پوسٹ تلاش کریں

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل اخبار: نوشتہ دیوار

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

”حلالے کے خاتمے کیلئے پہلا مقدمہ”

”حلالہ کی غلط بنیاد قرآنی آیت اور بخاری کی حدیث سے”
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ” پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ آیت230البقرہ
قرآن کی اس آیت میں واضح طور پر اس طلاق کے بعد جب تک دوسرے شوہر سے وہ عورت نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے وہ حلال نہیں ہے۔ پھر جب وہ اس کو طلاق دے دے تو پھر پہلے شوہر سے وہ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
بخاری کی حدیث ہے کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں ۔ پھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا۔ پھر نبی ۖ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسا ہے اوراپنے دوپٹے کے پلو سے اشارہ کیا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” کیا آپ اپنے شوہر رفاعةکے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو ،یہاں تک کہ یہ دوسرا شوہر تمہارا مزہ نہ چکھ لے اور اس کا مزہ نہ چکھ لو”۔ بخاری کی اس حدیث کو علماء کرام اور مفتیان عظام حلالے کیلئے پیش کرتے ہیں۔
کوئی بھی عام انسان قرآن وحدیث کے ان واضح احکام سے یہ سمجھنے میں مغالطہ کھالیتا ہے کہ قرآن کی آیت بھی بہت واضح ہے اور حدیث میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے تو پھر حلالے کا تصور کیوں نہ مان لیا جائے؟ ۔ پہلے میرا بھی یہی خیال تھا۔پھر فقہ کی کتابیں اور احادیث کی کتابوں کو کھنگالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن مسئلے کا کوئی حل نکلنے کے بجائے معاملہ جوں کا توں تھا اور فقہ کی کتابوں سے بہت بدظن ہوااور احادیث کی کتب سے خود کو بالکل بے بس پایا اور اپنے ہتھیار ڈال دئیے۔
پھر سوچا کہ قرآن کی طرف توجہ کرکے فکر وتدبر سے کام لیا جائے اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں تدبر کرنے کا گلہ کیا ہے؟۔ جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو البقرہ228نے ذہن کھلنے میں پہلے مدد نہیں ملی اسلئے کہ تقلیدی ذہنیت نے تالے لگادئیے تھے۔ حالانکہ اس میں لکھا ہے کہ ” طلاق والیاں عدت کے تین ادوار تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ……..اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں”۔ آیت228البقرہ۔ حنفی اصول فقہ کی تعلیمات میں آیت کے یہ جملے محکمات میں سے ہیں۔ اسکے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث آئے تو بھی قابلِ عمل نہیں ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ اصول فقہ میں یہ پڑھایا گیا کہ ”پانچ سو آیات احکام سے متعلق ہیں” مگر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کون کونسی آیات محکمات میں سے ہیں۔ ایک چھوٹی سی فہرست بتادی جاتی تو طلبہ کیلئے قرآن کے محکمات کی فہرست کا پتہ چل جاتا ۔
مسئلے کے دو پہلو بن گئے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ طلاق ہوئی کہ نہیں؟۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟۔ جب دوسرے پہلو پر دھیان نہیں گیا تو آیت228البقرہ کے واضح حکم کی طرف توجہ نہیں گئی۔ اگر اس طرف توجہ جاتی تو پھر اس کا فتویٰ دینے میں دھڑلے سے بیباک ہوکر فتویٰ دیتا کہ عدت میں باہمی اصلاح کی بنیاد پر حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں طلاق کے عدد کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب اگر کوئی حدیث بھی اس راستے میں حائل ہو تو قرآن کی محکم آیت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے تأویل کریںگے ،اگر تأویل نہ ہوسکے تو حدیث کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کریں گے اور یہی مسلک حنفی کی بنیادی تعلیم ہے اور اس سے دوسرے فقہ والے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
جب پہلے پہلو پر دھیان تھا کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟۔ تو آیت229میں اس بات پر نظر گئی کہ ” الطلاق مرتٰن: طلاق دو مرتبہ ہے”۔ جس سے میری آنکھوں میں چمک،دل میں روشنی اور دماغ میں خوشبو پھیل گئی کہ جب اللہ نے فرمایا ہے کہ طلاق دومرتبہ میں ہے تو پھر ہم ایک مرتبہ میں تین طلاق کا حکم کیسے جاری کرسکتے ہیں؟۔ جب دو طلاقیں ایک ساتھ واقع نہیں ہوسکتی ہیں تو تین طلاق ایک ساتھ کیسے واقع ہوں گی؟۔ پھر دوبارہ غور کیا تو پھر احساس ہوگیا کہ جب اللہ نے عدت کے تین مراحل رکھے ہیں اور ان تینوں مراحل میں باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو احادیث صحیحہ کو بھی دیکھ لیا۔ پھر پتہ چلا کہ رفاعة القرظی نے الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی تھیں اور عدت کے بعد دوسرے سے نکاح کرلیا تویہ واقعہ پیش آیا۔ پھر تو شرح صدر ہوا کہ قرآن وحدیث میں تضاد نہیں ۔ مولوی ظلم کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم جاری کرکے حلالے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ قرآن میں رجوع کی گنجائش اصلاح و معروف کی شرط پر ہے۔ ماہنامہ ضرب حق میں شائع کیا ، یکم مئی2007اخبار بند کردیا گیا اور31مئی میرے گھر پر حملہ کرکے کئی افراد شہید کردئیے۔
ضرب حق اخبار کی بندش اور جان کو خطرات کے پیش نظر کئی سالوں تک بیرون ملک اور اندرون ملک روپوشی کی زندگی گزارنی پڑی اور پھر دوبارہ ضرب حق کے نام سے اخبار نکالنے کی اجازت نہیں ملی اور نوشة ٔ دیوار کے نام سے مل گئی۔ سالوں کی تحقیقات کے نتیجے میں چند کتابیں لکھیں جو بغیر حلالہ کے تین طلاق سے رجوع کے دلائل پر تھیں۔ جن کے نام یہ یہ ہیں۔1۔ابر رحمت۔ بہت مدلل کتاب ہے۔ شائع کرنے سے پہلے دارالعلوم کراچی ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں بھیجی۔ مفتی محمدحسام اللہ شریفی مدظلہ العالی نے تائید میں لکھا کہ” طلاق کے مسئلے میںاتنی عمدہ تحقیقات پر سید عتیق الرحمن گیلانی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی جائے”۔ شریفی صاحب اخبار جہاں جنگ کراچی میں آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں کئی عشروں سے لکھ رہے ہیں۔ اخبار جہاں میں بھی میری کتاب ” ابررحمت” کی طرف طلاق کے مسئلے پر رجوع کیلئے تبصرہ لکھا۔ اب دنیا بھر سے تشفی کیلئے تین طلاق پر مسئلے آتے ہیں تو شریفی صاحب کی تائید کے ساتھ بغیر حلالہ کے رجوع کیلئے جواب دیا جاتا ہے۔ شریفی صاحب شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے دیوبند میں شاگرد تھے ۔جبکہ مولانا رسول خان قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند،مولاناسید محمد یوسف بنوری، مفتی محمود، مفتی محمد شفیع، مولانا سیدمحمد میاں، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مفتی محمود قائد جمعیت علماء اسلام کے بھی استاذ تھے۔
نمبر2۔”تین طلاق کی درست تعبیر”۔ نمبر3۔” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4۔” عورت کے حقوق”۔

”قرآن کی آیت230البقرہ کا بالکل سادہ علمی جواب ”
آیت فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیر ”پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے”۔ (البقرہ 230) اس طلاق کا تعلق مسلک حنفی کے مطابق آیت229البقرہ کے آخری حصے سے ہے۔ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ ” پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں”۔ ف تعقیب بلا مہلت کیلئے آتا ہے۔ اسلئے اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے اور یہ مسئلہ اصولِ فقہ کی کتاب ”نور الانوار :ملاجیون” چوتھے درجے میں درسِ نظامی کا حصہ ہے۔ اس وضاحت کے بعدمسئلہ روزِ روشن کی طرح واضح ہونا چاہیے تھا کہ حنفی مسلک والے حلالے کا حکم صرف اس صورت میں دیتے کہ جب اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہوتا۔ برصغیر پاک وہند کے معروف عالم دین اور شاعر علامہ تمناعمادی نے اس بنیاد پر کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ”الطلاق مرتان” ہے۔ جس میں صرف خلع کی صورت تک حلالے کا حکم محدود ہے۔ خلع میں غلطی عورت کی ہوتی ہے اسلئے اس کی سزا بھی وہ بھگت لے۔ علامہ تمنا عمادی نے یہ تصور پیش کیا کہ قرآن نے تین طلاق کا تصور ختم کیا ہے اسلئے دو مرتبہ سے زیادہ طلاق نہیں ہوسکتی اور احادیث کو عجم کی سازش قرار دیا۔ اور یہ واضح کیا کہ اگر مرد کی طرف سے طلاق ہو تو حلالے کا کوئی تصور نہیں لیکن عورت کی طرف سے خلع ہو تو پھر حلالے کا حکم ہے۔ انکے افکار پربھی کسی کو تبصرے کی جرات نہیں ہوئی۔ لیکن قرآن واحادیث صحیحہ میں کوئی ٹکراؤ بھی نہیں ہے اور انشاء اللہ سب کیلئے قابلِ قبول دلائل بھی پیش کریں گے۔
امام شافعی کے مسلک سے تعلق رکھنے والے فرماتے ہیں کہ ” آیت:230کی طلاق کا تعلق آیت229کے پہلے حصہ سے ہے۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر اس کو معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (نورالانور: ملاجیون) ۔ اس صورت میں جب تک دو الگ الگ مرتبہ کی طلاق کے بعد تیسری طلاق نہ دی جائے تو اس پر حلالے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ علامہ جاراللہ زمحشری اور دیگر معروف مفسرین کا بھی کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنے مسلک کے پیروکاروں کو حلالہ سے بچانے کا پروگرام ہوتا تو پھر ایک طرف حنفی علماء اس طلاق کو فدیہ یا خلع تک محدود کرتے اور دوسری طرف شافعی علماء اس کو الگ الگ تک محدود رکھتے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حضرت ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے کہ ” حلالے کا حکم سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اسلئے جب اس طلاق سے پہلے دو الگ الگ مرتبہ طلاق ہو اور پھر اس سے پہلے فدیہ کی صورت بھی ہو تب اس پر حلالے کا حکم لگے گا”۔(زادالمعاد:جلد چہارم ۔ فصل فدیہ کے حوالے سے۔ علامہ ابن قیم )
اختلاف کا پہلا حل قرآن کی تفسیر قرآن ہے اور دوسرا حل قرآن کی تفسیر حدیث ہے۔ جب ہم اس آیت:230کے سیاق وسباق کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آیات228اور229میں عدت کے اندر صلح واصلاح اور معروف کی شرط پراللہ تعالیٰ نے بہت کھل کر رجوع کی اجازت دی ہے اور آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اورکافی عرصہ بعد بھی باہمی اصلاح ورضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے۔ سورۂ بقرہ کی ان آیات کا بہت ہی مختصر خلاصہ سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے ۔ جس میں عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بہت واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہواہے۔ جہاں تک آیت230میں طلاق کا تعلق ہے تو یہ بالکل ایک خاص صورتحال تک محدود ہے جو تیسری طلاق ہر گز ہرگز بھی نہیں ہے۔
قرآن میں تیسری طلاق کا تعلق صرف اور صرف طہروحیض کی صورت میں پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد پھر تیسرے مرحلے میں تیسری طلاق سے ہے۔ صحابہنے رسول اللہ ۖ سے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے یہ جواب نہیں دیا کہ میری امت کے جاہلوں کو بھی پتہ ہوگا کہ سورۂ بقرہ کی آیت230کا تعلق تیسری طلاق سے ہو اور آپ لوگ عربی معاشرے کا حصہ ہوکر قرآن کی اتنی بڑی بات نہیں سمجھتے ہو؟۔بلکہ رسول اللہ ۖ نے اس کا یہ جواب عنایت فرمایا کہ ” آیت229البقرہ میں الطلاق مرتٰن کے بعدفامساک بمعروف او تسریح باحسان کے ساتھ ہے۔ احسان کیساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔ جب نبی کریم ۖ نے یہی واضح فرمایا کہ تیسری طلاق کا تعلق حلالہ کیساتھ جوڑنا انتہائی غلط اور فاش غلطی ہے تو پھر اس کے بعد اور کیا بات رہ جاتی ہے؟۔حنفی مسلک اور عربی زبان کے قاعدے کے مطابق بھی ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے تسریح باحسان ہی تیسری طلاق بنتی ہے۔
جب حضرت عبداللہ بن عمر نے صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور بخاری کی روایت کے مطابق حیض کی حالت میں طلاق دی تو بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق کے مطابق نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ رجوع کرلو۔ پھر طہر کی حالت تک اپنے پاس رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر یعنی پاکی کے ایام میں آجائیں اور پھر حیض آجائے۔ اس کے بعد پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور اگر طلاق دینا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دو۔یہ وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے امر کیا ہے۔ یہ روایت الفاظ کے اختلاف کیساتھ بخاری کتاب الاحکام، کتاب ا لطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
رسول اللہ ۖ کے غضبناک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں عدت کے اندرمرحلہ وارتین طلاقوں کا مسئلہ بہت زیادہ عام فہم تھا۔ اس کو نہ سمجھنے پر حضرت ابن عمر کے فعل پر نبیۖ غضبناک ہوگئے۔ جب یہ تعین ہوگیا کہ عدت کے تین مراحل ہیں تو اس بات کا تعین کرنے میں بھی دقت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ تین مرتبہ طلاق کاتعلق بھی عدت کے تین مراحل سے ہے۔جب نبی کریم ۖ نے اچھی طرح سے سمجھادیا تو پھر اس کے بعد ابہام پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

” آیت230البقرہ پر چبھتا ہواسوال اور مفصل جواب ”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”پھر آیت230میں کونسی طلاق ہے جس کے بعد بیوی کے حلالہ نہ ہونے کا واضح حکم ہے۔ اس سے بھی بڑا اہم سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا حکمت تھی؟۔ جس کی وجہ سے اتنے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں؟”۔
اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ حلالہ کروانے سے کم وقت میں قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنی عزتیں بچائی جاسکتی تھیں۔ جب امت مسلمہ نے قرآن کو چھوڑ دیا تو اس کی ذمہ داری قرآن پر نہیں امت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ وقال الرسول یارب انی قومی اتخذوا ھذالقرآن مھجوراً ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا”۔ اگر ہندوستان کے علماء اس آیت میں نبیۖ کی قوم کا ذکر دیکھ لیتے تو پھر ایک دوقومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو علماء کرام تقسیم نہ کرتے۔ حلالہ سے زیادہ واضح الفاظ میں قوم کا مسئلہ اس آیت میں واضح ہے لیکن قومی مسئلہ تو حل نہ ہوسکا اور حلالہ سے مسلمانوں کی عزتوں کو چھید کرکے جنازے نکلوادئیے ۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا مودودی کا بتایا کہ ” پہلے مسلمان ایک قوم نہیں تھی مگر اب ایک قوم بن چکی ہے”۔ جہالتوں پر جہالتوں کے انبار لگے نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ آیات:222،223،224،225،226،227،228،229تک مختلف حدود بیان کئے ہیں اور عورتوں کوزبردست حقوق دئیے ہیں لیکن بدقسمتی سے حجة الوداع کے آخری خطبے میں خواتین کے حقوق کا خاص لحاظ رکھنے کی نصیحت کو بھی مفسرین اور فقہاء نے ان واضح قرآنی آیات میں بالکل نظر انداز کردیا تھا اسلئے کہ معاشرے سے عورت کو حقوق دینے کی طرف مسلم معاشرے نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ ترتیب وار حیض میں عورت کی اذیت وناپاکی کا لحاظ رکھنا، مباشرت میں درست راستے کا انتخاب، اللہ نے میاں بیوی سمیت کسی قسم کی صلح پر بھی پابندی نہیں لگائی، طلاق کے الفاظ پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق کے عزم کا اظہار کئے بغیر عورت کی عدت چار مہینے کا تعین اور عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار کے بعد عدت تین ماہ ہوتی۔ ناراضگی اور طلاق کے اظہار کے بعد عورت جب تک راضی نہ ہو تو شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ تین طلاق کے فعل کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور باہمی اصلاح سے عدت میں رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔پھرجب مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی صورت پیش آئے کہ شوہر اور بیوی دونوں آپس میں رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہ رکھیں اور اس کی وجہ سے شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس کی جائے توپھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع کرنے کا تو سوال ہی ختم کردیا ہے کہ کوئی ذریعہ بھی رابطے کا نہیں چھوڑاہے۔ قرآن نے ان آیات میں بہت ساری جاہلیت کی رسمیں ختم کیں تو اس رسم کو ختم کرنے کی بھی تعلیم دی کہ جب شوہر رجوع نہیں کرنا چاہتا تب بھی عورت کو طلاق کے بعد کسی اور شخص سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔
آیت230کی روح اگلی پچھلی آیات میں بھرپور طریقے سے ان تمام آیات میں موجود ہے جن میں رجوع کیلئے شوہر نہیں عورت کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد یہ حکم لگے گاکہ ”جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے بالکل حلال نہیںہے”۔ اس آیت شریفہ ومبارکہ کی برکت سے دوسری آیات کے مطالب اور مقاصد واضح ہونے میں بھی زبردست مدد ملی ہے۔ ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث کی فطری وضاحتیں موجود ہیں لیکن حلالہ کی لذت دماغ پر سوار ہوجائے تو پھر نشے میں حقائق دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

” حلالہ ختم :دوسرا مقدمہ”

”سیدناعمر نے قرآن میں تحریف کی؟”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر نے قرآن کے احکام میں تحریف کر ڈالی کہ عدت میں رجوع ہوسکتا تھا اور طلاق مرحلہ وار دینے کا حکم تھا اور آپ نے اس کے بالکل برعکس ایک ساتھ تین طلاق دینے کی بدعت جاری کردی؟۔
حضرت عمر فاروق اعظم تھے اور ان کا یہ اقدام قیامت تک مسلمانوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ شیعہ حضرت عمر کے کسی کردار کو مانیں یا نہیں مانیں لیکن اس کردار کو مانیںگے بلکہ اپنے ہاں اس کورائج کرنے میںذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
جب میاں بیوی میں جھگڑا ہو اور اس جھگڑے کو حکمران کے پاس نہیں لیکر جائیں تو قرآن کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد جب تک کوئی عورت راضی نہ ہو تو اس کا شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ اگر بیوی راضی ہو تو شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ چاہے ایک طلاق دی یا ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوں ۔ یہی رائج بھی تھا جس کا حضرت ابن عباس کی روایت میں ذکر ہے۔
جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاق دیں اور اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو اسکے شوہر نے معاملہ حضرت عمر کے دربار میں پہنچادیا۔ حضرت عمر نے معاملے کی نزاکت کو دیکھ کر فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا کوئی حق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ آئندہ کوئی اکٹھی تین طلاقیں دے گا تو اس کو کوڑے بھی مارے جائیںگے ”۔
دنیا کی کوئی بھی عدالت ہو تو قرآن کی آیت اور حضرت عمر کے فیصلے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرے گی کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے”۔ حضرت عمر کے اس اقدام کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اس پر بحث شروع ہوگی کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں یا نہیں؟۔ ایک ساتھ تین طلاق سنت ہے یا بدعت ہے؟۔ جو قرآن کا اصل مسئلہ تھا کہ باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے اور عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ بالکل ہی امت مسلمہ نے اپنی نظروں سے چھپالیا۔ جس کے خطرناک نتائج اُمة مسلمہ نے اس وجہ سے بھگت لئے کہ قرآن کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دیا تھا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” اپنی زبانوں کو جھوٹ سے ملوث مت کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے”۔ کیا صحابہ کرام اپنی طرف سے حلال وحرام کے مسائل بناکر اس میں ملوث ہوسکتے تھے؟۔ حضرت عمر کے دور میں فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کے علاوہ فتوحات کی وجہ سے نئے نئے لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کرچکے تھے۔ عیسائیوں کے ہاں اس وقت طلاق کا کوئی مذہبی تصور نہیں تھا۔ اسلام نے دینِ ابراہیمی کے دعویدارمشرکینِ مکہ، یہود اور نصاریٰ کے مسخ شدہ مسائل کے درمیان حق کا بالکل واضح راستہ بتادیا تھا۔ طلاق اور رجوع کے احکام کی سمجھ بہت واضح الفاظ میں عام تھی لیکن نبیۖ نے یہ خبر بھی دی تھی کہ
” اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی اور یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ”۔ پھر آہستہ آہستہ لوگوں کا رحجان قرآن کے اصل حکم سے ہٹتا گیا ،اب یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ مدارس حلالوں کے اڈے، سینٹر ، فیکٹریاں اور قلعے بن گئے ہیں۔

” عمر فاروق اعظم کااُ مت پر احسان ”
جب اللہ تعالیٰ نے محض ایک طلاق کے بعد بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا ہے تو تین طلاق کے الفاظ سے استعمال کرنے اور عورت کی طرف سے صلح پر رضامند نہ ہونے کے باوجود شوہر کو رجوع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت عمر نے پوری امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو قرآن کی روح کے مطابق شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا۔ اسکے بعد فقہی بحث مطمعٔ نظر اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے تھا کہ اگرطلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو شوہر رجوع کرسکتاہے یا نہیں؟۔ قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ فقہاء اس بات پر متفق ہوتے کہ ایک طلاق کے بعد عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس سے دو مرتبہ طلاق رجعی کا باطل تصور ختم ہوجاتا۔ جس میں شوہر کو عورت پر ایک عدت نہیں تین عدتوں کا شرعی حق مل جاتا ہے اسلئے کہ اگر شوہر ایک طلاق دے اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر دوسری طلاق دے اور عدت کے آخر میں پھر اس سے رجوع کرلے، دوعدتیں گزارنے کے بعد پھر شوہر تیسری طلاق دے تو تیسری عدت بھی گزارنی پڑیگی اور اس سے بڑھ کر اگر اس ہتھیار کو اس سے بھی زیادہ مدت کیلئے استعمال کرنا چاہے تو ایک ایک طلاق رجعی میں عورت کی پوری زندگی کو برباد کرنیکا شوہر کو حق مل جاتا ہے مگر یہ قرآن نہیں جہالت ہی جہالت ہے۔
حضرت عمر کے اقدام کی طرف درست توجہ دینے کے بجائے فقہاء نے یہ بحث شروع کردی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں کہ نہیں؟حالانکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ اگر رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ تو پھر قرآن وسنت کی طرف توجہ جاتی۔ جب قرآن میں باہمی رضامندی کی صورت میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع کی گنجائش رکھی ہے اور باہمی رضامندی کے بغیر نہیں رکھی ہے تو فیصلہ باہمی اتفاق رائے سے ہوجاتا کہ اصل معاملہ عورت کی رضامندی پر منحصر ہے۔
حنفی اور مالکی مسلک والوں نے قرار دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق بدعت اور گناہ ہے اور دلیل محمود بن لبید کی روایت کو بنایا کہ ” ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ، جب رسول اللہ ۖ کو خبر پہنچی تو آپ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟”۔ اس روایت کی وجہ سے احناف اور مالکیہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق بدعت ہیں۔
اس روایت میں جس شخص نے کہا تھا کہ ” کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟” عمر تھے اور جس کے بارے میں خبر دی تھی وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ ” عبداللہ بن عمر نے اپنی بیگم کو ایک ساتھ تین طلاق دی تھیں اور پھر20سال تک کوئی دوسرا شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔20سال بعد ایک زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ اسی طرح یہ تصریح بھی موجود ہے کہ قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے جس طرح غضبناک ہونے کا مظاہرہ فرمایا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق دیکر فارغ کرنے کی ضرورت کیا ہے؟۔ کیونکہ نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود صحیح روایت کے مطابق رجوع کا حکم دیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورہ ٔ طلاق )۔اس بات پراتفاق تھا کہ ابن عمر نے رجوع کیا تھا لیکن اس بات پر اختلاف تھا کہ تین طلاق دی تھی یا ایک؟۔ اس سلسلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی بھرمار ہے مگر ایک صحیح روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ” اگر میں تین مرتبہ طلاق دیتا تو نبیۖ مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے؟”۔ اس سے مراد ایک ساتھ تین طلاقیں نہیں بلکہ جیسا نبیۖ نے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا حکم دیا تھا اور وضاحت دی تھی اس طرح ابن عمر تین مرتبہ طلاق دیتے تو نبیۖ رجوع کا حکم واقعتا نہ دیتے۔ حضرت عمر سے کہا گیا کہ عبداللہ کو جانشین نامزد کردیں تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کو طلاق کا پتہ نہیں اور اسکو امت مسلمہ کی خلافت سونپ دوں؟ جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر دور میں چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیںجو بڑوں کو انکے بیٹے کیلئے جانشین بنانے کا مشورہ دیتے ہیں اور یہ بھی کہ حضرت عمر نے ایک قلندرانہ بات کردی کہ جس کو خلیفہ بنایا جائے تو اس میں مسئلہ طلاق کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ حیض میںطلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ اس پربڑے بڑوں کا اختلاف ہے لیکن یہ معمولی اختلاف نہیں بلکہ جس طرح اس بات پر اختلاف ہو کہ رات کو روزہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔ ظاہر ہے کہ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح طلاق فعل بھی ہے اور قول بھی۔ فعل تو تین مرتبہ طلاق کا عدت کے تین مراحل میں دینا ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہی عدت کے تین مراحل سے ہے اور یہ قرآن و صحیح بخاری کی مختلف کتابوں میں موجود عبداللہ بن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے۔ شوہر کی طرف سے طلاق کے قول کے بعد عورت کا حق شروع ہوتا ہے۔اگر اس کا پروگرام رجوع نہ کرنے کا ہو تو ایک طلاق دی یا تین لیکن وہ رجوع نہیں کرسکتاہے اور اگرعورت رجوع کیلئے راضی ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعدبھی باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ قرآن میں بالکل واضح ہے اور جہاں تک آیت230البقرہ کا تعلق ہے تو اس سے پہلے اس صورتحال کی وضاحت ہے کہ ” وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے نہ صرف جدائی پر متفق ہوں بلکہ آئندہ کیلئے بھی رابطے کی کوئی چیز نہ چھوڑیں۔ یہاں تک کہ دی ہوئی چیز واپس لینا جائز نہیں لیکن جب اس کی وجہ سے رابطے کایقین اور اللہ کے حدود پردونوں کے قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز واپس فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے”۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رفاعة القرظی نے جس خاتون کو طلاق دی تھی تو اس نے دوسرے شوہر سے طلاق اور رفاعة القرظی سے رجوع کی خواہش رکھی تھی لیکن نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ” جب تک تم ایکدوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لو تو رفاعة کے پاس واپس نہیں لوٹ سکتی”۔ اس روایت میں نمایاں بات یہ ہے کہ دوسرے شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو کی طرح چیز تھی تو اس سے وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ کیسے یہ حکم دیتے؟۔ دوسری بات یہ ہے کہ بخاری کی دوسری روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ اس کا دوسرا شوہر آیا اور ا س نے بتایا کہ میں نامرد نہیں ، اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتاہوں اپنی مردانی قوت سے اور یہ میرے بچے ہیں جوساتھ لایا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بتایا کہ اس عورت کے جسم پر مارپیٹ کے نشان تھے جو اس نے دکھائے تھے۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے دونوں میں صلح کروائی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رفاعة القرظی نے مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے عمل سے جدا کیا تھا اور جب وہ رجوع نہیں کرنا چاہتے تھے تو وہ عورت رجوع کی امید پر کیسے چھوڑی جاتی؟۔ اس میں کہیں دور تک شائبہ بھی نہیں کہ نبی ۖ نے اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا حکم دیا ۔مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس نے لکھا کہ” یہ حدیث خبر واحدہے اور احناف نکاح کیساتھ مباشرت کا حکم اس کی وجہ سے نہیں دیتے بلکہ آیت میں نکاح کوجماع سمجھتے ہیں”۔ (کشف الباری) اگر نکاح سے جماع مراد لینے پر بات کی جائے تو ایک اور پنڈورا بکس کھلے گا۔
جو علماء ومفتیان حلالہ میں ملوث نہیں تو وہ کھل کر مساجد اورمدارس میں حلالہ کے خلاف قرآن واحادیث صحیحہ کے معاملات کو اپنے عقیدتمندوںاور عوام میں بتائیں تاکہ دین سے مایوس مسلم اُمہ میں اُمید کی ایک نئی روح زندہ ہوجائے۔

”حلالہ ختم: تیسرا بہت فیصلہ کن مقدمہ”

” رجوع عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد”
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھاہے کہ ” اسلام کی نشاة ثانیہ عرب نہیں عجم سے ہوگی اور اس کیلئے مرکزی علاقہ سندھ ، پنجاب، بلوچستان ، فرنٹیئر(خیبر پختونخواہ) ، کشمیر اور افغانستان ہے۔ یہاں جس قدر قومیں بھی بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ یہاں امام ابوحنیفہ کے مسلک پر قرآن کی طرف توجہ کرنے سے انقلاب آئیگا اسلئے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے علاوہ دوسرا کوئی مسلک یہاں کے لوگ قبول نہیں کریںگے۔ ایران کے شیعہ بھی ساتھ دیں گے اسلئے کہ امام ابوحنیفہ بہت سارے ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے۔احادیث میں اس علاقے کا ذکر ہے۔ کشمیر سے کراچی تک سندھ تھا جس کا مرکز ملتان تھا اور پنجاب کے پانچوں دریا سندھ کی شاخیں ہیں۔ ہند کے مقابلے میں سندھ ایک علیحدہ تشخص رکھتا تھا۔ اگر ہندو ساری دنیا بھی ہمارے مقابلے پر لے آئیں تو ہم اس علاقے سے دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں”۔تفسیرسورة القدر:المقام المحمود
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ولا تمسکوھن ضرارًا لتعتدوا ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ ولا تتخذوا اٰےٰت اللہ ھزوًا واذکروا نعمة اللہ علیکم وما انزل اللہ علیکم من الکتٰب والحکمة یعظکم بہ واتقوا اللہ و اعلموا ان اللہ بکل شی ئٍ علیمOواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذٰلک یوعظ بہ من کان منکم یؤمن باللہ والیوم الاٰخر ذٰلکم ازکٰی لکم و اطھر واللہ یعلم وانتم لاتعلمونO”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور انہوں نے عدت اپنی پوری کرلی تو معروف طریقے سے رجوع کرلو یا معروف طریقے سے ان کو چھوڑ دو۔ اور اس لئے ان کو مت روکو تاکہ ان کو تکلیف پہنچاؤ اور جس نے ایسا کیا تو اس نے بیشک اپنے نفس پر ظلم کیا۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر کی ہے ۔اور جو اللہ نے (رجوع کے احکام ) نازل کئے ہیں کتاب میں سے اور حکمت ۔ جس سے وعظ کیا جاتا ہے۔اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اور جب تم طلاق دے چکے عورتوں کو ،پھر وہ اپنی عدت پوری کرچکیں تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں، جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ وہ ہے جس کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے اس کیلئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اس میں تمہارے لئے زیادہ تزکیہ اور زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔( سور ہ البقرہ آیات 231اور232)۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیات228اور229میں عدت کے اندر بھی رجوع کو باہمی رضامندی کیساتھ جائز قرار دیا اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے جائز قرار دیا اور یہ احکام سورۂ طلاق کی پہلی اور دوسری آیت میں بھی بعینہ ایسے ہیں تو پھر آیت230کے اس حکم کاکیا بنے گا کہ” اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے؟”۔ اسکا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے حوالے سے بہت سی رسموں کا خاتمہ کردیا تھا جس کی تفصیل قرآن میں واضح ہے اور ایک غلط رسم یہ بھی تھی کہ جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا اور پھر شوہر بھی رجوع نہیں کرنا چاہتا تھا اور بیوی بھی رجوع نہیں کرنا چاہتی توپھر بھی عورت کو کسی سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔یہ مرد کی غیرت کا مسئلہ تھا اور لوگ منگیتر تک کو چھوڑنے کے بعد کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتے ہیں۔اس رسم کو بھی قرآن نے ملیامیٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ قرآن نے تو یہ بھی واضح کردیا تھا کہ ناراضگی کے بعد شوہر عورت کو مجبور نہیں کرسکتا ہے اور عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے، اسی طرح ایک طلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہوتوشوہر کیلئے عدت کے اندر اور عدت کے بعد زبردستی کرنا حلال نہیں ہے۔ جب تک230آیت میں حلالہ کی لالچ مولویوں کو نہیں دکھائی تو انہوں نے دوسری آیات میں عورت کے حق کی طرف دیکھا تک بھی نہیں ہے۔ آیت کے حکم کو سمجھنے کیلئے آگے پیچھے کی آیات اور معا ملات کو دیکھے بغیر مولوی سے حلالے کروائیںگے تواسی طرح عزتیں لٹتی رہیں گی۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تواگرمیرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
لوگ اپنی غیرت ، عزت اور عظمت بچانے کیلئے قرآن کی طرف توجہ دینگے تویہ معاملہ حل ہوجائیگا۔جتنی بھی احادیث صحیحہ اور ضعیفہ ہیںان کی تطبیق ہوسکتی ہے تو تطبیق کرنا ضروری ہے لیکن جو قرآن کے خلاف ہیں تو ان کے ناقابلِ قبول ہونے میں تردد کرنا ایمان کا بہت بڑا زوال ہے۔ مسلک حنفی کو سب سے بڑا کریڈٹ یہی جاتاہے۔
ضعیف حدیث یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ حدیث صحیحہ یہ ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں مرحلہ وار عدت کے مطابق دی تھیں۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دیں لیکن شمار تین نہیں کی گئیں بلکہ ایک شمار کی گئی اور پھر باقاعدہ دوسری طلاقیں بھی دیں۔صحیح مسلم کی جس روایت میں ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کرنے پر راضی ہو تو ایک شمار ہوتی ہے اور رجوع ہوسکتا ہے اور جب عورت رجوع پر راضی نہ ہو توتین شمارہوتی ہیں اور شوہر رجوع نہیں کرسکتاہے۔ اسی طرح ابن عباس کے قول وفعل اور شاگردوں میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ تطبیق ہی تطبیق ہے۔
حضرت عمر کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو ایک طلاق سمجھتے تھے اور حضرت علی کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو تین طلاق سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام اپنی طرف سے قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلال وحرام پر اس طرح کے اختلافات کیسے کرسکتے تھے؟۔ جنہوں نے رجوع کو ایک طلاق کا استعارہ سمجھ لیا ،انہوں نے اس کو ایک طلاق قرار دیا اور جنہوں نے عدم رجوع کو تین طلاق کا استعارہ سمجھ لیا انہوں نے تین طلاق قرار دیا۔ دونوں واقعات میں تطبیق یہ ہے کہ حضرت عمر سے جس شخص نے حرام کے لفظ پر رہنمائی حاصل کرنا چاہی تھی تو اس کی بیوی رجوع کرنا چاہتی تھی اور جس کی بیگم رجوع کیلئے آمادہ نہیں تھی اس کو حضرت علی نے رجوع نہ کرنے کا فتویٰ دے دیا۔ دونوں کا مقصد قرآن پر عمل کرنا تھا۔

”القائے شیطانی اور حلالے کا بگڑا ہوا موجودہ تصور”
وماارسلنا من قبلک رسول ولانبی الا اذا تمنٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰیٰتہ واللہ علیم حکیمOلییجعل مایلقی الشیطٰن فتنةً للذین فی قلوبھم مرض والقاسیة قلوبھم ان الظٰلمین فی شقاقٍ بعیدٍOولیعلم الذین اوتواالعلم انہ الحق من ربک فیومنوا بہ فتخبت لہ قلوبھم وان اللہ لھاد الذین اٰمنوا الی صراط مستقیمOآیات:52،53سورہ الحج۔
ترجمہ ” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی بات ڈال دی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان نے ڈالا ہوتا ہے ۔ پھر اپنی آیات کو محکمات بنالیتا ہے اور بہت جاننے والا حکمت والا ہے۔تاکہ بنائے جو شیطان نے ڈالا ہے فتنہ ان لوگوں کیلئے جنکے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں۔بیشک ظالم لوگ بہت دور کی بدبختی میں ہیں۔اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور اس پر ایما ن لائیں اور اس کیلئے انکے دل پلٹ جائیںاور اللہ ہدایت دیتا ہے ایمان والو ںکو سیدھی راہ کی”۔
انبیاء کرام اور رسل عظام نے اپنی اپنی قوموں کو گمراہانہ تصورات سے نکالنے کی تمنائیں کی ہوتی ہیں لیکن پھر شیطان نے ان کی تمناؤں میں اپنی معنوی تحریف ڈال کرمعاملہ سبوتاژ کیا ہوتا ہے۔ پھر نئے نبی پر آیات نازل کرکے شیطان کے ڈالے ہوئے معاملے کو اللہ مٹادیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیطان وحی میں اپنی خواہش ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ مطلب واضح ہے کہ ” نبیۖ سے پہلے کوئی بھی رسول اور نبی آیا ہے تو ان کی تمناؤں کے برعکس بعد والوں میں شیطان اپنی بات ڈال دیتاہے اور جب دین کی تحریف کرکے مسخ کرکے رکھ دیتے تھے تو پھر دوسرے نبی و رسول پر وحی نازل کرکے اللہ کی آیات کو اللہ خود محکمات بنادیتا تھا”۔ پہلے جتنے بھی انبیاء کرام اور رسل عظام تشریف لائے ہیں تو شیطان بعد والوں کے دلوں میں اپنی تمنائیں ڈال کر احکام کو مسخ کردیتا تھا جیسے یہودو نصاریٰ کے علماء ومشائخ نے کیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی شرح بخاری ”فیض الباری ” میں لکھا ہے کہ ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لیکن لفظی بھی کی گئی ہے یا توجان بوجھ کر یا پھر مغالطے سے”۔ احادیث کی کتب اور اصول فقہ کی کتابوں میں لفظی تحریف بھی پڑھائی جاتی ہے لیکن مسلک حنفی کا کمال ہے کہ روایات کو بے اہمیت کر دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ” قرآن کو اللہ نے لفظی تحریف سے محفوظ رکھا ہے”۔ اسلئے کسی نبی اور کتاب کی ضرورت نہیں ہے لیکن معنوی تحریفات کا عوام کو اس وقت پتہ چلے گا کہ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا اور دنیا میں فطری اسلامی انقلاب آجائیگا۔
جب سورہ حج کی ان آیات کی تفسیر علماء پر مشکل ہوگئی تو معروف مفسرین نے ابن عباس کی روایت ہی کا سہارا لیا کہ ”سورۂ النجم نازل ہوئی تو شیطان نے نبیۖ کی زبان پر لات ومنات اور عزیٰ کو اللہ کے ہاں شفاعت کے قابل کہا”۔ جس پر مشرکینِ مکہ نے نبی ۖ کے ساتھ سجدہ کیا لیکن پھر پتہ چلا کہ شیطان نے آیات کی شکل میں اپنی تمنا نبی ۖ کو القاء کردیا یا زبان سے کہلوایا۔ حالانکہ یہ مشرکینِ مکہ کابالکل ناجائز پروپیگنڈہ تھا۔ ہوا یہ تھا کہ پہلی مرتبہ سجدہ کی آیت سورہ نجم میں نازل ہوئی تو نبیۖ اچانک سجدے میں گئے۔ مشرکین نے بے ساختہ ناگہانی آفت کے خوف سے سجدہ کرلیا۔ پھر جب دیکھا کہ معاملہ بالکل معمول کے مطابق چل رہا تھا اور کوئی آفت نہیں آئی۔ نبی ۖ نماز میں مشغول تھے۔جس کی وجہ سے جن مشرکینِ مکہ نے اچانک سجدہ کیا تھا انہوں نے اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے پروپیگنڈہ کیا کہ نبیۖ نے شیطانی آیات پڑھ لیں جس کی وجہ سے ہم نے سجدہ کیا۔ جب نبی ۖ ہمارے معبودوں کواہمیت نہیں دیتے تو ہم بھی نہیں مانتے۔ اس پروپیگنڈے کا اتنا اثر ہوا کہ حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمان بھی اس کا شکار ہوگئے اور واپس آگئے۔ کچھ مکہ کے قریب سے دوبارہ حبشہ بھی چلے گئے۔ ابن عباس کے والد حضرت عباس نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔ اسلئے مشرکین مکہ کے مسلمان ہونے کے بعد اس پروپیگنڈے کو سچ سمجھ کر ابن عباس نے شیطانی آیات کو نقل کیا۔ آپ کے علاوہ کسی صحابی نے یہ بات نقل نہیں کی۔ جن مفسرین نے حدیث سمجھ کر اعتبار کرلیا تو انہوں نے اپنی تفسیر میں نقل کردیا اور جن کو قرآن کی بنیادی تعلیمات کے خلاف بات لگی تو انہوں نے رد کردیا۔ سورہ نجم کا اپنا مضمون بھی شیطانی مداخلت کی سختی سے تردید کیلئے کافی ہے۔
رسول اللہ ۖ کی بعثت کا مقصد قرآن میں واضح ہے کہ ” تمام ادیان پر غلبہ ہوگا”۔ نصب العین کی تکمیل کیلئے معراج میں تمام انبیاء کرام کی امامت بھی فرمائی۔ نبیۖ کا یہ خواب دنیا میں کیسے پورا ہوسکتا ہے؟۔ یہ لوگوں کیلئے بہت بڑی آزمائش ہے ؟۔ نبیۖ کو حلالہ کی لعنت کے احوال کا آنے والا منظر بھی دکھایا گیا تھا اسلئے آپ ۖ نے حلالے کرنے اور کرانے والوں پر لعنت فرمائی۔ نبی کریم ۖ کی تمنا میں معنوی تحریف کرکے شیطان نے کیسے حلالے کو رائج کردیا ہے؟۔ جو اسلام کی سربلندی اور ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لندن اور امریکہ میں حلالہ سینٹر دیکھ کر کون پاگل اس کو اپنے مذہب کے مقابلے میں بہتر قرار دے سکتا ہے؟۔ سورہ حج کی ان آیات کی واضح تفسیر یہ ہے کہ شیطان نے انبیاء کے ذریعے دین کی درست تبلیغ کے بعد آنے والوں میں حلالہ کی لعنت رائج کردی تھی۔ جس طرح سامری نے بچھڑے کے ذریعے ان کو شرک میں مبتلاء کیا ،اسی طرح انبیاء کے بعد شیاطین نے حلالہ کی لعنت کے ذریعے مذہبی بدشکل لوگوں سے شیطانی کھیل کے دھندے کھول دئیے۔شیطان نے نبیۖ کی تمنا حلالے کی لعنت میں اپنی تمنا ڈال کر اس کوعلامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ھمام کے ذریعے کارثواب قرار دیا ہے۔البتہ اللہ تعالیٰ آیات محکمات کے ذریعے شیطانی جال کو مٹاتا ہے۔
قرآن وسنت میں حلالے کی لعنت کا جواز نہیں تھا، طلاق سے رجوع کیلئے کافی وضاحتیں قرآن میں ہیں ۔ایک طرف سورۂ حج کی ان آیات کے مطابق وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ جن میں سرفہرست مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں۔ دوسری طرف پشین کوئٹہ سے لاہور تک، تربت گوادر سے چترال تک اور کراچی سے سوات تک ایسے بہت علماء حق ہیں جن کا دیوبند، بریلوی، اہل حدیث ، اہل تشیع اور جماعت اسلامی سے تعلق ہے اور وہ حمایت کررہے ہیں۔ حضرت مفتی محمد حسام اللہ شریفی ، حضرت مولاناقاری اللہ داد صاحب، حضرت شیخ مفتی محمد انس مدنی کراچی،مولانا عبدالقدوس ڈیرہ اسماعیل خان اور گجرانوالہ کے حضرت مولانا مفتی خالد حسن قادری مجددی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے استاذمفتی محمد نعیم صاحب نے بھی تائید کی تھی جن کو مفتی محمد تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی تھی۔ مفتی زر ولی خان سے بھی تائید کی امید تھی جنہوں نے میری کتاب” عورت کے حقوق” کے مسودے کی تعریف فرمائی تھی لیکن پھر ان کا انتقال ہوگیا تھا۔جس دن مدارس اور مساجد سے حق کا سیلاب اُٹھے گا تو آئندہ الیکشن بھی اسلام کے فطری نظام کی بنیاد پر بالکل نئے لوگ بہت بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے ۔ انشاء اللہ
جب تک تقابلی جائزہ نہیں ہوتا تو علمی حقائق تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں اللہ نے نبیۖ کی سیرت طیبہ کے ذریعے یہ تعلیم دی ہے کہ سیرت کا تقاضہ یہ نہیں کہ گدھے کی طرح کوئی اپنی ناحق بات پر بھی ڈٹ جائے کہ میں جو بول چکا ہوں وہی حق ہے۔ نبی ۖ نے ایک خاتون کو موقع دیا اور پھر وحی اسی کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی ہے۔ اگر اکابر کسی غلط فہمی کا شکار تھے تو ان کی توقیر اور عزت واحترام میں کوئی فرق نہیں آتا ہے۔ جتنے بھی ایسے ملحد ہیں جو توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ان میں اکثریت مولویوں کی ہی نظر آتی ہے۔ شدت پسندی کا رخ بدل جاتا ہے، باقی وہی ہوتا ہے۔
جب احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل جمہور کے نزدیک دیکھتے ہیں تو ڈھیر ساری احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ نظر آتا ہے کہ یہ رفاعة القرظی نے بیوی کو طلاق دی تھی، فاطمہ بنت قیس کو اکٹھی تین طلاق دی گئی اور حضرت حسن نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ حضرت علی نے حرام کے لفظ کو تین طلاق قرار دیا۔ ابن عباس نے بھی ایک ساتھ تین طلاق پر فتویٰ دیا۔ ابن عمر نے بھی کہا کہ تین طلاق کے بعد رجوع کا حکم نہیں مل سکتا تھا۔ غرض بہت روایات اور فتوے موجود ہیں۔ کیونکہ جمہور کے مقابلے میں تقابلی جائزہ رکھنے والے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔
جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت ومباح ہیں یا بدعت وگناہ؟۔ تو پھر احادیث کا ذخیرہ بھی پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک ایک روایت ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ لیکن امام مالک وامام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان کی وجہ سے اس میں ایک ساتھ تین طلاق دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ محمود بن لبید کی روایت ان کی دلیل ہے جس میں نبیۖ نے فرمایا تھا کہ کیا میری موجودگی میں قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ یہ دو روایات بھی حلالہ کی توثیق نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی ان سے قرآن کی آیات میں رجوع کے احکام سے روگردانی کا جواز بنتا ہے۔ ان سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ بلاضرورت ایک ساتھ فارغ کرنا گنا ہ اور معقول وجہ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔سورة طلاق میں عدت اور عدت کے بعد رجوع کا خلاصہ بہترین الفاظ میں موجود ہے اور ابوداؤدشریف کی روایت میں ہے کہ نبیۖ نے ابو رکانہ سے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرلیتے؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھر سورۂ طلاق کی آیات پڑھ لیں۔ علماء حق سے اپیل ہے کہ اپنے اسلاف کی لاج رکھتے ہوئے حلالہ کیخلاف علمی وضاحتوں کا اعلان کرکے سرخرو ہوجائیں۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں