتا ہے تو یہ دلیل ہے کہ صلح کی راہ میں الفاظ کی بنیاد پر رکاوٹ ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جب آیت226البقرہ میں طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی میں انتظار کی عدت4ماہ ہے جس میں صلح سے رجوع ہوسکتا ہے اور آیت227البقرہ میں ہے کہ ”اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ جس کا مطلب ہے کہ طلاق کا عزم ہی دل ہی کا گناہ ہے اسلئے کہ اس کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے عدت ایک ماہ بڑھ گئی ۔ اگر طلاق کا اظہار ہوتا تو پھر3ادوار یا3ماہ تک انتظار کرنا پڑتا جوآیت228البقرہ میں ہے۔
ان آیات226اور228البقرہ میں عدت کے اندر باہمی رضامندی سے4ماہ تک اور3اداوار یا3ماہ تک رجوع کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ یہ بھی واضح ہے کہ رجوع کا تعلق طلاق کے عدد سے نہیں بلکہ عدت سے ہے۔ یہ قاعدہ اور کلیہ کسی ان پڑھ ، کم عقل اور انتہائی ضدی شخص کے سامنے رکھاجائے تو بھی یہ وضاحت سمجھ میں آتی ہے کہ صلح کی شرط پر اللہ نے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے اور صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
آیت229البقرہ میں 3مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعداس صورتحال کا ذکر ہے کہ جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے یہ طے کرلیں کہ آئندہ صلح کیلئے رابطہ کی کوئی ادنیٰ صورت بھی نہیں چھوڑنی ہے تو پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ صلح کی صورت میں رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طلاق کے بعدوہ عورت کسی اور شوہر سے اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہے یا نہیں ؟۔ اس رسمِ بد کا خاتمہ کرنے کیلئے اللہ نے یہ واضح کیا کہ اس طرح سے طلاق دی ،جس میں باہمی رضامندی سے صلح کی گنجائش نہیں چھوڑی تو پھر عورت جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو وہ پہلا شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ آیت230۔ حالانکہ اللہ نے آیت226اور228البقرہ میں بھی یہ واضح کیا تھا کہ طلاق کے بعد بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں لیکن جب تک آیت230کے سخت الفاظ کا استعمال نہیں کیا تو علماء کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ باہمی اصلاح ورضامندی کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔ یہ آیت محور بن گئی کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ اسکے بعد آیات231اور232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کا واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے لیکن مجال ہے کہ حلالہ کی لذت کے متوالے قرآن کی طرف رجوع کریں اور سورۂ بقرہ کی ان تمام آیات کا خلاصہ سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں موجود ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں