پوسٹ تلاش کریں

3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز

3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز اخبار: نوشتہ دیوار

3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز

اگرقرآن وسنت میں واضح ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے پھراحادیث ، حضرت عمر اور ائمہ مجتہدین کے ہاں اکٹھی3طلاق واقع ہونے کا کیا مطلب ہے؟

اہل تشیع اور اہلحدیث حضرت عمر کے فیصلے کو کیوں نہیں مانتے؟۔ ٹھیک کرتے ہیں یا غلط ؟۔ حنفی ومالکی کے ہاں اکٹھی تین طلاق بدعت و گناہ اور شافعی کے نزدیک سنت ومباح کیوں ہے؟

اللہ نے فرمایا:” طلاق والی عورتیں3مراحل تک انتظار کریں اور انکے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔البقرہ:228
اللہ نے فرمایا:” طلاق دو مرتبہ ہے ۔ پھر معروف طریقہ سے رجوع کرنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ نا ہے”۔ البقرہ:آیت:229۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ” قرآن میں تیسری طلاق احسان کیساتھ چھوڑنااسی آیت میں ہے”۔ جس کو مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح بخاری میں بھی نقل کیا ہے۔ جب قرآن وسنت سے یہ ثابت ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے تو پھر اختلاف کیا ہے؟۔جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو رسول اللہ ۖکو حضرت عمر نے اس کی خبردی۔ رسول اللہ ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے۔اور عبداللہ سے فرمایا کہ اس عورت کو اپنے پاس پاکی کے دنوں میں رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پاکی کے دنوں میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام میں طلاق دینا چاہتے ہو تو اس کو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دواور یہی وہ عدت ہے کہ جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق) یہ حدیث بخاری کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
قرآن وسنت میں یہ بالکل واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق ایک عدت کا عمل ہے جس کے تین مراحل ہیں اور اس سے آگے پیچھے معاملہ نہیں ہوسکتا ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی فقہاء کیلئے اکٹھی 3 طلاق کی بدعت یا سنت کیسے اس اُمت میں جاری کردی ہے؟۔
ہماری سب سے بڑی بنیادی غلطی یہ ہے کہ حفظ مراتب کا خیال رکھے بغیر حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن پر پیش کرنے کی جگہ احادیث میںڈھونڈتے ہیں۔ جب احادیث میں ڈھونڈتے ہیں تو پھر حنفی ومالکی اس کو بدعت وگناہ قرار دیتے ہیں۔ شافعی اس کو سنت ومباح قرار دیتے ہیں اور حنبلی کا قول مختلف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سنت ومباح ہے اور دوسرا یہ ہے کہ بدعت وگناہ ہے۔
جس بات پر فقہاء آپس میں متفق نہ ہوسکتے ہوں تو اس بات پر امت مسلمہ کو کیسے متفق کیا جاسکتا ہے؟۔اگر پہلے قرآن کی طرف رجوع کرتے اور پھر اس کا حل احادیث میں تلاش کرتے تو اختلافات کا بالکل خاتمہ ہوسکتا تھا۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کافی عرصہ درسِ نظامی کا نصاب پڑھایا اور جب مالٹا میں سوچ وبچارکا موقع مل گیا تو امت کے زوال کے دو اسباب کی وضاحت کردی ۔ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت ۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے آخری دور میں فرمایا کہ مسلکوں کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔
میں نے اپنی جوانی اور صلاحیتیں الحمد للہ بہت زیادہ تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ قرآن وسنت اور دینی تعلیم میں خرچ کی ہیں اور فرقہ واریت کو ختم کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ میرا ماحول اور اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت دیوبندی مکتب والی تھی ، ہے اور رہے گی لیکن فرقہ بندی اور مسلک پرستی کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کا تعلق بھی تبلیغی جماعت اور دیوبندی مکتبہ فکر سے تھا لیکن اتحاد امت کے بہت بڑے علمبردار تھے۔
میرے اساتذہ کرام جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی،جامعہ یوسفیہ شاہو ہنگو کوہاٹ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی، دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپFBایریا کراچی،انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی، جامعہ فاروق اعظم بفر زون اور توحید آباد صادق آباد رحیم یار خان پنجاب نے میری زبردست رہنمائی وحوصلہ افزائی کی ہے۔ اللہ نے ذہن اور صلاحیت دی ہے تو اس کو بروئے کا ر لایا ہے۔
جب حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر میاں بیوی کے درمیان جدائی کا فیصلہ دیا تھا تو اس کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اہل حدیث نے یہ فیصلہ اسلئے مسترد کردیا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا: رسول اللہ ۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی تین سال تک اکٹھی تین طلاق کو ایک شمار کیا جاتا تھا پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق کو نافذ کردیا ۔( صحیح مسلم)
اہلحدیث سمجھتے ہیں کہ جب رسول اللہ ۖ اور بعد کے ادوار میں اکٹھی تین کو ایک طلاق شمار کرتے تھے تو حضرت عمر نے یہ فیصلہ اجتہادی اور غلط کیا تھا۔
حالانکہ ذخیرہ احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق کا ذکر بھی موجود ہے لیکن اہلحدیث نے ان روایات کو چھوڑ کر تعامل کی سنت کو قابل ترجیح قرار دیا ہے۔
اہل تشیع نے حضرت عمر کے فیصلے کو قرآن وسنت ، فقہ وحکمت کے منافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ طلاق کاواحد طریقہ یہ ہے کہ عدت کے پہلے مرحلہ میں پہلی طلاق مکمل شرعی صیغوں کیساتھ اور اس پر دوعادل گواہ کا مقرر کرنا لازمی ہے۔ اس طرح تین مرحلے میں تین مرتبہ کی طلاق ہے اور بغیر جانے بوجھے اس طرح طلاق کا واقع کرنا شریعت کیساتھ مذاق ہے ۔ اس سے معاشرہ تباہ ہوگا۔
اہل تشیع اپنے اس مسئلے کو اپنی فہم وفراست اور اہل بیت عظام کا بہت بڑا کمال اور دوسرے مذاہب کا بہت بڑا زوال سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں۔ لیکن جب شیعہ اپنے فقہ ومسلک کے مطابق اس طرح سے طلاق دیتے ہیں توپھر صلح و رجوع کا دروازہ بالکل بند سمجھتے ہیں یہاں تک کہ کوئی مستقل نکاح کرلے اور پھر اتفاق سے اس کی طلاق ہوجائے اور پھر پہلے سے دوبارہ نکاح ہوجائے۔
حالانکہ شیعہ کا یہ فقہ قرآن کے مطابق نہیں بلکہ سنی مکاتب فکر کے مقابلے میں ہے۔ قرآن کی سورۂ طلاق میں عدت کے تین مراحل اور اس کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ اور جب اس کو معروف طریقے سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو پھر اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے اور اسکے بعد بھی سورۂ طلاق میں رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا گیاہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے جو فیصلہ کیا تھا وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل قرآن وسنت کے مطابق تھا۔
قرآن کے مطابق اسلئے تھا کہ اللہ نے عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے لیکن صلح واصلاح اور باہمی رضامندی کی شرط پر۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ تین طلاق تو بہت بڑی واضح بات ہے بلکہ ایک طلاق کے بعد شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا لیکن یہ فتویٰ نہیں تھا اسلئے کہ حکمران فیصلے کرتا ہے اور مفتی فتویٰ دیتا ہے۔ فیصلہ دو افراد کے درمیان ہوتا ہے۔ جب کوئی تنازع میاں بیوی آپس میں حل کرنے میں ناکام ہوں تو پھر معاملہ وقت کا حکمران حل کرتا ہے۔ جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں اور بیوی رجوع پر راضی نہیں تھی تو معاملہ حضرت عمر کے دربار تک پہنچا۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے اور فرمایا کہ آئندہ بھی کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس پر یہی فیصلہ جاری کروں گا اور اس کو کوڑے مارنے کی سزا بھی دوں گا”۔ حضرت عمر نے قرآن کی پاسداری کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا۔ اگر صلح نہ کرنے کے باوجود بیوی کو لوٹادیتے تو قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے اور شوہر کو لوٹانے کا اختیار ہے تو اس سے قرآن وسنت اور فقہ کا کباڑہ کرتے ہیں اور ان کی یہ شریعت انسانی فطرت کے بھی بالکل منافی ہے اور شیعہ واہلحدیث دونوں کا فقہی مسلک اس کی زد میں سراسر غلط ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کے مطابق محض طلاق کے بعد صلح واصلاح کے بغیر یعنی بیوی کی مکمل رضامندی کے بغیررجوع کی اجازت نہیں ہے اور یہ قرآن میں بالکل واضح ہے۔ سورہ البقرہ آیت228میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔
جب قرآن میں یہ واضح ہے کہ الگ الگ تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بند نہیں کیا ہے۔ حضرت عمر نے اسلئے تین طلاق کا فیصلہ کیا تھا کہ بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی تو پھر یہ بات بتادی جائے کہ حضرت محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول ۖ کو خبر دی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں ، جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ اس حدیث کا پھر کیا جواب اور پس منظربنتا ہے؟۔
یہ وہی حدیث ہے جس کو صحیح بخاری میں ابن عمر کے واقعہ میں نقل کیا گیا ہے لیکن یہاں افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں اور روایات میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے تین طلاق دی تھیں وہ عبداللہ بن عمر تھے اور جس نے پیشکش کی تھی اسکو قتل کرنے کی ،وہ حضرت عمر ہی تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں جس سے رجوع کا نبی ۖ نے حکم فرمایا تھا۔ صحیح مسلم کی وہ روایت حضرت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ رسول اللہ ۖ ابن عمر پربہت غضبناک ہوئے مگر رجوع کرنے کا حکم بھی دیاتھا اور پھر طلاق اور عدت کو ایک دوسرے کیساتھ لازم وملزوم بھی قرار دیا تھا جس میں ابہام پہلے بھی نہیں تھا لیکن قرآن کی وضاحت کو نبی ۖ نے کم عقلوں کیلئے بھی مزید واضح کردیا تھا۔
اب یہ ابہام ہے کہ پھر مجتہدین اور جمہور کا اجماع اس پر کیسے ہوگیا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں؟۔حالانکہ امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاق کا واقع ہونا الگ بات ہے اور اس کی وجہ سے باہمی اصلاح کے باوجود رجوع کا دروازہ بند کرنا الگ بات ہے۔ جب قرآن نے باہمی اصلاح کی شرط پر اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو اس پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ ائمہ اہل بیت کا اصل معاملہ تو اس حد تک تھا کہ اکٹھی تین طلاق واقع نہیں ہوسکتی ہیں تاکہ رجوع کا دروازہ بند نہ ہو اورحلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کو بچایا جائے۔ لیکن بعدکا رنگ پھرشیعہ فقہاء نے خود ہی چڑھادیا ہے۔حنفی فقہاء جب طلاق سنت کی بات کرتے ہیں تو ان کا بھی مؤقف اہل تشیع کے موقف کے عین مطابق ہوتا ہے۔
البتہ احناف بالکل حق بجانب ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا مصلحت اور قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ اسلئے کہ سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے مرحلہ وار عدت میں چھوڑنے یا طلاق دینے کا حکم دیا ہے اور سورہ بقرہ میں بھی الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق واضح ہے اور نبی ۖ نے بھی اس کے برعکس عمل پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ کوئی بلاوجہ اکٹھی تین طلاق دیکر فارغ کرنے کا فیصلہ کرے تو طلاق وعلیحدگی ہوجائے گی لیکن یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ البتہ فحاشی و لعان کی صورت میں اکٹھی تین طلاق اور فارغ کرنے میں حرج نہیں ہے۔
حضرت عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق دینے کا واقعہ صحیح حدیث میں ہے اور اس کی بنیاد پر امام شافعی کے ہاں اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ سنت ومباح ہے۔ احناف کے نزدیک دونوں الگ الگ صورتحال ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ نبی ۖ نے رفاعہ القرظی کی بیوی کو ذائقہ چکھ لینے کے بغیر رجوع کیوں نہیں کرنے دیا؟۔جواب یہ ہے کہ وہ کسی اور کی بیگم تھی۔ بخاری کی احادیث میں تفصیلات ہیں کہ رفاعہ نے الگ الگ مراحل میں تین طلاق دیکر فارغ کیا تھا، عدت کی تکمیل کے بعد اس کی دوسرے قرظی سے نکاح ہوا جس نے بہت مارپیٹ کی تھی۔ اس خاتون نے زخموںکے نشان حضرت عائشہ کو دکھائے تھے۔ دوسرے شوہر نے انکار کیا تھا کہ وہ نامرد ہے۔ اگربخاری کی تمام روایات کو نقل کیا جائے تو تین طلاق پر حلالہ کا تصور بھی ختم ہوگا اور اس حدیث سے حلالے کا باطل استدلال بھی کوئی نہیں لے گا۔ ایک نامرد کاکیسے حکم دیا گیا کہ اس کا ذائقہ چکھ لو جیسے پہلے شوہر کا چکھا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ مجھے اور مفتی تقی عثمانی کو اکٹھے بٹھادے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہوجائے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری شرح صحیح البخاری میں لکھ دیا ہے کہ اس حدیث کی وجہ سے احناف حلالے کا حکم نہیں دیتے بلکہ قرآن حتی تنکح یعنی نکاح سے ہم جماع مراد لیتے ہیں۔ صفحہ نمبر2میں قرآنی آیات اور اس آےة کی تفصیل لکھ دی ہے۔ اس طلاق سے مراد تیسری طلاق نہیں کیونکہ تیسری طلاق تو آیت229میں ہے بلکہ یہ وہ طلاق ہے کہ جس سے پہلے نہ صرف مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ کیا گیا ہو بلکہ آئندہ دونوں کے درمیان دونوں خود بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والے بھی ،یہاں تک کہ عورت شوہر کی طرف سے دی ہوئی وہ چیز بھی فدیہ کردے جس کا فدیہ کرنے کو عام حالات میں قرآن نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جب یہ کنفرم ہو کہ ان دونوں نے صلح نہیں کرنی ہے تو پھرایک غلط رسم عورت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے کہ اس طلاق کے باوجود بھی شوہر کی طرف سے پابندی کا شکار نہ ہوجائے۔ اللہ نے اس غلط رسم کو توڑنے کیلئے زبردست تدبیر کرکے یہ حکم نازل کیا مگر اس کا غلط مطلب لیا گیا اسلئے کہ سیاق وسباق اور آگے پیچھے کی آیات چھوڑ کر فتویٰ سازی کی گئی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں