پوسٹ تلاش کریں

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپور سید عتیق گیلانی کی تحریر۔

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپور سید عتیق گیلانی کی تحریر۔ اخبار: نوشتہ دیوار

Written by Syed Atiq Gilani, full of arguments on the differences between Sindhi, Muhajir, Pakhtun, Baloch, Panjabi, Shia Sunni, Muta, Halala, divorce and khula.

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی ، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپورسید عتیق گیلانی کی تحریر

بقیہ صفحہ 2 اور ___3

صفحہ نمبر1اور صفحہ نمبر4کے بہت سارے مسائل کا مختصر تشفی بخش جواب دینے کی کوشش صفحہ نمبر2 ،3پر کروں گا۔ ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” علامہ اقبال نے سچ فرمایا تھا۔ پاکستان بننے کے73سال بعد بھی ہماری سیاست اور دین کے شعبے جدا جدا ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی نے ہندوازم کی بنیاد پر مسلمانوں اور اقلیت کا بیڑہ غرق کرکے چنگیزیت کا آغاز کردیا ہے۔ افغانستان میں طالبان ایک ایسے سنگم پر کھڑے ہیں کہ ان کو پتہ نہیں چلتا ہے کہ دنیا کیساتھ چلیں یا دین پر چلیں؟۔پاکستان میں مذہبی اور سیاسی طبقات بھی اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔عوام کو مایوسی سے نکالنے کا واحد راستہ اسلامی روح ہے اور اسلام کے جسم میں روح بیدار ہوسکتی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خلع واقتدارمیںبہت بڑا اشتراک_
حضرت آدم و حواء سے لیکر قیامت تک آنے والے ہرانسانی جوڑے میں مرد عورت کا نگہبان اور محافظ ہے۔ جب کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو پھر شوہر اپنی بیگم کو اپنے نکاح سے نکلنے کو اپنی بہت بڑی توہین سمجھتا ہے۔ جب مرد اپنی مرضی سے طلاق دیتا ہے تو عورت کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے اس کے بھائی، بھتیجے،رشتہ دار، دوست، پڑوسی اور دشمن سے نکاح کا ناطہ جوڑنے پر بہت سیخ پا ہوتا ہے اور غیرت کھاتا ہے۔ ایسے میں قرآن کا یہ حکم اس کو کہاں ہضم ہوگا کہ عورت اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے بخیر وعافیت خلع لیکر کسی اور سے نکاح کی جرأت کرسکتی ہو؟۔ پاکستان کی خاتونِ اول بشریٰ بی بی نے اپنے شوہر خاور مانیکا سے خلع لیکر وزیراعظم عمران خان سے نکاح کیا تو بشریٰ بی بی کی اولاد سے میڈیا کے اینکر پرسن تک پورا پاکستان ہل کر رہ گیا تھا۔ جیو نیوزکے تحقیقاتی صحافی نے دعویٰ کیا کہ ”یہ شادی عدت کے اندر ہوئی ہے”۔ حالانکہ طلاق اور خلع کی عدت میں بہت فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے؟۔ اس کا بھی موقع مل جائے توتفصیل سے بتادیتا ہوں۔ عمران خان نے اور کچھ کیا یا نہیں کیا لیکن بشریٰ مانیکا سے خلع کی بنیاد پر شادی کرکے مدینہ کی ریاست کا ایک حکم زندہ ضرور کردیا ہے۔
جس طرح کوئی ریاست اپنی کسی زمین کے ٹکڑے سے دستبردار نہیں ہوسکتی ہے اور کوئی حکمران اپنا اقتدار نہیں چھوڑ سکتا ہے، اسی طرح کسی شوہر کیلئے عورت کو خلع دینا بہت مشکل کام ہے۔ ریاست پاکستان نے بنگلہ دیش سے اس وقت ہی دستبرداری اختیار کی جب اس کے دشمن بھارت کے سامنے93ہزار پاک فوج نے جنرل نیازی کے کہنے پر ہتھیار ڈال دئیے۔ نیازی ایک غیرتمند قوم ہے مگر جنرل نیازی کی وجہ سے اتنی بدنام ہوگئی کہ عمران خان جیسا انسان بھی نیازی لکھ کرشرم محسوس کرتا ہے۔ بشریٰ مانیکا کی خلع کے بعد شاید مانیکا لکھنے پریہ خاندان شرم محسوس کرے۔ اگر بنگلہ دیش نے بشری مانیکا کی طرح آسانی کیساتھ آزادی حاصل کی ہوتی تو پاکستان اور بنگلہ دیش دوجڑواں بھائیوں کی طرح ہوتے۔
ہندوستان و پاکستان انگریز سے جمہوری انداز میں ایک ساتھ آزاد ہوئے، ان دونوں ریاستوں کو دوجڑواں بہنوں کی طرح محبت سے رہنا چاہیے تھامگر برطانیہ نے مسئلہ کشمیر سے دونوں میں سوکناہٹ پیدا کی۔ ”لڑاؤاور حکومت کرو” کی پالیسی آخری دَم تک انگریز نے نہیں چھوڑی۔ آج بھی امریکہ اور یورپ نے یہ پالیسی اختیار کرنی ہے کہ برصغیر پاک وہند میں جنگ وجدل کا ماحول پیدا کرکے ہماری سستی اناج اور دیگر وسائل پر قبضہ کرلے اور اپنے اسلحہ کے ذخائر ہم لوگوں کو فروخت کرکے اپنے منافع بخش کاروبار کو زیادہ سے زیادہ ترقی پر پہنچائے۔
اگر گھر میں بیوی خوش نہ ہو تو بھاگ کر جانے اور روکنے سے یہ اچھاہے کہ اس کو خوش اسلوبی کیساتھ ہی رخصت کردیا جائے۔ اگر وہ بری لگتی ہے تو ہنگامے مچانے اور دشمنی کی راہ اپنانے کے بجائے رخصتی میں ڈھیر سارے خیر ہیں۔

بانیانِ پاکستان کی اولاد سے عرضی!_
کراچی و حیدر آباد میں بانیانِ پاکستان کی اولادیں رہتی ہیں۔ انیس قائم خانی اور عامر خان کی ایکدوسرے کیخلاف سوشل میڈیا پرویڈیوز تشویشناک ہیں، پہلے بھی متحدہ اور حقیقی کے نام پر لڑائیاں ہوئی ہیں میں وزیرستان کا باشندہ ہوںلیکن اپنے گھر میں اپنے بچوں کیساتھ اپنے علاقے میں بھی اسلئے اردو بولتا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اگرچہ آج تک بدقسمتی سے اس کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا ہے، جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو پختونخواہ حکومت نے اردو کو سرکاری زبان دینے کا درجہ دیا تھالیکن اردو اسپیکنگ مہاجر پرویزمشرف نے اپنے نالائق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اردو کو پختونخواہ کی سرکاری زبان نہیں بننے دیا۔ حالانکہ افتخار چوہدری خود بھی انگریزی نہیں بول سکتا تھا۔
قوم کی امامت کے مستحق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو پہلے اپنے جسم سے نکلنے والے گند کی جگہ استنجاء کرکے صاف کرلیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان نے پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن اگر وہ پاکستان ہجرت کرکے آنے کی بجائے بھارت میں رہتے تو اصولی طور پر زیادہ اچھا ہوتا۔ ہجرت کے دوران جتنے لوگ اپنے علاقے، وطن، گھروں، خاندانوں ، جانوں، مالوں اور عزتوں سے محروم ہوئے ہیں ، ان سب کی ذمہ داری ان کے سر ہے۔ قائداعظم کی ایک بیٹی دینا جناح تھی جس نے اپنے کزن کیساتھ ہندوستان میں بھاگ کر شادی کی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم راعنا لیاقت علی خان ہماری فوج میں اعزازی جنرل بن گئی تھی۔ لیاقت علی خان اور محمد علی جناح کے بعد بیگم راعنا لیاقت اور فاطمہ جناح ان کا کل اثاثہ اور باقیات تھیں۔ جنرل ایوب خان کے قبضے سے پہلے ہی پاکستان پر جن لوگوں کا قبضہ تھا وہ کونسے جمہوری تھے؟لاہور کی عدالت میں جج لاہور کے ڈپٹی کمشنر سے کہتا ہے کہ” عدالت میں شلوار قمیض پہن کر مت آیا کرو یہ عدالت کی بے حرمتی ہے”۔ ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، نواز شریف اور عمران خان تک مقتدر طبقات نے شلوار قمیض کو رائج کردیا ہے لیکن ہماری عدالت کے جج کو اب بھی شلوار قمیص محکوم اور جاہل قوم کی نشانی لگتی ہے۔
پختون، پنجابی، بلوچ ، سندھی اور سرائیکی اپنا اپنا کلچرل لباس رکھتے ہیں مگر ہمارے مہاجر بھائیوں کا مشترکہ کلچر پینٹ شرٹ تھا اور یہ ان کا اپنا کوئی دیسی کلچر نہیں تھا بلکہ انگریز کے جانے کے بعد جس طرح انہوں نے اپنے وطن کی قربانی دی ،اسی طرح سے اپنے کلچر کی بھی قربانی دی۔ البتہ انگریز کے بعد اقتدار انکے ہاتھ میں آیا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کے کلچر کو بھی اپنے ساتھ ڈبو دیا۔ ان کی اکثریت آج بھی اپنے گھروں اور خاندانوں میں مارواڑی، گجراتی، میمنی، بہاری، بندھانی،کچھی اور دیگر چھوٹی چھوٹی زبانیں بولتی ہیں اور اکثریت کواردو بھی ڈھنگ کی نہیں آتی ہے۔ اردو کو واحدقومی زبان کادرجہ دینے کے بعد بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کی دراڑ وسیع ہوگئی۔ حالانکہ ہندوستان میں22زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل تھااور مزے کی بات یہ ہے کہ قائداعظم کو بھی اردو نہیں آتی تھی۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، قادیانی ، جماعت اسلامی ، شدت پسند شیعہ اور ہندو مسلم تعصبات سب مذہبی ہندوستان سے پاکستان میں منتقل ہوئے ہیں۔ پہلے سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے نوابوں، پنجاب کے چوہدریوں اور سرحد کے خانوں کے مظالم کی بات ہوتی تھی لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے کان کٹوں نے تشدد وانتہاء پسندی میں نام پیدا کرکے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کراچی پاکستان اور حیدر آباد سندھ کا دارالخلافہ تھا اور ہندوستانی مہاجر کی طرح دوسرے پاکستانی پختون، پنجابی، بلوچ اور سندھی کا بھی اس پر پورا حق تھا لیکن مہاجر نے سمجھ لیا کہ کراچی وحیدر آباد کو کاندھے پر لاد کر ہندوستان سے لایاہے۔ جب اپنے وطن کی قربانی دیدی تو حب الوطنی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟۔ ذرا سوچئے!

سندھی مانڑوں سے کچھ گزارشات!_
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے آج تک لاڑکانہ مختلف ادوار میں اہل اقتدار کا شہر ہے لیکن اس کا حلیہ اتنا ہی بگڑا ہوا ہے جتنا سندھی وڈیروں نے غریب سندھی کا بگاڑ رکھاہے۔ ہندوستان کی مشہور ، ہردلعزیز، فطرت کی ترجمان شاعرہ لتا حیاء متعصب ہندوؤں سے کہتی ہے کہ مسلمان صبح اُٹھ کر وضو سے اللہ کی بارگاہ میں عبادت کرتا ہے ، تم بھی ذرا اپنا منہ دھو لو۔ حروں کے پیشواء سندھ میں تھے تو مجلس احرار کے قائدین پنجاب میں ۔ مولانا ظفر علی خان احرارکو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوا۔ پھر زمینداراخبار میں10ہزار روپے کے انعام کیساتھ لکھ دیا کہ ”زمانہ اپنی ہر کروٹ پہ ہزاروں رنگ بدلتا ہے” کہ اگر کسی نے اس شعر کا دوسرا موزوں مصرعہ لکھ دیا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بات پہنچی تو برجستہ کہہ دیا کہ ”مگر اس کو بھی حسرت ہے کہ گرگٹ ہو نہیں سکتا”۔
اگر ہندوستانی مہاجراور دیگر صوبوں سے بلوچ، پختون اور پنجابی نہ آتے تو سندھ کے دوسرے شہروں کی طرح کراچی وحیدر آباد میں بھی مچھروں اور مچھیروں کے ڈیرے لگتے۔ ترقی وعروج آنے والوں کا مرہون منت ہے۔ جب سندھی مہاجر فسادات ہوئے تھے تو ممتاز بھٹو نے انتہائی غلیظ گالی مہاجروں کو دی، جس کو اس وقت کے اخبار نے لسانی فسادات کی پرواہ کئے بغیر اپنی دکان چمکانے کیلئے شائع کیا تھا۔ بھوک سے زمانہ اپنے اقدار کے آداب بھلادیتا ہے لیکن جب ترقی ہوتی ہے تو اس سے زیادہ آداب کا پاس نہیں ہوتا۔ حلیم عادل شیخ نے کسی کو کانوں کان خبر نہ دی لیکن جب دعا بھٹو نے اپنے نومولود کو اس کی طرف منسوب کردیا تو سندھ کا کلچر بھی بدل گیا۔ چھپ کے شادی کرنے اور دوسروں پر تنقید کے نشتر برسانے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جارہاہے کہ بہن بھائی میں شادی ہوگئی۔ جب شہباز شریف نے تہمینہ درانی سے شادی رچائی تھی تو پنجاب کے صحافی اطہر عباس نے پرویزمشرف کے دور میں ایک ساتھ جہاز میں آنے پر غلام مصطفی کھر اور شہباز شریف کے باہمی رشتے کابڑا مذاق اُڑایا تھا۔ پھر وہ دن بھی پنجاب نے دیکھ لیا کہ خاور مانیکا اور عمران خان میں خوشگوار طریقے سے اس سے زیادہ بڑی خبر سامنے آگئی۔ زمانے کی کروٹ کیساتھ لوگوں میں بھی تبدیلوں کا آنا بہت ناگزیر ہے۔ یہ شکر ہے کہ ہندوستانی مہاجروں کی وجہ سے بہت تیزی کیساتھ پاکستان کے مقامی لوگوں نے تبدیلی دیکھ لی ،ورنہ تو دنیا کے اثرات ہم نے پھر بھی قبول کرنے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر پر آذان اور نماز کو حرام قرار دینے والے مولانا اشرف علی تھانوی کے پیروکار دارالعلوم کراچی میں مریدوں کو کہتاتھا کہ ”شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین سود ہے جسکا کم ازکم گناہ سگی ماں سے زنا کے برابرہے”۔ اس پر مفتی شفیع کے داماد اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے بہنوئی مولانا عبدالرؤف سکھروی کی کتابیں ہیں۔ آج سالے ایسے بدل گئے کہ سندھی داماد تصویر تک نہیں کھینچواتا مگر سالوں نے عالمی سود کو جائز قرار دیا۔

پختون بھائی خوگر حمد سے گلہ سن لیں _
ہم نے مان لیا کہ پاکستان میں خرابی کی اصل جڑ راجہ رنجیت سنگھ سے پنجابی انگریزی فوج تک پنجاب کی قوم ہے۔ پختون، بلوچ، سندھی، مہاجر، سرائیکی، گلگت وبلتستانی اور کشمیری سب کے سب مظلوم ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان کے تمام صوبوں کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ انگریز سے آزادی کے بعد پوری قوم پنجاب کی غلامی میں آگئی ہے۔ سرائیکیوں کو وعدوں کے باجود اپنا صوبہ نہیں دیتے ہیں، مہاجروں کو پیپلزپارٹی کے خلاف اٹھاکر بدمعاشوں کو ان پر مسلط کردیا اور پھر ان کا بیڑہ بھی منتشر کرکے غرق کردیا۔ سندھ کو پانی سے محروم کرکے بنجر بنادیااور کوئی نہ کوئی کتا ان کے اقتدار کے پیچھے ہمیشہ لگائے رکھا۔ کراچی میں رینجرزکو مسلط کیا اور اپنے مفادات اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سندھ پولیس کو اپنی مہمان مریم نواز کا دروازہ توڑنے پر احتجاجاً ڈیوٹی چھوڑ ہڑتال تک پہنچنا پڑگیا۔ بلوچوں کے وسائل پر قبضہ کرکے ان کی نسلوں کو تباہ کردیا۔ افغان جنگ اور امریکی جہاد سے پختونوں کا لر اور بر میں بیڑہ غرق کردیا۔ پنجاب اور فوج پر جتنی بھی لعنتیں بھیجنا چاہتے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار مسلم لیگ ن بھی حبیب جالب کی زبان میں پنجاب کو جگانے اور فوج کے خلاف بہت تندوتیزی کیساتھ اپنے پتے کھیل رہی ہے۔ صحافیوں کو بھی مواقع مل گئے ہیں کہ اپنے ان جذبات کا کھل کر اظہار کریں جن کو اپنے سینوں میں پالتے تھے۔ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کی اللہ نے سزا دی ہے کہ اس نے شراب پر پابندی لگادی جو واحد وسیلہ تھا کہ جیل کی قیدوبند اور کوڑوں کی سزاسے بے نیاز ہوکر انسان جابر حکمرانوں کے سامنے حق کہہ سکتا تھا۔ حبیب جالب کو نبیۖ کی طرف سے مولانا عبدالستار خان نیازی نے سلام بھی پہنچایا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ حبیب جالب بھی میانی پٹھان تھا جسکا باپ فٹ پاتھ پر جوتے گانٹھتا تھا اور اس کا تعلق غفار خان اورولی خان کی پارٹی سے تھا جو حق کی آواز اٹھاتے تھے۔
لر اور بر کے پختون بھائیوں سے صرف اتنا عرض ہے کہ جس طرح پنجاب کی پاکستان میں حیثیت ہے وہی حیثیت افغانستان میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور دیگر چھوٹی قومیتوں کے مقابلے میں پختونوں کو حاصل ہے۔ افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کیساتھ بچہ سقہ اور اپنے کزن نادر خان نے جو سلوک کیا تھا جو ظاہر شاہ کا باپ تھا۔نادر شاہ، ملاشور بازاراور شیر آغا سے پختونوں کی تاریخ شروع کریں، نجیب اللہ و ملاعمر سے ہوتے ہوئے اشرف غنی و ملا ہیبت اللہ تک یہ سب پختون ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان سے وہ سلوک کیا جو پختون وہاں پر دوسری قوموں کیساتھ کررہے ہیں۔ کبھی شیعہ ہزارہ قتل وغارت سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ کبھی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ کبھی بیرونی قوتوں کی مداخلت کے حق اور مخالفت میں افغانستان کا کباڑہ کردیا اور کبھی اسلام اور سوشلزم و کمیونزم کے جھنڈوں پر ایکدوسرے کیخلاف لڑے۔ بلوچ اگر اپنے وسائل کا رونا روتا ہے تو وہ کسی دوسرے کے علاقے میں بھی نہیں جاتا ہے ، سندھی بھی اپنے علاقے سے نہیں نکلتا ہے۔ پختونوں کے پاس اپنے وسائل ہوتے تو پاکستان کے کونے کونے میں ہر نکڑ پر پختون اپنا روزگار کرتے ہوئے کیوں دکھائی دیتے؟۔ پاکستان قرضے لے لے کر مرگیا لیکن پختون قوم کیلئے بڑے پیمانے پر فنڈز جاری ہوتے ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی سرائیکیوں کے شہر تھے لیکن پختونوں نے اس پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ مضافات کی غریب سرائیکی بولنے والی آبادی اب بھی زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ہے اور اگر قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا جائے تو پورے پاکستان سے پختونوں کے دھکیلنے اور اپنے علاقوں تک سمیٹنے کے ذمہ دار یہی قوم پرست ہونگے۔ امریکہ کی چاہت ہے کہ اس خطے میں قوم پرستی کی بنیاد پر اسلحے کی خریداری کو فروغ ملے۔

بلوچستان کے بلوچوں سے گزارش!_
بلوچ ایک عزتدار، اپنے اقدار اور اپنی روایات میں منفرد قوم ہے۔ جب پاکستان کی دوسری قوموں میں ڈرامے، فلمیں اور اسٹیج ڈانس کی بہتات تھی توپھر واحد بلوچ قوم نے بلوچی فلم کی وجہ سے کراچی میں سینما کو آگ لگادی تھی حالانکہ اس میں سارے کردار دوسری قوم کے ایکٹروں نے ادا کئے تھے۔بلوچ قوم نے اپنی آزادی کیلئے جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت پارلیمنٹ، سرکار ی ملازمین اور حکومت سے لڑنے کا موڈ نہیں رکھتی ہے۔ ایسے میں جب قوم دو حصوں میں تقسیم ہو تو اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔جب سکول ٹیچرز،مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کو نشانہ بنایا جائے تو ہمدردی رکھنے والوں کی ہمدردیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں لیکن ان کی اُلٹی سیدھی حرکتوں کی وجہ سے عوام میں ان سے بہت نفرت کی فضاء بن گئی۔ بلوچ سرماچاروں سے بھی بلوچ عوام کو بڑی ہمدردیاں تھیں لیکن ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
کسی ملک کی فوج اور عوام کے سامنے جب کسی کو دشمن نامزد کیا جائے تو پھر معاملہ بالکل مختلف بن جاتا ہے۔ بلوچ قوم پرست اورTTPنے جب پاک فوج کو اپنا دشمن قرار دے دیا تو پھر فوج نے بھی ان کے ساتھ دشمنوں والا سلوک روا رکھا اور جب دو دشمنوں میں لڑائی ہوتی ہے تو اکثر وبیشتر کمزور کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئی درست سیاسی قیادت نہیں ورنہ فوج کیساتھ کسی کی دشمنی تک بات پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آسکتی تھی۔ کراچی پورٹ سے لاہور اور پورے پنجاب تک ریلوے لائن اور قومی شاہراہ موجود تھی۔چین سے بھی لاہور اور پنجاب موٹروے کے ذریعے جڑا ہوا تھا۔ گودار کوئٹہ اور پشاور کے ذریعے بھی لاہور اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر کوئٹہ اورپشاور کے راستے گلگت سے گوادر تک موٹر وے افتتاح کیا، جو چین کیلئے بھی سب سے مختصر راستہ اور صراط مستقیم کی مانند سیدھا تھا۔ لاہور کیلئے بھی بھول بھلیوں کے مقابلہ میں یہی راستہ ہر لحاظ سے مختصر اور اچھا تھا لیکن نواز شریف نے گوادر سے آواران اور سکھر ، ملتان اور لاہور کی طرف موڑ دیا جو بالکل بھول بھلیاں ہیں۔ آواران میں ڈاکٹر اللہ نذر کی وجہ سے بلوچوں کے گاؤں بھی ایف سی والے پختونوں سے گرادئیے گئے۔ یہ وہ نوازشریف تھا جس نے لاہور کو نوازنے کیلئے گوادر سے کوئٹہ اور پشاور کو محروم کردیا اور چین کے سی پیک کو بھی نقصان پہنچایا۔ مغربی روٹ کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ راستہ بہت مختصر تھا ، پیٹرول کی بچت، وقت، ماحولیاتی آلودگی اور دھند سے بچت تھی ۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ کوئٹہ کو محروم کرکے لاہور کو نوازنے کی بات نہ آتی کیونکہ نوازشریف بلوچستان کی سوئی گیس سے پنجاب کو نوازنے کی بات کرکے بلوچوں کی ہمدردیاں لیتا تھا۔ تیسرا فائدہ یہ تھا کہ ایف سی اہلکاروں کو خونخوار بناکر بلوچوں کو مزید ناراض نہ کیا جاتا۔

پنجابی بھائیوں سے کچھ گزارشات! _
جب کراچی میں ایم کیوایم اور پختونوں کے جھگڑے چل رہے تھے تو علماء نے دونوں طرف کے نمائندوں کو بلایا تھا۔ پختون رہنماؤں نے علماء سے کہا تھا کہ جب ہمیں مارا جارہا تھا تو تم خاموش تھے اور اب جب ہم نے مارنا شروع کیا ہے تو تمہیں اسلامی بھائی چارہ یاد آگیا۔ ان دنوں لسانیت کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ مفتی منیر احمد اخون(سوشل میڈیا پرمفتی اعظم امریکہ) مولانا محمد یوسف رحیم یار خان اور مولانا عبدالرؤف کشمیری ہماری جماعت میں پڑھتے تھے۔ طلبہ جمعرات کو اپنی کلاس کی انجمن بناکر تقاریر سیکھنے کی مشق کرتے تھے۔ عبدالرؤف کشمیری نے انجمن کا نام مولانا انورشاہ کشمیری کے نام پر رکھوایا۔ میں نے اس کی مخالفت کی اسلئے کہ لسانیت کی فضا میں ایک کشمیری کا دوسرے کشمیری سے رشتہ تو صرف لسانیت کو ہوا دینے والی بات تھی، میں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے نام کی مہم چلائی۔ اساتذہ نے بزم قاسم نانوتوی رکھ دیا جو دونوں کے استاذ تھے۔ منیر احمد اخون کو جنرل سیکرٹری اور عبدالرؤف کشمیری کو بزم کا صدر بنادیا۔ میں نے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی اور ان کو سرکاری مسلم لیگ قرار دیکر مسترد کیا اور ہر کچھ عرصہ کے بعد کنوینر بدلتا رہا۔آخری وقت تک سرکاری مسلم لیگ درسگاہ میں نہ آسکی۔ جب کتابیں ختم ہونا شروع ہوئیں تو مفتی منیراحمد اخون وغیرہ نے طلبہ سے دس دس روپے لیکر مٹھایاں بانٹنا شروع کردیں۔ جس پر پختون طلبہ نے مولانا عبدالسلام ہزاروی وغیرہ کی سرکردگی میں اپنی ایکشن کمیٹی بنائی اور میرے علم میں لائے بغیر مجھے اس کا سربراہ بھی بنادیا۔ جب انجمن میں میرا نام پکارا گیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ اس سلسلے میں کچھ معلومات بھی نہیں تھی لیکن لسانی فضا سے متأثر ہونے پر بڑا دکھ ہوا۔ میں نے تقریر میں کہا کہ پاکستان میں صوبہ سرحد سے ہمارا تعلق ہے لیکن سرحد غیرملک اور اپنے ملک کی اس لکیرکو کہتے ہیں جو اپنی نہیں ہوتی ۔ صوبہ سرحد میں قبائلی پٹی کو علاقہ غیر کہتے ہیں۔ اس میں بھی اپنائیت نہیں ہے۔ قبائلی علاقہ میں وزیرستان سے ہمارا تعلق ہے اور وزیرستان میں وزیر اور محسود ہیں۔ وزیر ہمیں محسود سمجھتے ہیں۔ محسود ہمیں محسود نہیں برکی سمجھتے ہیں اور برکی ہمیں غیر برکی پیراور سید سمجھتے ہیں۔ میں تو اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر سب کیلئے غیر ہی غیر ہوں۔ پھر لسانی بنیاد پر اشتعال کو ختم کردیا اور منیر احمد اخون وغیرہ سے بھی کہہ دیا کہ ان کے جذبات کی ترجمانی کیلئے کسی کو ساتھ رکھتے۔اس نے کہا کہ مجھے بالکل یہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کے جذبات مجروح ہونگے اور آئندہ خیال رکھوں گا۔ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور اب عمران خان کو مسلط کیا ہے لیکن ملک کی دیگر قومیتوں کے علاوہ پنجابیوں کی جان، مال اور عزت کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ بدمعاش طبقہ کوٹ کچہری کے مسائل کیلئے سیاسی جماعتوں کی پناہ لیتے ہیں اور قبائلی علاقہ جات سے سیٹل ایریا کا حال ہرلحاظ سے بہت بدتر ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ جس طرح کوئی سیاسی پارٹی اپنے بدمعاش مافیا کے بغیر نہیں چل سکتی ہے ،اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نے بھی مذہبی تنظیموں اور دہشتگردوں کو حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے مجبوری میں پال رکھا تھا۔PTMکو جب اپنی قوم اور اس کے بڑے چھوڑ کر گئے تھے اور وہ حوصلہ ہار چکے تھے تو میں نے اسٹیج سے ”یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کے خوب نعرے لگوائے تھے۔اسلئے پھر منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں نےGHQکی کال پر وہاں حاضری دی تھی۔ میں نے کہاتھا کہ ریاست نے بھٹو، نوازشریف اور عمران خان جن لاڈلوں کو پالا ، یہ کورٹ میرج والی بیٹیاں ہیں جو اپنے والدین کی تذلیل کرتی ہیں۔ قبائل پر اتنی مشکلات گزری ہیں ، انہوں نے آج تک اُف بھی نہیں کی۔ قائداعظم ،لیاقت علی خان، محمد علی بوگرہ جو بھی حکمران تھے، قبائل نے پاکستان کو قبول کیا جو مغل اور انگریز کے سخت مخالف رہے ہیں۔

رعایا اور عورتوں کے اسلامی حقوق_
اسلام نے دنیا میں فتوحات اسلئے حاصل نہیں کی تھیں کہ مسلمان حکمرانوں نے دوسری دنیا کے مقابلے میں کوئی جدید سے جدید ٹیکنالوجی میں کمال پیدا کیا تھا بلکہ رعایا اور عورتوں کے مثالی حقوق نے دنیا میں اسلام کو پھیلنے کا موقع دیا تھا لیکن افسوس کہ طلاق اور خلع میں جس طرح عورت کا گلہ گھونٹ دیاگیا، اس کے مقابلے میں مغرب اور دیگر دنیا مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔ اسی طرح رعایا کو اسلام نے جو حقوق دئیے تھے تو اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی تھی ۔ قرآن کا کمال یہ تھا کہ مذہبی معاملے میں ایک خاتون نے نبیۖ سے مجادلہ کیا جس کا ترجمہ قائداعظم کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور ان کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن اور شاہ ولی اللہ اور انکے صاحبزادوں نے ”جھگڑا کرنے ” سے کیا ہے۔ جس میں رسول اللہ ۖ کی رائے کے برعکس وحی اس عورت کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی تھی۔ نبیۖ مذہب اور اقتدار میں مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ قابلِ قبول حیثیت رکھتے تھے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ النبی اَولیٰ بالمؤمنین من انفسھم ”نبی مؤمنوں کیلئے اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیت رکھتے ہیں”۔ اسلامی احکام میں فرض، واجب اور سنت کے علاوہ اَ ولی اور غیر اَولی بھی ہوتے ہیں جس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم ہے۔ تقدیم کی حیثیت اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کی اسلئے مؤمنوں سے منوائی تھی کہ جب ایک عورت نبیۖ سے مجادلہ کرتی ہے تو اگر وہ مناسب اور غلط ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی وحی اور قرآن کے ذریعے سے قیامت تک کے انسانوں کیلئے نمونہ کے طور پر انسانوں کی رہنمائی کیلئے بہترین مثال بناکر رکھ دیتے ہیں کیا کسی ملک اور قوم میں ایک عورت اور حکمران کے مقابلے میں اپنی رعایا کو یہ حق حاصل ہے کہ اس طرح ایک ادنیٰ درجے کی نامعلوم عورت کے حق میں اس طرح سے کوئی فیصلہ ہوجائے؟۔ اسلام کی یہ روح مردوں اور حکمرانوں میں ناپید ہوچکی ہے۔
غدیر خم کے موقع پر نبیۖ نے درجہ بالا آیت پڑھ کرعلی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھ کر اعلان فرمایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ”جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے”۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے باپ مفتی محمد شفیع کا بتایا تھا کہ ہمارے اساتذہ کے استاذ شیخ الہند کو مولوی کہا جاتا تھا لیکن جب مولانا اور بڑے بڑے القاب رکھنے والے میں علم نہیں ہے اور ان میں علم تھا۔ عربی میں ”نا ” جمع مذکر کی ضمیر ہے جس کا مطلب ”ہمارا” ہے۔ مولا کو مولانا کہنے کا مطلب ہمارا مولا ہے۔ حضرت علی وہ شخصیت تھے کہ جن کونبیۖ نے خود صحابہ کرام کیلئے اپنے دور میں ”مولا” کا خطاب ہی نہیں دیا بلکہ سب سے مقدم ہونے کی تلقین ہونے کی آیت کے حوالے سے اس کی تفسیر بھی بنادیا تھا۔
نبیۖ نے حدیث قرطاس میں چاہا کہ امت آپۖ کے بعد گمراہ نہ ہو جائے لیکن حضرت عمر نے کہہ دیا تھاکہ ”ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔

شیعہ سنی اختلاف اور اس کابڑا حل_
شیعہ اپنے وجود کو سنیوں کی احادیث کی کتب، قرآن کی تفاسیر اور تاریخ کی کتابوں کے حوالے سے نہ صرف زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ بہت سارے سنیوں کو بھی اپنے دل وجان اور عقل ودماغ سے اپنا ہمنوا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیعہ ماحول کو دیکھ کر نرم یا گرم رویہ اختیار کریں لیکن ان کو پورا پورا اعتماد ہے کہ حق پر وہی ہیں۔ سنی اگر مقابلے میں یزید سے لیکر مغل بادشاہ اورنگزیب تک بادشاہی نظام کی حمایت کریںگے تو ہار جائیںگے۔ احادیث، تفسیر اور تاریخ کی بات کا بھی سنیوں کو اُلٹا نقصان ہی ہوگا۔ سوشل میڈیا کو ڈنڈے کے زور پر روکنا ناممکن ہے اور اب یہ معرکہ زور وزبردستی نہیں بلکہ علم وفہم اور اچھی خصلت سے حل ہوگا۔
جب بریلوی دیوبندی اکابر کے مطابق حضرت عمر نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو ” مولا” قرار دئیے جانے پر آپ کو مبارکباد بھی دی تو شیعہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ حدیثِ قرطاس کی بنیاد پر حضرت عمر کی بھرپور مخالفت بھی کریں۔ پروفیسر حمیداللہ سنی اسلامی دنیا کے بہت بڑے اسکالر تھے جس نے ایک پوری کتاب لکھ کر ” حدیث قرطاس” کی صحت پر مقدور بھر جان چھڑانے کیلئے بہت سے سوالات بھی اٹھائے لیکن وہ اس میں بالکل ہی ناکام ہوگئے۔ جھوٹ اور وکالت کا غلط طریقہ اہل سنت کو مزید مشکلات میں پھنسادیتا ہے۔
بہت سارے معاملات میں حنفی مسلک کے اصولِ فقہ میں احادیث صحیحہ کی بھی مخالفت ہے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے اقدامات کی بھی مخالفت ہے۔ اے کہ نشناسی خفی را،از جلی ہشیار باش ، اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش۔اقبالکی شاعری بھی امت کے کام اسلئے نہیں آئی کہ شیعان علی اور شیعانِ عمرنے اپنا اپنا گروہ بنالیا۔ سپاہ صحابہ سے پہلے مولانا سید عبدالمجید ندیم نے سپاہ فاروق اعظم کی تشکیل کی تھی۔ شاہ بلیغ الدین اور ناصبی علماء شیعہ کے مقابلے میں سپورٹ کیا جانے لگا تھا۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی انجمن سپاہ صحابہ کا تعلق جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن سے تھا لیکن ان کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے آئی ایس آئی نے مولانا ایثارالحق قاسمی کو نوازشریف اور جھنگ سے بیگم عابدہ حسین شیعہ رہنما کے اتحاد سے جھنگ کی سیٹ سے جتوایا۔ وزیراعظم عمران خان کی ایک کلپ سوشل میڈیا پر ہے جس میں وہARYکے کاشف عباسی سے کہتا ہے کہ ”سپاہ صحابہ کے لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہماری شیعہ سے صلح کروادو۔ آئی ایس آئی نے ہمیں ان سے لڑواکر دشمنی کروائی ہے”۔
جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی ایس آئی نے بنائی تھی تو جھنگ سے شیعہ اور سپاہ صحابہ اتحاد کے بانی کون ہوئے؟۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام مولانا سمیع الحق گروپ پیش پیش تھے جس نے اہل تشیع اور سپاہ صحابہ کے درمیان ایک دوسرے کی تکفیر نہ کرنے کا معاہدہ کروایا تھا۔ معروضی حالات اس قدر گھمبیر تھے کہ جب ضربِ حق کے نمائندے امین اللہ کو قاضی حسین احمد سے کوئٹہ میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ملایا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے اپنے مضمون میں بہت تفصیل کیساتھ اپنا تجزیہ لکھاتھا کہ مولانا مسعو د اظہر کوا نڈیا کے تہاڑ جیل میں جو آزادی تھی تو وہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں بھی حاصل نہیں تھی۔ ہر ہفتہ ضرب مؤمن میں پاکستان کے حالات حاضرہ پر بڑا مضمون چھپتا تھا ۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بھارتی ایجنسی را اورISIکا کھیل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ امریکیCIAکا گیم ہے ۔مگر جب قاضی حسین احمد سے نمائندۂ ضرب حق نے سوال پوچھا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان ؟ ، تو وہ ناراض ہوگئے کہ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھا۔ یہ اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر کا حال تھا۔ شدت پسند شیعہ اور سنی طبقے کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے لیکن خلوص ، ایمان اور اللہ کی مدد سے یہ بہت آسان بھی ہے۔ اس کا علاج بندوق نہیں دلیل ہے۔

شیعہ سنی اتحاد کیلئے لاجواب دلائل؟ _
اگر یہ ثابت ہوجائے اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ حضرت علی کو اپنے بعد نبی ۖنے اپنا ولی بنالیاتھا اورحدیث قرطاس میں حضرت علی ہی کو نامزد کیا جانا تھا تو اگر حدیث قرطاس لکھ دی جاتی اور انصار ومہاجرین نبی ۖ کے وصال فرمانے کے بعد خلافت کے جھگڑے سے بچ جاتے۔ حضرت علی ایک متفقہ مولانا بن کر مسندِ خلافت پر بیٹھ جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ نبیۖ علم کے شہر اور حضرت علی اس کا دروازہ ہونے کیساتھ ساتھ اقتدار بھی حاصل کرتے۔ حضرت ابوبکرو عمرو عثمان سے انتظام حکومت بھی بہتر چلاتے۔ نبیۖ کو ایک شخص نے زکوٰة دینے سے انکار کیا تو نبیۖ نے اس کے خلاف قتال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے قتال کیا تو حضرت عمر کو شروع میں بھی اس پرتحفظات اور وفات ہونے سے پہلے بھی فرمایا کہ کاش ہم نبیۖ سے اس مسئلے میں رہنمائی حاصل کرتے۔ اہلسنت کے چاروں اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰة نہ دینے پر حکمران کا رعایا کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں لیکن نماز کیلئے بعض ائمہ نے قتل کا حکم نکال کر حضرت ابوبکر ہی کا حوالہ دیا ہے جس کا احناف نے یہ جواب دیا کہ اس سے تو آپ کو بھی اتفاق نہیں ہے تو پھر اس کی بنیاد پر بے نمازیوں کو قتل کرنے کا قیاس بھی غلط ہے۔
ا س بحث کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جب نبیۖ سے ایک عورت نے مذہبی مسئلے پر اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے عورت کی بات ہی کو اسلام کا حکم قرار دیا تھا۔ اگر بالفرض حضرت علی اور باقی گیارہ ائمہ اہلبیت نے کوئی حکم جاری کیا ہوتا اور وحی کا سلسلہ بھی بند تھا تو کسی امام سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تو اس کا درجہ کیا نبی ۖسے بھی بڑا تھا؟۔ اور اگر اختلاف کرنا جائز ہوتا تو پھر وحی کے ذریعے رہنمائی بھی نہیں تھی۔ پھر ایک ایسی مذہبی ڈکٹیٹر شپ کا خطرہ ہوتا جس کے ہاتھ میں اقتدار بھی ہوتا۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ اہل تشیع کا بارہواں امام غائب اپنے مخالفین سے نہیں حامیوں سے غائب ہوجاتا۔ آج بھی اہل تشیع کا عقیدہ اور مذہبی رویہ اسلام کے مطابق درست ہوجائے تو مہدی غائب ایران میں منظر عام پر آسکتے ہیں۔ اگر حضرت خضر حضرت موسیٰ کے دور سے زندہ ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی اپنے وقت سے زندہ ہیں تو امت محمدیہ میں یہ شخصیت بھی زندہ ہو تو اس میں عقیدے پر کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اگر مذہبی اور سیاسی کرسی الگ الگ نہ ہوتی تو عباسی دور میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام جعفر صادق بھی اپنے مسلکوں کے امام کیسے بن سکتے تھے؟۔ شیعہ مسلک بھی اپنے آگے پیچھے کے اماموں کو چھوڑ کر فقہ جعفریہ اسی لئے کہلاتا ہے۔ اہل سنت اورشیعہ کے امام حسن نے قربانی دیکر اپنے اقتدار کو امیرمعاویہ کے حوالے کردیا تو شیعہ کلمہ و آذان بھی انکے پہلے امام علی کی ولایت تک محدود ہوگئی ۔ حضرت حسین کی شہادت کے بعد باقی ائمہ اہل بیت نے کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کیا کہ اپنے آپکو یا اپنے شیعوں کو لوگوں کے جذبہ اشتعال سے مروادیا ہو تو آج کے شیعہ کیلئے بھی ایسا ماحول پیدا کرنا جائز نہیں کہ اپنے لوگوں کو مروانے کیلئے دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کریں۔ جب وہ اپنے اماموں کے خلاف ذرا سی بے توقیری اور توہین آمیزی کو برداشت کرنا گوارا نہیں کرسکتے ہیں تو دوسروں سے بھی یہ توقع رکھنا چھوڑ دیں کہ وہ کسی صحابی کی توہین کو برداشت کرلیںگے۔ جب شیعہ یزید سے حضرت ابوبکر وعمر تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کی شان میں بھی گستاخی کرنا ٹھیک سمجھنے لگتے ہیں تو اس کے مقابلے میں سنیوں کا شدت پسند طبقہ بھی ان کو ٹھکانے لگانا اپنا فرض اور دینی غیرت سمجھتے ہیں۔ سعودیہ ، ایران اور افغانستان میں مذہبی جذبہ اور اقتدار اکٹھے ہوگئے تو اسلام نے نہیں فرقہ واریت نے زور پکڑ لیاہے۔

شیعہ کو برداشت کرنے کا منطقی نتیجہ_
جب اہل تشیع حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے اختلاف کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں توانصار کے سردار حضرات سعد بن عبادہنے حضرت خلفائ کے پیچھے کبھی نماز بھی نہیں پڑھی۔ جس طرح انصار ومہاجرین ، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابوبکر وعمر نے خلافت کو اپنا حق سمجھ لیا اور یہ کوئی کفر واسلام کا مسئلہ نہیں تھا تو حضرت علی اور اہل بیت کا اپنے آپ کو خلفاء راشدین، بنوامیہ اور بنوعباس سے خود کو خلافت کا زیادہ حقدار سمجھنے کا بھی بدرجہ اَولی جواز تھا۔ عربی میں اُولیٰ اور اَولیٰ میں فرق ہے۔ اول کی مؤنث اُولی ہے جبکہ اَولی اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم کے معنیٰ میں نکلتا ہے۔ اگر کوئی اسکے معنی سے یہ منطقی نتیجہ نکالتا ہے کہ سورۂ مجادلہ میں عورت کا مجادلہ غلط تھا تو وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھ سکا ہے۔ حضرت علی اور اہل بیت نے خلافت کے مسئلے میں مقدم اور غیرمقدم ہونے کے اعتبار سے ضرور اختلاف کیا تھا لیکن اس کو کفر ونفاق کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔ ورنہ حضرت عمر سے حضرت علی یہ نہیں کہتے کہ آپ جنگ میں خود تشریف نہ لے جائیں اسلئے کہ اگر اس جماعت کو شکست ہوگئی تو آپ مزید کمک بھیج سکیں گے اور اگر آپ خود شریک ہوئے اور شکست ہوگئی تو مشکل پڑے گی۔
اگر شیعہ نہ ہوتے تو اہل سنت کے ائمہ بھی حکمران کیلئے زکوٰة کیلئے قتال کو جائز سمجھتے اور آج سنیوں کا بھی مدرسہ زکوٰة پر نہ چلتا اسلئے کہ اہل اقتدار اس پر اپنا قبضہ کرکے ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ حضرت عمر کے کئی معاملات سے حنفی مسلک والے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ ایک آغا خانی شیعہ کو سنی اور شیعہ نے مل کر پاکستان کا بانی بنایا ہے۔ اگر کوئی شیعہ یا سنی مذہب پرست پاکستان کا بانی ہوتا تو آج ہمارے حالات اس سے بھی بدتر ہوتے۔
رسول اللہۖ نے حدیث قرطاس سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ہمارے لئے مسئلہ آسان بنادیا۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر بھی کوئی زیادہ مسئلے مسائل کھڑے نہیں ہوئے اور حضرت عمر کی نامزدگی بھی قبول کی گئی اور حضرت عثمان کی نامزدگی بھی قبول کی گئی لیکن ان سے اختلاف رکھنا کوئی خلافِ شرع بات نہیں تھی۔ یہی وہ رویہ تھا کہ قرآنی آیت کے مطابق اولی الامر سے اختلاف کرنے کی زبردست گنجائش کی امت میں صلاحیت پیدا ہوگئی تھی اور اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے حضرت حسین کے ذریعے نمایاں کرکے قیامت تک یزیدیت اور حسینیت کے درمیان ایک بہت واضح فصیل کھڑی کردی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت” میں قرآنی آیت اور احادیث صحیحہ کے ایسے بخئے ادھیڑ دئیے ہیں کہ فرشتے بھی الحفیظ والامان کی صدا آسمانوں سے بلند کرتے ہونگے۔ جب پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے اکثر علماء ومفتیان اور مدارس نے شیعہ کو متفقہ طور پر کافر قرار دیا تو مفتی تقی عثمانی نے سرکاری مرغے کی حیثیت سے اس پر دستخط نہیں کئے۔ جب اس نے اپنے اور اپنے بھائی کیلئے دارالعلوم کراچی میں ذاتی مکانات خریدے تو مفتی رشید احمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ” وقف مال خریدنے اور فروخت کرنے کی شرع میں اجازت نہیں ہے اور یہ بھی شریعت میں جائز نہیں کہ ایک ہی آدمی بیچنے وخریدنے والا ہو”۔ اس پر اپنے استاذ کی تاریخی پٹائی لگائی تھی۔ یہ شکرہے کہ خلافت پر کسی سید کا قبضہ نہیں تھا ورنہ وقف مال کی طرح بہت سارے معاملات پر پتہ نہیں ہے کہ سادات بھی کہاں سے کہاں تک پہنچتے، جیسے آغا خانی سادات پہنچے ہیں۔
اگر سنی اپنے خلفاء اور ائمہ سے اختلاف کرسکتے ہیں تو اس میں شیعہ لوگوں کو برداشت کرنے کا بڑا عمل دخل ہے۔ اب اگر فقہی مسائل میں سنیوں کی غلطی بھی ثابت ہوجائے تو مسئلہ نہیں لیکن شیعہ کی غلطی ثابت ہوگئی تو وہ مٹ جائیں گے۔

داعش اور کالعدم سپاہ صحابہ کیلئے راہ!_
داعش دنیا میں خلافت کا نفاذ اور لشکر جھنگوی والے اہل تشیع کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مقاصد میں تشدد کے ذریعے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ خلافت کا نفاذ اور اہل تشیع کو راہِ راست پر لانا تشدد نہیں دلائل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ طالبان، ایران اور پاکستان داعش اور لشکر جھنگوی کو ختم کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔ شدت پسندانہ نظریات کسی کے پیدا کرنے سے نہیں بلکہ یہ فرقہ وارانہ مزاج کے لوگوں میں اس کی آبیاری کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔
امریکیCIAنے9/11کا واقعہ اسلئے ہونے دیا کہ جس عراق کو1990ء میں بمباری سے مسخر نہیں کیا جاسکا تھا وہ افغانستان میں طالبان کے بعد یہاں تک پہنچادیا گیا کہ عراق کے سنی کردجج نے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا تھا۔ پھر لیبیا میں قذافی کو بھی اپنوں کے ہاتھ شکست دیکر انجام تک پہنچایا امریکہ نے تیل کے ذخائز پر قبضہ کرکے پاکستان کے حکمرانوں کا ضمیر بھی ختم کیا تھا۔ پرویزمشرف کے ریفرنڈم کیلئے عمران خان بندر کی طرح اپنی دُم اٹھاکر جس امپائر کے ڈنڈے پر ناچتاتھا ،اس وقت تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان ریفرینڈم کی مخالفت کررہاتھا۔ ایسا لیڈر خاک کوئی جماعت یا ادارے بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہماری عوام اور ادارے بھی بہت سیدھے ہیں۔
داعش اور لشکر جھنگوی کے کارکن اور رہنما اپنی جانیں ضائع کرنے اور ملک و قوم کی تباہی کا ذریعہ بننے کے بجائے تشدد کے روئیے سے کھل کر دستبرداری ہی کا اعلان کریں۔ اہل تشیع کے شدت پسند طبقات بھی اپنے دلائل شائستہ طریقے سے پیش کریں تاکہ اس خطے میں ہماری ریاست اور حکومت کو اپنی طرف سے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ طالبان کو اقتدار مل گیا ہے لیکن وہ اپنی اس فتح پر بھی پریشان ہیں۔ ملک وقوم کو چلانے کیلئے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔
ہمارے پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر طبقے نے ابھی تک دنیا اور اپنی عوام کے سامنے یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے امریکہ اور نیٹو کا ساتھ دیکر قربانیاں دی ہیں یا پھر امریکہ کوبڑی شکست دلوائی ہے؟۔ یہ کنفیوژن طالبان رہنماؤں سے لیکر ہمارے مولانا فضل الرحمن تک سب میں پائی جاتی ہے ۔ امریکی فوج کا بہت کم نقصان ہوا اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑاہے۔کابل کی فتح پر ایگریمنٹ کے مطابق امریکہ اور طالبان نے عمل کیا تھا لیکن پنجشیر کو بہانہ بنایا جارہاہے۔ سارے افغانستان میں نیٹو کے ہوتے ہوئے طالبان کو فتح مل گئی تو پنجشیر کا فتح کرنا بھی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
عمران خان نے فوج کی مخالفت کرنے کے بعد امپائر کی انگلی اٹھنے کا ذکر کیا اور پھر اس پر چڑھ گیا۔ نوازشریف اور پیپلزپارٹی بھی اسی امپائر کی انگلی ہی کے خمیر سے وجود میں آئے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے میثاق مدینہ کا معاہدہ یہود اور نصاریٰ سے کیا تھا اور مشرکینِ مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا لیکن جس لشکر کی طرف سے قریشِ مکہ کے مشرکین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ بھی تعریف کے قابل تھا۔ پھر جب مشرکینِ مکہ نے ان کے شر سے بچنے کیلئے نبیۖ سے گزارش کی کہ اپنے ان مسلمانوں کو اپنے پاس بلوائیں تو نبیۖ نے ان کو بلالیا تھا۔ میثاق مدینہ داخلی اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ امورخارجہ کے حوالے سے تھا۔
داعش اور لشکر جھنگوی سمیت تمام شدت پسند طبقات کو چاہیے کہ قرآن اور سنت کے مطابق عالمی اسلامی خلافت کیلئے امور کی نشاندہی کریں کہ جن سے حکمرانوں کی طرف سے اپنی رعایا عوام اور خواتین کو بھرپور انصاف اور حقوق مل جائیں۔ پھر دنیا کی تمام اسلام اور مسلمان دشمن قوتیں گرم جوش دوست کی طرح حمایتی بن جائیں گی۔ اسلام نے بہت کم جانی نقصان پر انقلاب برپا کیا تھا۔

نکاح ومتعہ اور اسلام کاروح رواں_
جب ہماری صحیح بخاری میں ایک طرف یہ حدیث ہو کہ ” فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا گیا تھا”۔ اور دوسری طرف یہ حدیث ہو کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”ایک دو چادر یا معمولی چیز کے بدلے بھی متعہ کرسکتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ان چیزوں کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو ، جس کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔ تو دونوں روایات میں زیادہ جان کس میں ہے؟۔ جبکہ پہلی روایت حضرت علی کا قول اور دوسری روایت نبیۖ کی طرف منسوب ہے اور اس میں پھر قرآن کی آیت کا بھی نبیۖ نے حوالہ دے دیا ہے۔ پہلی روایت ہے کہ فتح خیبر تک نبیۖ اور صحابہ العیاذ باللہ گدھے کھایا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن میں گدھے، گھوڑے اور خچر کو سواری اور زینت کیلئے بنانے کی وضاحت ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب پہلے بھی ہماری ہی طرح ان کو کھانے کی چیزنہیں سمجھتے تھے بلکہ سواری کے کام میں لاتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کو جائز قرار دے دیا۔ تو کیا فتح خیبر کے موقع پر حرام قرار دینے کے بعد اس کی اجازت دی جاسکتی تھی ؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبیۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دور تک ہم عورتوں سے متعہ کرتے تھے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں قرآنی آیت میں وقتی نکاح یعنی متعہ کی اجازت کا اضافہ بھی تھا جو احناف کے نزدیک قرآنی آیت کے حکم میں ہے۔ شیعہ سنی علماء اگر ڈاکٹر فضا کی موجودگی میں بول نیوز کے پروگرام میں ان باتوں کی وضاحت کردیتے تو عوام میں بہت زیادہ شعور پیدا ہوتا۔ قرآنی آیات میں نکاح کیساتھ ایگریمنٹ کا بھی ذکر ہے اور ان آیات کی درست تشریح سے شیعہ سنی میں ایک انقلاب آسکتا ہے۔
آدم کے جسم میں روح کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی۔ سورۂ اسراء میں فرمایاکہ ” آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ روح اللہ کے امور میں سے ہے اور اس کا علم تمہیں نہیں دیا گیا مگر بہت کم ”۔ روح اللہ کے عام امور میں سے ایک قدرتی امر ہے، انڈے کو مطلوبہ گرمائش جب فراہم ہو جائے تو چوزہ بننا شروع ہوجاتا ہے، اسی طرح گندم کا بیج جب مٹی میں رکھ کر اس کو پانی دیا جائے تو اس میں روح آجاتی ہے۔ فارمی جانور، پرندے اور پھل پودوں میں جو انقلاب آیا ہے یہ اللہ کی تخلیق کی ادنیٰ جھلک ہے۔ حضرت عیسیٰ و حضرت آدم کی پیدائش میں قدرت کے عام قاعدے سے ہٹ کر اللہ نے روح پھونک دی اسلئے ان کی نسبت اپنی طرف کردی ہے۔ انسان کائنات کا روح رواں ہے اور روز کی نت نئی ترقی سے اس کا مزید ثبوت مل رہاہے۔
اسلامی احکام کی اصل صورتحال سامنے آجائے تو شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور حنفی اور اہل حدیث اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کو بھول کر اسلام کی طرف ہی متوجہ ہوںگے۔ اسلام کا اصل روح رواں قرآن ہے اور قرآنی احکام کو مسلمان چھوڑ کر فرقہ واریت کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔
قرآن و سنت میں نکاح و طلاق ، حق مہر ، رجوع، خلع اور ایگریمنٹ کے جن تصورات کا ذکر ہے اگر آیات سے موٹے موٹے احکام نکال کر دنیا کو دکھائے جائیں تو پوری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام کو قبول کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گی۔ اہل سنت اپنے ائمہ کی اجتہادی غلطیوں کو درست کردیں گے اور اہل تشیع اپنے ائمہ معصومین کی طرف منسوب قرآن و سنت کے واضح احکام کے خلاف اپنا غلط مسلک دیکھ کر دم بخود رہ جائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ مذہبی طبقات نے اب اسلام کو اپنی تجارت اور تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ اللہ ہدایت دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں